قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر (2) - عمار خان ناصر

قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر (2)

 دور متوسط کے حنفی فقہا کے ہاں یہ بحث چونکہ ایک ضمنی مسئلے یعنی اہل کفر کے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے جواز یا عدم جواز کے تحت پیدا ہوئی ہے اور اسی دائرے تک محدود رہی ہے، اس لیے وہ اس کے اصولی مضمرات اور اس سے اپنے موقف میں در آنے والے داخلی تضادات سے کوئی تعرض نہیں کرتے اور جہاد وقتال کا مقصد دعوت اسلام اور اعلاءکلمة اللہ کے ساتھ ساتھ دفع حرابہ کو قرار دینے، نیز کفر کی جزا کو اصلاً آخرت پر موقوف ماننے اور اس کے ساتھ ساتھ جزیہ کو اہل کفر کے لیے عقوبت قرار دینے کے دونوں مواقف کو یکساں اطمینان کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ البتہ متاخرین کے ہاں ان الجھنوں کا احساس زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے اور متعدد حنفی اہل علم نے مذکورہ سوالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کی ترمیم واصلاح شدہ تعبیرات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن کی چند آرا کا تذکرہ یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا۔

(i) صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناءاللہ پانی پتی نے ’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض‘ کی تفسیر میں انھوں نے لکھا ہے: ”اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد کے فرض ہونے کی علت فساد کو دفع کرنا ہے۔“ (1/325)

’لا اکراہ فی الدین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”جہاد وقتال کا حکم دین کے معاملے میں جبر کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین سے فساد کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ کفار زمین میں فساد کرتے اور اللہ کے بندوں کو راہ ہدایت اور اللہ کی بندگی سے روکتے ہیں، اس لیے ان کو قتل کرنا اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جیسے سانپ، بچھو اور کاٹنے والے کتے کو قتل کرنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جنگ کی غایت یہ بتائی ہے کہ وہ جزیہ دے دیں، چنانچہ فرمایا: حتی یعطوا الجزیة عن ید وہم صاغرون۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی لیے بچوں، عورتوں، بوڑھوں، راہبوں، اندھوں اور معذوروں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ زمین میں فساد نہیں کر سکتے۔“ (تفسیر مظہری 1/336)

صاحب تفسیر مظہری کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مصلحت ہو تو کفار کے ساتھ صلح کا معاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور جن کفار کے ساتھ موقت یا ابدی معاہدئہ صلح کیا جائے، ان کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ ’وان جنحوا للسلم‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”اس ہدایت کو نہ تو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ ہے اور نہ منسوخ قرار دینے کی۔ یہ حکم اباحت کے لیے ہے اور اگر امام صلح کرنے میں مصلحت دیکھے تو ایسا کرنا جائز اور مشروع ہے۔“ (4/109)

’الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”تمھیں عہد شکنی کرنے والوں سے معاہدہ توڑ دینے کا یا ان مشرکین کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ تمھارا کوئی معاہدہ نہ ہو، نہ کہ ان کفار کے ساتھ لڑنے کا جنھوں نے مخصوص مدت یا ہمیشہ کے لیے تمھارے ساتھ معاہدہ کیا ہو اور پھر عہد شکنی نہ کی ہو۔“ (4/138) یہ موقف اس پہلو سے روایتی حنفی موقف سے مختلف ہے کہ اس میں کفار کے ساتھ ابدی معاہدئہ صلح کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

(ii) مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:

”کوئی شبہہ نہیں کہ کسی آدمی کو عمداً قتل کر ڈالنا بڑی سخت چیز ہے مگر قرآن نے جس کو فتنہ کہا ہے، وہ قتل سے بھی بڑھ کر سخت ہے۔ والفنتہ اشد من القتل، والفتنة اکبر من القتل۔ یہ فتنہ دین حق سے ہٹنے یا ہٹائے جانے کا فتنہ ہے جس پر واحذرہم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک میں متنبہ کیا گیا ہے ..... اسی فتنہ کے روکنے اور مٹانے کے لیے وہ جارحانہ اور مدافعانہ جہاد بالسیف شروع کیا گیا ہے۔ .... پس اسلام کا سارا جہاد وقتال خواہ ہجوم کی صورت میں ہو یا دفاع کی، صرف مرتد بننے یا بنانے والوں کے مقابلے میں ہے جس کی غرض یہ ہے کہ فتنہ ارتداد یا اس کے خطرہ سے مومنین کی حفاظت کی جائے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ مرتدین کا جو مجسم فتنہ ہیں، استیصال ہو اور مرتد بنانے والوں کے حملوں اور تدبیروں اور ان کی شوکت وقوت کو جس سے وہ مسلمانوں کے ایمان کو موت کی دھمکی دے سکتے ہیں، ہر ممکن طریقہ سے روکا جائے یا توڑا جائے۔ چنانچہ کفار اگر جزیہ دے کر اسلامی رعایا بننے یا مسلمانوں کے امن میں آ جانے یا باہمی مصالحت اور معاہدہ کی وجہ سے مسلمانوں کو عملاً مطمئن کر دیں کہ وہ ان کے دین میں کوئی رخنہ اندازی نہ کریں گے اور ان کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد بنائے جانے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے گا تو ایسی اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ ..... پس جہاد بالسیف خواہ ہجومی ہے (یعنی بطریق حفظ ما تقدم) یا دفاعی (یعنی بطریق چارہ سازی) صرف مومنین کی حفاظت کے لیے اور یہ ایک ایسا فطری حق ہے جس سے کوئی عقل مند اور مہذب انسان مسلمانوں کو محروم نہیں کر سکتا۔“ (الشہاب ص 35-37)

مولانا عثمانی کا یہ موقف ایک نہایت بنیادی نکتے میں روایتی حنفی نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ وہ یہ کہ روایتی موقف میں کفار کے ساتھ صلح اور ان سے جزیہ وصول کرنے کو دو مساوی اختیارات کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک اصل اور مقصود حکم کفار کو زیر دست کر کے ان سے جزیہ وصول کرنا ہے، جبکہ اس کے بغیر صلح کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہے جب مسلمان اپنی کمزوری یا کسی دوسری مصلحت کے باعث ایسا نہ کر سکتے ہوں۔ مولانا عثمانی نے، اس کے برعکس، دونوں حکموں کو مساوی درجے میں ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر نگیں آنا چاہیں یا اس کے بغیر ہی صلح کا معاہدہ کر کے امن وامان کی یقین دہانی کرا دیں، ان میں سے ہر صورت ان کے نزدیک اختیار کی جا سکتی ہے۔

(iii) مولانا اشرف علی تھانوی نے مذکورہ نکتے سے اتفاق ظاہر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روایتی موقف میں ایک طرف ’کفر‘ کو قتال کی علت نہ ماننے اور دوسری طرف ’جزیہ‘ کو عقوبة علی الکفر قرار دینے سے جو تضاد پیدا ہوتا ہے، اسے ’جزیہ‘ کو غیر مسلموں کی جان ومال کی حفاظت کا عوض قرار دے کر اس تضاد کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:

”مخالفین اسلام کے اس شبہ کا ازالہ کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، اصولی جواب تو خود اسلام کے قانون سے ظاہر ہے جس کے بعض ضروری دفعات یہ ہیں: (۱) قتال میں عورت اور اپاہج اور شیخ فانی اور اندھے کا قتل باوجود ان کے بقاءعلی الکفر کے جائز نہیں۔ اگر سیف اکراہ علی الاسلام کے لیے ہوتی تو ان کو ان کی حالت پر کیسے چھوڑا جاتا؟ (۲) جزیہ مشروع کیا گیا۔ اگر سیف جزاءکفر ہوتی تو باوجود بقاءعلی الکفر کے جزیہ کیسے مشروع ہوتا؟ (۳) پھر جزیہ بھی سب کفار پر نہیں، چنانچہ عورت پر نہیں، اپاہج اور نابینا پر نہیں، رہبان پر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثل سیف کے جزیہ بھی جزائے کفر نہیں، ورنہ سب کفار کو عام ہوتا۔ جب جزیہ کہ سیف سے اخف ہے، جزائے کفر نہیں تو سیف جو کہ اشد ہے، کیسے جزائے کفر ہوگی؟ (۴) اگر کسی وقت مسلمانوں کی مصلحت ہو تو کفار سے صلح بلاشرط مالی بھی جائز ہے۔ (۵) اگر حالات وقتیہ مقتضی ہوں تو خود مال دے کر بھی صلح جائز ہے۔ ان اجزاءکی دونوں دفعات سے معلوم ہوا کہ جزیہ جس طرح جزائے کفر نہیں، جیسا کہ دفعہ ۳ سے معلوم ہوا، اسی طرح وہ مقصود بالذات بھی نہیں، ورنہ دفعات مذکور مشروع نہ ہوتے تو ضرور اس کی کوئی ایسی علت ہے جو ان دفعات کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے اور وہ حسب تصریح حکمائے امت کما فی الہدایہ وغیرہا سیف کی غرض اعزاز دین ودفع فساد ہے اور جزیہ کی غرض یہ ہے کہ جب ہم ہر طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس حفاظت میں اپنی جان ومال صرف کرتے ہیں تو اس کا صلہ یہ تھا کہ وہ بھی حاجت کے وقت ہماری نصرت بالنفس ہی کرتے، مگر ہم نے ان کو قانوناً اس سے بھی سبک دوش کر دیا، اس لیے کم از کم ان کو کچھ مختصر ٹیکس مالی ادا کرنا چاہیے تاکہ یہ نصرت بالمال اس نصرت بالنفس کا من وجہ بدل ہو جاوے۔یہ اغراض ہیں سیف اور جزیہ کے اور یہی وجہ ہے کہ جب اعداءدین سے احتمال فساد کا نہیں رہتا تو سیف مرتفع ہو جاتی ہے جس کے تحقق کی ایک صورت قبول جزیہ ہے، ایک صورت صلح ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نصرت بالنفس پر، جو کہ ان پر عقلاً واجب تھی، قادر نہیں، ان سے نصرت بالمال بھی معاف کر دی گئی ہے۔ البتہ چونکہ احتمال فساد کا موثوق بانتفاءعادةً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر چنانچہ تمام ملوک وسلاطین کا، گو وہ اہل ملل بھی نہ ہوں، یہ اجماعی مسئلہ ہے، اس لیے ایسی کسی صورت کو بحالت اختیار گوارا نہیں کیا گیا جس میں اسلام کی قوت وشوکت کو صدمہ پہنچے۔“ (بوادر النوادر ص 508-509)

آخری سطور میں بیان کردہ نکتے کی انھوں نے ایک دوسری جگہ توضیح کی ہے۔ فرماتے ہیں:

”جہاد اسلام کی مدافعت اور حفاظت خود اختیاری کے لیے ہے ..... اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جہاد میں ابتدا نہ کی جائے۔ خود ابتدا کرنے کی غرض بھی یہی مدافعت وحفاظت ہے کیونکہ بدون غلبہ کے احتمال ہے مزاحمت کا، اسی مزاحمت کے انسداد کے لیے اس کا حکم کیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو مدافعت غایت ہے جہاد کی، وہ عام ہے مزاحمت واقع فی الحال کی مدافعت کو اور مزاحمت متوقعہ فی الاستقبال کی مدافعت کو۔“ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم ملفوظ 497)

مولانا کی اس راے میں ایک مزید قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی غلبہ، اعلاءکلمة اللہ اور کفر اور اہل کفر کے اذلال کو بالذات مقصود قرار دینے کے بجاے جہاد کو علی الاطلاق لازم قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ”احتمال فساد کا موثوق بانتفاءعادةً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر“ جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ چونکہ تجربہ اور عادت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ فتنہ وفساد کے خواہاں گروہوں کو جب تم حکومت واقتدار کے زور پر محکوم نہ بنا لیا جائے، ان کو ان کی روش سے باز رکھنا ممکن نہیں، اس لیے حصول مقصد کا قابل اعتماد طریقہ یہی ہے کہ کفار کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں لے آیا جائے۔

