صبر کے مواقع میں سے ایک اہم معاملہ عہد کے ایفا کرنے کا ہے۔عہد ہم لوگوں سے بھی کرتے ہیں اور خدا کے ساتھ بھی ہمارے معاہدے ہیں۔ہم سب انسانوں نے خدا سے کچھ معاہدات کیے ہیں۔ جیسے:
۱۔ عہدالست یہ عہدربوبیت ہے۔ جس میں ہم نے اللہ سے عہد باندھا تھا کہ آپ ہمارے رب ہیں۔ہم زندگی بھر اس عہد پر قائم رہیں گے۔اچھے برے حالات میں ہم اس معاہدے کو نبھائیں گے۔ (الاعراف۷: ۱۷۲)
۲۔ دوسرا عہد عہدنبوت کا ہے۔ اس میں اللہ نے ہم سے عہد لیا تھا کہ میری طرف سے آنے والی ہدایت کو قبول کرنا۔اس کا ساتھ دینا اور اسے اپنا نا تو میں تمھیں ایسی زندگی دوں گا جس میں نہ کوئی غم ہو گا اور نہ کوئی حزن۔ (البقرہ۲: ۳۸)
۳۔ تیسرا عہد عہدامانت ہے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا کی خلافت بخشی ہے۔ ہمیں اس امانت کو سونپ کر ہمارا امتحان لیا جانا مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کے آخر(۳۳: ۷۲) میں اس عہد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ہم نے یہ عہد جب پہاڑوں اور دیگر مخلوقات کے سامنے رکھا تو وہ اس ذمہ داری کااحساس کر کے کانپ اٹھے۔
ان معاہدوں پر قائم رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے ان عہدوں کو وفا کیا تو یہی صبر ہے ۔
اسی طرح اس دنیا میں کاروبار کرتے ہوئے، قومی و ملی کام سرانجام دیتے ہوئے، شادی بیاہ اور دیگر عائلی معاملات کرتے ہوئے ہم لوگوں کے ساتھ عہد باندھتے ہیں۔ مگر ان سب میں سے ایک بڑی اکثریت عہد پورے نہیں کرتی۔ شادی کے بعد بیوی پر ظلم اس عہد کی خلاف ورزی ہے جو ہم خدا کی آیات پڑھ کر باندھتے ہیں۔ اس کا حق مہرادا نہ کرنا اسی عہد کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے کھانے پینے اور رہنے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق گھر نہ لے کر دینا اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔ساس کے مظالم سے اسے نہ بچانا شوہر کی طرف سے اس عہد کی خلاف ورزی ہے۔
ایک عہد ہمارے رشتہ سے بندھتا ہے۔ وہ ہمارے والدین کا حق ہے۔ یہ ایسا ہی حق ہے جیسا اللہ کا حق ہے اس لیے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور والدین نے ہمیں جنم دیا ہے بالخصوص والدہ کا حق ہے۔ (البقرہ ۲: ۸۳) یہ دونوں اگرچاہتے تو اس وقت ہمارا گلا دبا کر مار ڈالتے جب ہم ایک پانی کا قطرہ بھی اپنے منہ میں نہ ڈال سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ہمیں پالا پوسا ہے۔بڑا کیا ہے۔ اس تعلق کی بنا پر ان کے اور ہمارے درمیان ایک عزت و احترام کا رشتہ بنتا ہے۔ ہمیں چار وناچار ان کی عزت کرنی ہے۔ ان کے بارے میں قرآن نے یہ کہا ہے کہ ان کی سختیوں پر بھی انھیں اونہہ تک بھی نہ کہو۔(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳)
انھی والدین کی طرف سے ہمار ے کچھ رشتے وجود میں آتے ہیں۔ ان سے بھی والدین کی خاطر ہی ہمارا تعلق حسن سلوک کا بنتا ہے۔ادب و احترام اور حسن سلوک میں والدین کے بعد ان کا درجہ آتا ہے۔ ان کے ساتھ ہمارا یہ تعلق صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ اس عہد کو بھی ہمیں پورا کرنا ہے۔
انھی والدین کے ذریعے سے ہمارا ایک رشتہ آدم و حوا سے بنتا ہے۔ اور ان کے رشتے سے ساری دنیا کے انسان ہمارے بھائی ہیں ۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ ان سب کے ساتھ اور کچھ نہیں تو بھلی بات کرو۔(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۳)
بنی نوع انسان کے ساتھ ہمارا ایک اور بہت ہی گہرا تعلق خدا کی مخلوق ہونے کے ناتے بنتا ہے۔ یہ تعلق یہ ہے کہ ساری دنیا کے انسان ہمارے رب ہی کی مخلوق ہیں اور ان کا پروردگار وہی ہے۔ اسی نے ان کو پیدا کیا ہے اور وہی ان کا نگران ہے۔ وہ ان میں کسی کے ساتھ ظلم کو برداشت نہیں کرتا۔ جس نے ایسا کیا وہ قیامت کے دن اس سے حساب لے گا۔
غرض یہ کہ بہت سارے عہد ہیں جو ہمارے ذمہ ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جو ہم خود باندھتے ہیں، کچھ وہ ہیں جن میں ہم خدا سے اور لوگوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان سب کو پورا کرنا ہی صبر ہے۔خواہ حالات کیسے ہوں۔ ان سب کا رویہ ہمارے ساتھ کیسا ہی ہو۔

