کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات - ساجد حمید

کلام کی ایک اہم خوبی: مقدرات

 

نومبر ۲۰۱۷ء کے اشراق کے شمارہ میں ہمارا ایک مضمون نظمِ قرآن کے حوالے سے شائع ہوا تھا۔ ہم نے اس میں مقدر مقدمات کو نظم قرآن کی کلید قرار دیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدمات کو مقدر کیوں رکھا، کلام کو بسیط کیوں نہیں بنایا کہ نظم کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا؟ 
اس کا ایک پہلو تو وہ ہے کہ جسے ہم نے عربوں کے طرز تخاطب کا پسندیدہ ترین وصف قرار دیا تھا کہ ’خیر الکلام قل ودل‘، اس لیے ان کے لیے موثر کلام وہی ہوسکتا تھا جو ان کے اس اسلوب پر بہ حسن و خوبی پورا اترتا ہو۔ ذیل میں ہم ایک مثال سے بات کو سمجھاتے ہیں، جس میں عربوں کا کلام مختصر کرنے کے طریقے کی ندرت شاید کچھ واضح ہوگی:

وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷) 
’’اور اگر تم قول کو بلند آواز سے کہو، تو وہ مخفی، بلکہ مخفی تر باتوں کو جانتا ہے۔‘‘

اس آیت کا میں نے صرف ترجمہ کردیا ہے۔ترجمہ میں دیکھیے کہ ہم اردو مذاق لوگوں کو ایک خلا سا نظر آئے گا۔ یعنی پہلے کہا گیا کہ اگر تم بلند آواز میں بولو، پھر کہا گیا کہ اللہ پوشیدہ اور مخفی باتوں کو جانتا ہے۔ یہ بتایا ہی نہیں کہ وہ بلند آواز سے کہی گئی بات کو جانتا ہے یا نہیں۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ مخفی بات آ کہاں سے گئی؟ اس لیے کہ بات تو بلند آواز سے کہے گئے قول کے بارے میں ہو رہی تھی۔ جملہ تو یوں ہونا چاہیے تھا کہ اگر تم بلند آواز سے بولو تو اللہ اس کو جانتا ہے۔ یہ خلا ہمیں اس لیے نظر آرہے ہیں کہ ہم عربوں کے اسلوب میں بات نہیں کرتے۔لیکن اردو میں ہم ایک ملتا جلتا اسلوب رکھتے ہیں، لیکن وہ عموماًجملوں کے اختتام پر آتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی‘‘۔ یعنی ہم پانی کے بعد ’’پیا‘‘ کا فعل حذف کردیتے ہیں، اس لیے کہ پچھلے کلام اور ’’پانی‘‘ کے لفظ سے واضح تھا۔ تو پورا جملہ یوں تھا: ’’کل سے میں نے نہ کھانا کھایا اور نہ پانی پیا‘‘۔ جس طرح ہم نے اردو کا جملہ پورا کیا ہے،ایسے ہی قرآن کا جملہ مکمل کردیں تو وہ یوں ہو گا:
اگر تم بلند آواز سے بات کرو، تو اللہ اسے جانتا ہے، اور اگر مخفی طریقے سے کرو تو اللہ تمھاری مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کرمخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۔
خط کشیدہ جملے اسی طرح اضافہ کیے گئے ہیں، جس طرح اردو کے جملے میں ہم نے ’’پیا‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ لہٰذا استاذ گرامی نے اس کا ’’البیان‘‘ میں ترجمہ یوں کیا ہے:

’’تم چاہے اپنی بات علانیہ کہو (یا چپکے سے کہو، اس سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے) اس لیے کہ وہ چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے زیادہ مخفی بات کو بھی جانتا ہے۔‘‘

اگرچہ تمام زبانیں، یا کم از کم جتنی میں زبانیں جانتا ہوں، ان میں کم وبیش یہ اسلوب بعینہٖ پایا جاتا ہے۔یعنی ہر زبان کے سادہ ترین جملوں سے لے کہ نہایت گہری معنویت کے حامل کلام میں معنویت مقدماتِ مقدرہ پر منحصر ہوتی ہے۔ فرق صرف شدت یا مقدار کا ہے۔ عرب کم سے کم الفاظ سے اظہار مدعا کرنا چاہتے تھے۔ گویا یہ معاملہ ویسا ہی تھا:

دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں

عرب ایک لفظ بول کرکے ہزار سود حاصل کرنے کے رسیا تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں اردو غزل کا مضمون ہو نہ ہو، اسلوب میں غزل کا رنگ پایا جاتا ہے۔یعنی غزل کے ہر ایک شعر کی طرح چند الفاظ میں بات کہہ دی جائے، اس لیے قرآن مجید کا کلام اسی آفاقی اسلوب میں ہے جس پر تمام بنی نوع انسان کا اجماع اور مسلسل عمل ہے۔ البتہ شدتِ تقدیر (مقدمات کو مقدر کرنا) عربوں کی سنتِ کلام پر ہے ۔اس اسلوب کے آفاقی ہونے کے کچھ اسباب ہیں:

پہلا سبب

ایک یہ کہ انسان اپنی فطرت میں عجلت پسند ہے۔ وہ جلد سے جلد اپنا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔اس عجلت پسندی نے اسے یہ سکھایا کہ وہ مقدر باتوں کا سہارا لیا کرے۔ مثلاً مجھے کالج کے زمانے میں حیرانی ہوتی تھی کہ جب بھی لوگ بس میں بیٹھتے اور کنڈکٹر جب ان سے ٹکٹ کا پوچھتے تو وہ بس اتنا پوچھتے کہ مثلاً اچھرہ کا کرایہ کیا ہے ؟۔ وہ یہ نہیں پوچھتے تھے کہ یہاں سے اچھرے تک کا کرایہ کیا ہے؟۔ بلکہ زیادہ دل چسپ یہ تھا کہ اکثر بس اتنا ہی بولتے: ’’اچھرہ کے کتنے‘‘؟ کنڈکٹر کہتا: ’’چار آنے‘‘۔ مجھے نہیں یاد کہ کسی کنڈکٹر نے کہا ہو کہ یہاں سے اچھرہ تک کا کرایہ چار آنے ہے۔ بس وہ رقم بتانے پر اکتفا کرتا۔ ساری بات واضح ہوتی تھی۔ کوئی ابہام نہیں ہوتا تھا۔ حافظ شیرازی کے دیوان کی پہلی غزل کا یہ شعر دیکھیے:

شب تاریک و بیم موج و گردابے چنیں ہائل        کجا دانند حال ما سبک سارانِ ساحل ہا

’’اندھیری رات، اندیشۂ موج، اور ہول ناک گرداب بھی، ساحل کے بے فکرے ہمارا حال کہاں جانتے ہیں۔‘‘

اس شعر اور اس کے ترجمے میں دیکھیے کہ کتنے خلا ہیں ۔ باتیں یا جملے مکمل نہیں ہیں، خاص طور سے پہلا مصرعہ، جس میں کوئی مبتداء اور خبر نہیں ہے۔ بس الفاظ کی فہرست ہے۔ اس شعرمیں دیکھیے کہ موج، گرداب، اور دوسرے مصرعے میں ساحل کی موجودگی نے واضح کیا کہ شاعر خود سمندر میں رات کے وقت سفر کررہا ہے، اور شدید خوف کا شکار ہے۔ان الفاظ کی دلالت کی وجہ سے بظاہر کلام ادھورا چھوڑ دیا گیا ، لیکن بغیر کسی ابہام کے بالکل واضح ہے۔

دوسرا سبب

مقدمات کی تقدیر، (یعنی مقدر رکھنا) کلام کی حدت یا حلاوت کو بڑھا دیتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ میری والدہ کی سب سے سریع الاثر ڈانٹ یہ ہوتی تھی: آفرین پتر آفرین! یہ مختصر جملہ گھنٹوں کی تقریر پر بھاری ہوتا تھا۔اب اس میں کیا کیا مقدر ہے، وہ ہر زبان آشنا جان سکتا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ ڈانٹ کھانے والا بہ خوبی واقف ہوتا ہے۔والدہ کے غصہ کی شدت، ہماری غلطی کی عظمت ،والدہ کے ہاں الفاظ کی عدم دستیابی کا اظہار ، والدہ کی ڈانٹ کو نہ روک سکنے کی حالت غرض بے شمار چیزیں یہ سہ لفظی مرکب اپنے جلو میں لیے آجاتا تھا۔ قرآن مجید میں اللہ کا قیامت کے دن دوزخ سے مکالمہ نقل ہوا ہے:

یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ؟ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ!(قٓ ۵۰: ۳۰)
’’ہم دوزخ سے کہیں گے: کیا تو بھر گئی؟ وہ بولے گی: کیا کچھ اور بھی ہیں!‘‘

