ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (2) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (2)

 رخصتی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر

حضرت عائشہ خود فرماتی ہیں: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے ان کا نکاح ہوا تو وہ چھ برس کی تھیں ، جب رخصتی ہوئی تو نو برس کی تھیں۔ میں آپ کے پاس نو سال رہی‘‘ (بخاری، رقم ۵۱۳۳)۔ یہ روایت مستند ہے اور تمام اہل علم اسے مانتے آئے ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں کے دوران میں مستشرقین اور مغرب کے صحافتی حلقوں کی جانب سے اسلام اور ازواج النبی پر مختلف اعتراضات و الزامات کا سلسلہ شروع ہوا تو علما اور غیر ذی علم اہل ایمان نے ان کا رد کرنے کی کوشش کی۔اس عمل میں بخاری کی اس روایت پر شک کے سائے پڑنے لگے۔مدافعین کہتے ہیں کہ مذکورہ روایت کی وجہ سے ہمارے نبی محترم کی ذات نشانہ بنی ہے، اس لیے اسے ترک کرنا لازم ہے۔اس موضوع پر رزاق الخیری نے ’مسلمانوں کی مائیں‘ اور حکیم نیاز احمد نے ’عمر عائشہ‘ (کشف الغمۃ عن عمر أم الأمۃ) تالیف کیں۔مصر کے صحافی، ادیب اور شاعر عباس محمود العقاد (الصدیقۃ بنت الصدیق) نے بوقت رخصتی حضرت عائشہ کی عمر پندرہ برس بتائی، جب کہ حبیب الرحمان کاندھلوی (تحقیق عمر عائشہ) اور بریگیڈیر حامد سعید (میزان عمر عائشہ) نے انیس سال کا اندازہ لگایا۔ حدیث بخاری کے مخالفین کے دلائل یہ ہیں:
کم سن بچی سے نکاح مشاہدہ اور فطرت انسانی کے خلاف ہے ۔اگر ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو معاندین اسلام ایک طوفان کھڑا کر دیتے۔
جو روایت عقل صریح کے خلاف ہو، باطل ہوتی ہے۔
اگر یہ روایت درست ہوتی تو کوئی تو صاحب عزیمت سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی نو سالہ بچی کو رخصت کرتا۔
کچھ راوی اسے حضرت عائشہ کا اور کچھ عروہ کا قول قرار دیتے ہیں۔اس اختلاف نسبت کی بنا پر یہ حدیث موقوف ٹھیرتی ہے۔ 
عروہ بن زبیر سے ان کے بیٹے ہشام نے یہ حدیث روایت کی۔۱۳۱ھ تک وہ مدینہ میں رہے اور یہ روایت بیان نہ کی۔پھر وہ بغداد منتقل ہوئے اور ۱۴۶ھ میں یہیں انتقال کیا۔تب ان کا حافظہ خراب اور بینائی زائل ہوچکی تھی۔اس دوران میں ان کی طرف سے یہ روایت سامنے آئی۔ان کے اہم شاگردامام مالک نے ان کی عراقی روایات کو نہیں لیا اور ابن حجر نے بھی اس دور کی روایات کو ناقابل اعتبار قرار دیا، مگر یہ روایت صحیح بخاری میں راہ پانے میں کامیاب ہو گئی۔
اس روایت کے نچلے تمام راوی کوفی یا بصری ہیں۔ہشام کے شاگرد علی بن مسہر کوفی نے ۱۸۵ھ میں ان کی وفات کے انتالیس سال بعد اس روایت کو مشتہر کیا۔روایت کی دوسری سند ’زہري عن عروۃ بن ہشام‘ ہے، لیکن زہری کا عروہ سے سماع ہی ثابت نہیں۔ 
سورۂ قمر۴؍ نبوی میں نازل ہوئی ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اس وقت لڑکی بالی تھی اور کھیلتی پھرتی تھی۔اس حساب سے ہجرت کے وقت ان کی عمر سترہ سال بنتی ہے۔ 
