دین حق - جاوید احمد غامدی

دین حق

 

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ میں نے اِس دین کو جس طرح سمجھا ہے، اُسے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ یہ اِسی کتاب کا خلاصہ ہے جس میں کتاب کا نفس مضمون اُس کے علمی مباحث اور اُن کے استدلالات سے الگ کر کے سادہ طریقے پر پیش کر دیا گیا ہے۔جاوید


دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے اور دین حق اب وہی ہے جسے آپ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب* سے دین قرار دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع** اور قولی و عملی تواتر*** سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت 
قرآن مجید وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس اُن کی طرف سے اِس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تبدیلی کے دنیا کو منتقل کیا ہے۔
سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید و اصلاح کے بعد**** اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔
اِس میں اور قرآن مجید میں ثبوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔
اِس دین کی حقیقت اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو قرآن کی اصطلاح میں وہ اللہ کی ’’عبادت‘‘ ہے۔ اِس کے معنی عاجزی اور پستی کے ہیں۔ یہ چیز اگر اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت کے ساتھ پیدا ہو تو اپنے آپ کو انتہائی محبت اور انتہائی خوف کے ساتھ اُس کے سامنے آخری حد تک جھکا دینے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ یہ درحقیقت ایک داخلی کیفیت ہے۔ خدا کا ذکر، اُس کا شکر، اُس کی ناراضی کا خوف، اُس کے ساتھ اخلاص، اُس پر بھروسا اور اُس کے حضور میں تسلیم و رضا اِس کیفیت کے باطنی مظاہر ہیں۔ انسان کے ظاہری وجود میں یہی چیز پرستش کے مظاہر، یعنی رکوع و سجود، تسبیح و تحمید، دعاو مناجات اور نذرو نیاز کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ پھر انسان چونکہ اِس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اِس وجہ سے اپنے اِس ظہور سے آگے بڑھ کر یہ انسان کے اُس عملی وجود سے متعلق ہوتی اور پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہو جاتی ہے۔ اُس وقت یہ انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ ظاہر وباطن، دونوں میں وہ خدا کا بندہ بن کر رہے۔
اللہ اور بندے کے درمیان عبدومعبود کے اِس تعلق کے لیے یہ عبادت جب اپنی اساسات متعین کرتی، مراسم طے کرتی اور دنیا میں اِس تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حدود و قیود مقرر کرتی ہے تو قرآن کی زبان میں اُسے دین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسانوں پر واضح کی ہے، قرآن اُسے ’الدین‘ کہتا ہے اور اُس کے بارے میں اُنھیں ہدایت کرتا ہے کہ وہ اُسے بالکل درست اور اپنی زندگی میں پوری طرح برقرار رکھیں اور اُس میں کوئی تفرقہ پیدا نہ کریں۔
اِس عبادت کے لیے ایمان و اخلاق کی جو اساسات خدا کے اِس دین میں بیان ہوئی ہیں، اُنھیں قرآن ’الحکمۃ‘ اور اِس کے مراسم اور حدودوقیود کو ’الکتاب‘ کہتا ہے۔ اِس کے لیے ایک دوسرا لفظ ’’شریعت‘‘ بھی ہے۔ اِس کے معنی وہی ہیں جو ہم لفظ قانون سے ادا کرتے ہیں۔
’الحکمۃ‘ ہمیشہ سے ایک ہی ہے، لیکن شریعت انسانی تمدن میں ارتقا اور تبدیلیوں کے باعث، البتہ بہت کچھ مختلف رہی ہے۔
الہامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات میں زیادہ تر شریعت اور انجیل میں حکمت بیان ہوئی ہے۔ زبور اِسی حکمت کی تمہید میں اللہ تعالیٰ کی تمجید کا مزمور ہے اور قرآن اِن دونوں کے لیے ایک جامع شہ پارۂ ادب اور صحیفۂ انذاروبشارت کی حیثیت سے نازل ہوا ہے۔
’الحکمۃ‘ کی تعبیر جن مباحث کے لیے اختیار کی گئی ہے، وہ بنیادی طور پر دو ہیں:
ایک، ایمانیات۔
دوسرے، اخلاقیات۔
’الکتاب‘ کے تحت جو مباحث بیان ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔ قانون عبادات۔ ۲۔ قانون معاشرت۔ ۳۔ قانون سیاست۔ ۴۔ قانون معیشت۔ ۵۔ قانون دعوت۔ ۶۔قانون جہاد۔ ۷۔ حدودوتعزیرات۔ ۸۔ خورونوش۔ ۹۔ رسوم و آداب۔ ۱۰۔ قسم اور کفارۂ قسم۔
