ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (3) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (3)

 غزوۂ بنومصطلق

شعبان ۵ھ (۶۲۷ء): بنو خزاعہ کے حارث بن ضرار نے مسلمانوں سے جنگ کے لیے ایک لشکر جمع کر لیا تو آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ فتح کے بعد سات سو قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے ۔ان میں حارث کی بیٹی برہ بھی تھیں جو انتہائی پرکشش تھیں۔برہ حضرت ثابت بن قیس کے حصہ میں آئیں، لیکن ان سے بدل کتابت دے کرآزادی حاصل کرنے کا معاہدہ کر لیا۔رقم ادا کرنے کے سلسلے میں وہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جونہی میں نے انھیں اپنے حجرے کے دروازے پر دیکھا مجھے ناگوار گزرا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ ان کا حسن و جمال آپ بھی دیکھیں گے۔برہ نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے کہا: میں زر کتابت ادا کرنے کے لیے آپ کی مددچاہتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: میں اس سے بہتر حل تجویز کرتا ہوں۔مال کتابت اپنی طرف سے ادا کر کے آپ کو آزاد کراتاہوں اور اپنے عقدمیں لے لیتا ہوں۔ وہ مان کر آپ کی زوجیت میں آئیں تو آپ نے ان کانام بدل کر جویریہ کر دیا ۔

افک عائشہ

۶ھ میں افک عائشہ کا واقعہ پیش آیا،جب حضرت عائشہ بارہ برس کی تھیں۔ غزوۂ بنو مصطلق (دوسرا نام: غزوۂ مریسیع) کے لیے روانہ ہونے سے پہلے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات میں سے ایک کو ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالا تو سیدہ عائشہ کا نام نکلا۔ چنانچہ وہ اس سفر میں آپ کے ہم رکاب ہوئیں۔ واپسی پررات ہوگئی تو آپ نے مدینہ کے ایک قریبی مقام پر رات بسر کرنے کا حکم دیا۔ علی الصبح کوچ کا اعلان ہوا تو حضرت عائشہ رفع حاجت کے لیے باہر نکلی ہوئی تھیں۔وہ اپنی سواری کے پاس پہنچ گئی تھیں،لیکن گلے میں اپنی بہن سے مستعار لیا ہوا عقیق کا ظفاری (ظفار: یمن کا ایک شہر) ہار نہ پایا تو پلٹیں۔ ہار ڈھونڈنے میں انھیں دیر لگ گئی،واپس آئیں تو قافلہ چل پڑا تھا۔ اہل قافلہ نے یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ موجود ہیں،ان کے خالی کجاوے کو اونٹ پر رکھ لیا تھا۔حضرت عائشہ اس امید میں چادر اوڑھ کر اسی جگہ پڑ گئیں کہ قافلے والے انھیں موجودنہ پا کر واپس آئیں گے۔ اسی اثنا میں حضرت صفوان بن معطل آ گئے جو کسی وجہ سے قافلے سے پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ اونٹ سے اترے ،سیدہ عائشہ کو اوپر بٹھایا اور اونٹ کی مہارتھامے مدینہ کی طرف چل پڑے۔ دوپہر تک دونوں لشکر سے جا ملے جو مدینہ پہنچ چکا تھا۔ انھیں آتا دیکھ کر ایک ارتعاش کی کیفیت پیدا ہو گئی ، منافقین نے باتیں بنانا شروع کر دیں۔حضرت عائشہ کوان کی بہتان طرازی کا علم نہ ہوا، گھر پہنچنے پر وہ شدید بیمار ہو گئیں۔کچھ سادہ لوح مسلمان بھی رئیس المنافقین عبدﷲ بن ابی کی مخالفانہ مہم کا شکار ہو گئے۔ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے بیماری کی وجہ سے حضرت عائشہ سے کچھ نہ کہا ، آپ گھر جاتے تو حضرت عائشہ کو سلام کر کے حال پوچھتے اور اپنے کام میں مصروف ہوجاتے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت ام رومان نے بھی اپنی بیٹی سے اس موضوع پر کوئی بات نہ کی۔ایک رات حضرت عائشہ حضرت ام مسطح بنت ابورہم کے ساتھ مدینہ سے باہر رفع حاجت کے لیے مخصوص مقام مناصع کی طرف نکلیں ۔واپسی پرحضرت ام مسطح چادرمیں الجھ کر گر پڑیں تو بولیں: غارت ہو مسطح۔ حضرت عائشہ حیران ہوئیں کہ یہ ایک بدری صحابی کو کیوں کوس رہی ہیں جو حضرت ابوبکر کے خالہ زاد بھی ہیں۔ حضرت ام مسطح نے پوچھا: آپ کو نہیں معلوم کہ حضرت مسطح بن اثاثہ ان کے خلاف چلائی گئی مہم میں منافقین کا ساتھ دے رہے ہیں۔اس رات حضرت عائشہ خوب روئیں اوران کے مرض میں شدت آ گئی۔ دوسری روایت کے مطابق گھر میں آنے والی ایک انصاریہ نے طوفان افک کی خبر دی تو حضرت عائشہ بے ہوش ہو گئیں اور انھیں لرزے کے ساتھ بخار نے آن لیا۔ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو پوچھا: عائشہ کو کیا ہوا؟ انھیں کپکپی سے چڑھنے والے بخار کا بتایا گیا تو فرمایا: شاید اسے اپنے خلاف چلنے والی مہم کی خبر دی گئی ہے (بخاری، رقم ۴۱۴۳)۔ اس موقع پر حضرت عائشہ آپ سے اجازت لے کروالدین کے گھر آ گئیں تاکہ ان کی زبانی صورت حال جان سکیں۔ ڈیڑھ ماہ وہ وہیں مقیم رہیں۔ ابن ہشام،طبری اور ابن اثیر کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق حضرت عائشہ حضرت ام مسطح سے ملاقات سے پہلے ہی اپنے والدین کے گھر آچکی تھیں۔