اس کلام میں جو حدت ہے، وہ اس کلام میں نہیں ہو سکتی کہ جب یہ کہا جائے کہ جب سارے دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے اور پھر ہم دوزخ سے کہیں گے کہ کیا تو بھر گئی اور وہ بولے گی: نہیں ،کیا ابھی اور بھی ہیں۔ ابھی بہت گنجایش ہے ،میں بہت وسیع ہوں۔ یوں کلام بالکل پھیکا ہوجاتا۔اس کی تیزی اور حدت جاتی رہتی ۔

تیسرا سبب

فارسی اور اردو غزل میں ایک اور پہلو پیدا ہوتا جاتا ہے کہ اس کا ایک ایک شعر ضرب المثل کے مانند بن جاتا ہے۔ جو بہت سے مناسب مواقع میں فٹ بیٹھ جاتا ہے۔ جس سے معنی کی کئی سطحیں، پرتیں اور پہلو اس میں پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً مولانا روم کا ایک شعر ہے:

گلشن و گل و ریحاں نروید جز ز دستِ تو
دو چشمہ داری، اے چہرہ، چرا پرنم نمی گردی
 ۱؂

اب ذرا غور کریں، اس شعر کو صوفی استعمال کرے تو مقدماتِ سلوک شعر میں مقدر ہوں گے،جس میں صوفیانہ معنی میں گلشن و گل و ریحان نفس انسانی اور اس کے اجزا کے معنی دیں گے اوردونوں چشموں سے ان کی آبیاری سے مراد مرشد کی نگاہ خوش انداز سے ان کی نشوونما اور اصلاح و تطہیر ہوگی ۔ فلسفی اس شعر کو اپنی قلم رو میں لے آئے تو دانشِ برہانی کے میدان میں ترقی کے مضامین مقدر ہوں گے۔ دینی معنی میں اسے دیکھا جائے تو توبہ (آنکھ کا پرنم ہونا)اور اس کے فیضان سے متعلق مقدرات کواس شعر کے منہ میں ڈالا جاسکتا ہے ۔ وطنیت کو شعر کا مضمون مانیں ، تو ذاتی مفادات سے اٹھ کر گلشن، (یعنی وطن)کی آبیاری کا فریضہ مقدرات کی فوج لے کر آموجود ہو گا۔اب کے جدید مغربی رجحانات بھی اس شعر کی تحلیلِ معنوی میں ڈالے جاسکتے ہیں۔ مثلاً فرائڈ کی جنسیت، مارکس کی اشتراکیت اور مشل فوکو کی قوتِ علمی سب کے اعتبار سے شعر معنی آفرینی کردے گا۔غرض شعر ہے کہ مولاے روم کی زبان سے نکلی ہوئی معانی کی زنبیل۔ غالب نے اپنے شعرکو بھی ایسا ہی کہا تھا:

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آوے

غرض اچھے شعر اس اجمال کی بنا پر عمومیت اور آفاقیت اپنے اندر پیدا کرلیتے ہیں ۔ لیکن مربوط اور منظم کلام میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ مثلاً اسی شعر کے شروع میں ’’اے سالک‘‘ لکھ دیں تو سارے معنی ایک ایک کرکے جھڑ جائیں گے۔ اب صرف سلوک کے مقدرات کی روشنی میں ہر لفظ کو سمجھا جائے گا۔اب اس کے معنی کی پرتیں، تہیں اور سطحیں صوفیانہ طریقت تک محدود ہو جائیں گی۔
قرآن مجید بھی اپنے سیاق و سباق سے اپنے معنی کوہدایت الٰہی کی جامعیت عطا کرکے باقی عمومیت کوکلام سے خارج کردیتا ہے تاکہ مدعاے باری تعالیٰ تخاطب میں پوری طرح منتقل ہو جائے۔جس سے لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ، کا امکان ختم ہو جائے اور صرف منشاے الٰہی سامع کی سماعتوں میں معنی آفرینی کرے۔ اب جو پرتیں اور پہلوکلام میں پیدا ہوں گے تو وہ بھی اسی دائرے کے اندر۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:

لَّا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یََدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ.(حٰمٓ السجدہ۴۱: ۴۲)
’’باطل اس (کتاب) میں نہ دائیں سے آسکتا ہے نہ بائیں سے۔ یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے پورے اہتمام سے اتارا گیا ہے، (یعنی خدا کی ان صفات کا مظہرہے)۔‘‘

