صلح حدیبیہ اور جہاد و قتال

صلح حدیبیہ اور جہاد و قتال

 امریکا نے نیو یارک اور واشنگٹن میں ہونے والی دہشت گردی کا الزام اسامہ بن لادن پر لگایا۔ اسامہ کو چونکہ طالبان نے افغانستان میں پناہ دے رکھی ہے ، لہٰذا امریکا نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسامہ کو ہمارے حوالے کر دیں ۔ طالبان نے انکار کیا ۔ افغانستان کا ہمسایہ ہونے اور وہاں اپنا خاص اثر و رسوخ رکھنے کے باعث امریکا نے پاکستان کو تعاون کرنے کے لیے کہا ۔ اس سے پاکستان کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ اس کے باوجود پاکستان نے امریکا کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ اس مسئلے کے حوالے سے صدر پرویز مشرف نے قوم سے ایک خطاب کیا ، جس میں انھوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ حکومت نے دہشت گردی اور طالبان کے مقابلے میں امریکا اور عالمی برادری کی حمایت کرنے اور ان کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیوں کیا ۔ اپنے اس موقف کے حق میں دلائل دیتے ہوئے انھوں نے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کا حوالہ دیا۔ اور تاریخ اسلامی کے ان غیر معمولی واقعات سے یہ نتیجہ نکالا کہ مشکل حالات میں جذباتیت کا شکار ہو کر خوامخواہ تصادم کرنے کے بجائے حکمت اختیار کر کے تصادم سے بچ جانا ، اسلامی نقطۂ نگاہ سے بہتر ہے ۔
صدر پرویز مشرف کے ایسے دلائل دینے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے پاکستان میں مذہب کی غیر معمولی اہمیت کو محسوس کیا اور دلائل کے ذریعے سے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی ۔ بلاشبہ اس معاملے میں بھی حکومت نے حکمت اور حقیقت کا راستہ اختیار کیا ۔
مگر ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کو صحیح معنوں میں جڑ بنیاد سے نہیں لیا گیا ۔ اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان میں متشدد مذہبی گروہ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے حوالے سے حکمت ، صبر اور فراخ دلی کا کوئی سبق حاصل نہیں کریں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے سامنے جب میثاق مدینہ یا صلح حدیبیہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو انھیں جہاد و قتال کرنے سے متعلق آیاتِ الہٰی یاد آ جاتی ہیں۔
ان لوگوں کے رہنماایسی آیات کو بہت نمایاں کر کے بار بار بیان کرتے ہیں ۔اس لیے ان کے ذہنوں میں ایسی آیات ثبت ہو چکی ہوتی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے ۔ یہ اسرائیل جیسے مسلمان دشمن کی مسلسل پشت پناہی کر رہا ہے اور اس کی بھر پور حمایت اور امداد کیے جا رہا ہے ۔ ادھر عراق پر بارود کی آگ برسا کر اور پابندیاں لگا کر لاکھوں عراقیوں کا قتل عام کر رہا ہے ۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کو بلاجواز نقصان پہنچا رہا ہے۔ ان پر غیر انسانی پابندیاں عائد کر رہا ہے ۔ ہندوستان کشمیریوں پر ظلم کر رہا ہے۔ روس وسطی ایشیائی آزاد مسلم ریاستوں پر ظلم کر رہا ہے۔ مسلمان حکمران دینی حمیت سے عاری ہیں ۔ ان سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ مظلوموں کی مدد کریں اور ظالموں کو سزا دیں ۔ لہٰذا وہ مجبوراً خود جہاد و قتال کرنے کے لیے میدان میں اتر آتے ہیں ۔ او رہر طرح کی صورت حال میں جان لینے اور جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ۔ چونکہ ان لوگوں کا محرک ایک مذہبی جذبہ ہوتا ہے، جو اطاعت خداوندی اور جنت کے حصول کی خواہش پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے کسی حکومت کی سختی انھیں ہر گز متزلزل نہیں کر پاتی۔ اگر کسی خوف سے یہ لوگ پیچھے بھی ہٹیں تو ان کا یہ عمل قلبی اور مستقل طور پر نہیں ، بلکہ ظاہری اور عارضی طور پر ہوتا ہے ۔
ایسے لوگوں کے اندر قلبی اور مستقل تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے موقف کے ماخذ کو تلاش کیا جائے ، ان کے استدلال کو سمجھاجائے اور پھر اس کے مطابق دلیل ، تہذیب اور دل سوزی کے ساتھ ان پر ان کی غلطی واضح کی جائے ۔ اسی سے مسئلے کے پرامن طریقے اور جڑ بنیاد سے حل ہونے کا امکان ہے ، ورنہ دوسرا ہر راستہ تناؤ ، تلخی اور تصادم کی طرف جاتا ہے ۔