حضرت عائشہ نے اپنی والدہ سے شکوہ کیا کہ لوگ اتنی باتیں بناتے رہے اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔ انھوں نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ بیٹی، ایک حسین و جمیل خاتون کسی کے عقد میں ہو اور اس کی سوتنیں بھی ہوں تو اس پر الزام لگا کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے جواب دیا: یہ تہمت سوتوں نے نہیں لگائی۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش نے حضرت عائشہ کے حق میں خیر ہی کہا، تاہم ان کی بہن حضرت حمنہ بنت جحش نے حضرت عائشہ پر لگی تہمت کا چرچا کیا۔ ہنگامۂ افک کے دوران میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تونبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ بن زید اورحضرت علی کو بلایا اورحضرت عائشہ کے بار ے میں ان کی راے دریافت فرمائی۔حضرت اسامہ نے کہا: وہ آپ کی اہلیہ ہیں ، ہم ان کے بارے میں خیر ہی جانتے ہیں۔ حضرت علی نے کہا: یا رسول ﷲ ، عورتیں بے شمار ہیں (جن سے نکاح کیا جا سکتا ہے) تاہم عائشہ کی باندی بریرہ سے پوچھ لیں،وہ آپ کوصحیح بتا ئے گی۔ آپ کے بلانے پر آئی تو حضرت علی نے اسے ایک زور دارچپت لگاکر کہا: سچ سچ کہنا۔حضرت بریرہ نے کہا: میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے سچ ہی بولوں گی۔ ﷲ کی قسم! میں عائشہ کے بارے میں اچھا ہی جانتی ہوں۔ مجھے ان کا ایک ہی عیب معلوم ہے،وہ نو عمر ہیں،میں آٹا گوندھ کر انھیں کہتی کہ اس کا دھیان رکھیں، وہ بھول کر سو جاتیں اور گھرکی پالتو بکری آ کر اسے کھا جاتی۔ تب رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور اعلان فرمایا: میں اپنی اہلیہ کے بارے میں بھلا ہی جانتا ہوں ۔ان کے خلاف زبان درازی کرنے والوں سے کون نمٹے گا؟اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ نے کہا: اگر وہ میرے قبیلے کا ہوا تومیں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر خزرج کا ہوا تو بھی ہم اسے انجام تک پہنچائیں گے۔اس موقع پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کی قبائلی عصبیت بیدار ہوئی، انھوں نے بھڑک کر کہا: تم اسے ہاتھ بھی نہ لگا سکوگے ۔قبل اس کے کہ دونوں قبائل باہم جنگ و جدال کرنے لگتے ، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کوپرسکون کیا۔