یہ وصف مولانا روم کے مذکورہ بالا شعر میں موجودنہیں ہے۔ فرائڈ کی جنسیت کی مولانا روم کو ہوا بھی نہیں لگی ہو گی، مگر ہم اس شعر میں اس کو سمو سکتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا روم اس شعر کے مصنف کے طور پر فوت ہو چکے ((Author is dead اب شعر ہمارا ہے جو مرضی اس کے منہ میں ڈال دیں ۔بایں شرط کہ الفاظ کے ظروف اسے اپنے دامن میں بھرلیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ مولانا روم کے اس شعر کے دراصل کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ شیشے کے گلاس کی طرح جس رنگ کا مشروب اس میں ڈال دیں، وہی رنگ اس کا ہو جائے گا۔ غزل کو اپنے اس بلوریں پن پر ناز بھی ہے۔ لیکن قرآن کی کوئی آیت بھی اپنے سیاق و سباق کی پہرے داریوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہونے دیتی۔ یہ شیشے کا بے رنگ گلاس نہیں، بلکہ یہ کاس الکرام ہے، جس میں کوئی مے خام سما نہیں سکتی، الّا یہ کہ اس کی آیتوں کو ان کے محل سے جدا کرکے ’... یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ... ‘(النساء ۴: ۴۶)کی طرز پر تحریف کر دی جائے۔

چوتھا سبب

قرآن مجید نے مقدرات پر مبنی کلام کو اس لیے بھی اختیار کیا ہے کہ یہ ذہنی تربیت کا ذریعہ بنے۔ علمانے اسے فہم دین کی راہ کی تربیت تک محدود رکھا ہے۔ لیکن اگر قرآن کو مقدرات کی روشنی میں سمجھا جائے تو وہ عبارت، دین اور کائنات کو بھی ایک اور رنگ سے سمجھنے کے علاوہ حکمت اعلیٰ اور منطقِ حکیمانہ تک لے جاتا ہے۔یہ وہ ترفع ہے جو فلسفہ و سائنس کی تمام تاریخ میں کبھی انسا ن کو حاصل نہیں ہوا۔قرآن مٹی کے اس پتلے کو اپنے اس کلام کی بنا پر فروغِ وادی سینا عطا کر دیتا ہے۔ مضمون کے آخر میں جو مثال آرہی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوگی کہ کس طرح مقدرات میں ملفوف معانی حکمتِ اعلیٰ کو کلام میں پروئے رکھتے ہیں، جسے صاحبِ نظر غور کرکے پالیتا ہے۔

پانچواں سبب

مقدمات کی تقدیر سے اجمال پیدا ہوتا ہے اور اجمال ذریعۂ جمال ہوتا ہے۔ اَدھ کھلا گلاب جس طرح پورے کھلے گلاب سے جمیل تر ہوتا ہے، اسی طرح ادھ کھلا کلام بھی بسیط کلام کے مقابلے میں جمیل تر ہوتا ہے۔ اس حسن و جمال کے چند پہلو ذیل میں ہیں (کامل استقصا۲؂ پیش نظر نہیں):
۱۔ مجمل کلام میں لفظوں کا جڑاؤ چست ہوتا ہے،او ر سامع تک ہرہر لفظ کا اثر پہنچتا ہے۔ طویل کلام بھدا اور بدنما سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ مثلاً ’’بال جبریل‘‘ اور ’’ارمغان حجاز‘‘ علامہ اقبال کی کتابوں کے نام ہیں، مجھے یہ پوری پوری غزلوں کے مقابلے میں زیادہ پر اثر محسوس ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں مقدمات حتی الامکان حد سے آگے تک مقدر ہو گئے ہیں۔ 
۲۔دوسرے یہ کہ مقدرات کی بنا پر اجمال سے معنی کوپانے کے لیے حسِ تجسس کا سامان کلام میں پیدا ہوجاتا ہے۳؂ ۔ اس سے کلام قید خانے کے روزن کی طرح بن جاتا ہے، جس سے قیدی باہر کی دنیا کا نظارہ کرتا ہے۔جس کی طرف قیدی کی لپک مخفی نہیں ہے۔مجمل کلام روزنِ زنداں ہی کی طرح پسندیدہ ہوتا ہے کہ معنی کے لیے دیدبان کا کام کرتا ہے، نہ کہ خود سارے معنی سامنے بچھا دیتا ہے۔
۳۔تیسرے، کلام بسط و کشاد کی بدمزگی سے بچ جاتا ہے۔ طوالت سے پاک کرنے سے چست کلام پیدا ہوتا ہے، جو خود حسن و جمال کا ایک جزو ہے۔ غالب نے کہا ہے: چال جیسے کڑی کمان کا تیر۔ ڈھیلا اور بھدا معشوق طبیب کی نگاہ کو تو شاید بھا جائے، عاشق کے لیے پرکشش نہیں ہوتا۔یہی معاملہ کلام کا ہے۔ اسے کڑی کما ن سے نکلے تیر کی طرح سیدھا دل میں ترازو ہونا چاہیے، ورنہ وہ سینے سے ٹکرا کر نیچے گر جائے گا، دل تک نہ پہنچ سکے گا۔

