سید احمد شہید اور ان کی تحریک جہاد - سید منظور الحسن

سید احمد شہید اور ان کی تحریک جہاد

 سوانح
سید احمد ۲۹ نومبر ۱۷۸۶ء کو رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر میں مکتب میں داخل ہوئے۔ تعلیم کی طرف خاص رغبت محسوس نہ ہوئی۔ سپاہیانہ کھیلوں سے زیادہ دل چسپی رہی۔ بلوغ کو پہنچے تو خدمت خلق کا میلان ہوا۔ ساتھ ساتھ عبادت کا ذوق بڑھااور تہجد کی نماز معمول بن گئی۔ ۱۷، ۱۸ سال کی عمر میں تحصیل معاش کے لیے لکھنؤ گئے۔ وہاں چند مہینے گزارے اور پھرحضرت شاہ ولی اللہ کے صاحب زادے شاہ عبدالعزیز صاحب سے ملاقات کی غرض سے دہلی روانہ ہو گئے۔ شاہ صاحب نے انھیں تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے بھائی شاہ عبدالقادر کے سپرد کیا۔یہاں سید صاحب نے نصاب تعلیم تو مکمل نہیں کیا، مگر دینی علوم سے ضروری واقفیت بہم پہنچا لی۔چار پانچ سال دہلی میں گزار کرواپس رائے بریلی پہنچے۔چند برس بعد نواب امیر احمد خان کے لشکر میں شامل ہو گئے۔ یہاں انھوں نے سپاہیوں میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امیر خان انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا چاہتے تھے ۔ جب امیر خان انگریزوں کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ نہ کر سکے اور ان کے ساتھ مصالحت اور ماتحتی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے تو سید احمد نے انھیں مصالحت سے روکنے اور برسرجنگ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ، مگر وہ آمادہ نہیں ہوئے۔ چنانچہ کم و بیش ۶ برس امیر خان سے وابستہ رہنے کے بعد سید صاحب علیحدہ ہو گئے اور دوبارہ شاہ عبدالعزیز کے پاس دہلی چلے گئے۔ اس وقت ان کی عمر۳۳ سال تھی۔ شاہ عبدالقادر وفات پا چکے تھے۔ سیدصاحب انھی کی مسجد میں مقیم ہوئے اور سلسلۂ بیعت شروع کیا۔جب مولانا عبدالحئی اور شاہ اسماعیل جیسے علما دائرۂ بیعت میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کثرت کے ساتھ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد سید احمد نے ہندوستان کے متعدد علاقوں کا دورہ کیا۔ ان موقعوں پر بے شمار لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اس دوران میں مولانا عبدالحئی اور شاہ اسماعیل ان کے ہمراہ رہے۔ پھر وہ اپنے رفقا کے ہمراہ ایک بڑے قافلے کی صورت میں حج کے لیے روانہ ہوئے۔حج کے دوران میں عقبہ کے مقام پر اپنے رفقا سے جہاد کی بیعت لی۔ واپس آ کر بریلی میں قیام کیا اور لوگوں کی حربی تربیت میں مصروف ہو گئے۔ اس زمانے میں انھوں نے ہندوستان کے علما اور اہل سیادت کو خطوط لکھ کر جہاد کے لیے ابھارا۔ 
کچھ سرفروشوں کی جمعیت تیار ہو جانے کے بعدانھوں نے اسلام اور مسلمانوں کی حمیت میں مسلح جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس سلسلے میں وہ انگریزوں سے برسرپیکار ہونا چاہتے تھے، مگرحالات اور بعض مصالح کے پیش نظرانھوں نے پنجاب میں قائم رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کا عزم کیا۔اس مقصد کے لیے انھوں نے پشاور کے نواحی علاقوں کو اپنا مستقر بنانے کا فیصلہ کیا۔یہ علاقے لاہور کی سکھ حکومت کے باج گزار تھے۔ سید صاحب چند سو سرفروشوں کو لے کر نکلے اور سال بھر سفر کرتے ہوئے مقررہ علاقے میں پہنچے۔ بعض مقامی سرداروں کی حمایت سے اپنی امارت قائم کی اور سکھوں کے ساتھ جنگوں کا سلسلہ شروع کیا۔یہ سلسلہ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکااور ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو وہ بالا کوٹ کے مقام پر اپنے بیش تر ساتھیوں سمیت شہید ہو گئے۔
افکار
سید احمد شہید جہاد و قتال کے ذریعے سے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے جو نقطہ ہاے نظر قائم کیے، وہ زیادہ تر ان کے خطوط اور خطبات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ان کی بنا پر یہاں چند بنیادی نکات بیان کیے جا رہے ہیں۔
دین کی اشاعت میں اصل کردارجہاد کا ہے
سید احمد شہید کا تصور یہ تھا کہ اسلام کی اشاعت اصلاً جہاد ہی کی بدولت ہوئی ہے۔ وہ اکثر جسم پر ہتھیار سجا کر نکلتے اور اپنے اہل بیعت کو بھی اس کی ترغیب دیتے۔ ایک موقع پر رفقا کے ہمراہ ہتھیار لگا کر نکلے۔ کسی نے کہا کہ یہ تلوار یا بندوق وغیرہ باندھنا آپ کے شایان شان نہیں ہے، یہ جہالت کے اندازہیں اور آپ کے آبا کے طرز عمل کے خلاف ہیں۔ یہ سن کران کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ کہنے لگے:

’’اس بات کا آپ کو کیا جواب دوں ؟ اگر سمجھیے تو یہی کافی ہے کہ یہ وہ اسباب خیر و برکت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاعلیہم السلام کو عنایت فرمائے تھے تاکہ کفار و مشرکین سے جہاد کریں اور خصوصاً ہمارے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سامان سے تمام کفار و اشرار کو زیر کر کے جہان میں دین حق کو روشنی بخشی ۔ اگر یہ سامان نہ ہوتا تو تم نہ ہوتے اور اگر ہوتے تو خدا جانے کس دین و ملت میں ہوتے ۔ ‘‘ (وزیر الدولہ،وقائع احمدی۳۰۰)

جہاد تمام عبادات سے افضل ہے
سید صاحب کے نزدیک جہاد تمام عبادات سے برتر ہے۔ آغاز کار میں انھوں نے لوگوں کو قیام و سجود کی طرف زیادہ راغب کیا اوراس ضمن میں تصوف کے طریق بھی اختیار کیے، مگر بہت جلد اس پر جہاد کی تلقین و تربیت نے غلبہ پانا شروع کر دیا۔ اس تبدیلی پر بعض لوگوں نے شکایت کی توسید صاحب نے فرمایا:

’’ ان دنوں اس (تصوف و سلوک) سے افضل کام ہم کو درپیش ہے ۔ اسی میں ہمارا دل مشغول ہے ۔ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیاری ہے ۔ اگر کوئی تمام دن روزہ رکھے ، تمام رات عبادت و ریاضت میں گزارے اور نوافل پڑھتے پڑھتے پیروں میں ورم آ جائے اور دوسرا شخص جہاد کی نیت سے ایک گھڑی میں بارود اڑائے تاکہ کفار کے مقابلے میں بندوق لگاتے آنکھ نہ جھپکے تو وہ عابد اس مجاہد کے رتبے کو ہرگز نہیں پہنچ سکتا اور(سلوک و تصوف کا) وہ کام اس وقت کا ہے ، جب (جہادکے)اس کام سے فارغ البال ہو۔‘‘(وزیر الدولہ، وقائع احمدی۴۴۸)

غلبۂ دین وعدۂ الٰہی ہے
سید احمد نے اس نظریے کو پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ مسلمانوں کی نصرت اور دین اسلام کو غلبہ عطا فرمائے گا، اس لیے مسلمان اگر جدوجہد جاری رکھتے ہیں تو وہ لازماً کامیاب ہو ں گے۔اہل ہند کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’...(ہماری جدوجہد کا) یہ سلسلہ انجام کو پہنچ کر رہے گا’ وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘ (۳۰:۴۷) اور اللہ کے وعدے کے مطابق یہ دین متین تمام ادیان پر غالب ہو کر رہے گا۔‘‘ 
(ابوالحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/۴۷۸) 

مسلمانوں پرسرکش کفار کے ساتھ جنگ واجب ہے
سید احمد اس بات کا بھی اظہار کرتے تھے کہ کافروں اور سرکشوں سے ہر زمانے میں اور ہر مقام پر جنگ لازم ہے۔مسلمانوں کی حالت اور اقامت جہاد کے حوالے سے ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’اگرچہ کفار اور سرکشوں سے ہر زمانے اور ہر مقام میں جنگ کرنا لازم ہے ، لیکن خصوصیت کے ساتھ اس زمانے میں کہ اہل کفر و طغیان کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے ،مظلوموں کی آہ و فریاد کا غلغلہ بلند ہے ، شعائر اسلام کی توہین ان کے ہاتھوں صاف نظر آ رہی ہے ۔ اس بنا پر اب اقامت رکن دین ، یعنی، اہل شرک سے جہاد عامۂ مسلمین کے ذمے کہیں زیادہ مؤکد اور واجب ہو گیا ہے۔‘‘ (ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید۱/ ۳۵۶۔۳۵۷)

اہل ہند کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: 

’’... فقیر کی غرض یہ ہے کہ کام کا وقت سر پر آگیا ہے اور معرکۂ کارزار درپیش ہے۔ ہر صاحب ایمان اور ہر مسلمان کوجسے اللہ نے اطاعت و انقیاد کی دولت عطا فرمائی ہے، اس وقت لازم ہے کہ جس طرح ممکن ہو، فقیر کے پاس پہنچ جائے اور مجاہدین اور مہاجرین کے زمرے میں شامل ہو جائے۔ ...جو شخص اس معرکے میں خود حاضر ہو گا، وہ سعادت سے مشرف ہو گا اور دوسروں سے سبقت لے جائے گا اور جو اس معاملے میں کاہلی اور سستی سے کام لے گا، وہ کل قیامت میں کف افسوس ملے گا۔‘‘(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید۱/۴۷۷۔۴۷۸)

دین کا قیام سلطنت سے ہے
سید احمد کاسیاسی نظریہ یہ تھا کہ دین اور سلطنت میں کوئی تفریق نہیں، بلکہ دین کاقیام سلطنت کے قیام پر منحصر ہے۔ اپنے ایک خط میں انھوں نے اس نظریے کی وضاحت کی ہے:

’’حقیقت میں مطابق مقولۂ ’’سلطنت و مذہب جڑواں ہیں ‘‘ اگرچہ یہ قول حجت شرعی نہیں ، لیکن مدعا کے موافق ہے کہ دین کا قیام سلطنت سے ہے اور وہ دینی احکام، جن کا تعلق سلطنت سے ہے ، سلطنت کے نہ ہونے سے صاف ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور مسلمانوں کے کاموں کی خرابی اور سرکش کفار کے ہاتھوں اُن کی ذلت و نکبت اور شریعت مقدسہ کے شعائر کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی مساجد و معابد کی تخریب جو ہوتی ہے ، وہ بخوبی ظاہر ہے ۔‘‘ 
(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/ ۳۵۹)

تبلیغ جہاد و قتال کے بغیر نامکمل ہے 
انھوں نے اس نظریے کا بھی اظہار کیا کہ دین کی دعوت وتبلیغ کے کسی مرحلے میں اگر جہاد نہ ہو تواس کار خیر کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔ ہندوستانی علما کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’چونکہ زبانی دعوت وتبلیغ شمشیر و سناں سے جہاد کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، اس لیے رہنماؤں کے پیشوا اور مبلغوں کے سردار محمد رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں کفار سے جنگ کرنے کے لیے مامور ہوئے اور دینی شعائر کی عزت اور شریعت کی سربلندی و ترقی اسی رکن جہاد کی اقامت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی۔‘‘(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/۳۶۱)

جہادکے لیے عسکری مساوات ضروری نہیں ہے
جنگی کارروائیوں کے دوران میں ایک موقع پر رنجیت سنگھ کی فوج کے سالار وینٹورا نے سید احمد شہید سے سفارتی ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ سید صاحب نے مولوی خیرالدین صاحب کو اپنے سفیر کے طور پر روانہ کیا۔ اس ملاقات میں جو گفتگو ہوئی، اس سے سید صاحب کے افکار کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اس کا خلاصہ بیان کر دیتے ہیں۔وینٹورا نے جو فارسی زبان پر عبور رکھتا تھا، مولوی صاحب سے پوچھاکہ آپ کے خلیفہ نہایت بے سروسامانی کی حالت میں ایک ایسی ہستی سے کیوں برسرپیکار ہیں جو خزانوں، دفتروں، فوج اور لشکروں کی مالک ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اسلام میں پانچ احکام فرض کا درجہ رکھتے ہیں:نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد۔جہاد کا شرعی مفہوم اعلاے کلمۃ اللہ کی جدوجہد ہے۔ سید صاحب نے جہاد کا فریضہ ادا کرنے کا تہیہ کیا ہے۔ ادائیگی جہاد کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ مجاہدین کی جماعت کا امام ہو جس کے تحت شرعی طریقے سے جہاد کیا جا ئے۔دوسرے یہ کہ کوئی دارالامن ہو، جہاں سے اس فریضے کا آغاز کیا جا سکے۔ ہندوستان میں سید صاحب کی صورت میں امام تو میسرتھا، مگردارالامن میسر نہیں تھا اور سرحد میں قبائل یوسف زئی کو دارالامن تو میسر تھا، مگران کا کوئی شرعی امام نہ تھا۔ چنانچہ سید صاحب نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔یہاں کے لوگوں نے ان کی خلافت و امامت پر بیعت کی۔ اب ہمارے لیے ان کی حیثیت امیر المومنین کی ہے۔ دین میں جماعت مجاہدین کے امام کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ اس کی عسکری صلاحیت دشمن کے برابر ہو۔ البتہ دین کی ترقی شرط لازم ہے۔
وینٹورا نے کہا کہ آپ کی باتیں ٹھیک ہیں، مگر یہ چیزناقابل فہم ہے کہ آپ کے خلیفہ کے پاس نہ افواج ہیں، نہ توپ خانہ، نہ سرمایہ، نہ ملک، لیکن اس کے باوجود ان کے اتنے بڑے عزائم ہیں۔
مولوی صاحب نے کہاکہ اہل دنیا کو تو فوج، توپ اور خزانوں پر اعتقاد ہوتا ہے اور ہم کو اللہ کی قدرت پر بھروسا ہے۔ ہماراعقیدہ ہے کہ’ کَمْ مِّنْ فِءَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِءَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ‘۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی پیغمبر کے پاس بھی خزانہ، توپ اور فوج نہ تھی ۔ انھوں نے غریب پیرووں کے ساتھ بڑے بڑے زبردستوں کو خاک میں ملا دیا۔ 
اہداف
ان افکار ونظریات کی بنیاد پر جو اہداف سید احمد کے پیش نظر رہے ، وہ یہ ہیں:
کفر وضلالت سے جنگ اور اعلاے کلمۃ اللہ
سید احمد نے اپنی تحریک جہاد کامقصد کفر و ضلالت کے خلاف جنگ طے کیا۔ سرحد کے ایک سردار کو ارسال کیے جانے والے خط میں انھوں نے لکھا ہے:

’’اس تمام جدوجہد سے فقیر کا مقصود صرف یہ ہے کہ اہل کفر و ضلالت سے جنگ کرنے کے بارے میں جو احکام وارد ہوئے ہیں اور فرمان خداوندی ’جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ‘ (اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرو) کی تعمیل کی صورت پیدا ہو۔ فرماں بردار بندے کے لیے اپنے مالک کے حکم کی تعمیل کے بغیرہٖ چارہ نہیں۔‘‘ ( ابو الحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/۳۵۳)
شاہ سلیمان کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اس تمام معرکہ آرائی اور جنگ آزمائی کا مقصودصرف یہ ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو، رسول اللہ، صلی اللہ علیہ وسلم، کی سنت زندہ ہو اور مسلمانوں کا ایک ملک کفار و مشرکین کے قبضے سے نکل آئے۔ اس کے سوا کوئی مقصود نہیں۔‘‘(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/ ۳۵۸۔۳۵۹)
اسی طرح امراے ہندوستان کے نام ایک خط میں لکھا ہے:
’’...کفار اور دشمنوں کے ساتھ جو جذبۂ جہادفقیر کے دل میں موجزن ہے ، اس میں رضاے الٰہی اور اعلاے کلمۃ اللہ کے مقصد کے سوا عزت و جاہ و مال و دولت، شہرت و ناموری ، امارت و سلطنت، برادران و معاصرین پر فضیلت و بزرگی یا کسی اور چیز کا فاسد خیال ہرگز دل میں نہیں ہے۔‘‘ ( ابو الحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/ ۳۵۶)

رضاے الٰہی کا حصول
انھوں نے واضح کیا کہ ان کی ساری جدوجہدمتاع دنیا اورحکومت و سلطنت کے لیے نہیں ہے، بلکہ وہ یہ سب کچھ سرتاسر رضاے الٰہی کے لیے کر رہے ہیں۔ سرحد کے علما اور رؤسا کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’ہم محض رضاے الٰہی کے آرزو مند ہیں ۔ ہم اپنی آنکھوں اور کانوں کو غیر اللہ کی طرف سے بند کر چکے ہیں اور دنیا و مافیہا سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں ۔ ہم نے محض اللہ کے لیے علم جہاد بلند کیا ہے۔ ہم مال و منال، جاہ و جلال ، امارت و ریاست ، حکومت و سیاست کی طلب و آرزو سے آگے نکل گئے ہیں ۔ خدا کے سوا ہمارا کوئی مطلوب نہیں ۔ ‘‘ (ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/ ۳۵۵)

مزید لکھتے ہیں:

’’جب تک ہمارے جسم میں جان ہے اور ہمارے سر جسموں کے ساتھ ہیں، ہم بصد حیلہ و فن اسی سودے میں لگے ہوئے ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اپنے مالک کی اطاعت میں مشغول ہیں اور محض رضاے الٰہی کے آرزو مند۔‘‘
(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/۳۶۱۔۳۶۲) 

ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا قیام
ہندوستان میں ان کی مساعی کا عملی ہدف انگریزوں کو نکالنا اور مسلمانوں کی حکومت کو از سر نو قائم کرکے نفاذ شریعت کی راہ ہموار کرنا تھا۔ہند میں جہاد کی ضرورت کے حوالے سے وزیر گوالیار کو لکھتے ہیں:

’’جناب کو خوب معلوم ہے کہ یہ پردیسی سمندر پار کے رہنے والے ، دنیا جہان کے تاج دار اور یہ سودا بیچنے والے سلطنت کے مالک بن گئے ہیں ۔ بڑے بڑے اہل حکومت اور ان کی عزت و حرمت کو انھوں نے خاک میں ملا دیا ہے ۔ جو حکومت و سیاست کے مرد میدان تھے ، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ اس لیے مجبوراً چند غریب و بے سروسامان کمر ہمت باندھ کر کھڑے ہو گئے اور محض اللہ کے دین کی خدمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے ۔ ‘‘ 
(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/ ۳۵۷۔۳۵۸)

شہزادہ کامران کے نام ایک خط میں اپنے جنگی اہداف کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’اس ملک (سرحد) کو مشرکین کی نجاستوں سے پاک کرنے اور منافقین کی گندگی سے صاف کرنے کے بعد حکومت و سلطنت کا استحقاق اور ریاست و انتظام سلطنت کی استعداد رکھنے والوں کے حوالے کر دیا جائے گا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ احسان خداوندی کا شکر بجا لائیں گے اور ہمیشہ اور ہر حال میں جہاد کو قائم رکھیں گے اور کبھی اس کو موقوف نہیں کریں گے اور انصاف اور مقدمات کے فیصلے میں شرع شریف کے قوانین سے بال بھر بھی تجاوز و انحراف نہیں کریں گے اور ظلم و فسق سے کلیۃً اجتناب کریں گے۔ اس کے بعد میں اپنے مجاہدین کے ساتھ ہندوستان کا رخ کروں گا تاکہ اس کو شرک و کفر سے پاک کیا جائے ، اس لیے کہ میرا مقصود اصلی ہندوستان پر جہاد ہے ، نہ کہ ملک خراساں (سرحد و افغانستان) میں سکونت اختیار کرنا۔‘‘ 
(ابو الحسن علی ندوی،سیرت سید احمد شہید ۱/۳۶۲۔۳۶۳)

