عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (6) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (6)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

سیرت و عہد

انطاکیہ رومی سلطنت کا مشرقی دارالخلافہ تھا،یونانی ، مسیحی اور رومی تمام ادوار میں یہ ایک اہم شہر رہا۔وہاں بے شمار گرجے،بت خانے اور عمارتیں موجود تھیں۔ انطاکیہ کے لوگ ہی تھے جنھوں نے پہلی بار مسیحیوں کا لقب پایا،برنباس نے ان کے بیچ رہ کر اپنی تعلیمات کو فروغ دیا تھا ۔تیسری صدی عیسوی میں اس شہر کی آبادی ۱ لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ رومی بادشاہ اسے سمندر پار مصری دارالسلطنت اسکندریہ پر ترجیح دیتے تھے۔دریاے ارنط یہیں پر بحر روم میں گرتا تھا، ہر طرف سے سمندری جہاز یہاں پہنچتے ،اس طرح یہ ایک اہم تجارتی منڈی بن گیا تھا۔ اس شہر کو ہر طرف سے بلند فصیلوں نے گھیر رکھا تھا۔شام کی جنگوں کے بعد تمام رومی قوت یہاں مجتمع ہو چکی تھی، قیصر روم ہرقل، البتہ رہا میں مقیم رہا۔ فاروق اعظم اس شہر کی فتح کو بے حد اہمیت دیتے تھے ،وہ اسی جستجو سے حضرت ابو عبیدہ کی مہم کی خبریں معلوم کرتے جس طرح جنگ قادسیہ میں سعد بن ابی وقاص کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ انطاکیہ کی فوج نے شہر سے باہر نکل کر مقابلہ کیا، اسے شکست ہوئی اور شہر مسلمانوں کے محاصرے میں آ گیا۔ انھیں جزیہ دینے اور یہاں سے جلا وطن ہونے کی شرائط مان کر صلح کرنا پڑی، لیکن جلد اس صلح سے مکر گئے۔تب حضرت ابوعبیدہ نے عیاض بن غنم کو ان کی سرکوبی کے لیے بھیجا، انھوں نے انطاکیہ کو زیر کر کے انھی شرطوں پر پھر سے صلح کی۔ادھرحلب میں رومی فوجیں ایک بار پھر جمع تھیں۔ حضرت ابوعبیدہ وہاں پہنچے،ان کی جمعیت کو منتشر کیا پھر قورس اور منبج کو فتح کیا ۔انھوں نے حضرت خالد بن ولید کو مرعش بھیجا، جسے فتح کرنے کے بعد فرات تک ساری شامی سرزمین مسلمانوں کے قبضے میں آ گئی۔اس مرحلے پر یزید بن ابو سفیان نے دمشق سے جا کر بیروت اور اس کے آس پاس کا علاقہ فتح کیا۔اب ہرقل رہا سے نکلا اور قسطنطنیہ کی راہ پکڑی۔ رستے میں ایک بلند گھاٹی پر کھڑا ہوا اور پکارا: سلام اے سوریہ، اب دوبارہ ملنا نہ ہو گا۔ بزنطیہ میں کچھ دن گزار کر وہ قسطنطنیہ میں مقیم ہو گیا،یہ ۶۳۶ء کا سن تھا۔یہ وہی قیصر تھا جس نے صرف ۱۱برس پہلے، ۶۲۵ء میں ایران کو شکست دے کر صلیب اعظم اور اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لیاتھا۔
اس موقع پر بنو غسان کے بادشاہ جبلہ بن ایہم نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو خط لکھا کہ وہ اور اس کی قوم اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں۔پھر وہ اپنے ۵۰۰ اہل خانہ کو لے کر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے ملاقات کرنے مدینہ پہنچا۔کچھ روز مدینہ میں گزارنے کے بعد وہ اور خلیفۂ ثانی عمرہ کرنے بیت اﷲ پہنچے ،دوران طواف میں کسی فزاری نے اس کے پاجامے پر پاؤں رکھ دیا، اس نے پلٹ کر بنو فزارہ سے تعلق رکھنے والے اس شخص کی ناک کاٹ ڈالی ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص کو راضی کرو، ورنہ قصاص دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔جبلہ نے کہا: کیسا قصاص؟یہ عامی ہے اور میں بادشاہ۔اس نے کہا: میں دوبارہ عیسائی ہو جاتا ہوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تب تمھیں تلوار کا سامنا کرنا ہو گا۔اس نے ایک رات کی مہلت مانگی اور اسی رات اپنے ہم سفروں کو لے کر شام روانہ ہو گیا ۔پھر وہ ہرقل کے پاس قسطنطنیہ گیا اور نصرانی مذہب اختیار کر لیا۔
