کشمیر کا زلزلہ قیامت کی یاددہانی - سید منظور الحسن

کشمیر کا زلزلہ قیامت کی یاددہانی

[اکتوبر۲۰۰۶ء میں کشمیر میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس میں ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ اس موقع پر مختلف ٹی وی چینلز نے جناب جاوید احمد غامدی سے اس حادثے کے بارے میں سوالات کیے۔ ان سوالوں کے جواب میں غامدی صاحب نے جو گفتگو ئیں کیں، زیر نظر مضمون ان کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔]

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا:’’جب زمین ہلا دی جائے گی جس طرح اسے ہلانا ہے۔‘‘ وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا: ’’اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔‘‘ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَہَا: ’’اور انسان کہے گا: اس کو کیا ہوا؟‘‘ یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا، بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا:’’اس دن، تیرے پروردگار کے ایما سے، وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔‘‘
یہ ’ زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃِ‘ ہے۔ اس کا ایک دن مقرر ہے ۔ وہ دن، ’’جب صور میں ایک ہی مرتبہ پھونک ماری جائے گی، اور زمین اور پہاڑوں کو ایک ہی مرتبہ اٹھا کر پاش پاش کر دیا جائے گا‘‘؛ ’’جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی‘‘؛ ’’جب آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی‘‘؛ ’’جب چاند گہنائے گا‘‘؛ ’’جب تارے بکھر جائیں گے‘‘؛ ’’جب سمندر ابل پڑیں گے‘‘ ...’’تو اس دن ہونے والی ہو جائے گی‘‘۔’’اس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے ۔‘‘
یہ قیامت کا زلزلہ ہے۔ اسی کی یاد دہانی ہے جو ابراہیم و موسیٰ ،مسیح و محمد اور دیگر انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اپنے زمانوں میں کی ہے، تورات، زبور اور انجیل اسی سے خبردارکرتی رہی ہیں اور قرآن کی صورت میں پروردگار عالم کا آخری صحیفہ چودہ صدیوں سے اسی کی منادی کر رہا ہے۔ کشمیر کا زلزلہ بھی اسی کی یاد دہانی ہے۔
اس دن،زندگی رواں دواں تھی۔ لوگ معمولات میں سرگرم تھے۔ یک بہ یک زمین میں جنبش ہوئی، پہاڑ ڈگمگائے، درخت اکھڑے ، چٹانیں ٹوٹیں، دیواریں گریں اور پھرپلک جھپکتے میں بستیوں کی بستیاں اپنی بنیادوں پراوندھی ہو گئیں۔ کشمیر کی وادی کے قریباًنصف لاکھ لوگ لمحے بھر میں موت کی وادی میں اتر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرنے والوں میں شیر خوار بھی تھے، کم سن بھی تھے ، جوان بھی تھے اور سن رسیدہ بھی ۔ یہ دنیا سے رخصت ہوئے، ان کی زندگی کا سفر پوراہوا، مہلت عمر ختم ہوئی اور عرصۂ آزمایش مکمل ہو گیا۔ دنیا کی کھیتی میں انھوں نے جو بونا تھا، بو لیا،اس کا ثمراب انھیں آخرت میں جنت یا دوزخ کی صورت میں پانا ہے۔ یوم قیامت یہ دوبارہ جئیں گے اور اعمال کی جواب دہی کے لیے پروردگار کے حضور میں پیش ہوں گے۔
یہ مرگ انبوہ اصل میں وہی موت ہے جو اللہ کے حکم سے فرداً فرداً ہر روز نافذ ہوتی ہے۔کرۂ ارض کے ہر خطے میں اس کا مظاہرہ جاری ہے۔ طبعی اسباب ، وبائی امراض اور حادثات کے نتیجے میں لاکھوں لوگ ہرلمحہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ہمارے لیے یہ روز مرہ کا واقعہ ہے کہ ہم اپنے ہم نفسوں کے لاشے اپنے کندھوں پر اٹھاتے اور اپنے ہاتھوں سے زمین میں دفن کرتے ہیں۔ انفرادی موت کے یہ واقعات درحقیقت قیامت ہی کی تذکیر کرتے ہیں، مگر ہم انھیں معمول کے واقعات سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں اور قیامت سے غافل رہ کر دنیا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہی غفلت ہے جس سے انسانوں کو بیدار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک ہی علاقے کی کثیر تعداد پر بہ یک وقت موت نافذ کر دیتے ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو زلزلے کی صورت میں قیامت کی یہ تنبیہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے عالمی سطح پر برپا ہوئی ہے۔ دنیا بھرکے لوگوں کو اس کی خبر بھی پہنچی ہے اور انھوں نے اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ اگر ان کی آنکھیں بینا ہوں، کان شنوا ہوں، حواس بیدار ہوں تو وہ اس حادثے کی خبر سے قیامت کی خبر کی طرف متوجہ ہوسکتے اور یہ جان سکتے ہیں کہ روزقیامت ایسا زلزلہ آئے گا جو پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ایک ہی مرتبہ تمام انسانوں پر موت طاری ہوگی ۔ وہ خاک میں مل کر خاک ہو جائیں گے۔ پھر وہ بھی جو قیامت کے حادثے کا شکار ہوئے اور وہ بھی جو اس سے پہلے اپنی اپنی زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوئے، دوبارہ جی اٹھیں گے۔ اس حال میں میدان حشرمیں جمع ہوں گے کہ ان کے ہاتھوں میں اعمال نامے ہوں گے جن میں ان کی زندگی بھر کے اچھے اور برے اعمال درج ہوں گے۔ عدالت لگے گی۔ ہر شخص پروردگار کے حضور میں پیش ہو گا۔ جن لوگوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری ہوں گے ، انھیں جنت کی ابدی زندگی کا انعام ملے گا اور جن کے گناہوں کے پلڑے بھاری ہوں گے، وہ جہنم کی سز ا کے مستحق قرار پائیں گے۔
اس تنبیہ اور اس یاددہانی کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ پروردگار کی طرف سے ایک آزمایش بھی ہے۔ صبر کی آزمایش اور شکر کی آزمایش۔ صبر کی آزمایش ان لوگوں کے لیے ہے جو اس حادثے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان متاثرین میں وہ بھی ہیں جن کے عزیز ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں،وہ بھی ہیں جنھیں اب تا عمر معذوری کی زندگی بسر کرنی ہے ،وہ بھی ہیں جن کے گھر تباہ ہو گئے ہیں اوروہ بھی ہیں جن کے روزگار کے ذرائع ختم ہو گئے ہیں۔وہ سب اگر اس واقعے کو صبر کاامتحان سمجھتے اور اسے اپنے پروردگار کے ایک حکم کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں اور اس کے حضور میں جزع فزع کرنے کے بجاے اور یاس میں مبتلا ہونے کے بجاے استحکام اور ثابت قدمی کے ساتھ اس سانحے کو جھیل جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے مالک کی طرف سے صبر کی آزمایش میں پورے اترے ہیں۔ انھیں اپنے پروردگار پر پورا بھروسا رکھنا چاہیے۔ ان کا پروردگار ان مصائب اور ان محرومیوں کے بدلے میں انھیں اس قدر زیادہ دے گا کہ وہ نہال ہو جائیں گے۔
محفوظ رہنے والوں کے لیے یہ حادثہ شکر کی آزمایش ہے۔خدا اگر چاہتا تووہ بھی اس حادثے یا اس جیسے کسی دوسرے حادثے کا شکار ہو جاتے ۔ اس نے اگر انھیں محفوظ رکھا ہے تو یہ ان کا استحقاق نہیں ہے، بلکہ ان کے مالک کی کرم نوازی ہے ۔ اس کرم نوازی کا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے حضور سراپا شکر بن جائیں۔ شکر کے اظہار کے لیے ان کا عمل دو پہلوؤں سے نمایاں ہونا چاہیے: ایک اس پہلو سے کہ وہ اس واقعے کو قیامت کی یاددہانی تصور کرتے ہوئے اسے اپنی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ بنا لیں۔ ماضی کی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کریں اور مستقبل کے بارے میں یہ فیصلہ کریں کہ انھیں بقیہ زندگی صرف اور صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے بسرکرنی ہے۔ اپنے اندریہ شعور پیدا کریں کہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے، اپنے شب و روز کو اسی کے لیے مختص کر دینا خسارے کا سودا ہے۔ اس کے مقابل میں اخروی زندگی لافانی ہے، نفع کا سودا یہی ہے کہ اپنے معمولات کو اسی کی کامیابی کے لیے خاص کیا جائے۔
اظہار تشکر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ اس حادثے کے متاثرین کے لیے سراپا ایثار بن جائیں۔ ان کی ہمت بڑھائیں، ان کے لیے علاج، خوراک،لباس اور رہایش کا بندوبست کریں اوراپنے مالوں میں سے ان کے لیے دل کھول کر خرچ کریں اور خدا کے اس فرمان کو یاد رکھیں:
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ، فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلآی اَجَلٍ قَرِیْبٍ، فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ.
