دعوت اور قرآن کا تعلق - سید منظور الحسن

دعوت اور قرآن کا تعلق

[جناب جاوید احمد غامدی اپنے ہفتہ وار درس قرآن و حدیث کے بعد شرکا کے سوالوں کے جواب دیتے رہے ہیں۔ یہ ان میں سے چند سوال و جواب کا انتخاب ہے۔]


سوال: غامدی صاحب ہماری دعوت بالعموم ہمارے اس فہم پر مبنی ہوتی ہے جو ہم آپ کے افکار سے حاصل کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کے افکار آپ کے اپنے فہم ہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں ہماری دعوت قرآن مجید کی دعوت کس طرح بن سکتی ہے؟ 
جواب: اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دعوت ہمیشہ قرآن مجید ہی کی طرف ہونی چاہیے، لیکن قرآن مجید کی دعوت کو پیش کرنے کا کام اصحاب علم ہی انجام دے سکتے ہیں۔ قرآن مجید کے فہم کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے انسان کو ایک عمر درکار ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت پیدا کرنے کے بعد ہی کوئی شخص قرآن کے درس و تدریس اور ترجمہ و تفسیر کی خدمت انجام دے سکتا ہے۔ 
جو اصحاب علم دین کے بارے میں رہنمائی کرتے ہیں، وہ بہرحال اپنا ایک نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ انھوں نے دین کو اخذ کرنے کے لیے کچھ اصول بھی متعین کیے ہوتے ہیں۔ ان کے کام پر ایک عمومی اعتماد ہی آپ کو ان سے وابستہ کرتا ہے۔ ہر صاحب علم جب اپنا نقطۂ نظر پیش کرے گا تو اس کے دلائل دے گا۔ آپ اگر ان دلائل پر مطمئن ہیں تو اسے قبول کیجیے اور اگر آپ کو اطمینان نہیں ہے تو اسے قبول نہ کیجیے۔ لیکن جہاں تک دین کی دعوت کا تعلق ہے تو وہ قرآن اور سنت کو لوگوں تک پہنچانے کا نام ہے۔ دعوت کی بنیاد ہر حال میں انھی کو بننا چاہیے۔قرآن و سنت کے علاوہ آپ جس چیز کو بھی دعوت کا موضوع بنائیں گے، وہ محض فرقہ بندیوں کا باعث بنے گی۔ البتہ آپ جن اہل علم پر اعتماد کرتے ہیںیا جن سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، ان کی تحریروں یا تقریروں سے لوگوں کو متعارف کرانے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ اس سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے کہ کسی نقطۂ نظر کے بارے میں جو فہم آپ کو حاصل ہے، وہ دوسروں کو بھی حاصل ہو جائے۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت جون 2007 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
3079 View