سیدہ خدیجہ رضی ﷲ عنہا - ڈاکٹر وسیم مفتی

سیدہ خدیجہ رضی ﷲ عنہا

 حضرت اسماعیل علیہ السلا م کے بارہ بیٹوں میں سے قیدار کی اولاد مکہ میں مقیم رہی۔ ان کی باون ویں پشت میں زید بن کلاب کی پیدایش ہوئی۔ باپ کی وفات کے بعد مکہ سے دور شام میں سوتیلے باپ اور سوتیلے بہن بھائیوں کے ساتھ پرورش پانے کی وجہ سے وہ قصی (بعید)کے لقب سے مشہور ہوئے۔ قصی کے چار بیٹے عبد الدار، عبد مناف، عبد العزیٰ ، عبد اور دو بیٹیاں تخمر اور برّہ تھیں۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم عبد مناف کی اولاد سے تھے جبکہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا نسب عبد العزیٰ سے جا ملتا ہے۔نبی کریم کا شجرۂ نسب یوں ہے: محمد بن عبداﷲ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی اور سیدہ خدیجہ کا اس طرح ہے، خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی۔ قصی سے اوپر آپ دونوں کا شجرہ یکساں ہے یعنی کلاب بن مرّہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ ام المومنین کا قبیلہ بنو اسدقریش کے نو ممتاز خاندانوں میں شامل تھا۔ دار الندوہ کا انتظام ان کے پاس تھا۔ قریش کے اہل حل وعقد اہم مسائل ان کے مشورے سے حل کرتے۔ رشتے میں حضرت خدیجہ کے پوتے یزید بن زمعہ اس خاندان کے آخری فرد تھے جودار الندوہ کے انچارج ہوئے جبکہ آپ کے سگے بھتیجے حکیم بن حزام اس کے منتظم رہے۔ جب شاہ یمن تبّع نے حجر اسود کو یمن لے جانا چاہا تو خدیجہ کے والد خویلد ہی تھے جو قریش کے ایک جتھے کے ساتھ اس کے مقابل کھڑے ہو گئے۔ اس خاندان کے دوسرے نمایاں افراد میں سے ورقہ بن نوفل خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے اور مشہور صحا بی زبیر بن عوام آپ کے بھتیجے تھے۔
سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہاعام الفیل سے پندرہ برس قبل پیدا ہوئیں۔ زمانۂ جاہلیت سے آپ کا لقب طاہرہ تھا۔ آپ کا پہلا نکاح ابوہالہ ہند بن زرارہ تمیمی سے ہوا جن سے دو بیٹے ہنداور حارث اور ایک بیٹی زینب پیدا ہوئیں۔ اس پہلے بیٹے ہند کے نام پر آپ کی کنیت ام ہند تھی۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد آپ کا دوسرا نکاح عتیق بن عائذ مخزومی سے ہواجن سے ایک بیٹی ام محمد کی ولادت ہوئی۔ ہند نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس رہ کر پرورش پائی، مسلمان ہوئے اور بصرہ میں وفات پائی۔ خدیجہ کی عمر ۳۵ سال تھی کہ آپ کے والد خویلد بن اسد کا انتقال ہوا۔ تب حرب فجار نہ ہوئی تھی اور آپ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے نکاح میں نہ آئیں تھیں۔ اس حقیقت سے ان روایتوں کا واہی ہونا یقینی ہوجاتا ہے جو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کی شادی کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں کہ آپ نے اپنے والد کی مرضی کے خلاف ان کو شراب میں مدہوش کر کے تقریب نکاح منعقد کی۔