اس وقت مسلمانوں کے وہ مسائل جو مخصوص مذہبی فہم سے پیدا ہوتے ہیں ، ان میں سے چند علمی نکات کا غیر معمولی مقام اور کردار ہے ۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید ایک کتاب ہے ۔ ایک منظم اور باربط کتاب ۔ یہ الگ الگ اور متفرق آیات و احکام کا مجموعہ نہیں ہے ۔ یہ نہایت حکیمانہ نظم کی لڑی میں پرویا ہوا مربوط کلام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے جب قرآنِ مجید کو انسانی کلام قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے الہامی ہونے کی ایک دلیل دیتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ ایسی بات ہے تو اس کتاب کی آیتوں جیسی کوئی آیت تخلیق کر کے پیش کرو ، بلکہ یہ فرمایا کہ اس کی ایک یا ایک سے زائد سورتوں جیسی کوئی سورت بنا کر دکھاؤ۔ ۱؂
لہٰذا ضروری ہے کہ آیاتِ الٰہی کو ان کے سیاق و سباق اور مخصوص پس منظر میں رکھ کرسمجھا جائے۔ بصورتِ دیگر بڑی آسانی سے آیات کے ایسے مفاہیم نکالے جاسکتے ہیں جو سرے سے خدا کا منشا ہی نہ ہوں۔ یہ آیات کا سیاق و سباق اور مخصوص پس منظر ہی ہے جو خدا کی اصل بات سامنے لاتا ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ رسولوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کا ایک قانون اتمامِ حجت ہے ۔ اس قانون کے تحت ایک رسول کسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے ۔ اپنی قوم پر دین حق ہر پہلو سے واضح کرتا ہے ۔ ان کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے ، ہر اعتراض کو رفع کرتا ہے ۔ اور جب قوم اس کے باوجود محض اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتی اور کفر پر قائم رہتی ہے تو اس پر خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے ۔ قوم نوح ، قوم لوط ، قوم صالح ، قوم شعیب کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔ اور اگر رسول کو سیاسی اقتدار حاصل ہو جائے تو پھر اس کے لشکر کے ذریعے سے یہ عذاب آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اقتدار مل گیا تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار کے خلاف اسی عذاب کے پہلو سے جہاد وقتال کرنے کا حکم دیا ، مگر کفار نے اس قتال سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا ۔ مگر ان کے خلاف جہاد و قتال کے حکم پر مبنی آیات بہرحال قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ یہ جہادوقتال رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مخاطب قوم کے ساتھ خاص ہے ۔ مگر ہمارے ہاں ایسی خاص آیات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عام کر دیا جاتا ہے اور ان کی بنیاد پر لوگوں کو غیر مسلموں کے خلاف جہاد وقتال کے لیے ابھارا جاتا ہے ۔
لہٰذا یہ بات بطور اصول واضح رہنی چاہیے کہ قرآن مجید کی ہر آیت کا مخاطب ہر شخص نہیں ہوتا ۔ بعض آیات کے مخاطب صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ بعض آیات کے مخاطب صرف صحابۂ کرام ہیں ۔ بعض آیات کے مخاطب دور نبوی کے مشرکین عرب ہیں ۔ بعض آیات کے مخاطب دور نبوی کے یہودو نصاریٰ ہیں ۔ بعض آیات کے مخاطب صرف مسلمانوں کے حکمران ہیں ۔
قرآن مجید میں جہاد و قتال کے احکام کی ایک قسم تو وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت رسالت اور اسی پہلو سے صحابۂ کرام کی دنیا پر حق کی شہادت دینے کی ذمہ داری کے ساتھ خاص ہے ۔ جہاد و قتال کے احکام کی دوسری قسم و ہ ہے جو دنیا میں ہونے والے ظلم و عدوان کے متعلق ہے ۔ یہ معلوم ہے کہ مکہ میں صحابۂ کرام پر کفار نے مظالم کے پہاڑ توڑ دیے تھے ۔ اسی ظلم کی وجہ سے وہ اپنے پرسکون گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے ۔ اس کے باوجود اہل مکہ کی جارحیت جاری رہی۔ چنانچہ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جانے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکمران کی حیثیت سے یہ اجازت دی گئی کہ وہ مکہ کے ظالموں کی جارحیت کے خلاف جہادو قتال کر سکتے ہیں ۔ سورۂ حج میں ہے:

’’جن سے جنگ کی جائے ، انھیں جنگ کی اجازت دی گئی ، اس لیے کہ ان پر ظلم ہوا ، اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے ۔ وہ جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے ، صرف اس بات پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اللہ ہے ۔‘‘ ( الحج ۲۲ : ۳۹۔۰ ۴)

یہی جہاد قتال ہے جو اب کیا جا سکتا ہے ۔ قانون اتمامِ حجت سے متعلق جہاد قتال ختم نبوت کے ساتھ ختم ہو گیا۔
واضح رہے کہ جہادو قتال ہمیشہ کسی حکمران کے تحت کیا جاتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی نبی یا کسی رسول نے اس وقت تک جہاد و قتال نہیں کیا جب تک اسے سیاسی اقتدار حاصل نہیں ہو گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام پر مظالم تو اس وقت بھی ہو رہے تھے جب یہ ہستیاں مکہ میں موجود تھیں ، اور شرک و کفر کی انتہا یہ تھی کہ بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا گیا تھا، مگر مکی سورتیں اور تاریخ گواہ ہیں کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد و قتال کا نام بھی نہیں لیا۔ جب آپ مدینہ کے حکمران بن گئے تب جہاد و قتال ہوا ۔ حضرت موسیٰ نے اس وقت تک جہاد و قتال نہیں کیا جب تک اپنی قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کراپنی حکومت کے تحت ایک آزاد علاقے میں منظم نہیں کر لیا ۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو سیاسی اقتدار حاصل نہیں ہوا تو آپ نے جہاد و قتال کا ذکر بھی نہیں کیا ۔ انجیل ان الفاظ سے بالکل خالی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دو ٹوک اسلوب میں یہ بات واضح کر دی ہے کہ :

’’مسلمانوں کا حکمران ان کی سپر ہے ، قتال اسی کے پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لیے اُسی کی آڑ پکڑتے ہیں ۔‘‘(بخاری ،رقم ۲۹۵۷)

فقہا کا موقف بھی اس معاملے میں یہی ہے ۔ ’’فقہ السنہ ‘‘ میں ہے :

’’کفایہ فرائض کی تیسری قسم وہ ہے جس میں حکمران کا ہونا لازم ہے ،جیسے جہاد اور اقامتِ حدود ،اس لیے کہ اس کا حق تنہا حکمران کو حاصل ہے ۔ اس کے سوا کوئی شخص بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کسی دوسرے پر حد قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔‘‘(۳/ ۱۰)

