قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر (1) - عمار خان ناصر

قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر (1)

 سورئہ براءة میں مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم ان کے ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اگر ان احکام کی تعمیم ان کے پورے پس منظر کے ساتھ کرتے ہوئے ان نصوص کو جہاد وقتال کے عمومی حکم کے لیے ماخذ بنایا جائے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا بھر کے کفار کے خلاف امت مسلمہ کے جہاد کی علت بھی ان کا کفر وشرک ہے، چنانچہ حنبلی اور شافعی فقہا صریحاً قتال کا سبب کفار کے کفر کو قرار دیتے اور جہاد کا مقصد انھیں اس کی سزا دینا بیان کرتے ہیں۔ (ابن العربی، احکام القرآن، 1/155) گویا ان کی رائے میں جہاد کا مقصد ایمان واسلام کی اشاعت اور کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور اہل کفر کو ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ تاہم فقہائے احناف کے ہاں اس ضمن میں ایک مختلف رجحان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے ”جھلک دکھائی دینے“ کی تعبیر اس لیے اختیارکی ہے کہ احناف کے موقف میں بعض پیچیدگیاں اور تضادات پائے جاتے ہیں، اس لیے ان کی طرف کسی واضح اور غیر مبہم موقف کی نسبت کرنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ ان پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا جائے۔

جہاں تک قتل مشرکین کے حکم کا تعلق ہے، احناف کا نقطہ نظر اس معاملے میں واضح ہے۔ وہ اس کا باعث مشرکین کے کفر ہی کو قرار دیتے ہیں، تاہم اسے شریعت کا کوئی عمومی حکم نہیں سمجھتے، بلکہ مشرکین عرب کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ عہد رسالت کے تناظر میں اہل کتاب کے خلاف قتال کر کے ان پر جزیہ عائد کرنے کے حکم کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی ان کے کفر کو قرار دیتے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس قتال کا مقصد منکرین حق کو ان کے کفر کی سزا دینا تھا۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں: ”ابتدا میں مقصود یہ تھا کہ دین کی دعوت دلائل وبراہین کی روشنی میں دی جائے اور لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہونے والے معجزات پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ اس طرح کے نشانات آپ کے سوا کسی پیغمبر کو عطا نہیں کیے گئے۔ ..... پھر ہجرت مدینہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو قتال کا حکم دیا، کیونکہ جب آپ کو ملنے والے نشانات ومعجزات ہر شہری اور بدوی اور دور ونزدیک کے ہر شخص پر براہ راست مشاہدہ یا ناقابل تردید مستفیض اطلاعات کے ذریعے سے ثابت ہو گئے تو اب دلیل وبرہان ان پر بالکل واضح ہو گئی اور اس پہلو سے ان کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا۔“ (احکام القرآن، 1/60)

تاہم شریعت کے ایک عمومی حکم کے طور پر جہاد وقتال کی علت کی تعیین کے حوالے سے احناف کے ہاں بیک وقت دو مختلف بلکہ مخالف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ قرار دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی نیابت میں آپ کی امت بھی اس بات کی مکلف ہے کہ ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کے اصول پر دنیا میں حق کی اشاعت اور باطل کی سرکوبی کے لیے جدوجہد کرے۔ سرخسی لکھتے ہیں:

”کفار ومشرکین کو دین حق کی دعوت دینا اور ان میں سے جو اسے قبول کرنے سے انکار کریں، ان کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے، اس لیے کہ آسمانی کتابوں میں اس امت کی خصوصیت ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ بیان ہوئی ہے اور اسی وجہ سے یہ امت، تمام امتوں سے بہتر قرار پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’کنتم خیر امة اخرجت للناس‘ (تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو) ۔ ’معروف‘ کا سب سے بنیادی حکم اللہ پر ایمان ہے، چنانچہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا پر ایمان کی دعوت دینے والا ہو۔ اسی طرح سب سے بڑا ’منکر‘ شرک ہے، کیونکہ یہ جہالت اور عناد اور کسی تاویل کے بغیر حق کا انکار کرنے کی بدترین شکل ہے۔ پس ہر مومن اپنی استطاعت کی حد تک اس سے روکنے کا مکلف ہے۔“ (المبسوط 10/2)