عام رؤساے قریش کی طر ح تجارت ہی حضرت خدیجہ کا ذریعۂ آمدن تھی۔ ان کا مال بڑے پیمانے پر شام جاتا تھا اور قریش کے دوسروں تاجروں کے جانے والے مجموعی مال کے برابر ہوتا۔ والد کی وفات کے بعد جب ان کے دوسرے شوہر بھی فو ت ہوگئے تو انھوں نے اجرت پر تجارت شروع کی۔ کئی سال تک اپنے غلام میسرہ یا شایداپنے چچا عمرو بن اسد کی نگرانی میں وہ کار وبار کرتی رہیں۔ اس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی عمر پچیس برس ہوچکی تھی۔ خدیجہ رضی اﷲ عنہا آپ کو جانتی تھیں کیونکہ آپ کی پھوپھی صفیہ بنت عبد المطلب، عوام بن خویلد کی بیوی اور خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی بھابھی تھیں۔آپ اس سے پہلے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کر چکے تھے۔ عبد اﷲ بن ابو الحسااور سائب بن عویمر مخزومی کے ساتھ کاروبار شراکت میں آپ کی دیانت و صداقت آپ کو امین کا لقب دے چکی تھی۔ انھی دنوںآپ کے چچا ابوطالب نے کہا: ’’میرے پاس مال ودولت نہیں اور ہماری گزر اوقات مشکل سے ہو رہی ہے۔ قریش کا یہ قافلہ شام کو جانے والا ہے۔ خدیجہ بنت خویلد اپنے تجارتی قافلوں کے ساتھ نگرانی کے لیے قریش کے آدمیوں کو بھیجتی ہیں۔ اگر تم ان کے پاس جا کر خود جانے کی پیش کش کرو تو وہ فوراً مان جائیں گی۔‘‘ ابوطالب کے اس مشورے کی خبر خدیجہ کو پہلے ہی مل گئی، چنانچہ انھوں نے آپ کو پیغام بھیجا: ’’میں آپ کو اپنی قوم کے افراد کو دینے والی اجرت سے دوگنا معاوضہ دوں گی۔‘ ‘ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابو طالب نے خود جا کر ان سے معاوضہ بڑھانے کی بات کی۔ اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کے چچا اہل قافلہ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دھیان رکھنے کی نصیحت کرتے رہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ شام کے شہر بصریٰ پہنچ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میسرہ، دونوں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھے تھے۔ قریب ہی نسطور نامی ایک راہب کا معبد تھا۔ وہ میسرہ سے ملا اور آپ کے نبی ہونے کی پیشین گوئی کی۔ سودا بیچتے ہوئے ایک آدمی سے آپ کی تکرار ہو گئی تو اس نے کہا: ’’ لات اور عزیٰ کی قسم کھاؤ۔‘‘آپ نے جواب میں فرمایا: ’’میں نے ان کی قسم کبھی نہیں کھائی۔ میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے منہ پرے کر لیتا ہوں۔‘‘تب اس شخص نے آپ کی بات مان لی اور میسرہ کو کہا: ’’اﷲ کی قسم ! یہ وہ نبی ہیں جن کا ذکر ہمارے علما نے اپنے صحیفوں میں پڑھا ہے۔‘‘ آپ نے وہ سامان تجارت فروخت کیا اور اس کے بدلے میں اور سامان خرید لیا جسے مکہ میں بیچنے سے مزید منافع ہوا۔ سیدہ خدیجہ نے طے شدہ معاوضے سے بھی دوگنا آپ کو ادا کیا۔
میسرہ نے سفر سے واپسی پر اپنی مالکہ کو اپنے مشاہدات بتائے۔ خدیجہ نے ورقہ بن نوفل سے ان باتوں کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا: ’’اگر یہ باتیں سچ ہیں تو محمد اس امت کے وہ نبی ہیں جن کا انتظار کیا جا رہا ہے، یہی ان کے آنے کا زمانہ ہے۔‘‘ اسی دوران میں مکہ میں آپ کی نیک نامی اور امانت کے خوب چرچے ہوئے۔ تین ماہ کا عرصہ نہ گزرا تھا کہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا نے آپ کی طرف نفیسہ بنت منیہ کو پیغام بر بنا کر بھیجا حالانکہ وہ پہلے بڑے بڑے سرداروں کی درخواست نکاح کو رد کر چکی تھیں۔ نفیسہ نے آ کرآپ سے پوچھا: ’’اے محمد!آپ کے شادی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ آپ نے جواب دیا: ’’میرے پاس مال نہیں جس کے ذریعے سے شادی کر سکوں۔‘‘ اس نے کہا: ’’اگر آپ کو مال سے بے نیاز کر دیا جائے اور خوب صورتی، دولت اور عزت کی دعوت دی جائے تو کیا آپ قبول کر لیں گے؟‘‘آپ نے پوچھا: ’’یہ خاتون کون ہیں؟‘‘اس نے بتایا: ’’خدیجہ۔‘‘آپ نے پوچھا: ’’یہ رشتہ کیسے ہو گا؟‘‘اس نے کہا:’’میں کراؤں گی۔‘‘اس وقت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ یہ مقدس رشتہ طے ہوا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے چچاؤں ابوطالب،حمزہ اور خاندان کے دوسرے بزرگوں کے ساتھ سیدہ خدیجہ کے مکان پر آئے۔ آپ کے سرپرست اور چچا ابو طالب نے وہ مختصر خطبہ پڑھا جو عربی ادب کی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے اور پانچ سو درہم مہر کے عوض یہ نکاح انجام پایا۔ یہ بعثت سے پندرہ سال پہلے ۲۵ عام الفیل کا سن تھا، آپ کی عمر مبارک ۲۵ برس اور ام المومنین خدیجہ کی۴۰ سال تھی۔ کچھ روایتوں میں ان کی عمر۳۵ سال بتائی گئی ہے۔ سید مرتضیٰ اورابو جعفر طوسی کا بیان صحیح نہیں کہ حضرت خدیجہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت کنواری تھیں۔ یہ پاک رشتہ ۲۴ سال نبھا۔ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی زندگی میں دوسری شادی نہ کی اور حضرت ابراہیم کے علاوہ آپ کی تمام اولاد انھی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ اگرچہ تاریخ میں ان کے حلیے کی تفصیل نہیں ملتی، لیکن پیام نکاح لے جانے والی نفیسہ بنت منیہ کے الفاظ ’’اگر آپ کو مال، جمال اور اخراجات کی کفالت کی دعوت دی جائے تو آپ منظور کریں گے؟‘‘ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ خوب صورت تھیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدا رویاے صالحہ سے ہوئی، جو خواب آپ دیکھتے سپیدۂ سحر کی طرح نمو دار ہو جاتا۔ پھر آپ خلوت گزیں ہوگئے، خور ونوش کا سامان لے جا کر کئی کئی راتیں تنہا غار حرا میں گزارتے۔ آپ اسی غار میں تھے کہ جبریل علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ حکم ہوا، ’اقرأ‘، پڑھ۔ جواب فرمایا:میں پڑھا ہوا نہیں۔ جبریل نے پکڑا، پکڑ کر دبایا اور کہا، ’اقرأ‘، پڑھ۔ آپ نے جواب ارشاد کیا، میں پڑھا ہوا نہیں۔ تیسری بار بھی یہ سوال جواب ہوا اور پھر وحی مکمل ہوئی: ’اقرأ باسم ربک الذی خلق. خلق الانسان من علق. اقرأ وربک الاکرم. الذی علّم بالقلم. علّم الانسان ما لم یعلم‘۔ ’’پڑھ اپنے پروردگار کانام لے کر جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو خون کے جمے لوتھڑے سے۔ پڑھ ،اور تیرا رب بہت باعزت (اور کرم فرما) ہے۔ جس نے سکھایا قلم کے ذریعے سے۔ سکھایا انسان کو جو و ہ نہ جانتا تھا۔ ‘‘(سورۂ علق۱۔۵) اس وحی سے آپ اس قدر خوف زدہ ہوئے کہ کانپنے لگے۔ گھر پہنچ کر کمبل اڑھانے کو کہا۔ تب حضرت خدیجہ ہی تھیں جنھوں نے آپ کی ڈھارس بندھائی انھوں نے کہا: ’’ نہیں! واﷲ، خدا آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مشکلات میں حق کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو نصرانی ہو چکے تھے، عام عربوں کے بر عکس لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور عربی میں انجیل تحریر کرتے تھے۔ اس وقت وہ ضعیف اور نابینا ہو گئے تھے، انھوں نے غار حرا میں وحی لانے والے فرشتے کی تفصیل سن کر کہا: ’’یہ وہ ناموس ہے جواﷲ نے موسیٰ علیہ السلام پر اتارا تھا۔ کاش اس وقت مجھ میں قوت ہوتی اورمیں زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہربدر کرے گی۔‘‘ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ کا جواب تھا: ’’دنیا میں جب بھی کوئی پیام وحی لایا تو دنیا اس کی دشمن ہو گئی۔ اگرتب میں زندہ ہو اتو آپ کی بھر پور مددکروں گا۔‘‘ تھوڑے دنوں کے بعد ورقہ کو اجل نے آن لیا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی اس روایت کی روشنی میں حضرت خدیجہ کے قبول اسلام کازمانہ متعین کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے اسلام لائیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ علی سب سے پہلے ایمان لائے، لیکن وہ اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھے، ان کے برعکس واقدی کا کہنا ہے کہ وہ اعلان نبوت کے ایک سال بعد مسلمان ہوئے۔ یہ روایت بھی مشہور ہے کہ ابو بکر پہلے مسلمان تھے۔ اس مسئلے کواس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حرا سے اتر کر سب سے پہلے گھر تشریف لائے اوراپنی اہلیہ خدیجہ ہی سے کہا: ’زمّلونی، زمّلونی‘ (مجھے کمبل اڑھاؤ ،مجھے کمبل اڑھاؤ)۔وہ آپ سے نکاح سے پہلے ہی اپنے چچا زاد ورقہ سے آپ میں نبوت کی نشانیوں کا پایا جانا معلوم کر چکی تھیں، اس کے علاوہ آپ کے ساتھ پندرہ سالہ خانگی زندگی گزار کر آپ کی راست بازی اور دیانت کا تجربہ کر چکی تھیں۔ اس لیے اسی لمحے انھوں نے ایمان قبول کر لیا ہوگا، ان کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس اور قریبی دوست ابو بکر کا نمبر رہا ہو گااور اس وقت آپ کے زیر کفالت علی کو حقیقت ایمان کو سمجھنے میں چند روز تو لگے ہوں گے۔ یحیےٰ بن عفیف کہتے ہیں:’’ میں زمانۂ جاہلیت میں مکہ آ کر عباس بن عبد المطلب کا مہمان ہوا۔ دن چڑھتے ہی ایک نوجوان نے کعبے کا رخ کیا، کچھ ہی دیر بعد ایک لڑکا آ کر اس کے دائیں طرف اور ایک خاتون پیچھے کھڑی ہو گئی۔ وہ مل کر رکوع و سجود کرنے لگے۔ مجھے عباس نے بتایا: یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداﷲ، علی بن ابو طالب اور خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ یہ تینوں ایک دین کے پیرو کار ہیں۔‘‘
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر نزول وحی کے وقت سیدہ خدیجہ کی عمرپچپن سال تھی۔ ان کے اسلام قبول کرنے سے اشاعت اسلام پر خوش گوار اثر پڑا۔ بنو اسد میں ان کے دس عزیزوں نے اسلام قبول کیا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کے بعد خدیجہ کبریٰ رضی اﷲ عنہا کی اس ترتیب سے چھ اولادیں ہوئیں۔ قاسم ،زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ اور عبد اﷲ۔ عبداﷲ کے علاوہ سب بچے آپ کے منصب نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے پیدا ہوئے۔ پہلے بیٹے قاسم کے نام پر آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔
نعمت ایمان سے سر فراز ہونے کے بعد ام المومنین خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی سب دولت و ثروت تبلیغ اسلام کے لیے وقف ہو گئی۔ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کاروبار ترک کر کے دینی امور میں مصروف تھے۔ آمدن بند ہو جانے کے بعد جمع پونجی پر گزر بسرہو رہی تھی۔ بڑے صاحب زادے قاسم دو سال کے ہوکر ابھی چلنا شروع ہوئے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ بڑی بیٹی زینب کی شادی حضرت خدیجہ کے بھانجے ابو العاص سے ہو چکی تھی۔ دوسری اور تیسری دختران رسالت رقیہ اور ام کلثوم کا نکاح آپ کے چچا ابولہب کے بیٹوں سے ہوا تھا جو چچاکی اسلام دشمنی کی وجہ سے فسخ کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بڑی رقیہ کا نکاح آپ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے فرما دیا اور بعثت کے دو برس بعد رخصتی ہو گئی۔ ام کلثوم اور فاطمہ ابھی چھوٹی تھیں۔ نبوت کے ایک سال بعد عبد اﷲ کی ولادت ہوئی۔ ابو ہالہ سے حضرت خدیجہ کے پہلے دو بچے ہالہ اور ہند بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پرورش میں تھے، اس لیے ربیب رسول کہلاتے تھے۔ جوں جوں کفار کی مخالفت بڑھتی گئی، حضرت خدیجہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ خود بھی صبر سے کام لیتیں اور آپ کو بھی تسلی دیتیں۔ عبداﷲ کی پیدایش سے بڑے بیٹے قاسم کی مرگ کا صدمہ کم ہو گیا تھا، لیکن طاہر و طیب کا لقب پانے والے عبد اﷲ قاسم سے بھی کم عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ۵ نبوی میں ہجرت حبشہ پیش آئی۔ اس وقت رقیہ کی عمر بارہ برس تھی۔ وہ اپنے شوہر عثمان غنی کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کر گئیں۔ ان کی واپسی ۴ سال کے بعد ۹ نبوی میں ہوئی۔ اتنا عرصہ بیٹی سے جدائی بھی ماں کے لیے تکلیف دہ عمل تھا۔ ۸نبوی میں حبشہ ہی میں خانوادۂ رسالت کے پہلے نواسے عبداﷲ بن عثمان کی ولادت ہوئی۔
محرم ۷ نبوی میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا۔ حبشہ کے شاہ نجاشی نے مہاجر صحابہ کو پناہ دی۔ دو نامی صحابہ عمر بن خطاب اور حمزہ بن عبد المطلب کے مشرف بہ اسلام ہونے سے اسلام کو طاقت ملی تو قریش نے باہم مشورے سے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا مقاطعہ کر دیا۔ کعبے کے متو لی خاندان بنو عبد الدار کے منصور بن عکرمہ نے ایک معاہدہ تحریر کر کے کعبے کے اندر لٹکا دیا۔ اس کی رو سے کوئی شخص بنو ہاشم سے بات چیت کر سکتا تھا نہ ان سے میل جول رکھ سکتا تھا۔ کھانے پینے کا سامان ان کو پہنچا سکتا تھا نہ ان سے رشتہ داری و قرابت کر سکتا تھا جب تک وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو قتل کے لیے قریش کے حوالے نہ کر دیتے۔ ان دونوں خاندانوں کے پچاس کے قریب افراد نے جبل ابو قبیس کے ایک درے کی گھاٹی میں پناہ لی جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بنو ہاشم کا موروثی درہ تھا۔ ابو طالب اور سیدہ خدیجہ آپ کے ساتھ تھے جبکہ ابولہب بنو عبد المطلب میں سے ہونے کے با وجود ا لگ رہا۔ تین سال آپ اور آپ کے اہل خانہ یہاں مقیم رہے۔ کھانے پینے کی چیزیں بہت مشکل سے چھپ چھپا کر پہنچتی تھیں۔ حضرت خدیجہ کے تین بھتیجے حکیم بن حزام، ابو البختری بن ہشام اور زمعہ بن اسود کافر ہونے کے باوجود غلہ پہنچاتے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کے سوتیلے بھائی نضلہ کا رشتے کا پوتا ہشام بن عمرو قرابت داری کا پاس کرتے ہوئے اونٹ پر کھانے کا سامان لاد کر لاتا اور درے کے قریب چھوڑجاتا۔ مسلسل تین سال تک آپ نے اور تمام اہل ہاشم نے یہ مصیبتیں جھیلیں۔ اس دوران میں منصور عبدری کا وہ ہاتھ ہی مفلوج ہوچکا تھا جس سے اس نے معاہدہ تحریرکیا تھا۔ معاہدے کی دستاویز کو دیمک کھا چکی تھی اور اس پر اﷲ کے نام کے سوا کچھ نہ بچا تھا۔ قریش میں بھی ایسے افراد تھے جو اس بائیکاٹ کو پسند نہ کرتے تھے۔ چنانچہ پانچ معزز قریشی اس معاہدے کو توڑنے کے لیے آگے بڑھے۔ ہشام بن عمرو عامری، زہیر بن ابو امیہ مخزومی، مطعم بن عدی، ابو البختری بن ہشام اورزمعہ بن اسودان کے نام تھے اوران میں سے آخری دو خدیجہ کے بھتیجے تھے۔
شعب ابی طالب سے نکلے کچھ روز ہوئے تھے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کی شریک حیات اور دکھ سکھ میں ان کا ساتھ دینے والی سیدہ خدیجہ کی وفات ہو گئی۔ ان کی عمر ۶۵ سال تھی۔ یہ ہجرت سے ۳ برس پہلے کا واقعہ ہے۔ تاریخ ۱۰ رمضان ۱۰ نبوی تھی۔ حجون کے قبرستان میں عبدالمطلب کی قبر سے کچھ دور ان کی تدفین کی گئی، ام ایمن اور ام فضل نے ان کو غسل دیا۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم خودقبر میں اترے، اب اس قبرستان کو جنت المعلا کہا جاتا ہے۔ تین دن قبل آپ کے چچا ابو طالب انتقال کر چکے تھے، ان دونوں صدموں کی بنا پر۱۰ نبوی کے سن کو عام الحزن (غم کا سال) کہاجا تا ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ کی خدمات کا اعتراف کر کے فرمایا کرتے تھے: ’’خدیجہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میرا انکار کیا اورانھوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب اور لوگوں نے مجھے جھوٹا قرار دیا۔ انھوں نے اپنے مال سے اس وقت میری مدد کی جب دوسروں نے مجھے اس سے محروم کر دیا۔ اﷲ نے مجھے ان سے اولاد دی جب کہ دوسری ازواج سے یہ نعمت نہ ملی۔‘‘آپ نے انھیں جنت کی بشارت بھی دی۔ آپ زندگی بھر ان کو یاد کرتے رہے حتیٰ کہ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا:’’آپ اکثر ان کاذکر فرماتے تھے۔ کوئی بکری بھی ذبح کرتے تو خدیجہ کی سہیلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر انھیں اس میں سے حصہ بھیجتے۔‘‘ جبریل علیہ السلام بھی خدیجہ کے لیے سلام لے کر آتے۔ اﷲ ان پر رحمتیں فرمائے۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب(ابن عبد البر)،السیرۃ النبویہ (ابن کثیر)، رحمت للعالمین (قاضی سلیمان منصور پوری، اردو دائرہ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)۔

-----------------------------

 

بشکریہ ڈاکٹر وسیم مفتی

تحریر/اشاعت جنوری 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 19, 2016
3218 View