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا،اپنے والدین کو دین پر کاربند ہی دیکھا ہے۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صبح و شام ہمارے گھر نہ آتے ہوں۔ وہ ہجرت حبشہ، حضرت ابوبکر کے ابن دغنہ کی پناہ میں آنے ،ہجرت مدینہ کے واقعات اور سراقہ کا قصہ اس طرح بتاتی ہیں جیسے کوئی عاقل و بالغ اپنا مشاہدہ بیان کرتا ہے۔ 
حضرت اسامہ کو چوٹ آئی تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو ان کا منہ صاف کرنے کا حکم دیا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت عائشہ سے کافی چھوٹے تھے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت وہ اٹھارہ برس کے تھے۔اس لحاظ سے تب حضرت عائشہ کی عمر اٹھائیس سال بنتی ہے۔
حضرت عائشہ غزوۂ بدر میں شریک تھیں۔نو سال کی بچی میدان جنگ میں نہ جاسکتی تھی، جب کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کئی نا بالغ لڑکوں کو واپس کر دیا تھا۔ یہ دعویٰ حبیب الرحمان کاندھلوی کے سوا کسی نے نہیں کیا۔
حضرت عائشہ نے جنگ احد میں زخمیوں کو پانی پلایا اور ان کی تیمارداری کی ۔نوعمر لڑکی کے لیے مشکیں بھر بھر کر لانا ممکن نہ تھا۔
حضرت عائشہ اپنی بہن حضرت اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔ان کا انتقال ۷۳ھ میں سو سال کی عمر میں ہوا۔ ہجرت مدینہ کے وقت ان کی عمر ستائیس برس تھی ،اس طرح اس وقت حضرت عائشہ کی عمراٹھارہ برس بنتی ہے۔
طبری کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر کی تمام اولاد زمانۂ جاہلیت میں ہوئی۔اس طرح رخصتی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر پندرہ سال بنتی ہے۔عمار خان ناصر کہتے ہیں کہ یہ مولانا کاندھلوی کا سوء فہم ہے۔طبری کامطلب ہے کہ ان کی تمام اولاد ان دو بیویوں سے ہوئی جن سے وہ زمانۂ جاہلیت میں نکاح کر چکے تھے۔
اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کی فہرست میں بیسویں نمبر پر حضرت عائشہ کا نام درج ہے۔اس کا مطلب ہے کہ بعثت نبوی کے وقت وہ اتنی سوجھ بوجھ رکھتی تھیں کہ دین اسلام اختیار کر لیا۔
حضرت ابوبکر نے حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو چاہا کہ اپنی بیٹی عائشہ کو، جن کی نسبت جبیر بن مطعم کے ساتھ طے ہو چکی تھی، رخصت کر دیں۔ انھوں نے جبیر کے والد مطعم بن عدی سے بات کی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ تمھاری بیٹی ہمارے بیٹے کو بھی بے دین بنا دے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین اس وقت کوئی چھوٹی بچی نہیں، بلکہ جوان اور رخصتی کے قابل تھیں۔ یہ خلط مبحث ہے ،اس واقعے کا ہجرت حبشہ سے کوئی تعلق نہیں۔حضرت ابوبکر رخصتی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے وعدے سے بری الذمہ ہونے کے لیے گئے تھے۔
حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ حضرت خولہ نے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کا رشتہ تجویز کیا تو کنواری باکرہ (بکر) کا لفظ استعمال کیا۔ یہ لفظ ایسی کنواری کے لیے بولا جاتا ہے جو بالغ ہو ۔نابالغ لڑکی کو ’جاریۃ‘ کہا جاتا ہے ۔