علاو الدین الکاسانی لکھتے ہیں:

”اگرچہ انسانوں پر پیغمبروں کی دعوت پہنچنے سے پہلے محض عقل کی رو سے ایمان لانا واجب تھا اور ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ قتل کے مستحق تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی دعوت کے لوگوں تک پہنچنے سے پہلے لوگوں پر فضل واحسان کرتے ہوئے ان کے ساتھ قتال کو حرام قرار دیا، تاکہ ان کے پاس انکار کے لیے بالکلیہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ قتال کو محض برائے قتال فرض نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد اسلام کی طرف دعوت دینا ہے جس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک بزور بازو یعنی قتال، اور دوسری زبانی دعوت وتبلیغ۔“ (بدائع الصنائع 7/100)

اسی تناظر میں وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ جہاد سے کفر اور اہل کفر کی تحقیر وتذلیل مقصود ہے اور ’جزیہ‘ اسی تحقیر وتذلیل، زیردستی اور محکومی کے لیے ایک ظاہری اور محسوس علامت (Visible Symbol) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے جہاد کے نتیجے میں مفتوح ہونے والے اہل کفر پر اس مقصد کے تحت عائد کیا جاتا ہے کہ اہل اسلام کے مقابلے میں ان کی محکومانہ حیثیت واضح رہے۔ اس طرح انھیں ایک طرف اپنے کفر پر قائم رہنے کی سزا دی جاتی ہے اور دوسری طرف اس سے یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ ذلت اور عار کا یہ احساس انھیں بالآخر قبول اسلام پر آمادہ کر دے گا۔

ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

”کفار سے جزیہ لینے کا مطلب ان کے کفر پر رضامندی یا ان کے اپنے شرک پر قائم رہنے کو جائز قرار دینا نہیں ہے۔ جزیہ تو ان کے لیے ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ عقلی طور پر بھی جزیہ لے کر ان کو مہلت دینا جائز ہے کیونکہ اس طریقے سے اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کیا جاتا کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے جس سزا کے مستحق تھے، اس کا کچھ حصہ اس عار اور ذلت کی صورت میں یہیں ان پر نافذ کر دیا جاتا ہے جو جزیہ کی ادائیگی سے انھیں لاحق ہوتا ہے۔“ (احکام القرآن، 3/103)

سرخسی نے اگرچہ یہ وضاحت کی ہے کہ کفار سے قتال کا مقصد اصلاً ان سے مال وصول کرنا نہیں، بلکہ انھیں ’باحسن الوجوہ‘ دین کی طرف دعوت دینا ہے، کیونکہ عقدذمہ کی پابندی قبول کر کے وہ قتال سے دست کش ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد مسلمانوں کے مابین مقیم ہونے کی وجہ سے انھیں اسلام کے محاسن سے واقف ہونے اور دعوت اسلام سے روشناس ہونے کا موقع ملے گا جس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے کفر پر مصر رہیں، اس وقت تک اہل ایمان کی سربلندی اور اہل کفر کی ذلت کو نمایاں کرنے کے لیے ان پر جزیہ عائد رہے۔ لکھتے ہیں:

”کافر اگر دار الاسلام میں مقیم ہے تو جب تک وہ اپنے کفر پر اصرار کرتا رہے، اسے سزا اور ذلت کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس سے جزیہ وصول کیا جائے تاکہ کافر کی ذلت اور اہل ایمان کی عزت نمایاں نظر آئے۔“ (المبسوط، 10/77-78)

سرخسی نے اہل حرب کے استرقاق کو بھی ان کے کفر کی عقوبت قرار دیا ہے کہ جب انھوںنے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا تو اللہ نے انھیں اپنے بندوں کا غلام بنا دیا۔ (المبسوط 8/491، 12/271)