یہی سارا دین ہے۔ خدا کے جو پیغمبر اِس دین کو لے کر آئے، اُنھیں نبی کہا جاتا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں سے بعض ’’نبوت‘‘ کے ساتھ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔
’’نبوت‘‘ یہ ہے کہ انسانوں میں سے کوئی شخص وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے اور اُس کے ماننے والوں کو قیامت میں اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرے۔ قرآن اِسے ’’انذار‘‘ اور ’’بشارت‘‘ سے تعبیر کرتاہے۔
’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اِس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اُس کی قوم اگر اُسے جھٹلا دے تو اُس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اُس پر قائم کر دے۔
اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی جزاوسزا کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تواِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے خدا کی نشانی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جاتا ہے کہ جس حق کو وہ سر کی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ ’’شہادت‘‘ ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اور اِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن میں ’شاہد‘ اور ’شہید‘ اِسی بنا پر کہا گیا ہے۔
شہادت کا یہ منصب رسولوں کے علاوہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی عطا ہوا ہے۔ قرآن نے اِسی کے پیش نظر اُنھیں خدا کے رسول اور اُس کے بندوں کے درمیان ایک جماعت قرار دیا اور بتایا ہے کہ اِس منصب کے لیے وہ اُسی طرح منتخب کیے گئے جس طرح انسانوں میں سے اللہ تعالیٰ بعض ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔
نبیوں اور رسولوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بالعموم اپنی کتابیں بھی نازل فرمائی ہیں۔ اِن کے نزول کا مقصد قرآن مجید میں یہ بیان ہوا ہے کہ حق و باطل کے لیے یہ میزان قرار پائیں تاکہ اِن کے ذریعے سے لوگ اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اِس طرح حق کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔
نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا ہے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد وحی و الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے اور نبوت ختم کر دی گئی ہے۔ چنانچہ لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لیے ’’انذار‘‘ کی ذمہ داری اب قیامت تک اِس امت کے علما ادا کریں گے۔
اِس انذار کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ یہ قرآن کے ذریعے سے کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی بنا پر پوری دنیا کے لیے نذیر ہیں اور علما درحقیقت آپ ہی کے اِس انذار کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔
اِس دین کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور اِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ انسانوں سے وہ اِس کے سوا ہرگز کوئی دوسرا دین قبول نہ کرے گا۔
’’اسلام‘‘ کا لفظ جس طرح پورے دین کے لیے استعمال ہوتا ہے، اِسی طرح دین کے ظاہر کو بھی بعض اوقات اِسی لفظ اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے اِس ظاہر کے لحاظ سے یہ پانچ چیزوں سے عبارت ہے:
۱۔اِس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔
۲۔ نماز قائم کی جائے۔
۳۔ زکوٰۃ ادا کی جائے۔
۴۔ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔
۵۔ بیت اللہ کا حج کیا جائے۔
دین کا باطن ایمان ہے۔ اِس کی جو تفصیل قرآن میں بیان ہوئی ہے، اُس کی رو سے یہ بھی پانچ ہی چیزوں سے عبارت ہے:
۱۔ اللہ پر ایمان۔
۲۔ فرشتوں پر ایمان۔
۳۔ نبیوں پر ایمان۔
۴۔ کتابوں پر ایمان۔
۵۔ روز جزا پر ایمان۔
یہ ایمان جب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دل میں اترتا اور اُس سے اپنی تصدیق حاصل کر لیتا ہے تو اپنے وجود ہی سے دو چیزوں کا تقاضا کر تاہے:
ایک عمل صالح،
دوسرے ’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘۔
عمل صالح سے مراد ہر وہ عمل ہے جو تزکیۂ اخلاق کے نتیجے میں پیدا ہو تا ہے۔ اِس کی تمام اساسات عقل و فطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اِسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے۔
’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘ کے معنی اپنے ماحول میں ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کے ہیں۔ قرآن نے اِس کو ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی وہ باتیں جو عقل و فطرت کی رو سے معروف ہیں، اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کو اُن کی تلقین کی جائے اور جو منکر ہیں، اُن سے لوگوں کو روکا جائے۔
عام حالات میں ایمان کے تقاضے یہی ہیں، لیکن انسان جس دنیا میں رہتا ہے، اِس کے لحاظ سے جو حالتیں اُس کو پیش آسکتی ہیں، اُن کی رعایت سے اِن کے علاوہ تین اور تقاضے بھی اِس سے پیدا ہوتے ہیں:
ایک ہجرت،
دوسرے نصرت،
تیسرے قیام بالقسط۔
بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے؛ اُسے دین کے لیے ستایا جائے، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا ہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو اُس کا یہ ایمان اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ اِس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن اِسے ’’ہجرت‘‘ کہتا ہے اور پیغمبر کی طرف سے اِس کی دعوت کے بعد اپنے آپ کو اِس طرح کی صورت حال میں دیکھ کر اِس سے گریز کرنے والوں کو اُس نے دوزخ کی وعید سنائی ہے۔
اِسی طرح دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لیے اگر کسی اقدام کی ضرورت پیش آجائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ جان و مال سے دین کی مدد کی جائے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ خدا کی ’’نصرت‘‘ ہے اور اُس کا مطالبہ ہے کہ ایمان کا یہ تقاضا اگر کسی وقت سامنے آجائے تو بندۂ مومن کو دنیا کی کوئی چیز بھی اِس سے زیادہ عزیز نہیں ہونی چاہیے۔
پھر اس دنیا میں انسان کے جذبات، تعصبات، مفادات اور خواہشیں اگر دین و دنیا کے کسی معاملے میں اُسے انصاف کی راہ سے ہٹا دینا چاہیں تو یہی ایمان تقاضا کرتا ہے کہ بندۂ مومن نہ صرف یہ کہ حق و انصاف پر قائم رہے، بلکہ یہ اگر گواہی کا مطالبہ کریں تو جان کی بازی لگا کر اِن کا یہ مطالبہ پورا کرے۔ حق کہے، حق کے سامنے اپنا سر جھکا دے۔ انصاف کرے، انصاف کی گواہی دے اور اپنے عقیدہ و عمل میں انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کرے۔ قرآن نے اس کے لیے ’’قیام بالقسط‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔
اِس دین کا جو مقصد قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ قرآن کی اصطلاح میں تزکیہ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلایشوں سے پاک کر کے اُس کے فکروعمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ انسان کا نصب العین بہشت بریں کی بادشاہی ہے اور کامیابی کے اِس مقام تک پہنچنے کی ضمانت اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو اِس دنیا میں اپنا تزکیہ کر لیں۔ لہٰذا دین میں غایت اور مقصود کی حیثیت تزکیہ ہی کو حاصل ہے۔ اللہ کے نبی اِسی مقصد کے لیے بھیجے گئے اور سارا دین اِسی مقصود کو پانے اور اِسی غایت تک پہنچنے میں انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہو ا ہے۔
اِس دین پر عمل کے لیے جو رویہ اِس کے ماننے والوں کو اختیار کرنا چاہیے، وہ ’’احسان‘‘ ہے۔ احسان کے معنی کسی کام کو اُس کے بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی اِس طرح کرے کہ گویا وہ اُسے دیکھ رہا ہے، اِس لیے کہ اگر وہ اُسے نہیں دیکھ رہا تو اُس کا پروردگار تو اُسے دیکھ رہا ہے۔

———————

* اِس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی چیز دین کی حیثیت سے آپ کے سامنے ہوئی اورآپ نے اُس سے منع نہیں کیا۔
** یعنی بغیر کسی اختلاف کے پورے اتفاق کے ساتھ۔
*** یعنی بغیر کسی انقطاع کے نسل در نسل پڑھتے اور اُس پر عمل کرتے ہوئے۔
**** یعنی جو بھلایا جا چکا تھا، اُسے تازہ کرنے اور جس میں کوئی غلطی ہو رہی تھی، اُس کو درست کرنے کے بعد۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2007
مصنف : جاوید احمد غامدی