یہ رویہ غیر معمولی جسارت پر مبنی ہے کہ جہادو قتال کے حوالے سے حکمران کی بنیادی شرط دین و شریعت میں اس قدر واضح ہونے کے باوجود لوگ اپنے موقف کی بنیاد ایک صحابی حضرت ابو بصیر کے اپنے طور پر کفار کے خلاف اقدامات پر رکھتے ہیں ۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر ہم یہاں حضرت ابو بصیر کے معاملے کو اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔
ابو بصیر رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے ۔ اسلام لانے کے بعد وہ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ آ گئے۔صلح حدیبیہ کی ایک شرط کے مطابق ریاست مدینہ اس بات کی پابند تھی کہ مکہ کا کوئی شخص اگرمسلمان ہو کر مدینہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو واپس کر دیں گے۔ چنانچہ مشرکین مکہ کی طرف سے دو آدمی انھیں واپس لے جانے کے لیے مدینہ پہنچے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے مطابق ابو بصیر کو ان کے حوالے کیااور کہا:ابو بصیر، تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے۔ ہم اس معاملے میں بے وفائی نہیں کریں گے ، اس لیے تم قریش کی طرف واپس چلے جا ؤ ۔ ابو بصیر نے کہا :کیا آپ مجھے ان مشرکین کو لوٹا رہے ہیں۔ یہ مجھے اپنے دین سے پھر جانے کے لیے اذیت دیں گے؟ آپ نے فرمایا: صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید ر کھو، یقیناً اللہ تمھارے لیے کوئی راستہ نکال دے گا۔ حضرت ابوبصیر جانے پر آمادہ ہو گئے، مگر انھوں نے مکہ جاتے ہوئے ایک شخص کو باتوں میں لگا کر قتل کر دیا اور دوسرا اپنی جان بچا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس مدینہ آ گیا ۔ اس نے آپ سے کہا :اللہ کی قسم میرا ساتھی قتل کر دیا گیا ہے اور میں بھی یقیناً مار دیا جاؤں گا۔ اتنے میں ابو بصیر بھی ہاتھ میں تلوار لیے وہاں پہنچ گئے ۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : یا رسول اللہ ، مجھے ان کے حوالے کر کے عہد نامہ کی رو سے آپ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی تھی، وہ آپ نے پوری کر دی۔ اب میرے کسی عمل کے آپ ذمہ دار نہیں ہیں۔ اب اللہ نے مجھے ان سے نجات دے دی ہے۔ اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کسی نے اس کا ساتھ دیا تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا کر رہے گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے ابو بصیر سمجھ گئے کہ آپ انھیں قریش کے حوالے کر دیں گے۔ لہٰذا وہ مدینہ چھوڑ کر سمندر کے کنارے مقیم ہو گئے۔ قریش میں سے بعض لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھیرانے کی کوشش کی اور آپ سے دیت کا مطالبہ کرنا چاہا تو ان کے امیر ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا:اس کی ذمہ داری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ان پر جو ذمہ داری تھی ، وہ انھوں نے پوری کر دی ۔انھوں نے اسے ہمارے نمائندوں کے حوالے کر دیا تھا اور ابوبصیر نے ان کے حکم سے ہمارے نمائندے کو قتل نہیں کیا ۔ آہستہ آہستہ ابو بصیر کے پاس دوسرے نومسلم بھی جمع ہونے لگے۔ انھیں جب بھی یہ خبر ملتی کہ قریش کا کوئی قافلہ ادھر سے گزر رہا ہے تو وہ اسے لوٹ لیتے ۔ قریش اس صورتِ حال سے بڑے پریشان ہوئے۔ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی بھیجا اور اللہ کا واسطہ دے کر درخواست کی کہ آپ ابو بصیر کو ایسا کرنے سے منع کر دیں ۔ اس کے لیے انھوں نے صلح حدیبیہ کی وہ شرط بھی ختم کر دی ۔ چنانچہ اس کے بعد نو مسلموں کے لیے مکہ سے مدینہ آنے کی راہ کھل گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو مدینہ بلوا لیا اور لوٹ مار کرنے سے روک دیا ۔
حضرت ابو بصیر ہی کے حوالے سے جناب جاوید احمد غامدی نے لکھا :

’’ اس زمانے میں بعض لوگ اس [جہاد و قتال کے لیے حکمران کی شرط]کی تردید میں صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے خلاف ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی غارت گری سے استدلال کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ محض علم و نظر کا افلاس ہے ۔قرآنِ مجید نے سورۂ انفال (۸) کی آیت ۷۲ میں پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منتقل نہیں ہو سکے ، ان کے کسی معاملے کی کوئی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ریاست مدینہ کے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر یہی نہیں ، بخاری کی روایت (رقم ۲۷۳۱ ) کے مطابق خود حضور نے ابو بصیر کے ان اقدامات پر یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ ’ ویل امہ مسعر حرب لو کان لہ احد‘ (اس کی ماں پر آفت آئے ، اسے کچھ ساتھی مل گئے تو جنگ کی آگ بھڑکا کر رہے گا)۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان اقدامات کے بارے میں آپ کی رائے کیا تھی۔‘‘ (میزان ، ۲۴۴)

ہماری مذہبی دنیا میں ان نکات کو سرے سے کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ۔ لوگ آیات الہٰی کو اس کے مخصوص پس منظر اور سیاق و سباق سے غیر متعلق کرتے ہیں اور اسے اپنی خواہش پر مبنی مفہوم دے دیتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اور صحابۂ کرام کے امت وسط ہونے کی حیثیت کے ساتھ خاص آیات کی بنیاد پر اپنی جماعتوں کے لائحۂ عمل ترتیب دینے لگتے ہیں اور حکمرانوں کے ساتھ خاص احکامِ الٰہی پر خود عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ آج دنیا میں مسلمانوں پر جو دہشت گردی کا الزام لگ رہا ہے ، اس کی بنیادی علمی وجہ یہ ہے ۔

 

 ۱؂ البقرۃ ۲: ۲۳۔ ہود ۱۱ :۱۳۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2001
Uploaded on : Jan 06, 2017
2735 View