ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (1) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (1)

 حسب و نسب

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ۶۱۳ء یا ۶۱۴ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے دادا کا نام ابوقحافہ بن عامر تھا، ساتویں جد تیم بن مرہ کی نسبت سے ان کا قبیلہ بنو تیم(یا تیم بن مرہ) کہلاتا ہے۔ آٹھویں پشت مرہ بن کعب پر ان کا نسب آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے شجرۂ مبارکہ سے جا ملتا ہے،مرہ آپ کے بھی آٹھویں جد تھے۔ حضرت عائشہ کی والدہ حضرت ام رومان بنت عامرکااصل نام زینب یا دعد تھا۔ ان کے نویں جد غنم بن مالک کی نسبت سے ان کا قبیلہ بنوغنم (یا بنو فراس بن غنم) کہلاتا ہے، یہ بنو کنانہ کی شاخ تھی۔ گیارھویں پشت کنانہ بن مدرکہ پر حضرت ام رومان کا سلسلۂ نسب بھی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے،کنانہ آپ کے چودھویں جد تھے۔ حضرت ام رومان کی پہلی شادی بنوازد کے حارث بن سخبرہ (یا عبدﷲ بن حارث بن سخبرہ) سے ہوئی تھی جن سے ایک بیٹا طفیل پیدا ہوا۔ حارث اپنے کنبے کے ساتھ یمن (یا تہامہ) کے پہاڑی علاقے سراۃ سے مکہ آئے اور حضرت ابوبکر کے حلیف بن گئے۔ حارث کی وفات ہوئی توحضرت ام رومان حضرت ابوبکر کے عقد میں آ گئیں تو حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر اور ام المومنین سیدہ عائشہ کی ولادت ہوئی۔حضرت عائشہ ہجرت سے نو سال قبل شوال ۴یا ۵ ؍نبوی (جولائی ۶۱۴ء) میں پیدا ہوئیں۔وہ دختر رسول حضرت فاطمہ سے آٹھ سال چھوٹی تھیں۔

حضرت عامر بن فہیرہ سیدہ عائشہ کے سوتیلے بھائی،حضرت ام رومان کے بیٹے، طفیل بن حارث کے غلام تھے۔ انھوں نے اسلام قبول کیا توحضرت ابوبکر نے انھیں خرید کر آزاد کر دیااور اپنے اونٹ چرانے پر مامور کر دیا۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے مکہ میں ابرہہ کے ہاتھی کی نگہداشت پر مامور شخص اور اس کے مہاوت، دونوں کو دیکھاہے۔ وہ نابینا اور لولے ہو چکے تھے اور لوگوں سے کھانے کی بھیک مانگتے تھے۔

قبول اسلام

ابن ہشام کی مرتب کردہ فہرست کے مطابق قبول اسلام میں حضرت عائشہ کا نمبر اٹھارواں تھا۔ان کی بڑی بہن حضرت اسماء نے اسلام کی طرف سبقت کی تو وہ بھی صغر سنی میں مسلمان ہو گئیں۔فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے ہوش میں والدین کو دین پر کاربند ہی دیکھا ہے۔کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم صبح و شام ہمارے گھر نہ آتے ہوں۔

رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم سے عقد

۱۰؍نبوی: سیدہ خدیجہ کی وفات کو تین سال گزرے تھے کہ حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: یا رسول ﷲ ، کیا آپ شادی نہیں کریں گے؟سوال فرمایا: کس سے؟ حضرت خولہ نے کہا: آپ چاہیں تو کنواری باکرہ سے اور چاہیں تو بیوہ سے رشتہ ہو سکتا ہے۔ پوچھا: کنواری کون ہے؟بتایا: خلق خدا میں آپ کے سب سے پیارے صاحب ابوبکر کی بیٹی عائشہ ۔فرمایا : بیوہ کون؟ بتایا: (بتیس سالہ) سودہ بنت زمعہ جو آپ پر ایمان لا چکی ہیں۔آپ نے ان دونوں سے بات کرنے کی اجازت دے دی توحضرت خولہ پہلے حضرت ابوبکر کے گھر گئیں۔ حضرت ام رومان سے ان کی ملاقات ہوئی تو کہا: ﷲ نے تم پر برکت نازل کر دی ہے۔مجھے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے عائشہ کا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ام رومان بولیں: میری خواہش تو ہے، تاہم ابوبکر کے آنے کا انتظار کر لو۔ حضرت ابوبکر آئے توحضرت خولہ نے مانگ دہرائی۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا: کیا عائشہ آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کے لیے موزوں ہے؟ حضرت خولہ بنت حکیم نے واپس آ کر آپ سے استفسار کیاتو فرمایا: جاؤ، ابوبکر سے کہہ دو ،وہ میرے اسلامی بھائی ہیں اور ان کی بیٹی کی مجھ سے شادی ہو سکتی ہے۔ یہ جاہلیت کے تصور پر ضرب تھی کہ منہ بولے بھائی کی اولاد سے عقد و زواج نہیں ہو سکتا۔ ایک رکاوٹ ابھی تھی ، مطعم بن عدی نے اپنے بیٹے جبیر کے لیے عائشہ کا ہاتھ مانگ رکھا تھا، اس لیے حضرت ابوبکر مطعم کے ہاں گئے۔ اس کی بیوی ام الفتی نے چھوٹتے ہی کہہ دیا : ہم نے اپنا بیٹا تمھاری بیٹی سے بیاہ دیا تو وہ اسے بھی صابی بنا کر اپنے دین میں داخل کر لے گی۔ مطعم نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ان کے ازخود انکار کرنے پرحضرت ابوبکر نے سکھ کا سانس لیا۔ اس طرح حضرت عائشہ کا آپ سے نکاح ہجرت سے دو سال (شاذ روایت:تین سال)قبل مکہ ہی میں ہو گیا،رخصتی البتہ ہجرت کے آٹھ ماہ(اٹھارہ ماہ:زہری) بعد مدینہ میں ہوئی (موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۷۶۹)۔ بلاذری کہتے ہیں، قطعی بات یہ ہے کہ حضرت عائشہ آپ سے پہلے کسی سے منسوب نہ تھیں۔ رخصتی کے وقت ان کی عمرنو برس(عباس محمود العقاد: پندرہ سال) تھی۔ نکاح سے قبل خواب میں تین بار حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سبز ریشمی کپڑے میں لپٹا ہوا حضرت عائشہ کا چہرہ آپ کو دکھایااور کہا: یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہوں گی ۔آپ نے فرمایا: یہ خواب ﷲ کی طرف سے ہے اور وہ اسے ضرور پورا کرے گا (بخاری، رقم ۷۰۱۲۔ مسلم، رقم ۶۳۶۴) ۔

جب حضرت عائشہ نے کہا: یا رسول ﷲ ، عورتیں کنیت سے جانی جاتی ہیں تو آپ نے ان کی کنیت ان کے بھانجے حضرت عبدﷲ بن زبیر کے نام پر ام عبدﷲ تجویز فرمائی۔ آپ انھیں حمیرا کے لقب سے بلاتے تھے۔

