ترکی میں حدیث کی تدوین جدید - جاوید احمد غامدی

ترکی میں حدیث کی تدوین جدید

 

حدیث سے متعلق کسی کام کو سمجھنے کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے کہ دین کا تنہا ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات ہے۔ آپ سے یہ دین دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے: ایک قرآن، دوسرے سنت۔ یہ بالکل یقینی ہیں اور اپنے ثبوت کے لیے کسی تحقیق کے محتاج نہیں ہیں۔ اِنھیں مسلمانوں نے نسلاً بعد نسلٍ اپنے اجماع اور تواتر سے منتقل کیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کی ہرنسل کے لوگوں نے بغیر کسی اختلاف کے پچھلوں سے لیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے اور زمانۂ رسالت سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔
پورا دین اِنھی دو میں محصور ہے اور اُس کے تمام احکام ہم اِنھی سے اخذ کرتے ہیں۔ اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس کے لیے دین کے علما کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس کو وحی کی تائید و تصویب حاصل تھی۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان چاہے گا کہ قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کر کے بیان کر دیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُن سے منع نہیں فرماتے تھے۔ یہی سارا علم ہے جسے ’حدیث‘ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح کو جاننے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے۔ اِس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ اُسی دین کی شرح و وضاحت اور اُس پر عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہے جو آپ نے قرآن و سنت کی صورت میں اپنے ماننے والوں کو دیا ہے۔
یہ ہم تک کس طرح پہنچا ہے؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اِسے حدیثوں کی صورت میں سب سے پہلے صحابہ نے لوگوں تک پہنچایا۔ پھر جن لوگوں نے یہ حدیثیں اُن سے سنیں، اُنھوں نے دوسروں کو سنائیں۔ یہ زبانی بھی سنائی گئیں اور بعض اوقات لکھ کر بھی دی گئیں۔ ایک دو نسلوں تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلا، لیکن پھر صاف محسوس ہونے لگا کہ اِن کے بیان کرنے میں کہیں کہیں غلطیاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ دانستہ اِن میں جھوٹ کی ملاوٹ بھی کر رہے ہیں۔ یہی موقع ہے، جب اللہ کے کچھ بندے اٹھے اور اُنھوں نے اِن حدیثوں کی تحقیق کرنا شروع کی۔ اِنھیں ’محدثین‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے غیرمعمولی لوگ تھے۔ اِنھوں نے ایک ایک روایت اور اُس کے بیان کرنے والوں کی تحقیق کر کے، جس حد تک ممکن تھا، غلط اور صحیح کی نشان دہی کی اور جھوٹ کو سچ سے الگ کر دیا۔ پھر اِنھی میں سے بعض نے ایسی کتابیں بھی مرتب کر دیں جن کے بارے میں بڑی حد تک اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُن میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں، وہ بیش تر حضور ہی کا علم ہے جو روایت کرنے والوں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ علم کی زبان میں اِنھیں ’اخبار آحاد‘ کہتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اِنھیں صرف گنتی کے لوگوں نے بیان کیا ہے، قرآن و سنت کی طرح یہ اجماع اور تواتر سے منتقل نہیں ہوئی ہیں۔ چنانچہ بالعموم تسلیم کیا جاتا ہے کہ اِن سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ درجۂ یقین کو نہیں پہنچتا، اُسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جا سکتا ہے۔
حدیث کی جن کتابوں کا ذکر ہوا ہے، وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، مگر امام مالک، امام بخاری اور امام مسلم کی کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور بہت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بڑی تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اِن کے مرتب کرنے والوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ اِس علم کے ماہرین جانتے ہیں کہ اُن سے تحقیق میں غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اِسی بنا پر وہ حدیث کی کتابوں کو برابر جانچتے پرکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی حدیث کے بیان کرنے والوں کو اگر سیرت و کردار اور حفظ و اتقان کے لحاظ سے قابل اعتماد نہیں پاتے یا آپس میں اُن کی ملاقات کا امکان نہیں دیکھتے یا اُن کی بیان کردہ حدیث کے مضمون میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے یا علم و عقل کے مسلمات کے خلاف ہے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ یہ آں حضرت کی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ غلطی سے آپ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ یہی معاملہ اِن حدیثوں کے فہم اور اِن کی شرح و وضاحت کا ہے۔ اہل علم اِس معاملے میں بھی اپنی تعبیرات اِسی طرح پیش کرتے رہتے ہیں۔
یہ کام ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ ابھی پچھلی صدی میں علامہ ناصر الدین البانی نے اِس سلسلے میں بڑی غیرمعمولی خدمت انجام دی ہے اور حدیث کی اکثر کتابوں پر ازسرنو تحقیق کر کے اُن کے صحیح اور سقیم کو ایک مرتبہ پھر الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جمہوریہ ترکی کے اہل علم نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اُس کی نوعیت بھی کم و بیش یہی ہے۔ اُن کے نتائج فکر و تحقیق ابھی سامنے نہیں آئے، لہٰذا اُن کے بارے میں تو کوئی راے نہیں دی جا سکتی، لیکن کام کی نوعیت سے متعلق جو تفصیلات معلوم ہیں، اُن میں بظاہر کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے۔ حدیث کی جو حیثیت اوپر بیان ہوئی ہے، اُس کو پیش نظر رکھ کر اگر اِس علم کے مسلمہ قواعد کے مطابق اُس کا جائزہ لیا جائے گا یا اُس کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے گا یا اُس کا مدعا سمجھنے اور اُس کے وقتی اور دائمی کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہو سکتی ہے؟ علم و تحقیق کا دروازہ کسی دور میں اور کسی حال میں بھی بند نہیں کیا جا سکتا۔ اِس کام میں اگر کچھ غلطیاں بھی ہوں گی تو تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ دوسرے اہل علم اپنی تنقیدات سے اُن کی نشان دہی کر دیں گے۔ علم کی ترقی کا اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ لوگوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔ نئی راہیں اِسی سے کھلتی ہیں اور اگلوں نے اگر کہیں غلطی کی ہے تو اُس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ترک اہل علم کی کاوش کو اِسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ادارے کی صورت میں یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اُن کا کام اگر معیار کے مطابق ہوا تو یہ ایک عظیم خدمت ہو گی اور اگر کم عیار ثابت ہوا تو بے وقعت ہو کر تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو جائے گا۔ علم کی عدالت بڑی بے رحم ہے۔ وہ جلد یا بدیر اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے۔ اِس طرح کے معاملات میں اُسی کے فیصلوں کا انتظار کرنا چاہیے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2013
مصنف : جاوید احمد غامدی