مسلمانوں کی حالت زار اور اصلاح احوال کے لیے لائحۂ عمل کو ایک تمثیل میں بیان کرتے ہیں:

’’...جب کسی کے مکان کی کوئی دیوار گر جاتی ہے ، سارے گھر والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ چنانچہ مرد، عورت، بچے سب اُس کی درستی کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ہر ایک اپنے مقدور بھر اس کی تیاری میں سرگرم ہوتا ہے۔ کوئی اینٹ لاتا ہے، کوئی مٹی لاتا ہے اور چھت کی تیاری میں منہمک ہو جاتا ہے۔ جب سارے گھر والے دن رات لگ کر اور مشقت اور تکلیف برداشت کرکے ایک زمانے کے بعد اپنے گھر کو درست اور آباد کر لیتے ہیں، تو پھر مدتوں تک اس میں آرام پاتے ہیں۔
اِسی طرح اس زمانے میں مسلمانوں کے دین کی عمارت منہدم ہو گئی ہے۔ کفار رہزنوں کی طرح مسلمانوں کے گھر کے مال و اسباب کو لوٹ رہے ہیں اور دست تعدی دراز کر رہے ہیں، اس لیے کہ اس گھر کا کوئی نگہبان اور پاسبان نہیں رہا۔ اب سونے والوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے اور اپنے ویران مکان کی پاسبانی کرکے اور اس کا سامان مہیا کرکے اس کو آباد کرنا چاہیے اور ان رہزنوں اور چوروں کو گرفتار کرکے اُن کو اُن کے اعمال کی سزا دینی چاہیے اور اُن سے اپنی خدمت لینی چاہیے۔ مکان کے آباد ہو جانے کے بعداطمینان کے ساتھ وہ مکان میں آرام کر سکتے ہیں۔‘‘( ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۲/۳۹۷) 

اقدامات
سید احمد نے اپنے افکار ونظریات کی ترویج اوراہداف و مقاصد کے حصول کے لیے جو اقدامات کیے انھیں ہم واقعاتی ترتیب سے یہاں بیان کر دیتے ہیں:
رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ
سید احمد کا اصل مقصد اگرچہ پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا تھا اور اس بنا پر ان کے اصل حریف انگریز تھے، مگر انھوں نے جنگی جدوجہد کا آغازپنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت کے خلاف کارروائی سے کیا۔ اس فیصلے کے کئی اسباب تھے:
ایک سبب یہ تھاکہ سکھ حکومت نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ مسلمانوں کی سیاست ، معیشت، معاشرت تباہ ہو رہی تھی۔ معاملہ اس انتہا تک پہنچ گیا تھا کہ ان کی مساجد بھی سکھوں کی تاخت سے محفوظ نہ تھیں اور وہ آزادی کے ساتھ ان میں عبادت کرنے سے قاصر تھے۔ اس صورت حال کو ایک انگریز مصنف نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’واقعہ یہ ہے کہ پنجاب بھر میں ایک بھی ایسے مسلمان خاندان کی مثال نہیں ملتی ، جس کو عزت و اقتدار حاصل ہو ۔ یہ صورت حال اس نفرت کا نتیجہ ہے جو گروگوبند سنگھ کے پیرووں کو اپنے قدیم حریفوں کی نسل سے چلی آ رہی ہے ، جنھوں نے ان پر مظالم کیے تھے ۔ اس کا ثبوت کہ یہ گہری عداوت اب بھی زائل نہیں ہوئی ہے، اس سلوک سے ملتا ہے جو ان بدقسمت مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے ، جو ابھی تک سکھوں کی عمل داری میں رہتے ہیں، جو اگرچہ کثیر التعداد ہیں، لیکن سب غریب نظر آتے ہیں اور ایک مظلوم اور ذلیل قوم کے فرد معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ زمین جوتتے ہیں ، ان سے قلی گیری ، بوجھ ڈھونے اور محنت و مشقت کے کام لیے جاتے ہیں ۔ ان کوگائے کا گوشت کھانے کی اجازت نہیں ، نماز نہیں پڑھ سکتے ، شاذو نادر مسجد میں جمع ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ مسجدوں میں بھی تھوڑی مسجدیں تباہی سے بچی ہیں۔‘‘
(Lieut. Col. Malcolm, The Sketch of the Sikhs 124-125)

ان حالات میں پنجاب کے مسلمان دینی و اخلاقی پستی اور قومی بے اعتمادی کا شکار ہو گئے تھے۔ سید احمد کواس صور ت حال سے بہت رنج ہوا، چنانچہ انھوں نے پہلے اس چھوٹے مسئلے کو حل کرنے کا فیصلہ کیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظراپنی جدوجہد ہندوستان کی شمال مغربی سرحد سے شروع کرنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ ایک تویہ تھی کہ پنجاب اسی سرحد سے ملحق تھا۔ مزید یہ کہ سرحد کا یہ علاقہ طاقت ور اور پرجوش افغانی قبائل کا مرکز تھا اور اس کے پیچھے ترکستان تک آزاد مسلمان ریاست کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا۔پھر یہ بھی حقیقت تھی کہ اس علاقے میں ان کا ایک وسیع حلقۂ ارادت تھا۔ ان کے علاوہ ایک وجہ غالباً یہ بھی تھی کہ پشاور اور اس کے گرد و نواح کے علاقے رنجیت سنگھ کی حکومت لاہور کے باج گزار تھے۔ ہر سال سکھوں کا لشکر اس علاقے میں آتا اور رقم وصول کر کے جاتا۔ اس علاقے کے باشندے ظاہر ہے کہ اس سے ناخوش تھے۔
اس صور ت حال میں سید احمد نے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کا رخ کیا۔۱۷ جنوری ۱۸۲۶ء کو رائے بریلی سے روانہ ہوئے۔ گوالیار، ٹونک، اجمیر، عمر کوٹ، حیدر آباد(سندھ)، شال (کوئٹہ) ، قندھار، غزنی اور کابل سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچے۔ ۱۸ دسمبر ۱۸۲۶ء کو نوشہرہ پہنچے اور وہیں قیام کیا۔ یہاں سے رنجیت سنگھ کو لاہور ایک خط بھجوایا جس کا مضمون یہ تھا:

’’(۱) یا تو اسلام قبول کر لو(اس وقت ہمارے بھائی اور ہمارے مساوی ہو جاؤ گے ، لیکن اس میں کوئی جبر نہیں )۔ 
(۲) یا ہماری اطاعت اختیار کر کے جزیہ دینا قبول کرو ۔ اس وقت ہم اپنے جان و مال کی طرح تمھارے جان و مال کی حفاظت کریں گے ۔ 
(۳) آخری بات یہ ہے کہ اگر تم کو دونوں باتوں میں سے کوئی بھی منظور نہیں، تو لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ ، مگر یاد رکھو کہ سارا یاغستان اور ملک ہندوستان ہمارے ساتھ ہے اور تم کو شراب کی محبت اتنی نہ ہو گی ، جتنی ہم کو شہادت کی ہے۔‘‘
(ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید ۱/۴۵۶)