مدینہ کو ہجرت

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مکہ میں ایک دن مسلمانوں کو بتایا: مجھے تمھارا دار ہجرت دکھا دیا گیا ہے۔ دوسیاہ پتھریلے میدانوں کے مابین کھجورکے درختوں سے بھری ایک زمین شور دکھائی گئی ہے (بخاری، رقم ۳۹۰۵)۔ یہ یثرب تھا جسے مدینۃ النبی کا نام ملا۔ آپ کی اجازت سے اہل ایمان وہاں جانا شروع ہو گئے۔ ربیع الاول ۱۳؍ نبوی میں آپ بھی ﷲ کی طرف سے مقررہ وقت پرحضرت ابوبکر کی معیت میں سفر ہجرت پر روانہ ہوئے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ہمارے گھر صبح یا شام کے وقت تشریف لاتے تھے۔اس دن دوپہر کو آئے تو میرے والد نے کہا: اس وقت آپ کسی اہم کام ہی سے آئے ہوں گے۔ آپ چارپائی پر تشریف فرما ہوئے اور خلوت کرنے کا حکم دیا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: یہاں میری بیٹیوں اسماء اور عائشہ کے علاوہ کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا مجھے مکہ سے نکلنے کا اذن ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ساتھ چاہیے؟ یارسول اللہ! آپ نے فرمایا: ہاں۔ خوشی سے حضرت ابوبکر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں: ہم نے ان کا سامان سفر تیار کیا اور چمڑے کا توشہ دان ساتھ دیا۔ آپ کے روانہ ہونے کے بعد آپ کی ازواج اور بیٹیاں مکہ ہی میں تھیں۔ حضرت ابوبکر کا کنبہ بھی مدینہ کے لیے نہ نکلا تھا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد سفر میں آپ کی رہنمائی کرنے والا (گائیڈ) عبدﷲ بن اریقط لوٹنے لگا تو آپ نے اپنے آزاد کردہ غلاموں حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابورافع کو اس کے ساتھ مکہ روانہ فرمایا۔ آپ نے دو اونٹ اور ابوبکر سے پانسو درہم لے کر انھیں دیے۔ ابوبکر نے بھی اپنا کنبہ لانے کے لیے دو یا تین اونٹ بھیجے۔حضرت زید بن حارثہ مکہ کے قریبی قصبہ قدید پہنچے تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے دیے ہوئے درہموں سے تین اونٹ مزید خریدے۔ مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت طلحہ بن عبیدﷲ سے سامنا ہواجوسفر ہجرت میں آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم سے خرّ ارکے مقام پر مل چکے تھے اور مدینہ ہجرت کا قصد رکھتے تھے۔ حضرت طلحہ کی شمولیت کے بعد قافلۂ شوق مدینہ کی طرف چلا ، دختران رسول حضرت فاطمہ، حضرت ام کلثوم، ام المومنین سودہ، حضرت ام ایمن اورحضرت اسامہ بن زیدحضرت زید اورحضرت ابورافع کی معیت میں تھے۔ حضرت ابوبکر کی اہلیہ حضرت ام رومان ، ان کی بیٹیاں حضرت عائشہ اورحضرت اسماء حضرت عبدﷲ بن ابوبکر کے ساتھ سوار ہوئیں۔ کاروان ہجرت جحفہ کے قریب واقع بیابان ساحلی بیدا (منیٰ کی سطح مرتفع: ابن سعد) یا حجاز کے مقام بیض پر پہنچا تو حضرت عبدﷲ بن ابوبکر کا اونٹ بھاگ نکلا۔ اس وقت حضرت ام رومان اور حضرت عائشہ محمل میں بیٹھی تھیں۔ حضرت ام ایمن چلائیں: ہائے بٹیا! ہائے (رسول پاک کی) دلہنیا! کسی نے آواز دی: اونٹ کی مہار چھوڑ دو تبھی اونٹ رک گیا اور اسے پکڑ لیا گیاتب تک وہ جبل ہرشی کی گھاٹی میں اتر چکا تھا۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے، آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم مسجد نبوی اور ازواج مطہرات کے حجرے بنوانے میں مصروف تھے۔ حضرت ابوبکر کا خانوادہ ان کے پاس پہنچ گیا، ام المومنین سودہ اور دختران نبی آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں: حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے مدینہ پہنچنے سے پہلے جنگ بعاث ہوچکی تھی ۔اوس و خزرج کے کئی سرداراس جنگ میں ہلاک ہوجانے کی وجہ سے اہل مدینہ حربی طور پر کمزور ہو چکے تھے ۔

مدینہ کا بخار

حضرت ابوبکر کا کنبہ اول اول مدینہ کے محلہ سنح میں بنوحارث بن خزرج کے ہاں ٹھیرا۔حضرت بلال اور حضرت عامر بن فہیرہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ انھیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی اور چندہی دنوں میں ان تینوں کو بخار نے آن لیا۔ حضرت عائشہ ان کی عیادت کرتی تھیں۔ا نھوں نے اپنے والد سے ان کی طبیعت دریافت کی تو ا نھوں نے کہا:

کل امریءٍ مصبح في أہلہ       والموت أدنی من شراک نعلہ

’’ہر شخص صبح کے وقت اپنے کنبے میں جاتا ہے ،اس حال میں کہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔‘‘

حضرت عائشہ کہتی ہیں: مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔پھر میں عامر بن فہیرہ کے پاس گئی اور ان کا حال پوچھا۔ا نھوں نے جواب دیا:

لقد وجدت الموت قبل ذوقہ        إن الجبان حتفہ من فوقہ

’’میں نے موت آنے سے پہلے ہی اسے پا لیا ہے۔ یقیناً بزدل کی جان اس کے سر سے نکلتی ہے۔‘‘

حضرت عائشہ کہتی ہیں: مجھے پھر سمجھ نہ آیا کہ عامر نے کیا کہا۔ ادھر بلال بخار کی حالت میں گھر کے صحن میں لیٹے یہ شعر پڑھ رہے تھے:

ألا لیت شعري ہل أبیتن لیلۃ        بفخٍ وحولي إذخر و جلیل

’’سنو! کاش مجھے علم ہوجائے کہ میں مکہ کے مقام فخ میں اس حال میں رات بسر کروں گا کہ میرے گرد اذخر کی خوش بو دار گھاس اور جلیل جیسی عام گھاس ہو گی ۔‘‘

حضرت بلال نے عتبہ ،شیبہ اور امیہ پر لعنت بھی بھیجی، کیونکہ انھی کی وجہ سے انھیں مکہ چھوڑ کر وباکی سرزمین مدینہ آنا پڑا۔ میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کو ان کی باتیں بتائیں اور کہا کہ وہ بخار کی شدت سے ہذیانی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے دعا فرمائی: اے ﷲ ، مدینہ ہمارے لیے محبوب بنا دے ،ہم اس سے مکہ جیسی یا اس سے بڑھ کر محبت کریں۔ اسے ہماری صحت کا باعث بنا دے۔ اس کے پیمانوں، صاع (سیر اورپاؤ) و مُد (تولہ و ماشہ) میں برکت ڈال دے اور اس کے بخار کو جحفہ (مہیعہ) منتقل کر دے (بخاری، رقم ۱۸۸۹۔ مسلم، رقم ۳۳۲۱)۔