ایک ماہ تک منافقین کی زبانیں دراز رہیں،حضرت عائشہ کا گریہ ختم نہ ہوتا تھا،ان کی نیند اڑ چکی تھی۔رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ان سے ملنے آئے تو فرمایا: عائشہ، اگر تم بے قصور ہوتو اﷲ تمھاری براء ت نازل کردے گااور اگرتم سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوا ہے تو توبہ و استغفار کرو،ﷲ اعتراف کرنے والوں کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ آپ کا ارشاد سن کر انھیں کچھ قرار آیاتو اپنے والدین سے کہا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو جواب دیں۔ انھوں نے بے بس ہو کر کہا: ہماری سمجھ میں نہیں آتا ، کیا جواب دیں؟حضرت عائشہ پھر رونے لگ گئیں اورکچھ وقفے کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام کے اس فرمان کو یاد کر کے خاموش ہوئیں جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے: ’فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ‘، ’’پس خوبی سے صبر کرنا ہو گا اور ﷲ ہی ہے جس پر تم لوگوں کے بیان کردہ جھوٹ کے خلاف آسرا کیا جا سکتا ہے‘‘ (یوسف۱۲: ۱۸)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اسی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے سیدہ عائشہ کی براء ت میں وحی نازل ہوئی۔ آپ کو وحی کی شدت سے افاقہ ہوا ،سخت سرد دن میں پیشانی مبارک پر پسینہ موتیوں کی طرح چمک رہا تھا۔ آپ مسکرائے اور فرمایا: عائشہ، ﷲ کاشکرادا کرو کہ اس نے تمھیں بری قرار دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ام رومان نے ان سے کہا: کھڑے ہو کر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی تعظیم بجا لاؤ۔ حضرت عائشہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیااور کہا: میں ﷲ کی حمد کرتی ہوں جس نے مجھے پاک دامن قرار دیا (بخاری ، رقم ۴۱۴۱، ۴۷۵۷)۔ مجھے امید نہ تھی کہ میری براء ت میں وحی نازل ہو گی۔میرا خیال تھا کہ خواب میں آپ پرحقیقت واضح کر دی جائے گی۔ ﷲ کی طرف سے حضرت عائشہ کی پاک دامنی کی گواہی آئی تو وہ اپنے گھر لوٹ آئیں۔

منافقین کی غرض و غایت یہ تھی کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے درمیان اختلاف پیدا کیا جائے۔ عام مسلمانوں کے دلوں میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کے بارے میں بدگمانی پیدا کی جائے اور انصار و مہاجرین میں نزاع پیدا کر کے اہل مدینہ کو اسلام سے دورکیا جائے۔ اصل مقصد آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم اور اسلام کو نقصان پہنچانا تھا، ورنہ حضرت عائشہ کی بے گناہی اظہر من الشمس تھی۔ جن لوگوں نے حضرت عائشہ کے خلاف بہتان طرازی میں حصہ لیا ،ان سب پر اسی درے حد قذف جاری کی ، حضرت مسطح بن اثاثہ، حضرت حسان بن ثابت اور حضرت حمنہ بنت جحش ان میں شامل تھے۔ حضرت عائشہ نے ان اصحاب کی یہ لغزش معاف کردی ،بینائی چلے جانے کے بعدحضرت حسان حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ بہت عزت و اکرام سے پیش آئیں۔ ایک بار عروہ نے حضرت عائشہ کی موجودگی میں حضرت حسان کو گالی دی تو انھوں نے کہا کہ انھیں گالی مت دو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا کرتے تھے (بخاری، رقم ۳۵۳۱)۔ حضرت حسان بن ثابت حضرت عائشہ کے پاس بیٹھے اپنے اشعار سنا رہے تھے کہ ان کے شاگرد مسروق نے کہا: آپ نے حسان کو اندر کیوں آنے دیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْھُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘، ’’ان میں سے جو فتنۂ افک کا سرخیل ہوا ہے، اسے ایک بڑا عذاب ہو گا‘‘ (النور ۲۴: ۱۱)۔ حضرت عائشہ نے فرمایا: اندھے پن سے بڑا عذاب کیا ہو گا؟ (بخاری، رقم ۴۱۴۶)۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ علما اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت عائشہ کی براء ت نازل ہونے کے بعد بھی ان کی عیب جوئی کرنے والا کافر ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ باقی ازواج مطہرات کے بارے میں یہی اصول ہو گا۔