چھٹا سبب

یہ مقدر مقدمات دراصل انسانی ذہن کی ایک مستقل ضرور ت ہیں۔ انسان خواہ وہ عامی ہو یا عارف، اپنے دل میں عرفان کا جذبۂ فراواں رکھتا ہے۔جب وہ کلام کے بولے گئے لفظوں کی روشنی میں مقدر مقدمات کو دریافت کرتا ہے تو اس کا جذبہ معرفت اہتزاز کی لذت پاتا ہے۔ دریافت سے حاصل اہتزاز کی یہ لذت تاثیر سے لے کر جذبۂ عمل تک سب کو جِلا دیتی ہے۔ یہ مقدرات پر مبنی کلام کاشاید سب سے زیادہ دل نواز پہلو ہے۔ انسان ابتداے آفرینش سے آج تک عرفان کے لیے جویا ہے۔مشرق و مغرب میں اس کی یہ تڑپ اس کو سادہ لوحی سے لوک کتھا (mythology)، لوک کتھا سے مابعد الطبیعات اور مابعد الطبیعات سے سائنس تک لے کر آئی ہے۔اسی کی بنا پر وہ خدا کے دیے دین کوبچگانہ سمجھ کر ان مذکورہ بالا راہوں میں بھٹکتا پھرا ہے۔ مقدرات سے مملو کلام کا ہر جملہ اس کے اسی جذبے کی تسکین کا سبب بنتا ہے۔ایسا تہ دار کلام اسی لیے انسانوں کو پسند آتا ہے کہ اس کے معنی کا فہم اس کی دریافت بن جاتا ہے۔ سورۂ لقمان کی ذیل کی آیات سے اس دریافت کو سمجھتے ہیں:

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ. وَاِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ. وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ.(۳۱: ۱۲۔۱۴) 
’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی، کہ اللہ کے شکر گزار رہو، تو جو شکر گزار رہے گا ، تو اپنے لیے ہی رہے گا۔تو جو ناشکری کرے گا تو اللہ تو اس کا محتاج نہیں، بلکہ غنی و حمید ہے۔ اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو سمجھایا کہ اے بیٹے، اللہ سے شرک نہ کرنا ، شرک سب سے بڑا ظلم ہے، اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ہدایت دی جس کواس کی ماں نے دکھ پر دکھ جھیل کر اس کو پیٹ میں رکھا، اور دوسال میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا کہ میرے شکر گزار رہو اور اپنے والدین کے بھی۔ میری ہی طرف سب کو لوٹنا ہے۔‘‘

