نبی کی ضرورت - جاوید احمد غامدی

نبی کی ضرورت

 انسان کو جس طرح یہ صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ تمثیل و استقرا کے ذریعے سے استنباط کرتا ہے، جزئیات سے کلیات بناتا ہے، پھر اُن سے جزئیات پر حکم لگاتا ہے، بدیہیات سے نظریات تک پہنچتا ہے اور نا محسوس کو محسوس پر قیاس کرتا ہے، اِسی طرح یہ صلاحیت بھی اُس کو دی گئی ہے کہ وہ خیر و شر میں امتیاز کرتا اور نیکی اور بدی کو الگ الگ پہچانتا ہے، بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر وہ اپنے پروردگار کی معرفت اور اُس کی عدالت کے شعور سے بھی خالی نہیں ہے۔ انسان کے بارے میں یہ حقائق ہم اِس سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ لہٰذا نبی کی ضرورت اِس لیے نہیں ہے کہ وہ انسان کو اِن چیزوں سے واقف کرائے۔ یہ سب چیزیں تو اُس کی خلقت کا حصہ اور اُس کی تخلیق کے پہلے دن ہی سے اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں۔ قرآن کی جو آیت سرعنوان ہے، اُس سے واضح ہے کہ یہ ضرورت اِن چیزوں سے واقف کرانے کے لیے نہیں، بلکہ دو وجوہ سے پیش آئی ہے:
اولاً، اتمام ہدایت کے لیے۔ یعنی انسان کی فطرت میں جو کچھ بالاجمال ودیعت ہے اور جو کچھ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے، اُس کی یاددہانی کی جائے اور اُس کی ضروری تفصیلات کے ساتھ اُس کے لیے اُسے بالکل متعین کر دیا جائے:

وَجَعَلْنٰہُمْ اَءِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا، وَاَوْحَیْْنَآ اِلَیْْہِمْ فِعْلَ الْخَیْْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ، وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ.(الانبیاء۲۱:۷۳)

’’اور اِن (نبیوں) کو ہم نے امام بنایا جو ہماری ہدایت کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور ہم نے اِنھیں وحی کے ذریعے سے نیک کاموں کی اور نماز کا اہتمام کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اور وہ ہمارے ہی عبادت گزار تھے۔‘‘

ثانیاً، اتمام حجت کے لیے۔ یعنی انسان کو غفلت سے بیدار کیا جائے اور علم و عقل کی شہادت کے بعد اِن نبیوں کے ذریعے سے ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اِس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے:

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ، اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْْکُمْ اٰیٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا، قَالُوْا: شَہِدْنَا عَلآی اَنْفُسِنَا، وَغَرَّتْہُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا، وَشَہِدُوْا عَلآی اَنْفُسِہِمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ.ذٰلِکَ اَنْ لَّمْ یَکُنْ رَّبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا غٰفِلُوْنَ.(الانعام۶:۱۳۰۔۱۳۱)

’’اے گروہ جن و انس، کیا تمھارے پاس خود تمھارے ہی اندر سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمھیں میری آیتیں سناتے اور اِس دن کی ملاقات سے خبردار کرتے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں، ہم اپنے خلاف خود گواہی دیتے ہیں اور اُن کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈالے رکھا اور اپنے خلاف خود گواہ بنے کہ بے شک، وہ کفر میں پڑے رہے یہ اِس لیے کہ تمھارا پروردگار بستیوں کو اُن کے ظلم کی پاداش میں ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جبکہ اُن کے باشندے حقیقت سے بے خبر ہوں۔‘‘

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2012
مصنف : جاوید احمد غامدی