مدائن کے شمال میں واقع تکریت کے شہر میں ایک ایرانی صوبے دار نے رومی فوجوں سے مدد لی اور ایاد،تغلب اورنمر کے عیسائی عرب قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا تو خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداﷲ بن معتم کو ۵ ہزار کا لشکر دے کر وہاں بھیجا۔ ۴۰ دن شہر کا محاصرہ جاری رہا، اس دوران میں عبداﷲ نے ان عرب عیسائیوں کو اسلام کی دعوت دی اور انھیں مسلمانوں کے برابر حقوق دینے کا وعدہ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا۔شہر بند ہونے کا کوئی فائدہ نہ ہواتو رومیوں نے عقبی دروازے سے کشتیوں میں بیٹھ کر شہر سے فرار ہونے کا ارادہ کیا۔ مسلمانوں کو ان کے ارادے کی خبر ہو چکی تھی، انھو ں نے فوراً ان پر حملہ کر دیا۔ وہ بڑے دروازے کی طرف پلٹے تو عرب عیسائی ان پر پل پڑے۔دشمن کے اکثر فوجی مارے گئے اور تکریت فتح ہو گیا۔اب عبداﷲ نے ربعی بن افکل کو موصل کی مہم پر بھیجا۔انھوں نے وہاں پہنچ کر نینوا اور موصل ، دونوں قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔زیادہ دیر نہ گزری کہ یہاں کے رہنے والوں نے جزیہ دینے کی شرط پر صلح کر لی۔ تکریت سے ہر سوار کو ۳ ہزار درہم اور پیادہ کو ۱ہزار درہم مال غنیمت حاصل ہوا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو فرات کے کنارے پر واقع ایک اور شہرہیت میں فوجوں کے اجتماع کا پتا چلا تو خلیفۂ ثانی کے حکم پرعمروبن مالک کی کمان میں ایک لشکر وہاں بھیجا ۔انھوں نے دیکھا کہ اہل شہر قلعہ بند ہیں اورفصیل کے باہر خندق کھدی ہوئی ہے تو وہ حارث بن یزید کو وہاں چھوڑ کر قرقیسیا پہنچے اور اسے زیر کیا۔ان کے پیچھے ہیت والوں نے ہتھیار ڈال دیے اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔اب ایران وعراق کے سرحدی شہر ماسبذان میں ایران کی فوجی قوتیں جمع تھیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ضرار بن خطاب کی سربراہی میں ایک لشکر وہاں بھیجا ، ماسبذان کے میدان میں ان کی ایرانی فوجوں سے مڈبھیڑ ہوئی۔ انھیں شکست دینے کے بعد ضرار نے ماسبذان شہر پر قبضہ کیا ،وہاں کے باشندگان شہر خالی کر کے پہاڑوں پر جا چکے تھے۔ انھوں نے ان کو جزیہ ادا کر کے اطمینان سے اپنے گھروں میں واپس آنے پر آمادہ کیا۔اسی اثنا میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب کی طرف سے جنوبی عراق کے لیے مقرر کردہ کمانڈر عتبہ بن غزوان کئی ہفتوں کی سخت جنگ کے بعد بصرہ کے قریب واقع ابلّہ کی بندر گاہ فتح کر چکے تھے۔وہاں کے ساکنان فرار ہو کر دست میسان پہنچے تو انھوں نے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔اس فتح کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ کو مدینہ طلب کیا، کیونکہ انھیں خیال ہوا کہ میری سپاہ دنیا کی حرص کرنے لگی ہے۔عتبہ، مجاشع بن مسعود کو اپنا نائب بنا کر آئے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو سرزنش کی کہ صحابئ رسول یا قریشی کے ہوتے کسی دوسرے کو امارت نہ دی جائے ، انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ کو امیر جیش مقرر کرنے کا حکم دیا ۔
سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے عراق سے آنے والے فوجیوں کی صحتیں خراب ہوتی دیکھیں تو اس کا سبب دریافت کیا۔ انھیں بتایا گیاکہ وہاں کی آب و ہوا عربوں کو موافق نہیں۔ ادھرحذیفہ بن یمان نے مدائن سے رپورٹ بھیجی، مسلمان فوجیوں کے پیٹ ساتھ لگ گئے ہیں، بازووں اور ٹانگوں سے گوشت اتر گیا ہے اوران کے رنگ سیاہ ہوگئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ہدایت بھیجی کہ یہاں کے لوگوں کو وہی آب و ہواموافق ہو گی جو ان کے اونٹوں کے لیے سازگار ہو ۔انھیں دریاؤں سے دور ان خشک سرزمینوں میں آباد کرو، جہاں پینے کے چشمے بھی ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے عبداﷲ بن معتم اور قعقاع کوایسی جگہ کے انتخاب کی ذمہ داری سونپی ۔ادھر مدینہ کے اہل رائے نے کوفہ کا مقام تجویز کیا جوفرات کے قریب ہونے کے باوجود صحر اسے دور نہیں ۔۱۴ہجری میں مدائن سے حضرت سعد آئے ،سب سے بلند جگہ کی نشان دہی کر کے وہاں مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔خسروی محلات سے حاصل شدہ سنگ مرمر کے ستونوں سے مسجد کی دو سو ہاتھ بلند چھت کھڑی کی گئی۔ ایک خندق کھود کر مسجد کی حدود مقرر کی گئیں۔ حضرت سعد نے بازار بنانے کے لیے مسجد کے گردا گردایک تیر کی مار کے برابر کھلا میدان چھوڑنے کا حکم دیا۔ایک ایرانی معمار نے مسجد کے پڑوس میں ایران کے شاہی محلات میں استعمال ہونے والی اینٹوں سے ’’ قصر سعد ‘‘ تعمیر کیا ، بیت المال بھی یہیں تھا۔اس کے پاس فوجیوں کی کالونی بن گئی ، ہر قبیلے نے اپنے لیے جگہ مقرر کر کے خیمے لگا لیے۔اب حضرت سعد نے امیر المومنین کو مطلع کیا کہ میں نے حیرہ و فرات کے بیچ کوفہ میں قیام کر لیا ہے ۔مسلمان کوفہ و مدائن میں سے جس شہر میں رہنا چاہیں، رہ سکتے ہیں۔کوفہ میں کچھ عرصہ گزرا تو فوجیوں کی صحتیں بحال ہوگئیں، انھوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے نرکل کے گھر بنانے کی اجازت چاہی ۔ جب یہ گھر بن گئے تو ان میں آگ لگ گئی، اب خلیفہ سے اینٹوں کے گھر تعمیر کرنے کی اجازت چاہی گئی، انھیں اجازت مل گئی، لیکن فاروق اعظم نے حکم دیاکہ ۳ کمروں سے زیادہ نہ بنائے جائیں اور اونچی عمارتیں کھڑی نہ کی جائیں۔ جب فتنہ پردازوں نے انھیں شکایت ارسال کی کہ حضرت سعد نماز صحیح طور پر ادا نہیں کرتے،انھوں نے اپنے نام پرایک محل بنایا ہے،اس کے باہر ایک الگ دروازہ بنا کر اس پر پردہ لٹکا دیا ہے تو انھوں نے محمد بن مسلمہ کو تحقیقات کے لیے بھیجا ۔انھیںیہ دروازہ جلانے کا حکم تھا، جبکہ حضرت سعد کو ہدایت تھی کہ اس قصر کو خالی کر کے بیت المال کے قریب کسی کمرے میں مقیم ہو جاؤ، جہاں عام لوگوں کو روکنے کے لیے الگ دروازہ نہ ہو ۔ محمد بن مسلمہ کوفہ پہنچے تو الزامات درست نہ پا کر لوٹ آئے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی حضرت سعد کو بے قصور مان لیا۔ کوفہ کے بعد۱۸ہجری میں بصرہ کی تعمیر ہوئی، اس کے لیے ابلّہ کے قریب دجلہ و فرات کے ڈیلٹا کا انتخاب کیا گیا، یہیں سے یہ دونوں دریا خلیج فارس میں گرتے ہیں ۔بلاذری کے خیال میں عتبہ بن غزوان نے ۱۴ہجری میں کوفہ آباد ہونے سے پہلے امیر المومنین سے یہاں شہر بسانے کی اجازت چاہی۔
خلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی پالیسی تھی کہ ایران و عراق کی مفتوحہ زمینیں کسانوں کے پاس رہیں، چاہے وہ اسلامی غلبے کے وقت اپنی زمینوں پر موجود رہے ہوں یا جنگ سے ڈر کر بھاگ گئے ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے ان کسانوں کو ذمی قرار دیا۔عوام الناس کی جائدادوں کے بر عکس شاہی زمینیں اور جنگ میں حصہ لینے والے دہقانوں اور امراکی زمینیں خلافت اسلامی کی ملکیت قرار دی گئیں، البتہ ان پر کام کرنے والے عراقی انھی سے غلہ حاصل کرتے۔ خراج، جزیہ اور ان زمینوں سے حاصل ہونے والی آمدن سے فوجیوں ، ان کے اہل خانہ اور دفاع کی دوسری ضروریات پوری کی جاتیں۔