عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (7) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (7)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

سیرت و عہد

مفرور شاہ روم ہرقل اپنے دار الحکومت سے دور جنگ سے نچنت ہو کر اطمینان کا ایک سال گزار چکاتھا ۔ عراق و شام اور دجلہ و فرات کے بیچ واقع الجزیرہ(Mesopotamia) اس وقت تک فتح نہ ہوا تھا۔یہاں کے عیسائیوں نے اس سے خط کتابت کی کہ اگر وہ سمندر کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہو تو وہ زمینی راستوں سے اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔اب تک ہونے والی زمینی لڑائیوں میں روم کابحری بیڑا مکمل طورپر محفوظ رہا تھا،ہرقل کو معلوم تھا کہ مسلمان سمندر سے گھبراتے ہیں ، وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ شام کی سرحدیں ابھی بھی عیسائیوں کے لیے محفوظ ہیں۔ دوسری طرف شمالی شام میں عرب عیسائی اسلامی چھاؤنیوں میں بدامنی پھیلا کر مسلمانوں کو پریشان کر سکتے ہیں۔ ان امکانات کوپیش نظر رکھتے ہوئے اس نے ۱۷ھ میں اپنے جنگی بیڑے کو فوج اور اسلحے سے لیس کر کے اسکندریہ سے انطاکیہ کو روانہ کر دیا۔ دوسری جانب الجزیرہ کے قبائل کالشکر حمص کو چل پڑا۔ امیر افواج اسلامی ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے یہ اطلاعات سنیں تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مشاورت کے لیے قنسرین سے طلب کر لیا۔ دونوں نے شام کے شمالی شہر حمص(امیسا) میں فوجیں مجتمع کرکے دشمن کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا۔ ہرقل کے بحری جہاز انطاکیہ پہنچے تووہاں کے شہریو ں نے اپنے دروازے کھول کر آنے والی فوج کا استقبال کیا۔اب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ حمص میں محصور ہو گئے تھے، انھیں صحرا اور سمندر، دونوں جانب سے آنے والے لشکر وں نے گھیر لیا تھا۔ انھو ں نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مشورہ طلب کیا ،وہاں پر موجود تمام کمانڈر قلعہ بند ہو کر دارالخلافہ سے کمک کی آمد کا انتظار کرنے کے حق میں تھے ۔اکیلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دشمن کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ عمررضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ قعقاع بن عمر کی سر کردگی میں ایک لشکر فوراًابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے بھیج دیاجائے، چنانچہ وہ ۴ ہزارتجربہ کار فوجیوں کو لے کر کوفہ سے حمص روانہ ہو گئے۔ خلیفۂ ثانی نے سہیل بن عدی کو الجزیرہ ،عبداﷲ بن غسان کو نصیبین اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ربیعہ وتنوخ کے قبائل کی سرکوبی کے لیے بھیجنے کا حکم بھی دیا۔ انھوں نے عیاض بن غنم کو اس پوری مہم کا انچارج مقرر کیااور خود مدینہ سے حمص روانہ ہو گئے۔ الجزیرہ (Mesopotamia)کے باشندگان کو ہیت ،قرقیسااور موصل کا انجام یاد تھا، وہ گھبرا کر واپس پلٹ گئے ۔۳۰ ہزار کا یہ لشکرچھٹا تو صرف ہرقل کی سربراہی میں آنے والی رومی فوج کا سامنا کرنا باقی رہ گیا۔ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ میدان جنگ میں رومیو ں کو پوزیشنیں سنبھالنے کا موقع ہی نہ دیا جائے اور ان پر اچانک حملہ کر دیا جائے ۔ مسلمان حمص کے قلعوں سے نکل کر ان پریک لخت ٹوٹ پڑے تو وہ گھبرا گئے، ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور مغلوب ہو گئے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ کی کمک تین دن کے بعد پہنچی، جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جابیہ یا تبوک کے قریبی مقام سرغ تک آ پائے تھے ۔وہ مدینہ لوٹ گئے ،انھوں نے کوفہ سے آنے والی فوج کو مال غنیمت میں سے حصہ دینے کی ہدایت کی۔
