عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (4) - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر فاروق رضی ﷲ عنہ (4)

سیرت و عہد

جنگ قادسیہ کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ شام کے محاذ کی تفصیلات بیان کی جائیں، اس لیے کہ وہاں کچھ واقعات اس جنگ سے پہلے پیش آئے جب عمر رضی اﷲ عنہ مدینہ میں فوج تشکیل دے رہے تھے ، جب مثنیٰ بن حارثہ نے وفات پائی اور کچھ قریباً اسی زمانے میں جب اسلامی فوجیں قادسیہ میں ایرانیوں کے خلاف صف آرا ہوئیں۔ پھر ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے پہلے شام کے جہاد میں حصہ لیا ا ور بعد ازاں ایران چلے آئے، جیسے خالد بن ولید، ہاشم بن عتبہ اور ابو عبیدہ بن جراح۔
ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آخری ایام میں چھڑنے والی جنگ یرموک میں فتح پانے کے بعد نئے کمانڈر ان چیف ابوعبیدہ بن جراح نے خمس مدینہ بھیجا اور خلیفۂ ثانی عمر رضی اﷲ عنہ کو مطلع کیا کہ وہ یرموک بشیر بن سعد حمیری کی نگرانی میں دے کر مرج الصُفّر جار ہے ہیں۔ انھوں نے یہ اطلاع بھی بھیجی کہ یرموک کے شکست خوردہ فِحل میں جمع ہو رہے ہیں،دوسری طرف شاہ روم ہرقل نے حمص سے دمشق کی طرف نئی فوج روانہ کی ہے ۔ ابو عبیدہ نے خلیفہ سے اجازت چاہی کہ اردن کے مقام فِحل پر حملہ کیا جائے یا دمشق کا رخ کیا جائے؟ حضرت عمر نے فوراً پیغام بھیجا ،دمشق پر حملہ کیا جائے جو شام کا قلعہ اور دارا لخلافہ ہے۔ابو عبیدہ نے خط ملتے ہی ابو اعورسُلمی کی قیادت میں دس دستے فِحل بھیج دیے اور خود خالد بن ولید کے ساتھ ایک بڑی فوج لے کر دمشق کو چلے۔فحل کے لوگوں نے اسلامی فوج کی آمد کی خبر سنی تو بحیرۂ طبریہ اور نہر اردن کا پانی کھول دیا۔ مسلمان لشکر کا راستہ کیچڑ سے بھر گیا اوراس کی پیش قدمی رک گئی۔اسے اسی حالت میں رکنا پڑا یہاں تک کہ دمشق کو جانے والی فوج فارغ ہو کر اس کی مدد کو پہنچ گئی۔ادھرابو عبیدہ کا لشکر تیزی سے نہروں، چشموں اورسرسبز وادیوں والی سر زمین عبور کر کے دمشق جا پہنچا، راستے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔دمشق کا نواحی علاقہ غُوطہ خالی ہو چکا تھا ، وہاں کے ساکنان شہر پناہ کے اندر جا چکے تھے۔ موٹے پتھروں سے چنی ہوئی چھ گز بلند فصیل کے گردا گرد تین گز چوڑی خندق کھدی ہوئی تھی اور اس کے کنارے نہر بَرَدی کا پانی جاری تھا۔ شہر کا دفاع کرنے کے لیے کئی منجنیقیں اور سینکڑوں تیر انداز موجود تھے۔ ابوعبیدہ بن جراح کواندازہ ہو گیا کہ فتح پانے کے لیے طویل محاصرہ کرنا ہو گا۔انھوں نے اپنے سپاہیوں کو غوطہ کے خالی گھروں میں قیام کرنے کا حکم دے دیا اور خودہرقل کی طرف سے آنے والی ممکنہ فوجی مدد بے اثرکرنے کی تدبیر کرنے لگَے۔ چنانچہ انھوں نے ذو الکلاع حمیری کی قیادت میں ایک لشکر روانہ کیا جس نے حمص اور دمشق کے راستے میں چھاؤنی ڈال دی، علقمہ بن حکیم اور مسروق عکی کی سربراہی میں دوسرے لشکر نے فلسطین سے دمشق آنے والی کمک کا راستہ کاٹ دیا۔اب وہ قلعے کی طرف بڑھے اورتوما،فرادیس ،کیسان کے دروازوں پرعمرو بن عاص، شرحبیل بن حسنہ اوریزید بن ابو سفیان کی نگرانی میں علیحدہ علیحدہ دستے مقرر کر دیے اور خود جابیہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ خالد بن ولید مشرقی دروازے پر تھے ، پاس صلیبا کا بت خانہ تھاجو بعد میں دیر خالد کے نام سے مشہورہو گیا۔ مسلمانوں نے توپیں اور منجنیقیں نصب کر کے قلعے پر حملہ کرنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ حاکم شہر نسطاس اورسالار افواج باہان ہرقل کی کمک کے انتظار میں محاصرے کو طول دیتے گئے،مسلمان بھی قلعہ میں داخل ہونے کا راستہ نہ پا سکے۔ادھرحمص سے آنے والی فوج کی ذو الکلاع کے لشکر سے مڈبھیڑ ہوئی ،ایک سخت لڑائی کے بعد رومی فوج کو شکست کھا کر پلٹنا پڑا۔اب محصورین کوموسم سرما کا انتظارتھا، ان کے خیال میں عرب کے صحرائیوں کے لیے سخت سردی برداشت کرنا مشکل تھا ۔ سرماآ کر گزر گیا، بہار آگئی ،چار ماہ (شوال ۱۳ھ، دسمبر۶۳۴ء تاصفر۱۴ھ، اپریل ۶۳۵ء) ہونے کو آئے، ہرقل کی مدد آئی نہ مسلمان محاصرین ٹلے۔ چنانچہ قلعہ بند صلح کی تدبیریں کرنے لگے ۔
خالد بن ولید اپنی مقررہ پوسٹ مشرقی دروازے پر معین رات دن رومیوں کی ٹوہ میں تھے۔انھیں خبر ملی کہ قلعے کو جانے والے راستے پر کسی بڑے کمانڈر کے گھر میں بچے کی ولادت ہوئی ہے، لوگ خوشیاں منا کراور کھا پی کر مدہوش پڑے ہیں ۔انھوں نے رسوں کی سیڑھیاں اور کمندیں تیار کر رکھی تھیں،رات ہوئی تووہ قعقاع بن عمرو ،مذعور بن عدی اور کچھ اور بہادروں کو لے کر نکلے ،مشکیزوں پر بیٹھ کر بَرَدی کو عبور کیا اور فصیل قلعہ پر کمندیں پھینک کر سیڑھیاں نصب کر لیں۔منڈیر پر پہنچ کر سیڑھیاں کھینچ کراندر کو پھینکیں اور قلعے میں اتر گئے، ان کے ساتھیوں نے نعرۂ تکبیر بلند کیاتو فوج بھی نہر پار کر کے مشرقی دروازے کی طرف لپکی ۔دروازے کے اندر اور باہر متعین پہرے داروں اور مسلمان فوجیوں میں مختصر لڑائی ہوئی اور غافل رومی فوجی جلد مغلوب ہو گئے۔سب سے مضبوط اور اہم مشرقی دروازہ کھل گیا تو باقی دروازے رومیوں نے خود کھول دیے اور امیر جیش حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے صلح کر لی۔اس معرکے کے ہیرو بھی حضرت خالد ہی رہے،انھیں شہر کے لاٹ پادری (اسقف)اور جاسوسوں کی مدد حاصل رہی۔