فوجیوں کی خواہش تھی کہ مفتوحہ زمینیں بانٹ کران کی ملک میں دے دی جائیں ۔ عمر رضی اﷲ عنہ کا جواب تھا: اگر تمھاری طرف سے باہم قتل و غارت کااندیشہ نہ ہو تاتو ہم ایسا کر گزرتے۔ مزیدبرآں ان کا یہ خیال تھا کہ فوجی اگر زمین داری میں لگ گئے تو اسلامی فوج کی ہےئت متاثرہو گی۔ ابھی ایران و روم سے کشمکش اپنے انجام کو نہ پہنچی تھی،ویسے بھی کوئی مملکت فوج کے بغیر نہیں چل سکتی۔اب اہل بصرہ نے شکایت کی: اے امیرالمومنین، کوفہ والے میٹھے پانی اور گھنے باغات سے مستفید ہو رہے ہیں، ہم کھارے سمندر اور بیابان کے بیچ ایک شور زمین میں آ پڑے ہیں، جہاں کھیتی ہے نہ مال،ہماری عورتیں پانی بھرنے چھ چھ میل دورجاتی ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے گورنر کوفہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کو ہدایت کی کہ بصرہ سے ۱۸ میل دور شمال میں بہتے ہوئے دجلہ سے نہر کھود کر بصرہ لائی جائے۔ انھوں نے باقی قابل زراعت زمین تک آب رسانی کا حکم بھی دیا۔ عراق میں موجودایرانی انجینئروں نے جنگ کے دوران میں تباہ ہونے والی عمارتوں اور پلوں کوازسرنو تعمیر کیا ۔
جب اسلامی افواج کے سر براہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲ عنہ حماص اور انطاکیہ کی مہموں کی سرکردگی کر رہے تھے، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ فلسطین میں رومی قوتوں کا سامنا کر رہے تھے۔ہر طرح کے آلات حرب سے لیس یہ ایک بھاری فوج تھی ،اس کی کمان ایک بڑے رومی جرنیل ارطبون (Tribunus)یا اطربون کے پاس تھی، جس نے رملہ ، ایلیا، غزہ اور نابلس میں بڑی بڑی نفریاں متعین کر رکھی تھیں۔ حضرت عمرو بن عاص نے حضرت عمررضی اﷲ عنہ کو مطلع کیاکہ اگر ہم اس لشکر کے ایک حصے پر حملہ کرتے ہیں تو یہ تمام اطراف سے یکجا ہو کر ہم پر حملہ آور ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ بن ابوسفیان کو قیساریہ فتح کرنے کی ہدایت کی۔ یہ سمندر کے پاس ایک قلعہ نما شہر تھا ،یہاں بے شمار رومی فوجیں متعین تھیں اور سمندر کی طرف سے آنے والی کمک یہیں سے ہو کر آتی۔ معاویہ قیساریہ پہنچے اور قلعے کا محاصرہ کر لیا ۔ایک طویل محاصرے کے بعد رومی فوج مقابلے کے لیے نکلی اور ۸۰ ہزار جانوں کا نذرانہ دے کر بھاگ نکلی۔اس کے بعدمسلمانوں نے غزہ کو زیر کیا۔ اس دوران میں ارطبون (اطربون) کی فوج نے اجنادین کی طرف حرکت شروع کی تو حضرت عمرو بن عاص نے اسے روکنے کے لیے علقمہ بن حکیم اور مسروق عکی کو ایلیا اور ابوایوب مالکی کو رملہ بھیجا ۔اس کے ساتھ انھوں نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ سے مدد طلب کی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرما یا: ہم روم کے ارطبون (اطربون)کی طرف عرب کا ارطبون بھیجیں گے۔ حضرت عمرو بن عاص نے ان کی طرف سے آنے والی کمک کا کچھ حصہ ایلیااور رملہ بھیج دیا اور باقی تمام فوج لے کر اجنادین کا رخ کیا، وہاں رومی خندقیں کھود کر قلعہ میں مامون بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عمرو بن عاص نے داخلے کے لیے حیلے سے کام لیا۔ پہلے صلح کی بات چیت کے لیے ایلچی بھیجے، لیکن جب ان سے اندرون کے بارے میں تسلی بخش معلومات نہ ملیں تو خودبھیس بدل کر قلعہ میں گئے۔ ارطبون(اطربون) کو شک ہو گیا کہ اسلامی فوج کا سپہ سالار خود یہاں موجود ہے، اس نے اپنے خصوصی دستے کے ایک سپاہی کو حکم دیا کہ انھیں قلعہ سے واپس جاتے ہوئے قتل کر ڈالے۔ حضرت عمرو بن عاص کو اس کے ارادے کا فوراً احساس ہو گیا، انھوں نے ارطبون سے کہا: میں حضرت عمر بن خطاب کے ۱۰ خاص آدمیوں میں شامل ہوں جو انھوں نے اس جرنیل کے ساتھ بھیجے ہیں ۔