اس کلام کو جن مقدرات کے حوالے کیا گیا ہے، وہ اس مضمون کے تنگ ناے میں بیان میں لائے جائیں تو کئی صفحات پر مبنی تفسیر بن جائے گی۔ میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کروں گا تاکہ قرآن کے اس اسلوب کی حکمت سمجھ میں آئے۔ اس میں شکر ، شرک ، ظلم عظیم، والدین اور ان کا اور اللہ کا شکر جس طرح سے اس محل میں دیگر باتوں کے ساتھ اکٹھے کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف شکر کی حقیقت کوبتا گئے ہیں، بلکہ شرک اور شکر میں تضاد وتنافر کا تعلق بھی واضح کر گئے ہیں۔
دیکھیے، یہاں ماں کا بہ تکالیف جننا شکر کا باعث بتایا گیا ہے۔ لیکن خدا کے شکر کا ذکر تو کیا، وجہ کا ذکر نہیں کیا۔ گویا اگر محض تولّد والدہ کی شکر گزار ی کا سبب ہے تو خدا کی شکر گزاری کا سبب خود بخود واضح ہوا کہ وہ اللہ کا خالق ہونا ہے۔ پھر مزید دیکھیے شرک کے سیاق میں ماں کے ذکر کی ایک اور جہت واضح ہوتی ہے ۔ جس طرح ماں کی جگہ کوئی اور خاتون نہیں لے سکتی، اسی طرح خدا کی جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا۔ اسی سے شرک کی حقیقت اور اس سے وابستہ غیرت واضح ہوئی۔ جہاں میری ماں کا مجھے جننا اس کے لیے میرے دل میں اخلاص پیدا کررہا ہے تو وہیں خدا میری تخلیق کی وجہ سے اس اخلاص کا کیوں حق دار نہیں ہے، یعنی جس طرح میں ماں کا مرتبہ کسی اور خاتون کو نہیں دے سکتا، اسی طرح اپنے خالق کی جگہ بھی کسی اورکو نہیں دے سکتا۔ یوں شرک محبت، اخلاص اور تعلق کے منافی عمل کے طور پر سامنے آتا ہے، محض عقیدہ نہیں رہتا۔ اب بتائیے جو بیٹا اپنی ماں کو چھوڑ کر کسی اور عورت کو ماں کا درجہ دے کر شکر گزار رہنے لگے تو کیا یہ ظلم عظیم نہیں ہوگا؟ اسی پر شرک باللہ کو قیاس کر لیں۔
اب ماں کا یہ مقام واضح ہوا، اللہ نے والدین بالخصوص والدہ کے ساتھ شکر گزار ی کو اپنے ساتھ شامل کرلیا ، اس لیے کہ اللہ اگر خالق ہے تو والدین ’متَوَلِّد‘ ہیں ۔ لیکن اس بڑے تعلق کے باوجود ماں کو صرف شکر میں شریک کیا ہے، الوہیت میں نہیں۔اس کے بعد بتائیے کہ غیرخالق اور غیر متولد کو شریک کرنا کہاں ممکن رہے گا؟یہ وہ گہرریزے ہیں جوکلام کے مقدرات کی بنا پر ان تین آیتوں میں سمٹ آئے ہیں ۔ لہٰذا جب ہم ان کو دریافت کرتے ہیں تو آدمی اپنے آپ کو ہر لمحے حقائق کی دریافتوں سے مالا مال ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔
پھر آخر پر ’’میری طرف لوٹنے‘‘ کے الفاظ نے شکر کو اخلاقی حق کا درجہ دے دیا ہے کہ اس کی بازپرس ہوگی۔جس نے نہ کیا وہ بھی مجرم ہے اور جس نے غیر کا شکر کیا وہ بھی مجرم ہے۔ان تین آیتوں میں میں نے صرف ایک نکتے کے چند پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آدمی جس قدر ان آیات پر غور کرتا جائے گا، معنی کا جہاں اس کے سامنے کھلتا جائے گا۔ معنی کی یہ دریافت طالب کا دل موہ لیتی ہے، اس کی قوتِ دریافت کو سیراب کرتی اور نشوونما دیتی ہے۔ وہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ

نشاطِ بادہ پرستاں بہ منتہا بہ رسید
ہنوز ساقی ما بادہ در سبو دارد
۴؂ 

ان تین آیات میں مقدرات نے نہ صرف ایک جہان معانی تشکیل کیا ہے، بلکہ عربی سے واقف جانتے ہیں کہ کلام کس قدر جاذب قلب و گوش ہے۔ لہٰذا مقدرات کلام کی وہ خوبی ہے کہ جواسے نہ صرف منظم بنانے میں کام آتی ہے، بلکہ اس میں معنوی حسن پیدا کرکے اسے جاذب قلب و نظر بناتی ہے۔ 

_______

۱؂ دونوں مصرعوں کا بالترتیب ترجمہ یوں ہے: گلشن، گلاب اور گل ریحان تیرے ہی دستِ (فیض)سے روئیدگی پاتے ہیں۔ اے چہرے ، تو دو چشموں (آنکھوں)کا مالک ہے، تو پُرنم کیوں نہیں ہوتا (کہ گلشن اورگل وریحان کو سیراب کرے)۔
۲؂ Comprehensive list۔
۳؂ اس پر الگ سے ایک مستقل نکتے کے طور پر آگے بات ہوگی۔ دیکھیے: چھٹا سبب۔
۴؂ مے کشوں کا نشاط انتہا کو چھونے لگا ہے، (یعنی وہ سیر ہو چکے ہیں)، مگر ساقی کے مٹکے میں ابھی بھی مے باقی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2017
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Sep 03, 2018
3211 View