مشرق و مغر ب کی تجارت کا سنگم، قدیم دمشق شہری تہذیب کا ایک نمونہ تھا۔جابیہ سے مشرقی دروازے تک جانے والی سیدھی سڑک کے کنارے پر جوشہر کو مشرقی ومغربی حصوں میں منقسم کرتی ،ہر طرح کے تجارتی مراکز تھے۔ بَرَدی بھی شہر کے بیچ میں سے گزرتی ،اس کے دونوں اطراف پر بڑے بڑے باغات پر مشتمل بلند محلات تھے۔دمشق میں رومی فن تعمیر کا نمونہ ،کئی خوب صورت گرجے بھی تھے،ان کے علاوہ یہاں کے پارک ،اسٹیڈیم اور حمام دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے پھر نعمان بن منذر کے محلات خورنق و سدیر کا کیا کہنا ۔بلاذری کہتے ہیں کہ صلح خالد بن ولید اور اسقف دمشق کے درمیان طے پانے والی شرائط پر ہوئی،ان کے مطابق محض جزیہ کی وصولی پر اہالیان شہر کو امان دی گئی۔ واقدی اس پر اضافہ کرتے ہیں کہ جو لوگ اپنے گھر چھوڑ کر انطاکیہ میں ہرقل کی فوج سے جا ملے ،ان کے گھروں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا۔طبری کا کہنا ہے کہ رومی محاصرے سے عاجز آ گئے تو انھوں نے شہر میں موجود تمام درہم و دینار اور جائداد کا نصف مسلمانوں کو دینے اور جزیہ ادا کرنے کی شرط مان لی ۔ابن کثیر نے اس کی وضاحت یوں کی کہ آدھا شہرحضرت ابو عبیدہ نے بزور جنگ فتح کیا اور آدھا حضرت خالد نے صلح کے ذریعے سے۔اس لیے ان روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔یوحنا معمدان کے کلیسا کا نصف اسی تقسیم کے مطابق مسجد بنایا گیا،بقیہ نصف خرید کر مسجد میں شامل کرنے کے لیے امیر معاویہ اور عبد الملک بن مروان نے اپنے اپنے عہد میں عیسائیوں کو بھاری رقم دینے کی پیش کش کی، لیکن وہ نہ مانے حتیٰ کہ ولید بن عبدالملک نے اسے زبردستی گرا کر مسجد بنا ڈالی ۔پانچویں خلیفۂ راشد عمر بن عبد العزیز کے سامنے یہ مقدمہ پیش ہوا تو انھوں اسے دوبارہ کلیسا کی شکل دینے کا حکم دیا۔تب فقہاے دمشق نے نصاریٰ کی منت سماجت کی اور غُوطہ کے تمام مفتوحہ گرجے واپس کر کے یہ نصف بھی بچا لیا۔اس ساری تفصیل کے علی الرغم بلاذری کی روایت کثیرالتواترہے اورقرین قیاس بھی۔ اس کے مطابق یوحنا کاکلیسا عبدالملک بن مروان نے نصاریٰ کی رضامندی سے مسجد میں تبدیل کیا ۔فتح دمشق اور معاہدۂ صلح کی رپورٹ حضرت عمر بن خطاب تک پہنچی تو انھوں نے جزیہ کی شرح میں کچھ تبدیلی کی اور گندم، زیتون، شہد اور چربی کی کچھ مقدار کے علاوہ امرا کے لیے چار دینار اور کم آمدنی والوں کے لیے چالیس درہم مقرر کرنے کا حکم دیا۔
جیش خالد عراق سے آ کر شام کی جنگ میں شامل ہوا تھا، اس میں بڑے بڑے جنگ جو شامل تھے ۔فتح دمشق کے بعد حضرت ابو عبیدہ نے شہدا کے عوض نئی بھرتیاں کیں ، ہاشم بن عتبہ کو قیادت سونپی اور عمر رضی اﷲ عنہ کی ہدایت کے مطابق اسے عراق واپس بھیج دیا۔یہ لشکر عام تجارتی راستے سے ذی قار کے لیے روانہ ہوا،اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھاکہ یہ قادسیہ کی جنگ میں حصہ لے گا ۔اسی اثنا میں ہرقل اپنی فوج لے کر حمص سے انطاکیہ کوچ کر گیا ۔ ابو عبیدہ کو ان کے ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ اب حمص فتح کیا جائے تاکہ ہرقل اناضول یا قسطنطنیہ پلٹنے پر مجبور ہو۔