سانحۂ بادامی باغ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدمہ

سانحۂ بادامی باغ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدمہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایسی غیر معمولی کشش رکھتی ہے کہ بے تعصب غیر مسلم بھی آپ سے متاثر ہوئے بغیرنہیں رہ سکتے۔سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے کہا:  

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں

 غیر مسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محض جذباتی قسم کی محبت رکھ سکتے ہیں۔ مگرمسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محض ایک محبوب ہی نہیں، بلکہ واجب الاطاعت ہادی بھی ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے:

’’ہم نے رسولوں کواسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء ۴: ۶۴)

’’اے ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرو، اور اس کے رسول کی اطاعت کرو،اور اپنے اعمال کورا ئیگاں نہ کرو۔‘‘ (محمد ۴۷: ۳۳)

لیکن یہ بادامی باغ کے مسلمانوں نے کیا کیا۔ بے گناہ مسیحی بھائیوں پر ایسا ظلم کر ڈالا۔ پوری جوزف کالونی پر حملہ کر دیا۔ ان کے سینکڑوں گھروں کو آگ لگا دی۔وہ بے چارے جان بچانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اس میں ان شریف شہریوں کا جرم بھی کم نہیں ،جنھوں نے یہ ظلم ہونے دیا اور ظالموں کاہاتھ نہیں روکا، جبکہ اس وقت مبینہ طورپر توہین رسالت کا مرتکب ساون مسیح پولیس کی حراست میں تھا ۔ ان موروثی مسلمانوں نے رسول کے نام پر رسول ہی کی نافرمانی کر ڈالی اور نافرمانی بھی ایسی جو سرکشی پر مبنی ہے۔ انھوں نے زمین پر وہ فساد برپا کیا جس کا اندیشہ تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے فرشتوں نے ظاہر کیا تھا۔اور یہ وہ فساد ہے جس کی سورۂ مائدہ (۵) میں انتہائی سخت سزا بیان کی گئی ہے:

’’ان لوگوں کی سزا، جو اللہ اور رسول سے بغاوت کرتے ہیں اور ملک میں فساد برپا کرنے میں سرگرم ہیں، بس یہ ہے کہ تقتیل (عبرت ناک طور پرقتل) کر دیے جائیںیا سولی پر لٹکا دیے جائیںیاان کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیںیا ملک سے باہر نکال دیے جائیں۔‘‘(آیت:۲۳)

بادامی باغ میں فساد برپا کرنے والوں کو شایدیہ معلوم نہیں کہ اسلام کے قریب ترین مذہب مسیحیت ہے۔ ابتداے اسلام کے وقت جب مکہ میں مشرکین کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی جہاں ایک عیسائی بادشاہ(نجاشی ) کی حکومت تھی۔اور جس نے صحیح معنوں میں ان مظلوم مسلمانوں کی مدد بھی کی۔اس لحاظ سے مسیحی ہمارے محسن ہوئے۔ اسی طرح جب عرب سے متصل رومی مقبوضات اردن،شام اور فلسطین پر ایرانی مجوسیوں کی فتح ہوئی تو عرب کے مسلمان اس پربہت غمگین ہوئے اور مشرکین خوش۔اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ روم میں پیشین گوئی فرمائی کہ عیسائی رومیوں کو پھر فتح نصیب ہوگی جس سے مسلمانوں کو حوصلہ ملا۔ اسلام نے مسلمانوں کو مسیحی خواتین کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت دی۔ ایک زاویے سے سوچیں تو مسلمان اور عیسائی،دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی اولاد ہونے کے باعث آپس میں کزن ہیں۔
بادامی باغ میں فساد برپا کرنے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ انھوں نے رسول کے نام پر یہ جر م کر کے دنیا میں اسلام اور رسول کاتاثر کس قدر خراب کیا ہے۔ایک پہلوسے دیکھیں تو ان کی یہ حرکت خود گستاخی رسالت کے ذیل میںآتی ہے۔
یہ سادہ سی بات ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی ریاست ہے۔مسلمانوں کا حکمران موجود ہے ۔سورۂ نساء (۴) میں ہے:

’’ایمان والو،اللہ کی اطاعت کرواور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حکمران ہوں۔‘‘(آیت: ۵۹)

ریاست نے توہین رسالت کا ایک قانون بنا رکھا ہے اگرچہ قرآن و حدیث سے اس قانون کے اخذ و استنباط پر اہل علم میں مختلف آرا موجود ہیں لہٰذا اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کسی نے توہین رسالت کی ہے تووہ متعلقہ ریاستی ادارے کے پاس جائے او رملزم کے خلاف مقدمہ کرے ۔پھر عدالت عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرے گی کہ توہین رسالت ہوئی ہے یا نہیں۔اور اگر جرم ثابت ہوجاتاہے تو پھر متعلقہ ادارے اس سزا کا نفاذ کریں گے۔جس طرح کوئی عام شہری کسی چور کو پکڑ کر اس کے ہاتھ نہیں کا ٹ سکتا، اگرچہ قرآن میں چور کے ہاتھ کاٹنے کاحکم موجود ہے ایسے ہی کسی عام شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی گستاخ رسول کو خود سزا دے۔کسی جرم کی سزا خود دینا اقتدار کی اطاعت سے نکلنا ہے۔ ہم کسی جنگل میں نہیں رہتے ۔اللہ کا شکر ہے کہ ہماراایک نظم اجتماعی،ایک اقتدار اعلیٰ،قوانین کامجموعہ موجود ہے۔ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا،اور اسی حالت میں مر گیا،اس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔’‘‘(بخاری، کتاب الفتن)

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ جاہلیت قبل از اسلام کے دور کو کہا جاتا ہے۔سوچنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مجرموں کو اسلام سے خارج تو قرار نہیں دے دیا؟
اور معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔یہ بات پیش نظر رہے کہ کسی مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔ایک ذمی اور دوسرے معاہد۔ذمی کسی جنگ کے نتیجے میں اور معاہدین جنگ کے بغیر کسی معاہدے کی رو سے مسلم ریاست کے شہر ی بنتے ہیں۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکمران کی حیثیت بھی حاصل ہو چکی تھی۔ آپ نے میثاق مدینہ میں وہاں کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔ابن ہشام کی ’’سیرت النبی‘‘ میں ہے:

’’بنی عوف کے یہوداس دستور(میثاق مدینہ) کے مطابق مسلمانوں ہی کی طرح ایک مستقل گروہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ رہا دین کا معاملہ تو یہودی اپنے دین پررہیں گے اور مسلمان او ران کے موالی ،سب اپنے دین پر۔‘‘ (۲/ ۱۰۷)

پاکستان کے غیر مسلم شہری معاہدین کے ذیل میں آتے ہیں۔قائد اعظم نے ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو پاکستان کے گورنر جنر ل کی حیثیت سے ایک پریس کانفرنس میں تمام پاکستانی اقلیتوں سے ان کی زندگی، جائداد ، مذہب اور کلچر کے تحفظ کا عہد کیا ۔ انھیں کسی امتیاز کے بغیر ملک کا شہری قرار دیا۔ اور اب بادامی باغ میں فساد برپا کرنے والے دل تھام کر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین پڑھ لیں:

’’خبر دار ،جو شخص کسی معاہدپر ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کر ے گا یا اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈالے گا یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اس سے لے گا، اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود استغاثہ دائر کروں گا۔’’(ابوداؤد،کتاب الجہاد)

’’جو کسی معاہد کو قتل کرے گا ، اسے جنت کی بو تک نصیب نہ ہوگی، حالاں کہ اس کی بو چالیس برس کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الدیات)

آہ!کس قدر بدقسمت ہے وہ شخص جو خود کو مسلمان سمجھتا ہو، مگر قیامت کے روز اس کے خلاف رسول کا مقدمہ دائر ہو۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2013
Uploaded on : Nov 30, 2016
2408 View