ادھرسہیل بن عدی نے رقہ اور رہا کے رہنے والوں کو، عبداﷲ بن عتبہ نے اہل نصیبین کو اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے بنو تغلب کو معاہدات صلح کرنے پر مجبور کر دیا۔ عیاض، سہیل اور عبداﷲ کی ایک مشترکہ کارروائی میں حران والوں نے بھی جزیہ دینا قبول کر لیا۔ بنو ایادالجزیرہ سے بھاگ کر ہرقل کے کنٹرول والے علاقے میں چلے گئے تھے۔ عمررضی اللہ عنہ نے ہرقل کو خط لکھا کہ انھیں فوراً لوٹایا جائے، چنانچہ ان میں سے ۴ ہزار واپس آئے اور اسلامی اقتدار کے تحت رہنا قبول کیا۔ بنو تغلب کے لوگ مسلمان نہ ہونا چاہتے تھے ،وہ اداے جزیہ سے انکار بھی کر رہے تھے۔ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کا معاملہ طے نہ ہوا توان کا ایک وفدمدینہ آیا۔انھوں نے عمر رضی اﷲ عنہ سے مطالبہ کیا کہ جزیہ یا خراج کا نام لے کر انھیں بدکایا نہ جائے، صدقہ کے نام سے چاہے دگنی وصولی کر لی جائے۔ علی رضی اﷲ عنہ نے رائے دی کہ ان سے حاصل ہونے والے ٹیکس کو صدقہ کا نام دینے میں کوئی حرج نہیں ۔یہ نزاع ختم ہواتو عمر رضی اللہ عنہ نے ولیدرضی اللہ عنہ کو معزول کر کے فرات بن حیان کو ان کاامیر مقرر کر دیا۔بعد کے معرکوں میں ان تغلبی عیسائیوں نے اسلامی حکومت کا بہت ساتھ دیا۔
خالدبن ولید رضی اللہ عنہ قنسرین لوٹے تو ان کے پاس بے شمار مال غنیمت اور جنگی قیدی تھے۔لوگ ان کے پاس عطیات کے لیے آنے لگے، کندہ کے امیر اشعث بن قیس بھی ان میں شامل تھے۔خالدرضی اللہ عنہ نے ان کو ۱۰ہزار درہم دیے،انھوں نے کسی شاعر کو انعام سے بھی نوازا۔ یہ خبریں امیر المومنین تک پہنچیں، اس سے پہلے انھیں معلوم ہوا تھا کہ خالدرضی اللہ عنہ ارمینیہ کے مقام آمد پر ایک حمام میں گئے اور شراب ملی ہوئی بوٹی جسم پر مل کر نہائے۔ جب عمررضی اللہ عنہ نے بازپرس کی توخالدرضی اللہ عنہ کا جواب تھا: یہ ایک صابن ہے جس کی تیاری میں شراب اپنی صفات کھو دیتی ہے۔ عمررضی اللہ عنہ مطمئن نہ ہوئے تھے۔ اس بار انھوں نے افواج اسلامی کے امیر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ خالدرضی اللہ عنہ کو بلا کر ان کا عمامہ اتار لیا جائے، اس کی ٹوپی نکال کر کپڑے سے ان کے ہاتھ پشت پرباندھ دیے جائیں اور ۱۰ ہزار درہموں کا حساب لیا جائے ۔ پھر قنسرین کی کمان ان سے واپس لے لی جائے، کیونکہ اگر انھوں نے یہ رقم اپنے مال سے عطیہ کی ہے تو اسراف ہوا اوراگر غزوۂ روم سے حاصل ہونے والے اموال سے دی ہے تو خیانت ٹھہری ۔ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ یہ حکم سن کر مبہوت ہو گئے، تاہم انھوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو مسجد میں طلب کر کے منبر کے سامنے کھڑا کیا، بلال رضی اﷲ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ کے ایلچی نے انھیں باندھا، پھر اس ایلچی نے ۱۰ ہزار کی بابت سوال کیا ۔بار بار کے استفسار پرخالد رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ میرا ما ل تھا۔وہ اپنی ہتک پر رنجیدہ تھے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ منبر سے اترے ، خالدرضی اللہ عنہ سے معذرت کی اور کہا: یہ سب امتثال امر خلیفہ میں تھا۔انھوں نے معزولی کا حکم کچھ عرصہ چھپائے رکھا۔ اسی دوران میں عمر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ خالدرضی اللہ عنہ کو ان کے عہدے پر بحال کر دیا جائے۔