اگر ایساہو جاتا تو رومی سلطنت کی کمر ٹوٹ جاتی، لیکن انھوں نے یہ سجھاؤ نہ مانا۔ کیونکہ حضرت عمر کا حکم تھا کہ پہلے شام میں رومی فوج کی مکمل سر کوبی کی جائے۔ ابو عبیدہ بن جراح نے یزید بن ابو سفیان کودمشق کی کمان دی اور خود اردن کے مقامات فحل و طبریہ کا رخ کیا، جہاں اسلامی فوجوں کی پیش قدمی رکی ہوئی تھی اور رومی فوج کو وادئ بیسان میں محصور ہوئے پورا موسم سرما گزرچکا تھا۔ بہار کی آمد کے ساتھ کیچڑ خشک ہونا شروع ہو گیا تھا، فحل میں رومی فوجوں کے کمانڈر سقلار بن مخراق نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنے کی ٹھانی۔اس نے خشک راستہ ڈھونڈ کر رات کے وقت اسلامی فوج پر دھاوا بول دیا۔اردن میں اسلامی افواج کے سالار شرحبیل بن حسنہ غافل نہ تھے ،سخت جنگ ہوئی جو رات بھر اور اگلا پورا دن جاری رہی، اگلی شب رومیوں کی صفیں اکھڑیں اور سقلارکی فوج شکست کھاگئی۔ادھر سے مسلمان سپاہی تیر اندازی کر رہے تھے ،پیچھے کیچڑ تھا ،رومیوں کا اچانک حملہ خود ان کے لیے وبال بن گیا ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ،اسی ہزار رومی مارے گئے۔ فحل سے فارغ ہونے کے بعد شرحبیل اور عمرو بن عاص بیسان پہنچے ،وہاں کے قلعہ بند بھی صلح پر مجبور ہو گئے۔ آخری مقام طبریہ تھا جہاں ابو اعور سُلمی محاصرہ کیے ہوئے تھے ،وہاں کے سکان نے خودپیش رفت کی، نصف شہر مسلمانوں کے حوالے کیا اورایک دینار اور ایک پیمانہ گندم فی کس جزیہ دینے پر صلح کرلی۔ اب اذرعات، عمان،جرش ،مآب اور بصریٰ کے باشندوں نے بھی یہی روش اختیار کی اور پورا ملک اردن مسلمانوں کا مطیع ہو گیا۔اس تمام کارروائی کی خبر مدینہ میں خلیفۂ ثانی کو بھیج دی گئی۔
عمر رضی اﷲ عنہ میدان جنگ کی ہر خبر دریافت کرتے ، اپنے ایام تجارت میں وہ ایران و عراق کا بڑا حصہ دیکھ چکے تھے، اس لیے مدینہ میں بیٹھ کر ہر جگہ اور ہر مقام کی رہنمائی کرتے گویا وہ خود لشکر لے کے چل رہے ہیں ۔اگر انھیں فوجوں کی پوزیشن سمجھ نہ آتی تو تفصیل طلب کرتے اور اس کے مطابق فیصلہ دیتے۔ اردن سے فارغ ہونے کے بعدحضرت ابوعبیدہ اور حضرت خالدبن ولید حمص کو چلے تو مدینہ منورہ سے حضرت سعد بن ابی وقاص کی سر کردگی میں تیس ہزار کا لشکرروانہ ہو چکا تھا۔یہ حضرت عمر کی ہدایت پرشراف سے قادسیہ پہنچا تو رستم بن فرخ ذاذ مدائن سے ساباط آیا ، اس نے دارالخلافہ سے قادسیہ پہنچنے میں چار ماہ لگا دیے، کیونکہ اسے علم نجوم کی مدد سے اپنی شکست کا پتا چل چکا تھا۔اس دوران میں سعد نجف، فراض اور دوسرے قبائل پر حملے کر کے غلہ، مویشی اورغنیمتیں لاتے رہے۔ ۱ لاکھ۲۰ ہزارافراد اور ۳سو ہاتھیوں کا لشکرہوتے ہوئے، جس کے مقدمہ میں سابور کے فیل سفید سمیت ۳۳ ہاتھی تھے ،رستم عربوں کو لڑائی کیے بغیر ایران سے باہر نکالنا چاہتا تھا ۔اس نے سالار مدمقابل حضرت سعد بن ابی وقاص کو بات چیت کا پیغام بھیجا۔