میں اپنے باقی ساتھیوں کو بلا کر لاتا ہوں،اگر وہ بھی متفق ہوگئے تو تمام لشکر ہمارے سمجھوتے پر عمل پیرا ہو جائے گا۔ یوں وہ جان بچاکر نکلے،اب ان کا جنگی منصوبہ بھی تیار تھا۔ یہاں یرموک جیسی شدیدجنگ ہوئی اور طرفین کا بہت جانی نقصان ہوا۔مسلمان ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے تھے، لیکن رومیوں کا حال مختلف تھا۔ ایک دن جنگ میں وقفہ ہوا تو رومی کمانڈر ارطبون (اطربون)نے اپنی فوج پرتھکن کے آثار دیکھے، سپاہی پریشاں صف تھے۔ وہ گھسٹتا ہوا پیچھے کو مڑا، اس کا رخ بیت المقدس (ایلیا) کی جانب تھا ۔ علقمہ اور مسروق نے اسے فوراً راستہ دے دیا تو وہ بیت المقدس میں داخل ہو گیا۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ نے رفح، سبسطیہ، نابلس، عمواس اور یافا کے علاقوں پر قبضہ کر کے ارطبون کی سمندر کی طرف واپسی کی راہیں مسدود کر دیں۔ اب ایلیا اور رملہ دو مقامات رہ گئے تھے، جہاں مسلمان رومی افواج کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ایلیا(بیت المقدس) قدیم زمانے سے ایک مضبوط قلعہ تھا، اس لیے مختلف اور متضاد روایتوں میں سے ایک یہی روایت قرین قیاس لگتی ہے کہ اسے فتح کرنے کے لیے مسلمانوں کو ایک طویل محاصرہ کرنا پڑا۔ حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح اس محاصرے میں شریک نہ تھے، اس لیے کہ وہ عین اس وقت (۱۵ھ، ۶۳۶ء) حمص اور انطاکیہ کی جنگوں میں مشغول تھے۔ بیت المقدس کے باسیوں کو یقین تھا کہ دوسرے شہروں کی طرح یہ شہربھی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اسی لیے وہاں کے لاٹ پادری صفرنیوس نے صلیب اعظم اور قیمتی مذہبی نوادرات سمندر کے راستے قسطنطنیہ کے بڑے گرجے ایا صوفیا میں رکھنے کے لیے بھیج دیے۔
محاصرے نے طول کھینچا تو حضرت عمرو بن عاص نے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کو خط لکھا کہ مجھے ایک دشوارملک میں مشقتوں سے بھر پور جنگ کا سامنا ہے۔اس سے پہلے ارطبون براہ راست حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو یہ دھمکی آمیز چٹھی ارسال کر چکا تھاکہ لوٹ جاؤ ،ورنہ شکست کا سامنا کرنا ہوگا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں موجود اہل رائے کو حضرت عمرو بن عاص کاخط سنایا اور ایلیا جانے کے بارے میں مشورہ کیا۔سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے مدینہ ہی میں موجود رہنے کاسجھاؤ دیا، جبکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کہا: بیت المقدس جانا بہتر ہے ،اس سے وہاں پر موجودمسلمان مطمئن ہوجائیں گے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسی رائے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ،پہلے انھوں نے ایک لشکر بیت المقدس روانہ کیا پھر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کر کے خود عازم سفر ہوئے۔ان کے بیت المقدس (ایلیا) پہنچنے سے قبل ارطبون مصر کو کھسک چکا تھا اوربوڑھا پادری صفرنیوس شہر ان کے حوالے کرنے کو تیار تھا۔فاروق اعظم مدینہ سے جابیہ پہنچے ،یزید بن ابوسفیان، حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح ان سے ملاقات کرنے آئے۔ انھوں نے ان ا صحاب رسول کو ریشمی لبا س پہنے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا، گھوڑے سے اترے اور پتھر مار کر چلائے: تم اس ہےئت میں میرا استقبال کرنے آئے ہو۔ عذر پیش کیاگیا کہ امیرالمومنین، یہ تو جنگ میں استعمال ہونے والی ایرانی قبائیں ہیں،اس وقت ہم پوری طرح اسلحے سے لیس ہیں تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا غصہ فرو ہوا، پھر انھوں نے ان سے صلاح مشورہ کیا ۔ وہ جابیہ ہی میں تھے کہ صفرنیوس کے ایلچی ان سے معاہدۂ صلح کرنے آئے ۔اس صلح نامے میں تحریر تھا: ایلیا میں رہنے والوں کو جان ومال کی امان دی جاتی ہے، ان کے گرجوں کو گرایا جائے گانہ ان کی صلیبوں کو منہدم کیا جائے گا، ان کے مذہبی معاملات میں کوئی زبردستی نہ ہو گی،انھیں جزیہ دینا ہو گا، یہ رومیوں کو اپنے شہر سے نکال دیں گے، جو ان کے ساتھ رہے گا، اسے بھی امان حاصل ہوگی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے معاہدے پر دستخط کیے اور حضرت خالد بن ولید، حضرت عمرو بن عاص، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابوسفیان نے گواہی دی۔
ایلیا کے بعد رملہ اور لدکے رہنے والوں نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے ساتھ معاہدات صلح کیے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے علقمہ بن حکیم کو رملہ کا اور علقمہ بن مجرز کو ایلیا کا عامل مقرر کیا۔پھر وہ حضرت عمرو بن عاص اور حضرت شرحبیل بن حسنہ کی معیت میں بیت المقدس کو روانہ ہوئے۔کچھ روایات کے مطابق حضرت ابو عبیدہ اور حضرت خالد بھی ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اونٹ پر سوار تھے ، ایک غلام آپ کا ہم رکاب تھا ، دونوں باری بار ی اونٹ پر سوار ہوتے ۔ جب وہ بیت المقدس پہنچے تو غلام سوار تھا اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ مہار پکڑے ہوئے تھے۔ صفرنیوس اور دوسرے عمائدین شہر نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ فوری طور پر محراب داؤد پہنچے، وہاں آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ ادا کیا۔ رات انھوں نے شکرانے کے نفل ادا کرنے میں گزاری اوراپنے ساتھیوں کو فجرکی نماز پڑھانے کے بعد صفرنیوس کے ساتھ شہر کے آثار دیکھے۔وہ کنیسۂ قیامت میں تھے کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ صفرنیوس نے انھیں وہیں پر نماز ادا کرنے کی دعوت دی، لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے معذرت کرلی۔ انھوں نے کنیسۂ قسطنطین کے دروازے پر بھی نماز نہ پڑھی، جہاں ان کے لیے چادر بچھائی گئی تھی ۔وہ گرجوں سے دور ہیکل سلیمانی کی چٹان صخرۂ یعقوب کے پاس آئے اور وہاں نماز ادا کی، بعد میں اسی جگہ مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی۔ عیسائیوں کی عبادت گا ہوں میں نماز پڑھنے سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس لیے اجتناب کیا کہ مسلمان انھیں مساجد میں نہ تبدیل کر ڈالیں۔ اگرچہ انھوں نے کنیسۂ مہد میں نماز پڑھ لی، لیکن بعد میں یہ تحریر لکھ کر دی: یہ گرجا نصاریٰ کا ہے ، بیک وقت ایک سے زیادہ مسلمان اس میں داخل نہ ہوں گے۔مشہور روایت کے مطابق بیت المقدس ۱۵ھ میں فتح ہوا ، کچھ مورخین ۱۶ہجری کا سن بتاتے ہیں۔ بیت المقدس سے واپسی پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کچھ دن جابیہ میں رہے۔ جب وہ مدینہ پہنچے تو حضرت علی اور دوسرے اصحاب رسول رضی اﷲ عنہم نے ان کا استقبال کیا۔
مطالعۂ مزید:تاریخ الامم والملوک(طبری)،البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)، الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )،تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2007
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Jan 17, 2017
2823 View