انھوں نے یہ درخواست نہ مانی،اس کے بجائے عزل کا حکم براہ راست خالدرضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ خالدرضی اللہ عنہ نے اہل قنسرین کو الوداعی خطاب کیا اور حمص چلے گئے ، وہاں سے مدینہ کی راہ لی۔ جب وہ عمررضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے توبتایا کہ یہ انعام میں نے اس مال میں سے دیا جو جنگوں میں میرے حصے میں آیا یا غنیمت کے طور پر مجھے ملا، آپ حساب کر لیں اور ۶۰ ہزار درہم سے زائد رقم بیت المال میں جمع کرلیں۔عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان کے اثاثوں کی چھان بین کی تو ۸۰ ہزار درہم (یا ۷ ہزار دینار) بنے، فالتو ۲۰ ہزار درہم بیت المال میں جمع کر لیے گئے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے خالد رضی اللہ عنہ کے بری الذمہ ہونے کے خطوط تمام اسلامی سلطنت میں بھیج دیے۔ خالدرضی اللہ عنہ کے لیے فوج سے دور حالت امن میں زندگی گزارنا بہت مشکل تھا ، اسے وہ عورتوں والی زندگی سمجھتے تھے۔ ۴ برس اسی طرح گزرگئے ،ان کا آخری وقت آیا توانھیں میدان جنگ کے بجائے بستر پر مرنے کا بہت قلق تھا۔ عمررضی اللہ عنہ نے ان کے ترکے میں ایک گھوڑا ،ایک غلام اور کچھ اسلحہ دیکھ کر کہا: ابو سلیمان(خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ ) کے بارے میں ہمارا گمان غلط تھا۔
۱۷ہجری میں نئی اسلامی سلطنت کو دو بڑی قدرتی آ فات کا سامنا کرنا پڑا۔۹ ماہ جاری رہنے والا قحط عام، جس نے شمالی و جنوبی تمام عرب کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔اس عرصے میں بارش کا ایک قطرہ نہ ٹپکا، جبکہ پہلے سے موجود تمام کھیتی سوکھ سڑ کر راکھ ہو گئی، اکثر بھیڑ بکریاں ہلاک ہوئیں اور دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ خشک ہو گیا۔ہوا چلتی تو ہر طرف راکھ اڑنے لگتی، اس سال کا نام ’’عام الرمادہ‘‘ (راکھ والا سال) اسی لیے پڑا۔جو جانور بچ گئے ، ان کا گوشت سوکھ کر کھانے کے قابل نہ رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے چوہوں کے بل کھود کر ان کی جمع شدہ خوراک حاصل کی۔ قحط شروع ہوا تو شہر مدینہ کے حالات اچھے تھے، لوگوں نے اپنی زرخیز زمینوں سے حاصل ہونے والا غلہ ذخیرہ کر رکھا تھا۔ صحراؤں کے رہنے والے، البتہ ابتدا ہی سے مصیبتوں کا شکار ہو گئے۔وہ شکایتیں لے کر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آنے لگے۔ان کی مدد کرتے کرتے آخر کار مدینہ کے ذخائر بھی ختم ہوگئے ۔ اس زمانۂ قحط میں بھی امیر المومنین کا طرز عمل مثالی اور قابل تقلیدتھا۔ان کے اس عمل اوران کے اخلاص کی وجہ سے لوگ ان کے ساتھ رہے۔جیسے انھوں نے مسلمانوں کا خیال رکھا ،ویسے ہی مسلمانوں نے اپنے امیر کا پاس کیا۔ ایک بار انھیں گھی سے چپڑی ہوئی روٹی دی گئی، انھوں نے ایک بدو کو ساتھ شریک کیا۔ بدولقمے کے ساتھ چکنائی بھی کھینچ کر اپنی طرف کر لیتا۔عمررضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جب سے قحط ہوا ہے، میں نے گھی اور زیتون خود کھایا ہے نہ کسی کو کھاتے دیکھا ہے ۔انھوں نے قسم کھائی کہ جب تک قحط لوگوں سے ختم نہیں ہوتا، گوشت کھاؤں گا نہ گھی چکھوں گا۔ان کا غلام بازار سے ۴۰ درہم کا گھی اور دودھ لے آیا تو انھوں نے فوری طور پر صدقہ کرنے کا حکم دیا۔پھر کہا: مجھے رعایا کا خیال کیسے ہو سکتا ہے جب تک ان کو آنے والی تکلیف مجھے بھی لاحق نہ ہو۔ان کا رنگ سرخی مائل سفید تھا، لیکن عام الرمادہ میںیہ سیاہ پڑ گیا۔لوگ کہنے لگے: اگر قحط ختم نہ ہوا تو عمررضی اللہ عنہ ہی چل بسیں گے۔