یہ ایک نہایت واضح اور غیر مبہم رجحان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا اور مذکورہ پہلے رجحان کی کم وبیش نفی کرتا ہوا ایک دوسرا رجحان احناف کے ہاں اس ضمنی بحث میں نظر آتا ہے کہ آیا جنگ کے دوران میں کفار کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو، جو عملاً جنگ میںحصہ نہیں لے سکتے، قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ شافعی اور حنبلی فقہا کی راے یہ ہے کہ ایسا کرنا درست ہے، کیونکہ قتال کی وجہ ’کفر‘ ہے جو مذکورہ افراد میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن فقہاے احناف قتال کی علت کفار کے ’کفر‘ کو قرار دینے سے اختلاف کرتے اور یہ قرار دیتے ہیں کہ قتال کا مقصد کفار کو ان کے ’کفر‘ کی سزا دینا نہیں، بلکہ ان کے فتنہ وفساد اور محاربہ سے تحفظ حاصل کرنا ہے، اس لیے جو افراد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے یا کسی معذوری کی بنا پر جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے، انھیں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں فقہاے احناف نے اپنے استدلال کو واضح کرتے ہوئے نفس قتال کی مشروعیت کا نکتہ چھیڑ کر اپنے موقف میں ایک غیر ضروری الجھاو پیدا کر لیتے ہیں۔ اگر وہ قتال کی علت کے بجائے یہاں محض اس کی غایت کے حوالے سے اپنا استدلال پیش کرتے اور یہ کہتے کہ اصل مقصود کفار کو قتل کرنا اور کفر کو ختم کر دینا نہیں بلکہ کفر اور اہل کفر کو مغلوب کرنا ہے، اس لیے قتل صرف ان لوگوں کو کیا جائے گا جو بالفعل جنگ میں شریک ہوں تو یہ استدلال ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا، تاہم وہ یہاں قتال کی علت کی بحث بھی چھیڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ قتال کی وجہ اہل کفر کا محاربہ ہے، اس لیے قتل انھی لوگوں کو کیا جائے گا جو حرابہ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بدیہی طور پر اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ کفار کے خلاف جنگ کا آغاز اس وقت کیا جائے گا جب وہ محاربہ کی ابتدا کریں گے، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ جب مسلمان اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے نکلیں گے تو کفار لازماً اس کی راہ میں مزاحم ہوں گے اور ان کے اس ’محاربہ‘ کو ختم کرنے کے لیے انھیں قتل کرنا پڑے گا، تاہم استدلال کا یہ مقدمہ ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں عقلی طور پر کفار کے خلاف قتال کی ابتدا کو بھی ان کی طرف سے محاربہ ہی پر منحصر مانناپڑتا ہے۔ اس عقلی نتیجے کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ احناف اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک اہم اصولی نکتہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیا کی تعلیمات کی رو سے یہ دنیا دار الامتحان ہے جبکہ جزا وسزا کا معاملہ اصلاً آخرت کے دن پر موقوف رکھا گیا ہے، چنانچہ کفر وایمان کا معاملہ اصلاً خدا اور بندے کے مابین ہے اور اس کا فیصلہ دار الجزاءمیں خود کائنات کا پروردگار ہی کرے گا۔ دنیا میں قصاص کے طور پر یا دفع فساد کے لیے تو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کفر وشرک کی پاداش میں کسی کو قتل جیسی انتہائی سزا دے دینا دار الابتلاءاور دار الجزاءکی مذکورہ تقسیم کے منافی ہے۔

[ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ زیر بحث سوال کے حوالے سے جو کنفیوژن یا تضاد سرخسی اور بعد کے حنفی فقہا کے ہاں نظر آتا ہے، جصاص کے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔ وہ قتال کی علت ’کفر‘ کو قرار دینے کے معاملے میں یکسو ہیں اور شریعت کے ایک عمومی حکم کے طور پر قتال پر بحث کرتے ہوئے ان کے ہاں ’دفع حرابہ‘ کے اصول کا ذکر نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اہل ذمہ کے عورتوں، بچوں اور رہبان وغیرہ کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی وجہ بعد کے حنفی فقہا کی طرح یہ نہیں بیان کرتے کہ قتال اور اس کے بعد جزیہ عائد کرنے کا مقصد دفع محاربہ ہے اور مذکورہ افراد حرابہ کے اہل نہیں۔ اس کے بجاے انھوں نے آیت جزیہ کے فحواے کلام سے یہ استنباط کیا ہے کہ اداے جزیہ کو چونکہ قتال کی غایت قرار دیا گیا ہے، اس لیے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جزیہ کا نفاذ اہل قتال پر ہی ہوگا۔ (احکام القرآن، ۶/۰۹۴) ]

سرخسی لکھتے ہیں:

”کفر پر قائم رہنا یا اس کی طرف پلٹ جانا اگرچہ سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے، لیکن وہ انسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے اور ایسے گناہ کی سزا روز قیامت کے لیے موخر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں جس بات کی اجازت دی گئی ہے، وہ کچھ تدبیری سزائیں ہیں جن کا تعلق انسانوں کے فائدے سے ہے، مثلاً جانوں کی حفاظت کے لیے قصاص، نسب اور فراش کے تحفظ کے لیے زنا کی سزا، مال کی حرمت قائم رکھنے کے لیے چوری کی سزا، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے حد قذف اور عقل کی حفاظت کے لیے شراب کی سزا۔“ (سرخسی، المبسوط، 10/110)

ابن نجیم لکھتے ہیں:

”اصل تو یہ ہے کہ (کسی بھی عمل کی) جزا وسزا کو آخرت پر ہی موقوف رکھا جائے، کیونکہ دنیا میں جزا وسزا کو جاری کرنا آزمائش کے اصول میں خلل ڈالتاہے۔ تاہم اس اصول کو چھوڑ کر دنیا میں جزا وسزا کا طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ ایک فوری شر یعنی حرابہ کو دورکیا جا سکے۔“ (البحر الرائق 5/139)

ابن الہمام فرماتے ہیں:

”جزا وسزا میں اصل یہ ہے کہ اسے دار الجزاءیعنی آخرت کے قائم ہونے تک موخر رکھا جائے، کیونکہ آخرت ان اعمال کی جزا کے لیے قائم کی جائے گی جو اس دنیا میں کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزائ۔ چنانچہ دنیا میں جو بھی سزا مشروع کی گئی ہے، وہ درحقیقت اس دنیا میں ہی مقصود چند مصالح کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ قصاص کو جانوں کی، حد قذف کو آبرو کی، حد شرب کو عقل کی ، حد زنا کو نسب کی اور حد سرقہ کو مال کی حفاظت کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔“ (فتح القدیر 6/72)

حنفی فقہا قتال سے متعلق قرآن مجید کے نصوص کی توجیہ بھی اسی اصول کی روشنی میں کرتے ہیں۔ مثلاً سرخسی لکھتے ہیں کہ کفار کو قتل کرنے کی اصل علت، مذکورہ اصول کی روشنی میں، ان کا کفر نہیں بلکہ فتنہ وفساد ہے، البتہ اس فتنہ وفساد کا اصل باعث بھی چونکہ ان کا کفر ہے، اس لیے نصوص میں بعض جگہ ان کے قتل کی وجہ کفر کو اور بعض جگہ فساد کو قرار دیا گیا ہے:

”اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر اصل علت کے بیان پر اکتفا کی ہے، جیسا کہ فرمایا کہ اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، اور بعض جگہ اس علت (یعنی قتال) کے سبب یعنی شرک کا ذکر کیا ہے جو کفار کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔“ (سرخسی، المبسوط، 10/110)

کفار کے فتنہ وفساد ہی کو قتال کی اصل وجہ قرار دینے کا یہ موقف بعد کے حنفی فقہا کے ہاں زیادہ صراحت سے ملتا ہے۔ ابن الہمام ’فتح القدیر‘ میں لکھتے ہیں:

”کفار کے ساتھ ہمیں قتال کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ ان کی طرف سے کی جانے والی لڑائی کا بدلہ اور اس کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، یعنی وہ مسلمانوں کو زدوکوب یا قتل کر کے انھیں بالجبر ان کے دین سے برگشتہ نہ کر سکیں۔ جیسا کہ کتب سیرت میں معروف ہے، اہل مکہ اسلام لانے والوں کو اذیت دیتے تھے تاکہ وہ اپنے دین سے واپس پلٹ جائیں، اس لیے اللہ نے حکم دیا کہ ان کی قوت اور طاقت کو توڑ دو تاکہ وہ کسی مسلمان کو اذیت دے کر اس کے دین سے ہٹا نہ سکیں۔ “ (فتح القدیر، 5/437-438)

ابن الہمام نے یہی بات جزیہ کی نوعیت واضح کرتے ہوئے بیان کی ہے:

”کفر کی وجہ سے جس شر کا اندیشہ ہے، وہ یہ ہے کہ کفار (مسلمانوں کے ساتھ)جنگ کریں گے اور انھیں دین حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ جزیہ کافر کے اس کفر پر دنیوی سزا کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے (مسلمانوں کے خلاف) برسر جنگ ہونے کا محرک ہے اور کافر سے جزیہ لینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی قوت کو کمزور کر کے اس کی طرف سے محاربہ کو روکا جا سکے اور چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے وہ (جنگی امور میں) مسلمانوں کی مدد نہیں کرتا (جبکہ اس کا دفاع مسلمانوں کی ذمہ داری ہے)، اس لیے (جزیہ کی صورت میں) اس سے اس کا عوض وصول کیا جائے۔“ (فتح القدیر 6/54)

صاحب ہدایہ عقد ذمہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اس کا مقصد حرابہ کے شر کو دور کرنا ہے۔“ (2/163)

حنبلی اصولی اور فقیہ ابن عقیل نے بھی اس مسئلے میں احناف کے موقف کو قتل اور قتال کے باب میں شرعی اصولوں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ قرار دیا ہے اور اس حوالے سے بعض حنبلی علما کا یہ استدلال نقل کیا ہے کہ کفر دراصل حق اللہ ہے جس کی سزا دار التکلیف میں نہیں دی جا سکتی۔ (کتاب الفنون، 37، 391)

احناف کی اس تعلیل پر بعض اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ احناف کی یہ تعلیل بدیہی طور پر آیت جزیہ میں بیان ہونے والی تعلیل سے مختلف ہے، کیونکہ آیت میں صراحت کے ساتھ قتال کا باعث اہل کتاب کے کفر کو اور قتال کا مقصد انھیں محکوم بنا کر ذلت اور رسوائی کی صورت میں انھیں سزا دینے کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل مشرکین کے حکم کی طرح احناف نے آیت جزیہ کے حکم کی تعمیم بھی، فی الواقع، نہیں کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے حکم کو تو انھوں نے اس کی اساس اور نتیجے، دونوں کے لحاظ سے مشرکین عرب کے ساتھ خاص مان لیا ہے، جبکہ دوسرے حکم کو نتیجے کے لحاظ سے عام مانتے ہوئے اسے اس کی اصل علت، یعنی کفر سے مجرد کر دیا ہے جس پر وہ نص قرآنی کی رو سے مبنی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے اصل حکم کی تعمیم نہیں ہوئی، کیونکہ وہ صرف اس صورت میں متحقق ہوگی جب قرآن کے بیان کے مطابق قتال کی علت یہ مانی جائے کہ کفار نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ یہ احناف کے نقطہ نظر کا ایک لازمی تقاضا ہے، تاہم نہ تو اصولی طور پر اس کی کوئی باقاعدہ تصریح ان کے ہاں ملتی ہے اور اس کے واقعی مضمرات اور اس سے نکلنے والے بعض لازمی نتائج احناف کے ہاں آغاز ہی میں واضح ہو سکے ہیں۔