رنجیت سنگھ کی فوج کے خلاف مسلح کارروائیوں کا آغاز
رنجیت سنگھ کی طرف سے خط کا مثبت جواب نہ پا کر سید صاحب نے جنگ کا فیصلہ کیا اور اکوڑے خٹک میں مقیم سکھوں کے لشکر پر شب خون مارنے کے لیے تیار ہو گئے۔سات ہزار فوج پر مشتمل رنجیت سنگھ کے اس لشکر کی قیادت بدھ سنگھ کر رہا تھا۔ اس وقت سید صاحب کے ساتھ موجود مجاہدین کی تعداد سات سو تھی۔ اس میں پانچ سو ہندوستان سے اور دوسو قندھارسے تعلق رکھتے تھے۔ دسمبر ۱۸۲۲ء کی رات کے تین بجے مجاہدین نے لشکر پر حملہ کردیا۔ کچھ لوگ خیموں کو گرانے لگے اور کچھ نے مال اسباب لوٹنا شروع کر دیا۔ اس معرکے میں چالیس کے قریب مسلمان شہید ہوئے اور سات سو سکھ مارے گئے۔اس کے بعد سکھوں کے زیر تسلط حضرو کی بستی پرحملہ کیا اور سامان غنیمت حاصل کیا۔ ان واقعات کے بعدبدھ سنگھ نے سید صاحب کو یہ خط لکھا:

’’شرافت منزلت، سیادت مرتبت، فضیلت پناہ، عبادت انتباہ، زبدۃ الفضلاء العظام، یگانۂ بلا اشتباہ، سید احمد صاحب سلمہ‘۔ واضح ہو کہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد اور اتنے دور دراز ملک سے آ کر آپ نے لڑائی کی طرح ڈالی اور لباس شہادت کو اپنے اوپر آراستہ کیا ہے تو لازم تھا کہ جنگ و مقابلہ میدان میں نکل کر ہو۔طمع نفسانی سے شہر حضرو کے غربا اور بیوپاریوں پر شب خون اور چھاپہ مارنا ذلت اور ہمیشہ کی بدنامی کی بات ہے۔ اسی کے ساتھ آپ کے ہمراہی جس طرح شیشے کو پتھر سے مارا جائے، اسی طرح معدوم ہو گئے۔ اب بھی اگر آپ اصل سید اور بڑے سردار ہیں ، تو باہر نکل کر صاف صاف مقابلہ کیجیے ۔ چھپ کر لڑنے سے دنیا اور دین کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور اگر فرار اختیار کریں گے ، تو دونوں جہان کے نفع سے خالی ہاتھ جائیں گے۔‘‘ (ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/۴۶۹)

اس خط کے جواب میں سید صاحب نے لکھا:

’’ امیر المومنین سید احمدکی طرف سے سپہ سالارجنود و عساکر، مالک خزائن و دفاتر، جامع ریاست و سیاست، حاوی امارت و ایالت، صاحب شمشیر و جنگ، عظمت نشان، سردار بدھ سنگھ کو (اللہ اس کو سیدھے راستے کی ہدایت دے اور اس پر توفیق کی بارش کرے) واضح ہو کہ آپ کا گرامی نامہ ، جو اظہار مراتب شجاعت و شہامت کے دعاویٰ پر مشتمل ہے، پہنچا اور اس کے مضمون سے آگاہی ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا اس ہنگامہ آرائی اور معرکہ پیرائی سے جو مقصود ہے، آپ نے اس کو اچھی طرح نہیں سمجھا اور اسی لیے آپ نے اس طرح کا خط لکھا۔ اب کان لگا کر سنیے اور غور کرکے سمجھیے کہ اہل حکومت و ریاست سے لڑائی جھگڑا چندا غراض سے ہوتا ہے۔ بعض آدمیوں کا مقصود مال و ریاست کا حصول ہوتا ہے، بعض کو محض اپنی شجاعت اور دلیری دکھانی ہوتی ہے اور بعض آدمیوں کا مقصد شہادت کا مرتبہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے میرا مقصد ہی دوسرا ہے، یعنی، فقط اپنے مولا کے حکم کی بجاآوری، جو مالک مطلق اور بادشاہ برحق ہے۔ اس نے دین محمدی کی نصرت و اعانت کے بارے میں جو حکم دیا ہے، محض اس کی تعمیل مقصود ہے۔ خداے عزوجل اس بات کا گواہ ہے کہ میرا اس ہنگامہ آرائی سے اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصود نہیں اور اس میں کوئی نفسانی غرض ہرگز شامل نہیں، بلکہ کسی نفسانی غرض کے حصول کی آرزو نہ کبھی زبان پر آتی ہے،نہ کبھی دل میں گزرتی ہے۔ دین محمدی کی نصرت میں جو کوشش بھی ممکن ہو گی، بجا لاؤں گا اور جو تدبیر بھی مفید ہو گی، عمل میں لاؤں گا اور ان شاء اللہ زندگی کی آخری سانس تک اسی کوشش میں مشغول رہوں گا اور اپنی پوری عمر اسی کام میں صرف کر دوں گا۔ جب تک زندہ ہوں، اسی راستے پر چلتا رہوں گا اور جب تک دم میں دم ہے، اسی کا دم بھرتا رہوں گا۔ جب تک پاؤں ہیں، اس وقت تک یہی راستہ ہے اور جب تک سر ہے، اس وقت تک یہی سودا۔ خواہ مفلس ہوں، خواہ دولت مند، خواہ منصب سلطنت سے سرفراز ہوں، خواہ کسی کی رعیت بنوں، خواہ بزدلی کا الزام سہوں، خواہ بہادری کی تعریف سنوں، خواہ میدان جہاد سے زندہ واپس ہوں، خواہ شہادت سے سرخرو ہوں۔ ہاں، اگر میں دیکھوں کہ میرے مولیٰ کی خوشی اسی میں ہے کہ میدان جنگ میں تنہا سربکف آؤں، تو خدا کی قسم کہ سو جان سے سینہ سپر ہوں گا اور لشکر کے نرغے میں بے کھٹکے گھس آؤں گا۔ مختصر یہ کہ مجھے نہ اپنی شجاعت کا اظہار مقصود ہے، نہ ریاست کا حصول۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اگر سربرآوردہ حکام اور عالی مرتبت سرداروں میں سے کوئی شخص دین محمدی قبول کر لے، تو میں اس کی مردانگی کا سوزبان سے اعتراف و اظہار کروں گا اور ہزار جان سے اس کی سلطنت کی ترقی چاہوں گا اور اس کی حکومت کی ترقی کے لیے بے حد کوشش کروں گا۔ اس بات کا آپ فوراً امتحان کر سکتے ہیں۔ اگر اس کے خلاف ہو، تو مجھے الزام دیجیے۔ اگر آپ انصاف کی نظر سے دیکھیں ، تو مجھے اس معاملے میں ہرگز قابل ملامت اور قابل الزام نہ پائیں گے، کیونکہ جب جناب اپنے حاکم کے احکام کی تعمیل میں، جو آپ جیسا ایک انسان، بلکہ آپ کی برادری کا ایک فرد ہے، کوئی عذر اور کوئی حیلہ نہیں کر سکتے، تو میں احکم الحاکمین کے حکم کی تعمیل میں، جو زمین و آسمان کے تمام افراد انسانی اور ساری کائنات کا خالق ہے، کیا عذر کر سکتا ہوں۔‘‘(ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/۴۶۹۔۴۷۲)