مولانا تھانوی کے اس موقف میں یہ سوال پھر تشنہ جواب رہ جاتا ہے کہ انھوں نے قتال کے حکم کو کفار کی طرف سے فتنہ وفساد کے واقعی یا متوقع امکان کے ساتھ مشروط کیے بغیر محض اس امکان کے پیش نظر مطلق قرار دیا ہے کہ کفار مستقبل میں کسی وقت بھی فتنہ وفساد پر آمادہ ہو سکتے ہیں، جبکہ قرآن مجید نے واضح طور پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے گروہوں کی نشان دہی کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں کے معاند یا دشمن نہیں اور ان کے اس غیر جانبدارانہ رویے ہی کی بنیاد پر ان کے ساتھ فتنہ پرداز گروہ سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ ایسے گروہ اور اقوام ہر زمانے میں نہ صرف پائے جا سکتے ہیں بلکہ حقیقتاً پائے بھی جاتے ہیں، چنانچہ یہ اشکال جوں کا توں باقی رہتا ہے کہ فتنہ وفساد اور عداوت وعناد کی علت واقعہ کے لحاظ سے نہ پائے جانے کی صورت میں کسی غیر مسلم قوم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کیا اخلاقی جواز پیش جا سکتا ہے؟

(iv) بعض معاصر اہل علم نے یہ راے یہ پیش کی ہے کہ جہاد دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور چونکہ کسی کافر حکومت کا دنیا میں برسر اقتدار رہنا اور دنیاوی قوت وشوکت سے بہرہ ور ہونا بذات خود لوگوں کے قبول اسلام میں ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کفار کے اقتدار اور سیاسی خود مختاری کے خاتمہ کا مطلب دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ کا خاتمہ ہے۔ مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

”تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اسی کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کر دے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں تبلیغ پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں، لیکن چونکہ دنیا میں ان کی شوکت اور دبدبہ قائم ہے، اس لیے اسی شوکت اور دبدبے کی وجہ سے ایک ایسی عالمگیر ذہنیت پیدا ہو گئی ہے جو قبول حق کے راستے میں تبلیغ پر قانونی پابندی لگانے سے زیادہ بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا کفار کی اس شوکت کو توڑنا جہاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے، تاکہ اس شوکت کی بنا پر جو نفسیاتی مرعوبیت لوگوں میں پیدا ہو گئی ہے، وہ ٹوٹے اور قبول حق کی راہ ہموار ہو جائے۔ جب تک یہ شوکت اور غلبہ باقی رہے گا، لوگوں کے دل اس سے مرعوب رہیں گے اور دین حق کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ نہ ہو سکیں گے، لہٰذا جہاد جاری رہے گا۔“ (فقہی مقالات، ص3/301)

یہ توجیہ بھی بہرحال روایتی فقہی نقطہ نظر سے بہت حد تک مختلف ہے۔ فقہا نہ تو دعوت اسلام کی راہ میںحائل ایک رکاوٹ کے طور پر شوکت کفر کے ازالے کو جہاد کا باعث قرار دیتے ہیں اور نہ وہ قوت وشوکت کے حامل اور غیر حامل کفار میں کسی فرق کے قائل ہیں، جبکہ مولانا کو اپنی توجیہ کے ایک منطقی نتیجے کے طور پر اس فرق کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ لکھتے ہیں:

”ہاں! اگر اسلام اور مسلمانوں کو ایسی قوت وشوکت حاصل ہو جائے جس کے مقابلے میں کفار کی قوت وشوکت مغلوب ہو یا کم از کم وہ فتنے پیدا نہ کر سکے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تو اس حالت میں غیر مسلم ممالک سے پرامن معاہدوں کے ذریعے مصالحانہ تعلقات قائم رکھنا جہاد کے احکام کے منافی نہیں۔ اسی طرح جب تک کفر کی شوکت توڑنے کے لیے ضروری استطاعت مسلمانوں کو حاصل نہ ہو، اس وقت تک وسائل قوت کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے پر امن معاہدے بھی بلاشبہ جائز ہیں۔ گویا غیر مسلم ملکوں سے معاہدے دو صورتوں میں ہو سکتے ہیں:

(۱) جن ملکوں کی قوت وشوکت سے مسلمانوں کی قوت وشوکت کو کوئی خطرہ باقی نہ رہا ہو، ان سے مصالحانہ اور پرامن معاہدے کیے جا سکتے ہیں جب تک وہ دوبارہ مسلمانوں کی شوکت کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

(۲) مسلمانوں کے پاس جہاد بالسیف کی استطاعت نہ ہو تو استطاعت پیدا ہونے تک معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔“ (فقہی مقالات، 3/306-307)

(v) قتال کی علت دفع محاربہ کو قرار دیا جائے یا دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ازالے کو، عقلی طور پر نفس ’کفر‘ کو اس کی علت ماننے سے گریز کے بعد مختلف غیر مسلم گروہوں میں عملی امتیاز قائم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ دور جدید کے بعض حنفی اہل علم نے یہی نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ کفار کے خلاف قتال صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب وہ عملاً کسی جارحیت کے مرتکب ہوں یا ان کی جانب سے اس کا کوئی حقیقی اور واقعی خطرہ موجود ہو۔ فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے مرتب مولانا مفتی ظفیر الدین لکھتے ہیں:

”کیا ان آیتوں میں کفر وشرک کا یہ مزاج صاف نہیں جھلکتا ہے کہ یہ عہد شکن، دوسرے دین کو برا کہنے والے، جنگ وجدال میں پہل کرنے والے، قتل وخون ریزی کے دل دادہ اور مجسم فتنہ وفساد ہیں، جن کی نگاہوں میں نہ قسم اور عہد وپیمان کی کوئی قیمت ہے، نہ فضائل اخلاق کے لیے کوئی اصول ہے، طاقت پا کر وہ سب کر گزرتے ہیں جس سے انسانیت اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔ ان حالات میں جب ایک طرف سے یہ ساری چیزیں پائی جائیں، کیا یہ مناسب ہوگا کہ دوسری طرف والے ہاتھ پاﺅں توڑ کر بیٹھ رہیں اور فتنہ وفساد کو کچلنے کی جدوجہد نہ کریں؟ ایک سلیم الطبع انسان اس فیصلہ پر مجبور ہوگا کہ جب ایسا وقت آئے تو مقابلہ کرنا اور ظلم وتعدی کا گلا گھونٹنا صرف ایک قوم کے لیے مفید نہیں بلکہ پوری کائنات انسانی پر احسان عظیم ہے۔ مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ سارے کافر اسی مزاج کے ہوتے ہیں۔ یقینا ان کے یہاں بھی کچھ لوگ سمجھ دار، رحم دل اور دور اندیش ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ ایسے ہوں، ان سے رواداری اور احسان کا برتاﺅ کیا جائے۔ ....... معلوم ہوا کہ کافروں کے جو ممالک یا ان کی جو جماعتیں محارب ومخالف کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں، ان سے تعلقات بہتر رکھے جائیں گے اور جو ممالک یا جماعتیں محارب ومخالف ہوں گی، ان میں اسلام اور مسلمانوں کو برداشت کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا، ان سے اجتناب اور بوقت ضرورت مقابلہ کیا جائے گا۔“ (اسلام کا نظام امن، ص 136-137)

”جو لوگ مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوں، یا دین کی تبلیغ میں مزاحم ہوں، یا اس طرح کی کوئی اور چیز ان میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف پائی جائے، ایسے لوگوں کو بخشنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ قوت اگر ہے تو بہرحال ان کا مقابلہ کیا جائے گا، لیکن اگر وہ کسی طرح بھی اسلام اور پیروان اسلام کے لیے نقصان دی نہیں ہے اور یہ مظالم اور مردم آزاری میں مبتلا نہیں تو خواہ مخواہ ان سے جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی خطرہ یا اندیشہ ہے کہ وہ قتال سے باز نہیں آئیں گے اور یہ کہ دیر سویر فتنہ فساد کریں گے تو پھر جہاد کی اجازت ہوگی۔“ (اسلام کا نظام امن، ص 126)