انھوں نے حضرت ربعی بن عامر کو بھیجا۔رستم دیبا و قالین کے فرش بچھائے، سونے کے تخت پر بیٹھا تھا۔ حضرت ربعی نے گھوڑا ایک گاؤ تکیے سے باندھا اور تیر سے قالین چاک کرتے ہوئے تخت پر آن بیٹھے ۔درباریوں نے منع کیا تو انھوں نے خنجر سے قالین کاٹا اور ننگی زمین پر بیٹھ گئے۔ رستم سے کچھ نوک جھوک کے بعدانھو ں نے وہی شرائط دہرائیں جو پہلے یزدگرد کو پیش کی جا چکی تھیں۔رستم کے ساتھی بھڑکے، لیکن اس نے حضرت ربعی کو اچھی طرح رخصت کیا اور اگلے دن حضرت سعد کو پھر صلح کی گفتگو کرنے کا پیغام بھیجا،ان کے دوسرے ایلچی حضرت حذیفہ بن محصن گھوڑے پر سوار ہی تخت کے پاس جا پہنچے۔ انھوں نے بھی اسلام،جزیہ یاقتال کی بات کی تو رستم نے انھیں الوداع کہا ۔تیسرے روز اس کے کہنے پرحضرت مغیرہ بن شعبہ سفیر بن کر آئے،انھیں اس نے لالچ دیا اور دھمکایا ،اس طرح بات ختم ہوگئی۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت چلی آ رہی تھی کہ اس طرح کی سفارت کاری تین روز سے زیادہ نہ کی جائے، لہٰذاجنگ کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ایک رائے ہے کہ رستم اس طرح کچھ وقت ٹالنا چاہتا تھا، اس کا خیال تھاکہ مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔ اب رستم نے پوچھا کہ ہم نہر عتیق عبور کریں یا آپ ادھر آئیں گے؟جنگ جسر کا تجربہ ابو عبیدہ کے ذہن میں تھا ، انھوں نے ایرانی فوج کو دوسری طرف آنے کی دعوت دی۔ رات کے اندھیرے میں ایرانیوں نے نہر عتیق کو مٹی ،نرکل اور اپنے فالتوسامان سے پاٹ دیا اور اسی پر سے فوج،ہاتھی اور دوسرا سامان گزرا۔اب دونوں فوجیں ایک فیصلہ کن معرکے کے لیے آمنے سامنے تھیں۔ یزدگرد کو پل پل کی خبر مل رہی تھی،وہ رستم کے برعکس فتح کی امید لگائے ہوئے تھا۔اسے جب معلوم ہوا کہ قائد جیش اسلامی حضرت سعد پر عرق النسا (sciatica، چک) کے دیرینہ مرض نے غلبہ پا لیا ہے ، وہ سیدھابھی نہیں ہو سکتے ،تکیے کا سہارا لے کر مشکل سے کھڑے ہوتے ہیں اور چھت پرسے پرچیاں لکھ کر فوج کو احکام دیتے ہیں تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔مسلمانوں میں بھی بعض ایسے تھے جنھوں نے حضرت سعد پر بزدلی کا الزام لگایا ،وہ لوگوں کے کندھوں پر سوار ہو کر باہر آئے،ان کو اپنی بیماری کا یقین دلایا اور الزام تراشی کرنے والوں کو قید کرنے کا حکم دیا،ابو محجن ثقفی انھی میں شا مل تھے۔لوگوں کی تسلی پھر بھی نہ ہوئی تو سعد نے خالد بن عُرفُطہ کونائب مقرر کیااور طبیعت سنبھلتے ہی قیادت سنبھالنے کا وعدہ کیا۔ انھوں نے مغیرہ بن شعبہ ، عاصم بن عمرو، طلیحہ بن خویلد، عمرو بن معدی کرب ،شماخ اور حطےۂ کی ذمہ داری لگائی کہ اپنے خطبوں اور شعر وں سے سپاہیوں کو قتال پر انگیخت کریں۔ادھر رستم کی فوج ایران کا دفاع کرنے کے لیے پوزیشنیں سنبھال چکی تھی۔ جالینوس مقدمہ کی ، ہرمزا ن میمنہ کی اور مہران بن بہرام میسرہ کی کمان سنبھالے ہوئے تھے، رستم قلب میں اور بندران ساقہ پر تھا۔پونے دو لاکھ کے اس لشکر کا تیس ہزار کی مسلم فوج سے مقابلہ تھا جس کے میمنہ پر جریر بن عبداﷲ اور میسرہ پر قیس بن مکشوح تھے ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص نے دو بار اﷲاکبر کا نعرہ بلند کیا تو سپاہیوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ان کی تیسری تکبیر پرجنگ کا آغاز ہو گیا۔ سب سے پہلے ایرانی شہزادہ ہرمز مبارزت کے لیے نکلا،اسے اس کے مسلمان مدمقابل غالب اسدی نے گرفتار کر لیا۔ عاصم رضی اﷲ عنہ نے رجز پڑھتے ہوئے ایک ایرانی پر حملہ کیا ،وہ بھاگ گیا، لیکن شاہی نان بائی انھیں کھانا لے جاتے ہوئے نظر آگیا ،وہ اسی کوکھانے سمیت پکڑ لائے۔ عمرو بن معدی کرب لوگوں کی ہمت بڑھا رہے تھے، ایک تیر انداز نے ان کی زرہ پر تیر مارا ، انھوں نے اس کی گرد ن کاٹ ڈالی۔ ادھر حضرت سعد نے چوتھی بار نعرۂ تکبیر بلند کیا ،عام جنگ شروع ہو گئی۔بنو بجیلہ اگلی صفوں میں بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے، رستم نے۱۳ ہاتھی ان کی طرف ریل دیے ۔وہ ان کو مار ڈالنے کو تھے کہ امیر لشکر حضرت سعد نے ان کی مدد کے لیے پہلے بنو اسد پھر بنو کندہ کو بھیجا، تینوں قبیلوں کی فورس ملی تو بھی بہت جانی نقصان اٹھانے کے بعد ہاتھیوں کو پلٹنے میں کامیابی ہوئی۔ دونوں فوجیں اب گتھم گتھا تھیں،ایران کے جنگی ہاتھی ابھی بھی مسلمانوں کو کچل رہے تھے، سعد بن ابی وقاص نے ان پر تیر اندازی کا حکم دیا۔ اس تواتر سے تیر برسے کہ فیل نشین جواب نہ دے سکے ،وہ پسپا ہوئے تو شمشیر زنوں نے اپنے جوہر دکھائے۔رات ہو گئی تو جنگ قادسیہ کا پہلا دن ’’یوم ارماث‘‘تمام ہوا۔اگلے روز نماز فجر کے بعد شہداکی تدفین اور زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی، اس سے فراغت ہوئی تو صفیں ترتیب دی گئیں،اسی اثنا میں شام سے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کی کمک آنا شروع ہوگئی۔ہاشم بن عتبہ اس کے کمانڈر تھے،سب سے پہلے ایک ہزار پر مشتمل مقدمۃالجیش قادسیہ پہنچا۔ قعقاع بن عمرواس کی سرکردگی کر رہے تھے، انھوں نے آتے ہی حضرت سعد سے مبارزت کی اجازت مانگی۔بہمن جاذویہ ان کے مقابلے پر آیااور ہلاک ہوا، جب ان کے کئی نامی گرامی بہادراس سلسۂ مبارزت میں مارے گئے تو رستم نے عام حملہ کرنے کا حکم دے دیا ۔ہاشم نے اپنی فوج ٹکڑیوں میں بانٹی ہوئی تھی، تھوڑے تھوڑے وقفوں سے ایک حصہ نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہوا آتا اور جنگ میں شریک ہو جاتا ۔ایرانی پے درپے کمک آتی دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ہاتھیوں کے فتنے سے نمٹنے کے لیے اونٹوں پر بڑی بڑی جھولیں ڈالی گئیں، ایرانی گھوڑے ان سے ہیبت کھانے لگے۔