صاحب ’’ تدبر قرآن‘‘ کی یاد میں - خورشید احمد ندیم

صاحب ’’ تدبر قرآن‘‘ کی یاد میں

 

’’ تدبر قرآن‘‘ کے بعد فہم قرآن کی دنیا وہ نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی۔ آج ہم تفسیر کے عہد اصلاحی میں جی رہے ہیں۔
پندرہ برس پہلے دسمبر کی یہی پندرہ تاریخ تھی، جب صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ دن آیا تو میں نے مولانا کو یاد کیا۔ علم و فکر کی دنیا میں ایک مدت سے خزاں کا راج ہے۔ اس بے کیفی نے مولانا کی کمی کا احساس بڑھا دیا: 

دیکھا بھی دکھایا بھی، سنایا بھی سنا بھی
ہے دل کی تسلی نہ نظر میں، نہ خبر میں!

تئیس برس ہوتے ہیں جب میں نے پہلی مرتبہ مولانا کو دیکھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے دبستان فراہی کی دہلیز پر پہلا قدم رکھا تھا۔ ایک طفل مکتب کیا جانے کہ فراہی کون ہیں اور اصلاحی کون۔ تاہم یہ احساس مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوئے تھا کہ میں صاحب تدبر قرآن کے حضور میں ہوں۔ میں نے اپنے جلیل القدر استاذ جاوید احمد صاحب غامدی کو دیکھا کہ تلمیذانہ عجز کے ساتھ ان کے درس میں شریک ہیں تو ان کی عظمت کا احساس مزید گہرا ہو گیا۔ تئیس برس سے اس دبستان کی دہلیز ہی پر کھڑا ہوں۔ اپنی کوتاہ نگاہی کا اعتراف ہے کہ میں اسے پار نہ کر سکا۔ لیکن ان برسوں میں یہ ضرور جان لیا کہ علوم اسلامی کے دور ثانی کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے: 