حضرت ابوبکر اپنی بیٹی کی رخصتی کے لیے ہر گز اصرار نہ کرتے اگر وہ نا بالغہ ہوتی۔
کنواری لڑکی (بکر) سے اجازت لینے کی شرط اسی لیے لگائی گئی ہے کہ وہ بالغہ ہے۔ اس سے نکاح صغیرہ کا مسئلہ باطل قرار پاتا ہے۔قرآن مجید کہتا ہے کہ یتیموں کی شادی اس وقت کرو جب وہ بالغ ہو جائیں: ’حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ‘ (النساء ۴: ۶)۔ 
ہجرت مدینہ کے بعد بخار میں مبتلا اہل خانہ کی تیمار داری کے لیے حضرت عائشہ کی ذمہ داری تبھی لگائی گئی، کیونکہ پختہ عمر کو پہنچ چکی تھیں۔ 
حضرت عائشہ فقیہہ، عالمہ و فاضلہ تھیں۔مدینہ منورہ میں علم انساب،تاریخ اور شاعری کی تحصیل کا موقع نہ تھا۔ یہ علوم لازماً انھوں نے ہجرت سے قبل اپنے والد سے سیکھے ہوں گے۔تب ان کی عمر بھی زیادہ رہی ہو گی۔
حضرت عائشہ میں مامتا کا جذبہ تھا،اسی لیے اپنے بھانجے کو بیٹا بنا لیا اور ان کے نام پر ام عبداﷲ کنیت اختیار کر لی۔ انھوں نے ایک انصاریہ کی پرورش بھی کی۔ایک نو عمر لڑکی میں یہ جذبات نمایاں نہیں ہوتے۔
حضرت بشر بن عقربہ کے والد نے غزوۂ احد میں شہادت پائی ۔وہ رو رہے تھے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو دلاسا دیا۔ کیا تواس پر راضی نہیں کہ میں تیرا باپ بنوں اور عائشہ تمھاری ماں ہو۔یہ ارشاد ایک دس سالہ بچی کے بارے میں نہیں فرمایا جا سکتا تھا۔
عرب میں اس سے پہلے کم سن لڑکیوں کو بیاہنے کا رواج نہ تھا۔
امت مسلمہ میں اس روایت کے خلاف عملی اجماع رہا ہے اور کسی نے اپنی نو سالہ لڑکی کوشادی کے لیے پیش نہیں کیا۔
عربی میں چھ کے لیے ’ستۃ‘ اور سولہ کے لیے ’ستۃ عشر‘ کے لفظ بولے جاتے ہیں۔اسی طرح نو کو ’تسعۃ‘ اور انیس کو ’تسعۃ عشر‘ بولا جاتا ہے ۔ امکان غالب ہے کہ کسی راوی نے بھول کر یا عمداً ’ستۃ عشر‘ اور ’تسعۃ عشر‘ کے دوسرے جزو کو اڑا دیا اور سولہ ،چھ اور انیس، نو بن گیا۔ 
امام بخاری اپنی صحیح کی تکمیل و تسوید میں مشغول تھے کہ ان کی وفات ہو گئی ۔اس لیے وہ روایات بھی اس میں در پا گئیں جو درایت پر پوری نہ اترتی تھیں۔ انھیں سیرت النبی اور تاریخ اسلام سے متعلق روایتوں کو پرکھنے کا موقع نہ ملا۔
۱۸۰ھ میں نقد حدیث کے ضوابط سامنے آئے، تاہم تب بھی علم تقویم اور علم ریاضی کو مکمل طور پر نظر اندازکر دیا گیا۔ اس طرح مختلف واقعات گڈ مڈ ہو گئے اور ان کا زمانی بعد مٹ گیا۔بخاری کی اس روایت میں استنتاج (personal inference)، تلفیق (conjoining the events) اور ادراج (insertion) سے کام لیا گیا ہے۔ 
نکاح اور رخصتی کے وقت حضرت عائشہ کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ہمارے پاس اس روایت کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں۔اس روایت کو فن رجال اور علم حدیث کے ماہرین نے درست اور صحیح مانا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پرطعن کو انکار حدیث کے مترادف سمجھا گیا۔ محمد عمار خان ناصر نے اس موضوع پر ایک مضمون لکھا جو فروری ۲۰۱۲ء کے ماہنامہ ’اشراق‘ میں چھپا۔ اس مضمون کا تتمہ (concluding remark) ہم نقل کیے دیتے ہیں:

’’... رخصتی کے وقت ام المومنین رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق تاریخی طور پر وہی بات مستند ہے جو عام طور پر مانی جاتی ہے۔ اس مضمون کی روایات پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں، نہ تو ان میں علمی طور پر کوئی وزن ہے اور نہ وہ دلائل ہی لائق اعتنا ہیں جو ام المومنین کی عمر کو تاریخی طورپر اس سے زیادہ ثابت کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال ہونے کی روایات خود ام المومنین سے اتنی کثرت سے مروی ہیں کہ ان کے مقابلے میں پیش کیے گئے تاریخی قیاسات یا بعض مبہم و محتمل بیانات کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔ جن اہل علم نے اس ضمن میں متبادل تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا جذبہ محرکہ بے حد قابل قدر ہے، تاہم علم وعقل اور دیانت وانصاف کا تقاضا یہی ہے کہ تاریخی حقائق کو اسی طرح تسلیم کر کے جس طرح وہ واقع میں رونما ہوئے، انھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے، نہ یہ کہ ایک مخصوص تاثر کے تحت کمزور اور واہی استدلالات کا سہارا لے کر انھیں جھٹلانے کی سعی شروع کر دی جائے۔ ‘‘(۶۱)

جنگ احد

اس غزوہ میں حضرت عائشہ اورحضرت انس بن مالک کی والدہ حضرت ام سلیم (اصل نام : رمیصایا رمیلہ)نے بڑی چوکسی سے سپاہ اسلام کی خدمت کی۔ جنگ کے دن وہ اپنی کمر پر پانی کے مشکیزے لادے پانی سپاہیوں کے منہ میں انڈیلتی رہیں۔پانی ختم ہو تا تو پھر بھرنے دوڑ پڑتیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ جنگ کے حالات جاننے کے لیے گھر سے نکلیں۔راستے میں انھیں حضرت عمرو بن جموح کی اہلیہ ملیں اور انھوں نے بتایاکہ اﷲ نے رسول پاک کا دفاع کیا، لیکن کچھ مسلمان شہید ہو گئے۔
حضرت شماس بن عثمان مخزومی حضرت ام سلمہ کے چچا زاد تھے۔جنگ بدر میں شریک ہوئے۔غزوۂ احد میں انھوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا۔آپ دائیں بائیں جدھر دیکھتے ،حضرت شماس تلوار زنی کرتے دکھائی دیتے۔ جس وقت آپ پرغشی طاری ہوئی، آپ کو بچاتے بچاتے انھیں بھی کاری ضرب لگی۔انھیں جان کنی کے عالم میں مدینہ لے جایا گیا اور حضرت عائشہ کے حجرے میں رکھا گیا۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے اعتراض کیا کہ میرے چچا زاد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری میرے علاوہ کسی کو کیوں دی گئی ہے؟ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کو ام سلمہ کے کمرے میں منتقل کر دیا جائے۔ اگلے دن ان کی وفات ہو گئی اور ان کو احد کے دامن میں دفن کر دیا گیا۔