امیر المومنین نے عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کو فلسطین سے، معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما اور ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو شام سے اور سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو عراق سے مدینہ غلہ بھیجنے کی ہدایت کی۔ سب سے پہلے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے غلہ سے لدے ہوئے ۴ ہزار اونٹ بھیجے، جو عمررضی اللہ عنہ نے خود مدینہ کے مضافات میں تقسیم کیے۔ انھوں نے ان کے بدلے میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ۴ ہزار درہم بھی ادا کیے ۔ پھر عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے ۲۰ بحری جہاز اور ایک ہزار اونٹ بھیجے جن پرآٹا اور گھی لدا ہوا تھا۔معاویہ رضی اللہ عنہ نے ۳ ہزار اور سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار اونٹ آٹا بھیجا۔ کپڑوں کے ۵ ہزار جوڑے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اور ۳ہزار عبائیں ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے بھیجیں۔سارے غلے کی تقسیم سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنی نگرانی میں کرائی۔وہ دارالخلافہ میں ثرید بنواتے، اونٹوں کا گوشت پکواتے اور خودلوگوں کے ساتھ مل کر کھاتے۔ایک بار ان کے ساتھ دستر خوان پر کھانے والوں کا شمار کیا گیا تو ۷ ہزار آدمی ہوئے، اسی روز جن عورتوں ،بچوں اور بیماروں کو گھروں میں کھانامہیا کیا گیا ، ان کی تعداد ۴۰ ہزار تھی ۔رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھ کر علی الترتیب ۱۰ ہزار اور۵۰ ہزار ہو گئی۔ آٹا اور گھی لوگوں کے گھروں میں بھی فراہم کیا جاتا۔
حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ان اقدامات کے با وجود زمانۂ قحط میں کئی امراض پھیل گئے۔ کئی چل بسے اور بہت بیمار پڑ گئے۔مریضوں کا علاج معالجہ اور مردوں کی تجہیز و تکفین عمررضی اللہ عنہ خود کراتے۔مادی وسائل کو بروے کار لانے کے ساتھ وہ شب بھر دعا و آہ وزاری میں مشغول رہتے، اﷲ کے حضور گڑگڑاتے کہ امت میرے ہاتھوں ہلاک نہ ہو جائے۔پھر انھوں نے نماز استسقا پڑھائی ، رو رو کر بارش کی دعا مانگی ۔عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ان کے داہنے ہاتھ کھڑے تھے،عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا واسطہ بھی دیا۔اﷲ نے ان کی دعا قبول کی ، خوب مینہ برسا اور کھیتیاں ہری بھری ہو گئیں۔ اب عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ میں جم جانے والے بدووں کو شہر چھوڑنے کی ہدایت کی ۔ان کا خیال تھا کہ وہ شہری زندگی کے خوگر ہو گئے تو اپنے دیہاتوں میں واپس جا نہ پائیں گے۔ تمام عرصۂ قحط میں خلیفۂ ثانی کی ہدایت رہی کہ کسی علاقے پر حملہ نہ کیا جائے، البتہ اپنے دفاع کی پوری تیاری رکھی جائے۔اس سال انھوں نے زکوٰۃ بھی اکٹھی نہ کی ۔ قحط ختم ہوا تو انھوں نے اپنے عاملین کو ۲ برس کی زکوٰۃ لینے کا حکم دیا ۔ایک عام الرمادہ کی اور دوسری اگلے برس کی۔انھوں نے ہدایت کی کہ ایک حصہ فوری طور پر ضرورت مندو ں میں بانٹ دیا جائے اور دوسرا بیت المال میں جمع کرایا جائے۔