غزوۂ خیبر

۷ھ: فتح خیبر کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ اور دیگر ازواج کو اسی وسق (دوسو وسق:ابن ہشام، ایک وسق: ساٹھ صاع ، ایک صاع: ۴.۲کلو) کھجوریں اور بیس و سق جو (یاگندم) عطا کیں۔اپنے عہد حکومت میں حضرت عمر نے (یہودیوں کو جلا وطن کرنے کے بعد) خیبر کی سرزمین بانٹی تو ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اراضی اور کنویں لے لیں یا پہلے کی طرح غلہ حاصل کرتی رہیں۔ کچھ ازواج نے وسق لینے پسند کیے، جب کہ حضرت عائشہ نے اراضی لی (بخاری ، رقم ۲۳۲۸)۔ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم جنگ خیبر(یا غزوۂ تبوک)سے واپس تشریف لائے تو آپ کی نظر حجرۂ سیدہ عائشہ کے کونے پر پڑی جس کا پردہ ہوا سے اڑ گیا تھا۔وہاں کئی گڑیاں پڑی تھیں۔حضرت عائشہ نے بتایا: یہ میری بیٹیاں ہیں۔آپ نے ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کو پر لگے ہوئے تھے۔ فرمایا: گھوڑے کو پر؟ حضرت عائشہ بولیں: آپ نے سنا نہیں ، حضرت سلیمان کے گھوڑے کے پر تھے۔آپ خوب مسکرائے، حتیٰ کہ دندان مبارک نمایاں ہو گئے (ابوداؤد ، رقم ۴۹۳۱)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: عید کا روز تھا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کمرے میں تشریف لائے تو میرے پاس دو لڑکیاں وہ ترانے سنا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث میں گائے تھے ۔آپ رخ مبارک دوسری طرف کر کے بستر پرلیٹ گئے۔ اسی اثنا میں میرے والدابوبکر آئے اور مجھے ڈانٹا،نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے شیطان کا باجا بج رہا ہے۔ آپ نے ان کو منع کیا اور فرمایا: ابوبکر ہر قوم کا ایک خوشی کا دن ہوتا ہے اور یہ ہماری عید ہے۔ ابوبکر کی توجہ دوسری طرف ہوئی تو میں نے لڑکیوں کو جانے کا اشارہ کر دیا (بخاری ، رقم ۹۴۹، ۹۵۲)۔ اس روایت سے قبل حبشی قبیلے بنوارفدہ کے کرتب دکھانے کا واقعہ بیان ہوا۔ابن حجر نے اس کا سن وقوع ۷ھ متعین کیا، لیکن اس سے ملتے جلتے اس واقعے کے زمانے کے با رے میں کچھ نہیں بتایا۔

حضرت عائشہ اور تیمم کا حکم

۷ھ:حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم ایک سفر (غزوۂ ذاتالرقاع)میںرسولاﷲصلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب ہم بیدا یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کرگر گیا(جو میں اپنی بہن اسماء سے مانگ کر لائی تھی)۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ہار ڈھونڈنے کے لیے رک گئے اور صحابہ نے بھی سفرروک دیا۔ وہاں پانی کا کوئی چشمہ یا کنواں نہ تھا۔لوگ حضرت ابوبکر کے پاس شکایت لائے کہ دیکھیں ،عائشہ نے کیاکیا؟ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور لوگوں کو ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں پانی تک نہیں۔حضرت ابوبکر حضرت عائشہ کے پاس آئے تو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ان کی ران پر سر رکھے سورہے تھے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو خوب ملامت کی اور ان کے پہلو میں کچوکے لگائے۔ آپ کا سر ٹکا ہونے کی وجہ سے وہ ہل بھی نہ سکیں۔ اسی حالت میں کہ پانی میسر نہ تھا،صبح ہو گئی۔ تب ﷲ نے آیت تیمم نازل کی۔حضرت اسید بن حضیر (جنھیں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا تھا) بولے: آل ابوبکر، یہ تمھاری پہلی برکت نہیں، جب حضرت عائشہ کی سواری والے اونٹ کو اٹھایا گیا تو ہار اس کے نیچے سے برآمد ہوا (بخاری، رقم ۳۳۴)۔ روایت میں بیدااور ذات الجیش کی آبادیوں کے نام آئے جہاں پانی ہونا لازمی تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پڑاؤ کے قریب ترین مقامات تھے، قافلے کا عین آبادی میں اترنا لازم نہیں ۔ ابن سعد اور ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی غزوۂ بنو مصطلق میں پیش آیا۔ایک ہی غزوہ میں ہار کے دو دفعہ گم ہونے کوذہن قبول نہیں کرتا، اس لیے ابن جوزی اور ابن قیم کی تحقیق درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ الگ واقعہ ہے جو افک کے دو برس بعد غزوۂ ذات الرقاع میں پیش آیا۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین ﷲ وثیر)، Wikipedia, the free encyclopedia۔

[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : May 14, 2019
2933 View