کہاں ہم اور کہاں یہ نکہتِ گل
نسیم صبح، تیری مہربانی

برسوں پہلے امام فراہی دنیا سے رخصت ہوئے تو سید سلیمان ندوی نے نوحہ لکھا ’’الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن‘‘۔ یہ امام ہی تھے جنھوں نے متنبہ کیا کہ عہد رسالت اور دور صحابہ سے دوری کیا ہوئی کہ قرآن مجید ہمارے لیے قول فیصل نہیں رہا۔ آیات الٰہی پر کہیں روایات کی حکومت ہے اور کہیں اقوال کی۔ امام نے خبردار کیا کہ ہم نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ترتیب کو الٹ دیا۔ قدیم ترتیب کو ازسر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید کو روایت کی روشنی میں نہیں، روایت کو قرآن کی روشنی میں سمجھا جائے گا۔ قول فقیہ کو حاکم مان کر آیت کی تاویل نہیں ہو گی، آیت الٰہی کو حاکم مان کر اقوال کے رد و قبولیت کا فیصلہ ہو گا۔ یہاں سوال اٹھا کہ خود قرآن مجید کو کیسے سمجھا جائے گا۔ امام فراہی نے اس کا جواب دیا: ’’ایک دیا جلایا اور مولانا اصلاحی نے اسے ایک شعلۂ جوالہ بنا دیا‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ قرآن مجید کی زبان، اس کے فہم کی شاہ کلید ہے۔ قرآن محض عربی میں نہیں اترا، یہ ام القریٰ کی زبان میں نازل ہوا۔ یہ وہ زبان ہے جس کے شاہ کار امر اء لقیس اور لبید جیسے شعرا کے کلام میں موجود تھے۔ قرآن اترا تو وہ زبان و بیان کا معجزہ تھا۔ زبان تو وہی تھی لیکن اس نے لبید کو بے زبان بنا دیا۔ اسلام کی دولت نصیب ہوئی تو پھر شعر نہیں کہا۔ وجہ پوچھی گئی تو یہی کہہ سکے: ’أبعد القرآن؟‘ کیا قرآن کے بعد بھی کچھ کہنے کی گنجایش ہے؟ امام فراہی نے صدا لگائی کہ ام القریٰ کی اس زبان سے واقفیت کے بغیر فہم قرآن کا باب نہیں کھل سکتا۔ امام نے ایک اور بات بھی کہی۔ اس امت کا اجماع ہے کہ قرآن مجید کی ترتیب توقیفی ہے۔ یہ کسی کا اجتہاد نہیں، یہ اللہ کا حکم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن اس ترتیب سے نازل نہیں ہوا، جس ترتیب کے ساتھ آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کی ترتیب نو ہوئی اور قرآن مجید کی نص ہے کہ اللہ کے حکم سے ہوئی۔ عجیب بات یہ ہے کہ تفسیر قرآن کی روایت میں اتنی اہم بات کو نظر انداز کیا گیا۔ اسے متفرق اقوال زریں کا مجموعہ سمجھ کر اس کی تفسیر کی گئی۔ کبھی اس کی آیات کو شان نزول کی روایات کے تابع کر دیا گیا اور کبھی فقہ و کلام کے۔ امام فراہی نے متوجہ کیا کہ قرآن مجید ایک مرتب کتاب ہے اور اس کے نظم کو جانے بغیر اس کے معانی تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ نظم قرآن فہم قرآن کی بنیاد ہے۔
امام فراہی نے اصول مرتب کیے، لیکن وہ قرآن مجید کی چند آخری سورتوں ہی کی تفسیر لکھ پائے تھے کہ سفر آخرت پر چل نکلے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنے استاذ کی انگلی تھامی اور ان اصولوں کی راہنمائی میں ’’تدبر قرآن‘‘ جیسا شاہ کار تخلیق کر دیا۔ ان کی آرا سے اختلاف کا امکان ہر وقت موجود ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ’’تدبر قرآن‘‘ تفسیر کی دنیا میں ایک نئی آواز ہے۔ بالیقین اس تفسیر کے بعد علوم اسلامی کے مباحث بدل گئے ہیں۔
قرآن مجید کی زبان اور نظم کو بنیاد ماننے کے بعد ہم جب قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید انگلی پکڑ کر ہمیں غلط فہمیوں کی وادی سے سرخرو نکال لے جاتا ہے۔ اب روایات کی تفہیم اور تطبیق بھی آسان ہو گئی ہے اور قول فقیہ کی حقیقت بھی۔ اب انکار حدیث کی ضرورت ہے نہ اس روایت کے استخفاف کی، جو ہمارے اکابرین کی عطا ہے۔ ایک مختصر شذرہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا، ورنہ میں مثالوں سے واضح کرتا کہ کتاب اللہ کی آیات کو جب قرآن کی زبان اور نظم قرآن کی روشنی میں سمجھاجائے تو کیا مفہوم سامنے آتا ہے اور اگر اسے روایات اور اقوال کے تابع کر دیا جائے تو پھر کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تئیس سال پہلے اللہ نے کرم کیا اور میں نے اس وادی میں قدم رکھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پھر فہم قرآن کے باب میں کسی اور کی احتیاج نہیں رہی۔
مولانا اصلاحی ہماری اس روایت کے بھی امین تھے جب حسن کردار اور علم دین ہم رکاب ہوتے تھے۔ دولت، شہرت اور اقتدار، آج جن جن آستانوں پر جبہ و دستار نیلام ہوتے ہیں، مولانا کے نزدیک ان کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہ تھی۔ ’’تدبر قرآن‘‘ مکمل ہوئی تو ایک نامور صحافی حاضر ہوئے اور کہا کہ وہ اس کی تقریب رونمائی کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں۔ رضامند نہیں ہوئے۔ کہا اس میں اگر کوئی خیر ہے تو اپنی جگہ بنائے گی۔ اگر نہیں تورونمائی کس کام کی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے طویل رفاقت رہی جو برقرار نہ رہ سکی۔ دونوں بزرگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ شکررنجی کے اس دور میں ایک دوسرے کے نام خطوط لکھے۔ ان سے دونوں کا موقف معلوم ہوتا ہے۔ میرے جیسا طالب علم پڑھتا ہے تو نفس مضمون کو بھول کر حسن تحریر میں کھو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا ایک بڑے ادیب تھے۔ بلاشبہ یہ دبستان شبلی ہی کا امتیاز ہے کہ علم و ادب ہم رکاب رہتے ہیں۔ مولانا اسی گلستان کے سرسبد تھے۔
علم و فضل کے اس زوال میں مولانا بہت یاد آتے ہیں۔ لوگ علم کے نام پر جب سنگ ریزوں کو جواہر بنا کر پیش کرتے ہیں تو اس بے توفیقی پر دل تاسف سے بھر جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ان کے سامنے ’’تدبر قرآن‘‘ رکھوں اور یہ عرض کروں: 

دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2013
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Aug 18, 2018
1707 View