عہد فاروقی میں آنے و الی دوسری بڑی آفت بیت المقدس اور رملہ کے بیچ واقع عمواس نامی بستی میں پھوٹنے والی طاعون کی وبا تھی، جسے اسی نسبت سے ’’طاعون عمواس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ۱۷ہجری کے اواخر یا ۱۸ہجری کی ابتدا میں یہ وبائی مرض عمواس سے شروع ہو کر شام و عراق کے پورے درمیانی علاقے میں پھیل گیااور ایک ماہ جاری رہا۔ایک دفعہ اس وبا کی شدت کم ہو گئی، لیکن اس نے پھر عود کیا ۔ مجموعی طور پر اس نے ۲۵ ہزارمسلمان مردوں، عورتوں ، شہریوں اور فوجیوں کی جانیں لیں۔ معرکۂ الجزیرہ کے سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سرغ یا جابیہ تک پہنچ کر مدینہ واپس لوٹنے کی وجہ یہی وبا تھی۔ انھوں نے طاعون کی خبر سن کر مہاجرین و انصار سے مشاورت کی تو کچھ نے کہا کہ آپ جس کام سے آئے ہیں ، اسے پورا کیے بغیر نہ لوٹیں۔ دوسروں نے مشورہ دیا کہ کبار اصحاب رسول کووبا کے خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں۔ جب انھوں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا اﷲ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ عمررضی اللہ عنہ کا جواب تھا: ہاں، ہم اﷲ کی ایک تقدیر سے اس کی دوسری تقدیر کی طرف فرار ہو رہے ہیں۔

گر زیک تقدیر خوں گردد جگر
خواہ از حق حکم تقدیر دگر

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان نبوی سنا کر عمر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید کی: ’اذا سمعتم بارض قوم فلا تقدموا علیہ،فاذا وقع بارض انتم فیہا فلا تخرجوا منہا فراراً منہ‘ ’’جب تم کسی قوم کی سر زمین میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب یہ اس جگہ پھوٹے جہاں تم موجود ہو تو اس سے فرار کی خاطر وہاں سے نہ نکلو۔‘‘ (بخاری، رقم ۵۷۳۰) خلیفۂ ثانی ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے بہت محبت کرتے تھے حتیٰ کہ اپنے بعد انھی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے، اس لیے انھیں ملاقات کے بہانے مدینہ بلایا۔وہ بھی سمجھ گئے کہ عمررضی اللہ عنہ مجھے شام سے نکالنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے لکھ بھیجا: مجھے آپ کے ضروری کام کا پتا چل گیا ہے ،میں اپنی فوج چھوڑ کر نہیں آسکتا تاآنکہ اﷲ ہماری تقدیر کا فیصلہ کر دے ۔اب عمررضی اللہ عنہ نے فوج کو اترائی سے نکال کر بلند مقام پر لانے کی نصیحت کی، لیکن تب تک وہ طاعون میں مبتلا ہو چکے تھے ،انھوں نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ فوج کو لے کر جابیہ کی طرف کوچ کریں۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے آئے، کچھ افاقہ ہوا توانھوں نے فوج سے خطاب کرتے ہوئے کہا: یہ بیمار ی تم پر اﷲ کی رحمت نازل کرنے کا باعث بنے گی۔ان کے انتقال کے بعد معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کوان کا جا نشین بنایا گیا، معاذ رضی اللہ عنہ اور ان کا بیٹا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بھی طاعون سے فوت ہوگئے تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کمانڈر بنے۔وہ عمررضی اللہ عنہ کی ہدایت پر فوج کو پہاڑوں پر لے گئے تو طاعون کا زور ٹوٹ گیا۔ اس مرض کا شکار ہونے والوں میں یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما، سہیل بن عمر و،حارث بن ہشام اور عتبہ بن سہیل بھی شامل تھے۔حارث بن ہشام کے ساتھ شام جانے والے ان کے ۷۰ اہل خانہ میں صرف ۴ بچ پائے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ۴۰ بیٹوں نے اس وبا میں جان دی۔ رومی لشکراس وبا کے دوران میں مسلمانوں پر حملہ کرتا تو اس کا مقابلہ مشکل ہوتا، لیکن ہرقل خود طاعون سے خوف زدہ تھا،اس نے حملے کی جرأت نہ کی۔ پھر جب یہ وبا شام سے عراق منتقل ہوئی اور وہاں بھی بہت تباہی مچائی تو یزدگرد نے بھی عراق واپس لینے کی کوئی جستجو نہ کی۔