حضرت زینب سے عقد

۵ھ:ہجرت کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کی عزت افزائی کے لیے ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش سے کی تو ان کے بھائی حضرت عبداﷲ بن جحش نے اعتراض کیا۔ان کا کہنا تھا کہ زینب بنو اسد کی آزاد عورت ہیں، جب کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے ان دونوں میں کفاء ت نہیں۔ خود زینب بھی اس رشتے پر راضی نہ تھیں، لیکن آپ کے فیصلے اور اﷲ تعالیٰ کے ارشاد ’وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ‘، ’’کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ جب اﷲ اور اس کا رسول کوئی حکم دے دیں تو وہ اپنے معاملے میں خود اختیاری کریں‘‘ (الاحزاب۳۳: ۳۶) پر خاموش رہی تھیں۔ اپنے مزاج کی تیزی کی وجہ سے وہ شادی کے بعد بھی اپنے حسب و نسب پر فخر کرتی رہیں، اس لیے زید نے انھیں طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، لیکن پہلے آپ سے مشورہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ’اَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللّٰہَ‘، ’’اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو اور اﷲ سے ڈرتے رہو‘‘ (الاحزاب۳۳: ۳۷)۔ ایک سال سے کچھ اوپر وقت گزرا تھا اور ابھی کوئی اولاد نہ ہوئی تھی کہ یہ شادی طلاق پر منتج ہوئی۔ تب آپ نے زینب کو اپنی زوجیت میں لینے کا فیصلہ کیا، کیونکہ ایک منہ بولے بیٹے کی مطلقہ کی حرمت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود تھا۔ اﷲ کے ارشاد ’وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللّٰہُ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ‘، ’’آپ اپنے دل میں وہ چھپائے ہوئے تھے جسے اﷲ ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں سے خائف ہو رہے تھے‘‘ (الاحزاب۳۳: ۳۷) کا مطلب ہے کہ اﷲ کی طرف سے آپ کو وحی آ چکی تھی کہ زینب کو طلاق ہوگی اور آپ کو ان سے نکاح کرنا ہو گا، لیکن آپ سمجھتے تھے کہ اس سے کفار و منافقین کو طعن و تشنیع کا موقع ملے گا، اس لیے ظاہر نہ فرمانا چاہتے تھے ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: آپ میرے ساتھ گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک وحی نازل ہوئی ۔کیفیت وحی ختم ہونے کے بعد آپ مسکرائے اور فرمایا: کون زینب کویہ خوش خبری سنائے گا کہ اﷲ نے میرے ساتھ اس کا عقد طے کر دیا ہے۔مجھے زینب کے حسن و جمال کا خیال آیااور ان کی یہ فوقیت بھی کہ اﷲ نے ان کا رشتہ طے کیا ہے۔آپ کی باندی سلمیٰ نے یہ خوش خبری ان کو سنائی۔ جب زینب کی عدت پوری ہو گئی تو آپ نے زید ہی کو ان کے پاس بھیجااور فرمایا: جاؤ، اس کے سامنے میرا ذکر کرو۔زینب نے کہا: میں کوئی فیصلہ نہ کروں گی حتیٰ کہ اپنے رب سے مشورہ نہ کر لوں۔وہ اپنے مصلےٰ کی طرف گئی تھیں کہ قرآن مجید کا حکم نازل ہو گیا (مسلم، رقم ۳۴۹۱)۔

غزوۂ خندق

اس جنگ میں حضرت عائشہ مدینہ کے محفوظ ترین مقام قلعۂ بنو حارثہ میں منتقل ہو گئی تھیں۔حضرت سعد بن معاذ کی والدہ حضرت کبشہ بنت رافع بھی ان کے ساتھ تھیں۔ حضرت سعد بن معاذوہاں سے گزرے ،ان کی زرہ سکڑ کر چھوٹی ہوچکی تھی اور ساری پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں، نیزہ ہاتھ میں پکڑے اسے گھما رہے تھے۔ حضرت عائشہ نے کہا: واﷲ، میری خواہش تھی کہ کاش، ان کی زرہ نے ان کا جسم ڈھانپا ہوتا،کہیں انھیں تیرہی نہ لگ جائے۔ایسا ہی ہوا،ایک تیر آ کر لگا اور ان کے بازو کی بڑی رگ( اکحل )کٹ گئی۔ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دو بار آگ سے دغوایا (آج کی زبان میں cauterization کرائی) لیکن خون بند نہ ہوا اور حضرت سعد شہید ہو گئے۔مسند احمد کی روایت میں ہے، (اسی دن)حضرت عائشہ قلعے سے نکل کر ایک باغ میں آ گئیں جہاں کئی مسلمان جمع تھے۔حضرت عمر نے انھیں ڈانٹنا شروع کر دیا ، آپ بہت دلیری دکھاتی ہیں ، کوئی مصیبت آن پڑے یا آپ گم ہو جائیں۔حضرت عمر کی ملامت جاری رہی، حتیٰ کہ حضرت عائشہ شرم سے گڑ گئیں۔حضرت طلحہ نے انھیں منع کیا اور کہا: عمر، اﷲ رحم کرے، آپ نے بہت کچھ کہہ دیا۔ گم ہو کر اﷲ ہی کے پاس جائیں گی (مسند احمد، رقم ۲۵۰۹۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۱۱۲۶)۔