انسانوں کے ساتھ ہمارا تعلق

انسانوں کے ساتھ ہمارا تعلق یہ ہے کہ ہمیں ان کا ساتھ دینا ہے۔ یہ ساتھ دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ انھیں ہماری ضرورت ہو تو ہم ان کے کام آئیں، ان کے کچھ حقوق ہم پر عائد ہوتے ہوں تو وہ پورے کریں۔ (حدیث)دوسرے یہ کہ اگر وہ غلط چلنے لگیں تو ان کو روکیں انھیں حق بات کی نصیحت کریں اور حق پر قائم رہنے کی نصیحت کریں۔ (سورۂ عصر )

عدل

ہماری اجتماعی زندگی میں عدل ایک نہایت ہی اہم چیز ہے۔اس پر قائم رہنا نہ صرف دینی فریضہ ہے، بلکہ انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں ایک نہایت ہی بڑی قدر Valueہے۔انسانوں کی بسائی ہوئی کوئی تہذیب ایسی نہیں ہے جس میں عدل کسی نہ کسی طرح موجود نہ رہا ہو۔
دین اسلام میں بھی یہ ایک بڑی قدرکی حیثیت رکھتا ہے۔ہمارے معاشرے میں اس کواتنی ہی کم حیثیت حاصل ہے، جتنی زیادہ اسلام میں اسے اہمیت دی جاتی ہے۔قرآن مجید نے سورہ آل عمران (۳:۱۸)کے آغاز میں اسے ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی مطالبہ کی طرح سے پیش کیا ہے۔ا س کے علاوہ بہت سارے مقامات میں اس حکم کے مختلف پہلو واضح کیے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں عدل تقویٰ کی انتہا ہے۔ اگر آدمی اجتماعی زندگی میں عدل پر قائم نہیں ہے تو وہ جان لے کہ متقی نہیں ہے۔قرآن کہتا ہے کہ:
۱۔تم عدل کرو خواہ اپنے عزیزوں کے خلاف ہی عدل کیوں نہ کرنا پڑے۔(الانعام ۶: ۱۵۲)
۲۔ کسی کی دشمنی بھی تمھیں عدل کرنے سے نہ روکے۔(المائدہ ۵: ۸)
۳۔ عدل کرو اس لیے کہ تقویٰ کا عمل یہی ہے۔ (المائدہ ۵: ۸)
۴۔ اللہ قائم بالقسط ہے۔(آل عمران۳: ۱۸)
۵۔اللہ نے ایک میزان قائم کر رکھی ہے۔او ر تم بھی اے لوگو میزان کو سیدھا رکھو۔(الرحمن ۵۵: ۷۔۸)
ہماری گھریلو زندگی ہو یا گھر سے باہر کی ہر جگہ ہمیں عدل کرنا پڑتا ہے۔ کبھی ہماری والدہ اور ہماری بیوی کے درمیان ،کبھی میاں اور بیوی کے درمیان ،کبھی بھائی اور بھائی کے درمیان ،کبھی ہمسائے اور ہمسائے کے درمیان ،کبھی ماں باپ اور اولاد کے درمیان اور کبھی بیٹے اور بیٹی کے درمیان مگر ہم اس میں بہت کوتاہی کرتے ہیں۔