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قتال کی علت فتنہ وفساد ہے تو ایسے کفار کے خلاف قتال کا اقدام کرنا کیونکر جائز ہے جو اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اور کفار کی طرف سے کسی جارحیت کی ابتدا کے بغیر ان کے خلاف قتال کرنے کو نہ صرف مشروع بلکہ فرض کفایہ کیونکر قرار دیا گیا ہے؟ مزید یہ کہ کفار کے فساد سے بچنے کے لیے ان کو مسلمانوں کا محکوم بنانا کیوں ضروری ہے اور اگر ان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا اطمینان ہو تو ان کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے صلح کی گنجایش کیوں نہیں؟

تیسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر کفر کی سزا کا معاملہ آخرت پر موخررکھا گیا ہے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی سزا اس دنیا میں دینے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے تو قتال کے ذریعے سے اہل کفر کو مغلوب کر کے ان پر ’جزیہ‘ عائد کرنا، جو احناف کی تصریح کے مطابق ان کے کفر پر عقوبت اور سزا کی حیثیت رکھتا ہے، کس اصول پر روا ہے؟ جہاں تک احناف کا جزیہ کو ’عقوبت‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو ان کی یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید نے ’جزیہ‘ لینے کا حکم جس سیاق میں دیا ہے، اس سے صاف واضح ہے کہ اس کی اصل نوعیت ذلت ورسوائی اور محکومی کی ایک علامت کی ہے جسے ایمان نہ لانے کی سزا کے طور پر اہل کتاب پر نافذ کیا گیا۔ کلاسیکل فقہی نقطہ نظر میں ’جزیہ‘ کی حکمت ومعنویت اسی تصور کے تحت واضح کی گئی ہے اور تمام فقہا اس معاملے میں یک زبان ہیں کہ اہل ذمہ پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کا مقصد ان کو ان کو ذلت وحقارت کا احساس دلانا اور اس طرح انھیں ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ اب اس نکتے کی موجودگی میں اگر احناف قتال کی مشروعیت کا سبب کفر کے بجاے فتنہ وفساد کو قرار دیتے ہیں تو ان کے موقف کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے:

”انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آزادی کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہیں، اپنائیں اور جس مذہب کو چاہیں، اختیار کریں۔ ہم ان کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے یا اسلام قبول کرنے کے معاملے میں ان پر جبر واکراہ کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے اور اس معاملے میں روز قیامت کو وہی ان کا محاسبہ کرے گا۔ البتہ دنیا میں ملنے والی اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اگر بنی نوع انسان اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے پیروکار بنیں گے تو انھیں اس کی سزا دینا ہمارا فرض ہے، چنانچہ ہم اس اعلان کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو جائیں گے کہ ’یا تو اسلام قبول کر لو اور یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دستبردار ہو کر ذلت اور پستی کے ساتھ ہماری محکومی قبول کر لو“ ۔

یہ سب سوالات اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں، تاہم دور متوسط کے حنفی فقہا کے ہاں یہ بحث چونکہ ایک ضمنی مسئلے یعنی اہل کفر کے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے جواز یا عدم جواز کے تحت پیدا ہوئی ہے اور اسی دائرے تک محدود رہی ہے، اس لیے وہ اس کے اصولی مضمرات اور اس سے اپنے موقف میں در آنے والے داخلی تضادات سے کوئی تعرض نہیں کرتے اور جہاد وقتال کا مقصد دعوت اسلام اور اعلاءکلمة اللہ کے ساتھ ساتھ دفع حرابہ کو قرار دینے، نیز کفر کی جزا کو اصلاً آخرت پر موقوف ماننے اور اس کے ساتھ ساتھ جزیہ کو اہل کفر کے لیے عقوبت قرار دینے کے دونوں مواقف کو یکساں اطمینان کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ البتہ متاخرین کے ہاں ان الجھنوں کا احساس زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے اور متعدد حنفی اہل علم نے مذکورہ سوالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کی ترمیم واصلاح شدہ تعبیرات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن کی چند آرا کا تذکرہ یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا۔ (جاری)

 

 

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 14 اپریل 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Apr 14, 2017
4391 View