اس مراسلت کے بعدشیدوکے مقام پر بڑا معرکہ ہوا۔ پشاور کے سرداروں نے سید احمد سے بھرپور تعاون کا وعدہ کیا تھا، لیکن عین موقع پر وہ وعدے سے پھر گئے۔اس معرکے میں مجاہدین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 
امامت وخلافت کی بیعت
حملوں کے موقعوں پر سید احمد نے یہ محسوس کیا کہ مقامی لوگ نظم و ضبط کی پابندی نہیں کرتے توانھوں نے لوگوں سے بیعت امامت وخلافت لی اور اعلان کیا کہ حدود شرعیہ کا نفاذ ہو گا اور جمعے کے خطبے میں ان کا نام پڑھا جائے گا۔اس موقع پر انھوں نے ہند میں موجود اپنے رفقا کو ایک خط تحریر کیا۔ اس میں انھوں نے اپنے سفر کی داستان بیان کرنے کے بعد بیعت امامت کی ضرورت کو بیان کیا اور لوگوں کو جہاد کے لیے بلایا۔ لکھتے ہیں:

’’...مجاہدین کا لشکر ایک بے سری فوج اور عام بلوائیوں کی طرح تھا اور کوچ و مقام میں کہیں کوئی نظم نہیں تھا۔ اس لیے مال غنیمت شرع شریف کے قانون کے مطابق تقسیم نہ ہو سکا۔ اس بنا پر تمام مسلمانوں نے ، جو موجود تھے، جن میں سادات، علما، مشائخ، امرا اور خواص و عوام تھے، بالاتفاق اس بات کو کہا کہ جہاد کا قیام اور کفر و فساد کا ازالہ امام کے تقرر کے بغیر مسنون اور شرعی طریقے پر انجام نہیں پا سکتا۔ اس بنا پر ۱۲ جمادی الآخرہ ۱۲۴۲ھ کو ان سب نے اس فقیر کے ہاتھ پر بیعت امامت کی اور اس کی اطاعت کا عہد کیا۔ جمعے کے روز خطبہ بھی اس فقیر کے نام کا پڑھا گیا۔ ان شاء اللہ اس رکن رکین کے ادا کرنے کی برکت سے، جس پر دین کے اکثر احکام کا مدار ہے، فتح و نصرت ظاہر ہوگی۔‘‘ (ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/۴۷۷) 