حنفی مکتبہ فکر کے ایک دوسرے جید عالم مولانا شمس الحق افغانی غیر محارب کفار کے ساتھ صلح وامن کی تعلیم دینے والی آیات کو، کلاسیکل فقہی نقطہ نظر کے برعکس، منسوخ قرار نہیں دیتے ، چنانچہ ان سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”خداوند تعالیٰ کا یہ ارشاد: وان جنحوا للسلم فاجنح لہا (انفال) ”اگر کفار کا محارب فریق صلح کے لیے جھک جائے تو تم بھی جھک جاﺅ“ اور یہ کیوں نہ فرمایا گیا کہ ”اسلام یا تلوار“؟ لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ تم کو اللہ ان کفار کے متعلق جو تم سے دین کی وجہ سے نہیں لڑے اور نہ تم کو تمھارے گھروں سے نکالا، اس سے نہیں روکتا کہ ان کفار سے تم احسان کرو اور ان کافروں سے منصفانہ سلوک کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ ان کافروں سے ایسا کیوں نہ کہا گیا کہ اسلام لاﺅ ورنہ تلوار ہے۔ سورہ نساءمیں خدا کا حکم قرآنی ہے: ”فان اعتزلوکم ولم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا۔ ”اگر وہ کفار تم سے کنارہ کریں پھر نہ لڑیں اور وہ تمھارے سامنے صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر حملہ کرنے کی راہ نہیں دی ہے“۔ قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے پر ہے۔“ (مقالات افغانی، 1/78-79)

مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ حنفی روایت میں علت قتال کی تعیین کے ضمن میں بہت بنیادی نوعیت کا ارتقا پایا جاتا ہے اور متقدمین اور متاخرین کے زاویہ نظر میں اس حوالے سے ایک جوہری اختلاف موجود ہے۔ متقدمین قتال کی اصل علت دنیا میں کفر کے وجود کو قرار دیتے اور قتال کا مقصد اہل کفر کو ان کے کفر کی سزا دینا متعین کرتے ہیں، البتہ میدان جنگ میں عورتوں اور بوڑھوں کے قتل کی ممانعت کی توجیہ کرتے ہوئے ضمنی طور پر یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ قتال کا مقصد کفر کی سزا دینا نہیں، بلکہ حرابہ اور فساد کو دفع کرنا ہے۔ کلاسیکی حنفی روایت میں اس نکتے کا اثر صرف اس جزوی اور ضمنی بحث تک محدود ہے، جبکہ مشروعیت جہاد کی اصولی تفہیم نیز احکام وقوانین کے عملی ڈھانچے کا grund norm رہی رہتا ہے جسے سرخسی وغیرہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ”سب سے بڑا ’منکر‘ شرک ہے، کیونکہ یہ جہالت اور عناد اور کسی تاویل کے بغیر حق کا انکار کرنے کی بدترین شکل ہے۔ پس ہر مومن اپنی استطاعت کی حد تک اس سے روکنے کا مکلف ہے۔“

بہرحال دفع فساد کو ضمنی طور پر ہی سہی، مشروعیت قتال کی علت قرار دینے سے احناف کے موقف میں ایک پیچیدگی ضرور در آتی ہے جسے دور کرنے کی کوئی خاص کوشش ہمیں کلاسیکی حنفی روایت میں نہیں ملتی۔ البتہ متاخرین کے ہاں تدریجی طریقے سے یہ رجحان واضح ہوتا چلا جاتا ہے کہ دفع فساد کو مشروعیت قتال کی اصل اور بنیادی علت قرار دیا جائے اور اسی بنیاد پر قتال کو مطلقاً تمام اہل کفر کے خلاف فرض قرار دینے کے بجائے اسے صرف بالفعل معاند اور محارب کفار تک محدود قرار دیا جائے۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم

 

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 19 اپریل 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Apr 20, 2017
3892 View