وبا ختم ہونے کے بعد عمر رضی اﷲ عنہ علی رضی اﷲ عنہ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر کرکے شام پہنچے اور وہ تمام شامی علاقہ دیکھا جہاں طاعون نے قیمتی جانیں لے لی تھیں۔ انھوں نے حمص، دمشق اور شام کی سرحدوں کے انتظامی معاملات نمٹائے۔پھروبا میں وفات پانے والوں کے مسائل میراث سلجھائے، کیونکہ ان کی وجہ سے کئی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ پہلے وہ معاویہ رضی اﷲ عنہ کو دمشق کا اور شرحبیل بن حسنہ کو اردن کا گورنر مقرر کر چکے تھے،اب شرحبیل کو ہٹا کر تمام صوبہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ماتحت کر دیا، اس لیے کہ ان کے خیال میں وہ زیادہ سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ ان کے اس اقدام نے تاریخ اسلامی پر گہرا اثر ڈالا۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طویل گورنری میں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی جاری رہی، بنو امیہ کا رسوخ بڑھ گیا۔ بالآخر مکمل اقتدار انھی کے پاس آگیا اور اسلامی دارالخلافہ مدینہ سے دمشق منتقل ہو گیا۔دورہ مکمل ہونے کے بعد خلیفۂ ثانی جابیہ پہنچے ، بلال رضی اﷲ عنہ ان کے ساتھ تھے۔ نماز کا وقت ہوا تو لوگوں نے اصرار کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان دیں۔کئی سالوں کے بعد بلال رضی اللہ عنہ کی آواز بلند ہوئی تو عمررضی اللہ عنہ ہچکیاں لے کر رونے لگے، خود بلال رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ بیت المقدس کے قریب شام کی سر زمین میں یہ بلال رضی اللہ عنہ کی پہلی اور آخری اذان تھی۔یہ جزیرۂ عرب سے باہر عمررضی اللہ عنہ کا آخری دورہ تھا۔ مدینہ میں کچھ دیر قیام کرنے کے بعد وہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔
طاعون عمواس پھوٹنے کا صحیح سبب معلوم نہیں،متاخرین اہل تاریخ کا خیال ہے کہ عراق و شام کی جنگوں میں بے شمار لوگ مارے گئے، جن کی میتوں کو صحیح طرح دفنایا نہ جا سکا۔ان انسانی اجسام کے گلنے سڑنے سے جراثیم کی بھر مار ہوئی تو طاعون کا جرثومہ (pasturella pestis) لوگوں پر حاوی ہونے میں کامیاب ہو گیا۔مورخین متقدمین کہتے ہیں کہ شام میں مقیم کچھ مسلمان شراب پینے لگے تھے۔قائد جیش اسلامی ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ان کو منع کرتے تو وہ اس کی حلت کی تاویلیں کرتے۔ انھوں نے امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو مطلع کیا ۔عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ میں موجود اصحاب رائے کو اکٹھا کر کے فیصلہ لیا۔ قرآن کے الفاظ، ’ فَہَلْ اَنْتُمْ مُنْتَہُوْنَ‘، ’’تو کیا تم شراب نوشی سے بازآؤ گے؟‘‘ (سورۂ مائدہ۵:۹۱) کے پیش نظر سب نے شراب کے حرام ہونے پر اجماع کیا ۔عمر رضی اللہ عنہ نے حکم بھیج دیا کہ جو شراب کو حلال سمجھتا ہے ، اسے قتل کر دیا جائے اور جو حرام سمجھ کر پیتا ہے ،اسے ۸۰ درے مارے جائیں اور فاسق ٹھہرایا جائے۔ یہ حد خلیفۂ اول ابو بکررضی اللہ عنہ نے نافذ نہ کی تھی، لیکن اس فاروقی اجماع کے بعد اسے بھی حدوداﷲ میں شمار کیا جانے لگا۔ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے ساتھ یہ بد دعا بھی کی: اے اہل شام ، تمھاری تنبیہ کے لیے کوئی بڑا حادثہ ہونا چاہیے، تب طاعون پھوٹا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بہت رقیق القلب تھے، باور نہیں کیا جا سکتا کہ انھوں نے ایسی بد دعا کی ہوپھر چند مسلمانوں کی شراب نوشی کی سزا پورے اسلامی معاشرے کو دینا بھی قرین انصاف نہیں تھا۔
مطالعۂ مزید: تاریخ الامم و الملوک (طبری)، البدایہ و النہایہ (ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2007
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jan 26, 2017
4734 View