ابو محجن ثقفی جنھیں حضرت سعد نے قید کر رکھا تھا،عرب کے مشہور شاہ سوار تھے۔جنگ کا غوغا بلند ہونے پر وہ بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے حضرت سعد کے پاس آئے اور ان سے جنگ میں حصہ لینے کی درخواست کی ۔انھوں نے ڈانٹ دیا تو مثنیٰ بن حارثہ کی بیوہ اور حضرت سعد کی نئی بیوی سلمیٰ کے پاس آئے اور ان سے بیڑیاں کھولنے کی التجا کی اور سعد کی گھوڑی بلقا عارےۃً مانگی ۔انکار پر جب انھوں نے درد بھرے اشعار پڑھے تو سلمیٰ کو ترس آ گیا اور انھیں جنگ میں جانے کی اجازت دے دی۔وہ میدان جنگ میں صفوں کو چیرتے دائیں بائیں گھومے اور دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔حضرت سعد کو یقین نہ آئے کہ میری گھوڑی پر قیدی ابومحجن سوارہے ۔رات کے وقت انھوں نے بلقا کو پسینے میں شرابورپایا تو سلمیٰ نے حقیقت بتا دی۔انھوں نے خوش ہو کر ابو محجن کو آزاد کر دیا ۔ نصف شب تک جاری رہنے والی دست بدست جنگ میں ایک ہزار مسلمان اور دس ہزار ایرانی کام آئے۔صرف قعقاع کے ہاتھوں تیس فارسی لڑاکے جہنم واصل ہوئے۔ایک جوشیلا مسلمان رستم کوقتل کرنے اس کے خیمے تک جا پہنچا، ایرانی فوجی اس پرپل پڑے اور اسے شہید کرڈالا،جنگ کا یہ دوسرادن ’’یوم اغواث ‘‘کہلایا۔
تیسرے روز بھی علی الصبح شہدا کی تدفین ہوئی،زخمیوں کی مرہم پٹی عورتوں کے ذمہ لگائی گئی۔فوجیں جنگ کو تیار تھیں کہ ہاشم بن عتبہ کے بقیہ دستے آ پہنچے ، اس بار بھی وہ ٹکڑیوں کی صورت میں آئے ۔ہر ٹکڑی نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے آتی اور لڑنے والی فوج میں شامل ہو جاتی۔ہاشم بن عتبہ اور قیس بن ہبیرہ پہلی ٹکڑی میں تھے۔ ایرانیوں نے کجاوے اور آلات حرب مرمت کر کے ہاتھیوں کو پھر اگلی صفوں میں شامل کیا ہوا تھا۔وہ مسلمان فوج کی ترتیب درہم برہم کرنے لگے تو قعقاع اور عاصم نے مل کر ہاتھیوں کے سرخیل ،فیل سفید کی آنکھ میں تیر مارا پھر تلوارسے اس کا کام تمام کر ڈالا۔ایک اور خارش زدہ ہاتھی بڑھ چڑھ کر حملے کر رہا تھا،بنواسد کے حمال اور ربیل نے اس کی آنکھیں پھوڑیں اور ہونٹ کاٹ ڈالے، وہ تڑپتا ہوا پلٹا اور دھاڑتا ہوا نہر عتیق میں جا گرا ۔رفتہ رفتہ تمام ہاتھی، سواروں کو گراتے ،اپنے لشکر ہی کو نقصان پہنچاتے ہوئے ایسے بھاگے کہ مڑ کر نہ دیکھا۔اسی دوران میں یزدگرد کی بھیجی ہوئی کمک آن پہنچی ۔ ایرانیوں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ پھر لڑنے لگے۔پورا دن جنگ کا بازار گرم رہا۔ غروب آفتاب پر وقفہ ہوا ، لڑائی پھر شروع ہوئی تو رات بھر جاری رہی ۔ رات کے کسی پہرطلیحہ اور عمرو نے نہر کی جانب سے فارسی لشکر کے عقب پر حملہ کیا ،ان کی دیکھا دیکھی قعقاع ،بنو اسد ،نخع ،بجیلہ اور کندہ کے دستے بھی کود پڑے۔ حضرت سعددعا میں مصروف تھے ۔ ۲۴ گھنٹے گزر گئے،جنگ جاری تھی۔