حضرت عائشہ کی رخصتی

سیدہ عائشہ کواپنے والدحضرت ابوبکر کی طرح بخار نے آن لیااور ان کے بال جھڑ گئے۔ تندرست ہونے کے بعد بال دوبارہ آئے اور شانوں تک لٹکنے لگے۔ہجرت کے سات (یا آٹھ)ماہ بعد، شوال ۱ ھ (اپریل ۶۲۳ء میں، غزوۂ بدر کے بعد شوال ۲ھ میں: ذہبی، ذیقعد ۱ ھ میں: ابن اثیر) ایک روز جب حضرت عائشہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا جھولا جھول رہی تھیں، ان کی والدہ حضرت ام رومان نے ان کو گھر بلایا، کھیل کود کی وجہ سے حضرت عائشہ کا سانس پھولا ہوا تھااور بال بکھرے تھے۔ والدہ نے ان کا منہ دھویا، گھر میں موجود انصاری عورتوں نے بناؤ سنگھار کیا اور اسی روز حضرت عائشہ کی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے گھر رخصتی ہوئی (بخاری، رقم ۳۸۹۴۔ ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۶۔ موسوعۂ مسند احمد، رقم ۲۵۷۶۹)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم چارپائی پر بیٹھے تھے اور حضرت ام رومان نے حضرت عائشہ کو آپ کی گود میں بٹھا کر کہا: یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔ تب بیٹھے ہوئے تمام مرد اور عورتیں گھر سے باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں: ہمارے ولیمے پر اونٹ، بکری کوئی جانور ذبح نہ کیا گیا۔

حضرت عائشہ کا مہر گھر کا ساز و سامان تھا جس کی مالیت پچاس درہم تھی(ایک روایت :پانسو درہم)۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں: میری شادی ماہ شوال میں ہوئی، سہاگ رات شوال میں آئی۔ مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون ہے؟ (مسلم، رقم ۱۴۲۳۔ ترمذی، رقم ۱۰۹۳)۔ یہ عربوں میں رائج ایک وہم کا رد تھا۔ عرب شوال کے مہینے میں عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کرتے تھے، کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں اسی مہینے میں طاعون کی مہلک وبا پھیلی تھی۔ کئی مسلمان بھی توہم کرتے تھے کہ عیدین کے درمیان مباشرت کرنے سے مفارقت کا خدشہ ہوتا ہے۔ رخصتی کے بعد بھی حضرت عائشہ گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو ان کی سہیلیاں چھپ جاتیں۔ آپ انھیں دوبارہ کھیلنے کے لیے حضرت عائشہ کے پاس بھیج دیتے اور فرماتے: جاؤ اپنی سہیلی کے پاس۔ایک بار آپ نے پوچھا: عائشہ، یہ کون سا کھیل ہے؟ بتایا: حضرت سلیمان کا گھوڑوں کا دستہ، آپ مسکرا دیے۔ ایک عید کے موقع پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حبشیوں نے نیزوں کے کرتب دکھائے تو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم چادر لے کر حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہ چادر کی اوٹ سے ان کا کھیل دیکھتی رہیں۔ وہ خود ہی پیچھے ہٹیں تو آپ نے چادر ہٹائی۔ اس اثنا میں حضرت عمر مسجد میں داخل ہوئے اور کنکر اٹھا کر حبشیوں کو دے مارے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر، چھوڑو یہ حبشیوں کے ناچ کود کرنے والے قبیلے بنو ارفدہ کے لوگ ہیں (بخاری، رقم ۲۹۰۱۔ مسلم، رقم ۲۰۲۴۔ نسائی، رقم ۱۵۹۷)۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مدینہ میں گھروں کے لیے زمین تقسیم فرمائی تو حضرت ابو بکر کے لیے مسجد نبوی کے پاس جگہ متعین فرمائی، مسجد کے مغرب میں واقع ان کے گھر سے چھوٹا سا ایک دریچہ مسجد میں کھلتا تھا۔اس گھر میں حضرت ام رومان ،حضرت عائشہ اورحضرت عبدالرحمن نے قیام کیا ۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ ابن ہشام، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (مزی)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ، امین ﷲ وثیر) Wikipedia, The free encyclopedia۔

[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2018
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Mar 04, 2019
3642 View