اس موقع پر کئی مقامی سرداروں اور علماے کرام نے سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت امامت کی اور انھیں اپناامیر تسلیم کر لیا۔بیعت لینے کے بعد انھوں نے اعلان کر دیا کہ اب سب لوگوں کو شریعت کی پوری پابندی کرنا ہو گی۔
سکھ فوج کو سالیانہ دینے سے انکار اور معرکہ آرائی
پنجتار کے علاقے کو سید احمد نے اپنا مستقر بنا لیاتھا۔ رنجیت سنگھ کی فوج کا یہ عام دستور تھا کہ وہ ہرسال دریاے اٹک کے مشرقی کنارے پر واقع ایک علاقے چھچھ میں آتی تھی اور سالیانہ وصول کر کے رخصت ہوتی تھی۔ سید احمد کی آمد کے بعد قبائل نے سالیانہ دینے کا ارادہ ترک کر دیا۔ سیدصاحب کی موجودگی میں جب سکھوں کا لشکر فرانسیسی سالاروینٹورا کی قیادت میں وصولی کے لیے آیاتو سوائے ایک سردار حادی خان کے باقی سرداروں نے (نعل بندی) سالیانہ دینے سے انکار کر دیا۔ وینٹورا نے سید احمد کو خط لکھا کہ یہ ملک رنجیت سنگھ کی عمل داری میں ہے۔ سمہ کے رئیس ہمیشہ ہمیں نعل بندی دیتے رہے ہیں ، مگر جب سے آپ آئے ہیں،یہ منحرف ہو گئے ہیں، آپ ہمیں اپنے ارادوں سے آگاہ کریں۔ سید صاحب نے جواب دیا کہ یہ ملک سکھوں کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کا ہے۔ تمام ملک مشرق سے مغرب تک اللہ کے قبضے میں ہے، وہ جس کی تلوار کو زور دیتا ہے، وہ لے لیتا ہے۔کافروں سے جنگ کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اگر قوت و ہمت دے تو ہم ملک کو کفر سے پاک کر دیں۔ صورت حال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے وینٹورا واپس چلا گیا۔اگلے ایک سال کے دوران میں سید احمد کے حلیفوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ وینٹورا دوبارہ پنجتار پر حملے کے ارادے سے آیا۔سید احمد کو اطلاع ہوئی تو انھوں نے پنجتار سے پہلے درے میں دو پہاڑوں کے درمیان دیوار کی تعمیر شروع کرا دی۔دیوار مکمل ہونے کے چند روز بعد سکھوں کا لشکر پنجتار میں پہنچا۔ سید احمد نے لوگوں سے موت کی بیعت لی۔ وینٹورا نے تھوڑی سی کوشش کی، مگر اسے محسوس ہوا کہ وہ مقابلہ نہ کر سکے گا، چنانچہ اس نے پسپائی اختیار کی۔ اس پسپائی کی وجہ سے سیداحمد کا علاقے پر رسوخ بڑھ گیا۔ اس صورت حال میں رنجیت سنگھ نے اس خیال سے کہ سیدصاحب جس طرح کے درویش صفت آدمی ہیں، انھیں جلد نذرانہ مقرر کرکے گوشہ نشینی پر آمادہ کیا جا سکے گا، سید احمد کو مصالحت کا یہ پیغام بھیجا کہ دریاے اٹک کے پار کی جاگیر اور علاقے کا مالیہ بھی آپ ہی وصول کیا کریں اور ہم سے جنگ کا خیال ترک کر دیں۔ سید احمد نے جواب دیا کہ ہم اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے آئے ہیں۔ اگر تو مسلمان ہو جائے تو ہم سارا علاقہ تمھارے حوالے کر دیں گے۔گفت و شنید سے مسئلہ حل نہ ہو سکا تو وینٹورا نے پنجتار پر حملے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی فوج لے کر پنجتار کے قریب پہنچ گیا،مگر اس کی سپاہ میں خوف اوربد دلی پھیل گئی اور اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
قوانین کا نفاذ اور قبائلی سرداروں کی بغاوت
یہ کہا جا سکتا ہے کہ پشاوراور گرد و نواح کے سرداروں کے مطیع ہونے سے اس علاقے پر سید صاحب کی حکومت قائم ہو گئی تھی،مگر درحقیقت پنجتار کے علاوہ باقی علاقوں کے سرداروں ، خوانین اور ملاؤں نے دل سے سید احمد کی سیادت قبول نہیں کی تھی،تاہم قیام حکومت کے بعد جب سید احمد نے شریعت کے بعض احکام کو سختی سے نافذ کیا اور ان کی صدیوں سے قائم روایات کو توڑا تو عام لوگ بھی متردد ہونا شروع ہو گئے۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایک سازش کے تحت سید صاحب کے مقرر کردہ عاملوں اور قاضیوں کو یک بارگی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔بیش ترجگہوں پر یہ منصوبہ کامیاب ہو گیا۔
ہجرت کا فیصلہ
اس سازش کی کامیابی کے بعد سید صاحب اس علاقے سے حددرجہ مایوس ہو گئے اور انھوں نے یہاں سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر ان کے رفیق کار مولوی خیرالدین صاحب نے ان سے دو باتوں میں اختلاف کیا: ایک اختلاف یہ تھا کہ تنخواہ دار فوج بھرتی اور ملازمین کا تقرر کیے بغیراس زمانے میں جہاد نہیں ہو سکتا۔ لاکھوں آدمیوں نے آپ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی تھی، مگر جہاد کے موقع پر ان کا نشان بھی نہیں ہے۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ یہاں کے لوگ برتے ہوئے ہیں، ان سے معاملہ آسان ہے، کسی دوسری جگہ پر جائیں گے تو معلوم نہیں وہ لوگ آپ کو قبول بھی کریں۔ سید صاحب کی طرف سے پہلے اختلاف کا جواب یہ تھا کہ میں خلاف سنت طرزعمل اختیار نہیں کر سکتا ، دوسرے اختلاف کا جواب یہ تھا کہ یہاں مخلص کم اور مفسد زیادہ ہیں۔ یہاں کے لوگوں سے مجھ کو ایسی نفرت محسوس ہوتی ہے جو آدمی کو اپنی قے سے ہوتی ہے۔ 
معرکۂ بالا کوٹ
ہجرت کر کے سید احمد اپنے لشکر کے ہمراہ سردار ناصر خان کے علاقے راج دواری میں مقیم ہوئے۔ یہاں انھوں نے مقامی سرداروں کے مابین اختلاف ختم کر کے انھیں سکھوں کے خلاف جہاد کے لیے آمادہ کیا۔اس زمانے میں وادی کاغان کے علاقے میں خانہ جنگی کی صورت تھی۔اس صورت حال سے سکھ فائدہ اٹھا رہے تھے۔مظفر آباد کے سردارزبردست خان کواس کے چچا زاد نے سکھوں کی مدد سے نکال کر اپنا قبضہ کر لیا تھا۔گڑھی حبیب اللہ کے سردار حبیب اللہ خان کو سکھوں نے نکال دیا تھا اور وہ بالا کوٹ کے درے میں پناہ گزین تھا۔ بعض اور سردار بھی اسی صورت حال سے دوچار تھے۔ان سرداروں کی مدد کرکے فوجی قوت حاصل کرنے کا سب سے مناسب مقام بالاکوٹ تھا۔ سید احمد نے اسی مقام کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے انھوں نے مولوی خیر الدین اور مولانا محمد اسماعیل کو کچھ مجاہدین کے ہمراہ بالا کوٹ روانہ کیا۔ ان کے پیچھے سید صاحب بھی ساڑھے تین سو کا لشکرلے کر روانہ ہوئے اور بالا کوٹ سے پہلے سچون میں قیام کیا۔ مولانا محمد اسماعیل جب بالاکوٹ پہنچے تو ان کے پاس مظفر آباد کا جلاوطن سردارزبردست خان اور بعض دوسرے سردار آئے اور مظفر آباد پر حملے کے لیے اصرار کیا۔ انھوں نے دو سو مجاہدین کو ان کے ہمراہ روانہ کر دیا۔مظفر آباد پر زبردست خان اور مجاہدین کو فتح ہوئی، مگر زبردست خان نے تیور بدلنے شروع کر دیے۔ اسی اثنا میں شیر سنگھ نے مظفر آباد پر حملہ کر دیا۔ زبردست خان کی بے ہمتی کی وجہ سے مجاہدین کو فرار کی راہ اختیار کرنا پڑی۔ مولوی صاحب کی قیادت میں مجاہدین واپس بالا کوٹ پہنچے۔ 
مولانا محمد اسماعیل جو بالا کوٹ میں تھے، ان سے کشمیر کے کچھ معتبر افراد نے ملاقات کی ۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کے مسلمان مجاہدین کے لشکر کی آمد سے بہت خوش ہیں۔کشمیر بالا کوٹ سے صرف تین منزل کے فاصلے پر ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں پر اپنی حکومت قائم کریں اور ہمیں سکھوں کے ظلم سے نجات دلائیں۔ مولانا اسماعیل نے یہ پیغام من وعن سید احمد کی طرف بھجوایا۔ انھوں نے مقامی لوگوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ آپ کے یہاں سے کوچ کر جانے کے بعد سکھ ہمیں تباہ کر دیں گے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ یہاں کے سکھوں سے نمٹ کر ہی آگے جائیں۔ اس سے آپ کی دھاک بھی بیٹھ جائے گی اوراگلے معاملات آسان ہوں گے۔ سید صاحب نے اس مشورے کو قبول کیا۔
حبیب اللہ خان نے جو بالاکوٹ میں مقیم تھا، سید احمد کو یہ اطلاع دی کہ شیر سنگھ کا لشکر بالا کوٹ سے ڈھائی کوس کے فاصلے پر پہنچ چکا ہے۔ یہ اطلاع ملنے کے بعد مجاہدین کے لشکر کے ساتھ وہ بالاکوٹ روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے جنگی حکمت عملی کے لیے احباب سے مشورہ کیا۔ احباب نے چھاپہ مارنے کا طریقہ تجویز کیامگر سید احمد نے اس مرتبہ براہ راست جنگ کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر انھوں نے فرمایا:

’’...اتنے برس ہم نے اس کارخیر کے واسطے طرح طرح کی کوشش و جاں فشانی کی، اپنی دانست میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، ہندوستان، خراسان اور ترکستان میں اپنے خلفا روانہ کیے، انھوں نے بھی حتی الامکان دعوت فی سبیل اللہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور ہم بھی جہاں جہاں گئے، وہاں کے لوگوں کو ہر طریقے پر وعظ و نصیحت سے سمجھاتے رہے، مگر سوائے تم غربا کے کسی نے ہمارا ساتھ نہ دیا، بلکہ ہم پر طرح طرح کا افترا کیا۔ اب ہمارے کاتب بھی خطوط لکھتے لکھتے تھک گئے اور ہم بھیجتے بھیجتے تنگ آگئے اور کچھ ظہور میں نہ آیا ۔ اب یہی خوب ہے کہ اپنے سب غازی بھائیوں کو پہروں پر سے اپنے پاس بلوا لیں۔ کل صبح کو اسی بالا کوٹ کے نیچے ہمارا اور کفار کا میدان ہے۔ اگر اللہ نے ہم عاجز بندوں کو اُن پر فتح یاب کیا تو پھر چل کر لاہور دیکھیں گے اور جو شہید ہو گئے، تو ان شاء اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں چل کرعیش کریں گے۔‘‘
( ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۲/۴۲۱)

اس کے بعد سید صاحب نے مورچہ بندی کی اور سکھوں کے حملے کا انتظار کرنے لگے۔ سکھوں نے حملہ کیا، مجاہدین بے جگری سے لڑے۔ سکھوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ اس حملے میں مولانا اسماعیل شہید ہو گئے۔ مجاہدین نے تعاقب کیاتوسکھوں نے مڑ کر ز ور دار حملہ کیا ۔ مجاہدین اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور پے در پے شہید ہوتے چلے گئے۔ سید احمد بھی شہید ہو گئے۔
نتائج
سید احمد شہید اور ان کے رفقا نے اپنے پروردگار اور اس کے دین سے اپنے تعلق و محبت کا اظہار جس سطح پر کیا ، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں : 

’’اگرچہ ہم عاجز و خاکسار ، ذرۂ بے مقدار ہیں، لیکن بلاشک محبت الٰہی سے سرشار اور غیر خدا کی محبت سے بالکل دستبردار ہیں۔‘‘(ابوالحسن علی ندوی، سید احمد شہید۱/۳۵۵)
’’...تاج فریدون و تخت سکندری کی قیمت میرے نزدیک ایک جو کے برابر بھی نہیں۔ کسریٰ و قیصر کی سلطنت میں خاطر میں بھی نہیں لاتا۔ ہاں، اس قدر آرزو رکھتا ہوں کہ اکثر افراد انسانی، بلکہ تمام ممالک عالم میں رب العالمین کے احکام، جن کا نام شرع متین ہے، کسی کی مخالفت کے بغیر جا ری ہو جائیں، خواہ میرے ہاتھ سے، خواہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے۔ پس ہر ترکیب و تدبیر، جو اس مقصد کے حصول کے لیے مفید ہو گی، عمل میں لاؤں گا۔‘‘
(ابوالحسن علی ندوی، سیرت سید احمد شہید۱/۳۶۰۔۳۶۱)

ان کی محنت و مشقت کی ایک جھلک بھی ملاحظہ فرما لیجیے ۔ جہاد کے دوران میں ایک مقام پر اکثر مجاہدین بیمار ہو گئے تو اس موقع پر انھوں نے صبر و استقامت کی قابل رشک مثالیں پیش کیں۔ سیدابو الحسن ندوی لکھتے ہیں : 

’’مجاہدین کے لیے یہ بڑے ابتلا کا زمانہ تھا۔ گنتی کے چھ سات آدمی تو تندرست تھے، باقی سب بیماروں کی خدمت کرتے تھے۔ کھانے کی تنگی کا یہ حال تھا کہ ایک مٹھی مکئی ہر آدمی کو ملتی تھی۔ تندرست لوگ اس کو چکی میں پیس لاتے اور لپٹا پکا کر مریضوں کو کھلاتے اور خود کھاتے۔ ایک ترش تین پتی کی گھاس ہوتی تھی، جس کو فارسی میں سہ برگہ کہتے ہیں؛ اس کو پیس چھان کر تھوڑا سا نمک ملا کر ان مریضوں کو پلاتے تھے۔ یہی دوا تھی۔ کسی دن وہ ایک مٹھی مکئی بھی نہ ملتی۔ اس دن گھاسوں کی پتیاں ، جو بے مزہ نہ ہوتیں اور پکانے میں گل جاتیں، جنگل سے توڑ لاتے اور بڑی بڑی ہانڈیوں میں نمک ڈال کرابالتے اور اُن مریضوں کو کھلاتے اور خود بھی کھاتے۔ کسی روز ایک بیمار مرتا، کسی روز دو، کسی روز تین، تار بندھا تھا۔ جو مرجاتے، اگر اُن کی کوئی چادر ہوتی، تو اسی کو پاک کرکے اس میں لپیٹ کر دفن کرتے۔ کئی جاجمیں بھی دھلی ہوئی رکھی تھیں۔ اگر مرنے والے کے پاس کوئی چادر بھی نہ ہوتی، تو اُنھیں جاجموں میں سے ایک چادر پھاڑ کر اُس کے کفن کا انتظام کرتے تھے۔ ‘‘(سیرت سید احمد شہید۲/۹۔۱۰)

حقیقت یہ ہے کہ سید احمد اور ان کے احباب کا اصل ہدف احیاے امت اوررضاے الٰہی کا حصول تھا۔ اس مقصد کو پانے کے لیے انھوں نے اپنے ہنستے بستے گھر یہ جانتے بوجھتے چھوڑ دیے کہ ان میں واپسی ناممکن ہے۔اپنے اہل خانہ کی محبت اور رضا پر اپنے پروردگار کی محبت اور رضا کو فائق سمجھا اور اپنی دانست میں اسی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے۔ زندگی کی بے شمار نعمتوں اور آسایشوں کو آن واحدمیں ترک کر دیا۔مختصر سے عرصے میں عزیمت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ کتاب تاریخ کے مضامین ایثار کا خلاصہ قرار پائے ۔ اس کے صلے میں اپنے مالک سے اگر کچھ مانگا تو وہ مال و دولت، جاہ و حشمت اور ملک و اقتدار نہیں، بلکہ اس کی خوشنودی تھی۔یہی وجہ ہے کہ وہ رضاے الٰہی کی جستجو میں اس درجۂ کمال پر فائز ہوئے کہ دور صحابہ کی یاد تازہ ہو گئی۔
ایثار و عزیمت کی ان بلندیوں کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ احیاے امت کے حوالے سے کوئی معمولی تغیر لائے بغیر اپنی جانیں راہ خدا میں لٹا کر رخصت ہو گئے۔سید احمد اور ان کے رفقا صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ سکھوں نے آتش انتقام میں مسلمانوں کی بستیوں کو تاراج کیا۔ بالاکوٹ کو گھیر لیا، گھروں کو آگ لگا دی۔ ان مجاہدین کو بھی شہید کر دیا جو بیمار اور ناتواں تھے۔ جہاں تک ہند کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ ایک جانب دین کے محافظوں کی ایک بڑی جماعت سے محروم ہو گئے اور دوسری جانب اپنے سے خائف انگریز حکمرانوں کی بے انصافی کا شکار ہو گئے۔

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : May 23, 2018
7130 View