(المنافقون۶۳:۱۰)
’’اور ہم نے جو روزی تمھیں دی ہے، اس میں سے خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اس وقت وہ کہے کہ پروردگار ، تونے مجھے تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دی کہ میں خیرات کرتا اور (اِس کے نتیجے میں)تیرے نیک بندوں میں شامل ہو جاتا۔‘‘
یہ حادثہ، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، سر تا سر قیامت کی یاددہانی ہے، مگر ہمارے ہاں بالعموم اسے عذاب الٰہی قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعبیر قرآن و سنت کے بالکل خلاف ہے۔عذاب الٰہی کے معنی اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی سزا کے ہیں اوریہ تازیانہ ظاہر ہے کہ انھی لوگوں پر برستا ہے جن کی فرد قرار داد جرم متعین ہوتی ہے،جن کے پاس مدافعت کے لیے کوئی عذر نہیں رہتا، جو پروردگار کی عدالت میں پیش کیے جاتے ہیں اوروہاں سے مجرم قرار پا کر سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ عامۃ الناس کے لیے یہ عدالت قیامت میں لگنی ہے اور اسی موقع پر ان کی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا ہے۔ چنانچہ ایسے حادثات کا شکار ہونے والوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہوا ہے، کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ البتہ تاریخ انسانی میں متعدد مواقع ایسے آئے ہیں جب پروردگار کی عدالت زمین پر قائم ہوئی ہے اور اس کے فیصلے کے نتیجے میں بعض اقوام پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔اس عذاب کی کیا حقیقت اور کیا نوعیت ہے، اس کے بارے میں جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے لکھا ہے:
’’... اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں اور اپنی طرف سے وحی و الہام کے ذریعے سے اُن کی رہنمائی کرتے ہیں ،اُنھیں نبی کہا جاتا ہے ۔لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے ۔قرآن میں اِس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور اُن کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہوتا ہے ۔قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار ،انذار عام ،اتمام حجت اور ہجرت و براء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اِس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہو جاتی ہے ،خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی جاتی ہے ۔اِس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے ،اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں : ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اُسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اُس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اُس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں ۔اِن دونوں ہی صورتوں میں رسولوں سے متعلق خدا کی وہ سنت لازماً روبہ عمل ہو جاتی ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان ہوئی ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ،
’’بے شک ،وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے
اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ. کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(المجادلہ ۵۸ :۲۰۔۲۱)
رسول کی مخالفت کر رہے ہیں،وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے ۔ بے شک، اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘
پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑ دینے کے بعد یہ ذلت اِس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں ، ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا اور ابروباد کے لشکر قوم پر اِس طرح حملہ آور ہو جاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح ، قوم لوط ،قوم صالح ،قوم شعیب اور اِس طرح کی بعض دوسری اقوام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔اِس سے مستثنیٰ صرف بنی اسرائیل رہے، جن کے اصلاً توحید ہی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے اُن کو چھوڑنے کے بعد اُن کی ہلاکت کے بجاے ہمیشہ کے لیے مغلوبیت کا عذاب اُن پر مسلط کر دیا گیا ۔
دوسری صورت میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے۔اِس صورت میں قوم کو مزید کچھ مہلت مل جاتی ہے ۔رسول اِس عرصے میں دارالہجرت کے مخاطبین پر اتمام حجت بھی کرتا ہے ،اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی تربیت اور تطہیر و تزکیہ کے بعد اُنھیں اِس معرکۂ حق وباطل کے لیے منظم بھی کرتا ہے اور دارالہجرت میں اپنا اقتدار بھی اِس قدر مستحکم کر لیتا ہے کہ اُس کی مدد سے وہ منکرین کے استیصال اور اہل حق کی سرفرازی کا یہ معرکہ سر کر سکے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی ۔ ‘‘(میزان۴۸۔۴۹)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ عذاب رسولوں کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ خاص ہے اور ختم نبوت کے بعد اس کا دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت نومبر 2005

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
2483 View