چوتھے دن دوپہر کے وقت ایرانیوں کی صفیں اکھڑیں،فیرزان اور ہرمزان میمنہ و میسرہ میں گئے تو لشکر کے قلب تک رسائی آسان ہوئی۔اسی اثنا میں تیز ہوا سے رستم کا خیمہ اکھڑا، وہ خچر پر سوار ہونے لگا تھاکہ ہلال بن علقمہ نے اس پر برچھے کا وار کیا۔ اس کی کمر ٹوٹ گئی اور وہ نہر میں جا گرا،انھوں نے ٹانگیں پکڑ کر اسے باہر نکالا اور اس کا کام تمام کر دیا۔ ضرار بن خطاب نے درفش کاویان پر قبضہ کر لیا۔اب ایرانی پیٹھ پھیر کر بھاگے ، زہرہ بن حویہ،قعقاع اور شرحبیل نے ان کا پیچھا کیا۔ جالینوس مفروروں کو اکٹھا کر رہا تھا،زہرہ نے اسے قتل کیااور اس کے مال واسباب پر قبضہ کر لیا۔جنگ کے تیسرے دن کو ’’یوم عماس‘‘ اورچوتھی رات کو ’’لیلۃ الہریر‘‘ کا نام دیا گیا۔ حضرت سعد نے رستم کا۷۰ ہزار دینار پر مشتمل مال ہلال بن علقمہ کودے دیا ، جالینوس سے ملنے والی غنیمت اس قدر زیادہ تھی کہ انھیں دینے میں تامل ہوا۔سیدنا عمرنے تقسیم غنائم کے اسلامی اصولوں کے مطابق اس کی ساری دولت زہرہ بن حویہ تمیمی کو دینے کا حکم دیا،انھیں عام سپاہیوں سے ۵ سو درہم زیادہ بھی دیے گئے۔ہر گھڑسوار کے حصے ۶ہزاردرہم آئے، پیادہ کو۲ ہزار ملے۔خلیفۂ ثانی کے ارشاد پر خمس بھی یہیں بانٹ دیا گیا۔اس میں سے ہاشم بن عتبہ کے ان فوجیوں کو حصہ دیاگیا جو جنگ قادسیہ میں شامل نہ ہوسکے تھے اور فتح حاصل ہونے کے بعد پہنچے تھے،حفاظ قرآن کو الگ حصہ ملااور عمرو بن معدی کرب اور بشر بن ربیعہ کو ان کی دلیری کا انعام دیا گیا۔
عمر فاروق رضی اﷲ عنہ روز انہ صبح سویرے مدینہ سے باہر نکل جاتے اور قادسیہ کے قاصد کی راہ دیکھتے۔ایک دن وہ نکلے تو دور سے ایک شتر سوار آتا نظر آیا،یہ سعد بن عمیلہ فزاری تھے۔حضرت عمرنے دریافت کیاکہ کہاں سے آتے ہو، انھوں نے قادسیہ میں فتح کی خوش خبری دی۔امیر المومنین نے ان کی اونٹنی کی رکاب پکڑ لی۔وہ جنگ کے حالات سناتے جاتے اور یہ ساتھ دوڑتے جاتے تھے۔ اسی کیفیت میں مدینہ میں داخل ہوئے تو ان کو معلوم ہوا کہ یہ خلیفۂ وقت ہیں تو بہت گھبرائے، لیکن فاروق اعظم نے کہا کہ تم حالات سناتے جاؤ۔مسجد نبوی پہنچ کر انھوں نے لوگوں کو جمع کیا، فتح کی خوش خبری دی اور کہاکہ امر خلافت میری ذمہ داری ہے ،اگر میں اسے اس طرح انجام دوں کہ آپ لوگوں کو گھروں میں اطمینان نصیب ہو تو میری خوش قسمتی ہے۔
جنگ قادسیہ فتح ایران کا اہم باب ہے ۔اس جنگ نے مسلمانوں کے لیے خسروی دربار تک رسائی آسان کر دی،اسی طرح عرب کے بقیہ منتشر قبائل اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
مطالعۂ مزید: تاریخ الاسلام (ذہبی)،البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،الفاروق عمر (محمد حسین ہیکل )، تاریخ اسلام (اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2007
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Dec 28, 2016
3629 View