ایک عام کوتاہی

سب سے بڑی کوتاہی تو ہم سے یہ ہوتی ہے کہ بالعموم ایک فریق کی بات سن کر دوسرے کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں اور پھر اسے عام کرتے پھرتے ہیں۔ یا اس کے لحاظ سے اس کے ساتھ معاملات کرنے لگ جاتے ہیں جو کہ اصلاً غلط ہے۔کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے خواہ وہ چہرے پرملال لانے کا عمل ہو ، محض سنی سنائی باتوں کی بنا پر نہیں ہونا چاہیے ۔
اس ضمن میں قرآن مجید نے ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ کسی کے خلاف اقدام کرنے سے پہلے ناگزیر ہے کہ تم تحقیق خبر کر لو۔ (سورۂ حجرات)کہیں ایسانہ ہو کہ تم ان کے خلاف اقدام کرو اور وہ بے قصور ہوں اور پھر تمھیں شرمندگی ہو یا کوئی اور نقصان اٹھانا پڑ جائے۔
عدل ہماری زندگی میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ہماری تعمیر ملت میں نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ملت یا قوم دنیا کی اچھی اقوام میں شامل ہو۔ یا یہ ترقی کرے اور بام عروج کو پہنچے تو اس کے لیے لازمی شرط یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی معاملات میں عدل کریں۔
گھر میں بچوں سے لے کر حکومت میں دشمنوں سے معاملہ کرنے تک ہر ہر موقع پر ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم عدل کریں۔یہ ہم سے زندگی کے ہر موڑ پر ہر طرح کے حالات میں مطلوب ہے۔ ایسا کرتے رہنا عدل کے مطالبے میں صبر ہے۔

اعلیٰ اخلاق

اخلاقی رویہ میدان عمل کی طرح ایک ذہنی عمل بھی ہے۔اس کی مثال ایمان اور اسلام کی سی ہے۔ ایمان قلبی چیز ہے اور اسلام اس کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ اخلاق کا ہے۔ اس کا ایک حصہ ذہنی و فکری ہے اور دوسرا حصہ عملی ہے۔ عملی لحاظ سے شریعت کا تقاضا ہر شخص پرواضح ہے ۔ یعنی یہ کہ آدمی درج ذیل امور کا خیال رکھے:
۱۔ لین دین میں دیانت داری
۲۔ معاملات زندگی میں انصاف پسندی
۳۔ ملنے جلنے میں قول حسن پر عمل
ذہنی اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ آدمی:
۱۔ نیت کامثبت ہونا
۲۔ ہر چیز کو مثبت رخ سے دیکھنا
۳۔اپنی نگہ داری
پہلی دو چیزوں کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ، تیسری چیز جس کی وضاحت ہونی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ قول حسن اختیار کریں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ، وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا. (البقرہ۲: ۸۳)
’’اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے، والدین کے ساتھ احسان کروگے، قرابت داروں ،یتیموں ، اور مسکینوں کو (ان کا حق دوگے)اور (ان کے علاوہ ) لوگوں سے بھلی بات کرو۔‘‘

اس آیت سے درج ذیل اخلاقی احکام سامنے آتے ہیں:
۱۔ اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا۔
۲۔ اللہ کے اس حق کوادا کرنے کے بعد دوسری اہم چیز والدین سے حسن سلوک کرنا۔
۳۔ حق داروں کا حق ادا کرنا، جیسے رشتہ دار ، یتیم اورمسکین۔
۴۔ عام لوگ جو نہ رشتہ دار ہیں، اور نہ یتیم و مسکین ہیں ، ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا۔
یہ اخلاقی تقاضے عملی ہیں۔ ان پر قائم رہنا نہایت ضرور ی ہے ۔ اور جو شخص ان پر اچھے برے حالات میں قائم رہے گا وہ اس میدان میں صابر آدمی ہے ۔یہاں چونکہ ہم عملی اخلاقیات تک محدود رہیں گے اس لیے دوسرے گروپ کے تینوں پہلو ہم آگے چل کر واضح کریں گے۔
(باقی)