غزوۂ بنوقریظہ

۵ھ:حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جنگ خندق سے واپسی پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے۔ آپ نے اسلحہ اتارکر غسل فرما یا اور آرام کرنے لگے تھے کہ ایک شخص نے آ کرسلام کیا۔آپ گھبراکر اٹھے اور اس کے پیچھے چل پڑے۔مجھے وہ شخص دحیہ کلبی کی طرح لگتا تھا، لیکن آپ نے بتایا کہ یہ جبرئیل ہیں اور مجھے بنوقریظہ پر حملہ کرنے کا حکم سنایا ہے، فرمایا: تونے بڑی خیر کی بات دیکھی ، جبرئیل کو دیکھ لیا۔کچھ دیر کے بعد کہا: یا عائش، جبرئیل تمھیں سلام کہہ رہے تھے۔ حضرت عائشہ نے کہا: آپ وہ دیکھ لیتے ہیں جو ہم نہیں دیکھ سکتے۔ ’وعلیہ السلام و رحمۃ اﷲ و برکاتہ‘ (بخاری، رقم ۳۷۶۸۔ مسند احمد، رقم ۲۵۰۹۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۱۱۲۶)۔
غزوۂ بنو قریظہ میں ایک ہی عورت کو قتل کیا گیا۔اس نے حضرت خلاد بن سوید پر چکی کا پاٹ گرا دیا تھا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ قصاص میں اس کی گردن اڑا دی گئی۔جس وقت بنوقریظہ کے چار سو سے زیادہ مردوں کو قتل کیا جارہا تھا، وہ حضرت عائشہ کے ساتھ بیٹھی ہنسی مذاق میں مشغول تھی ۔جب اس کا نام پکارا گیا تو حضرت عائشہ نے پوچھا: تمھارا نام کیوں؟ کہا: میں قتل ہونے جارہی ہوں۔ انھوں نے سوال کیا: کیوں؟ اس نے جواب دیا: میں نے کام ہی ایسا کیا ہے، پھر خوشی خوشی قتل گاہ کی طرف چل پڑی ۔حضرت عائشہ کہتی ہیں: مجھے اس کی اس کیفیت پر بڑاتعجب ہوا،میں اس واقعے کو بھول نہ پاؤں گی۔
بنو قریظہ کا معاملہ نمٹتے ہی حضرت سعد بن معاذ کا جنگ احزاب میں لگا ہوا رگ اکحل کا زخم پھٹ پڑا۔دم آخریں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر مسجدنبوی میں لگے خیمے میں ان کے پاس تھے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میں نے دونوں اصحاب کی آہ وبکاکی آواز اپنے حجرے میں سنی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میت پر روتے نہ تھے، مغموم ہوتے تو آپ اپنی ریش مبارک تھام لیتے (مسند احمد، رقم ۲۵۰۹۷۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۵۳۳۰۔ مسند اسحاق بن راہویہ ۱۷۲۲)۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، سیراعلام النبلاء (ذہبی)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین اﷲ وثیر)، تحقیق عمر عائشہ (جبیب الرحمان کاندھلوی)، میزان عمر عائشہ (بریگیڈیر حامد سعید)، Wikipedia, the free encyclopedia، رخصتی کے وقت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر (محمد عمار خان ناصر)۔
[باقی]

________

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Mar 15, 2019
5465 View