حدود و تعزیرات - جاوید احمد غامدی

حدود و تعزیرات

 اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ میں نے اِس دین کو جس طرح سمجھا ہے، اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ یہ اِسی کتاب کے ایک باب کا خلاصہ ہے جس میں نفس مضمون اُس کے علمی مباحث اور اُن کے استدلالات سے الگ کر کے سادہ طریقے پر پیش کر دیا گیا ہے۔جاوید 

ارادہ و اختیار کی نعمت جہاں اِس دنیا میں انسان کے لیے سب سے بڑا شرف ہے، وہاں اِس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اِس کے سوء استعمال سے بارہا زمین پر فساد پیدا ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں اِس فساد کا سب سے پہلا ظہور ابوالبشر آدم کے بیٹے قابیل کے ہاتھ سے ہوا، لہٰذا یہ ضرورت اِس کے ساتھ ہی سامنے آگئی کہ انسان کو خود انسان کے اِس شر و فساد سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں جو حقائق الہام کیے ہیں، اُن کی روشنی میں یہ بات تو بالکل واضح تھی کہ اِس کا واحد راستہ جرم سے پہلے ماحول کی درستی، تعلیم و تربیت، تبلیغ و تلقین اور جرم کے بعد قرار واقعی تادیب و تنبیہ ہے، لیکن یہ تادیب و تنبیہ کس جرم میں کتنی اور کس طریقے سے ہونی چاہیے؟ اِس کی تعیین کے لیے کوئی بنیاد چونکہ عقل انسانی کو میسر نہیں ہے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی وساطت سے انسان کو جو شریعت دی ، اُس میں زندگی کے دوسرے معاملات کے ساتھ جان، مال، آبرو اور نظم اجتماعی سے متعلق تمام بڑے جرائم کی سزائیں خود مقرر کر دی ہیں۔ یہ جرائم درج ذیل ہیں:
۱ ۔ محاربہ اور فساد فی الارض
۲ ۔قتل و جراحت 
۳ ۔زنا 
۴ ۔ قذف
۵ ۔ چوری 
شریعت میں جن جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ یہی ہیں ۔اِن کی ادنیٰ صورتوں اور اِن کے علاوہ باقی سب جرائم کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ارباب حل و عقد پر چھوڑ دیا ہے ۔ باہمی مشورے سے وہ اِس معاملے میں جو قانون چاہیں، بنا سکتے ہیں ۔تاہم اتنی بات اُس میں بھی طے ہے کہ موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جا سکتی ۔ اِسی طرح یہ بات بھی طے ہے کہ اِن جرائم کی سزا کا حکم مسلمانوں کو اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ پورے مسلمان معاشرے کو دیا گیا ہے اور اِس لحاظ سے اُن کے نظم اجتماعی سے متعلق ہے۔
ہم یہاں اِن سزاؤں کی وضاحت کریں گے:

محاربہ اور فساد فی الارض

اللہ کا رسول دنیا میں موجود ہو اور لوگ اُس کی حکومت میں اُس کے کسی حکم یا فیصلے کے خلاف سرکشی اختیار کرلیں تو یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔ اِسی طرح فساد فی الارض کی تعبیر ہے۔ یہ اُس صورت حال کے لیے آتی ہے، جب کوئی شخص یا گروہ قانون سے بغاوت کرکے لوگوں کی جان و مال ، آبرو اور عقل و راے کے خلاف برسر جنگ ہو جائے۔ چنانچہ قتل دہشت گردی، زنا زنا بالجبر اور چوری ڈاکا بن جائے یا لوگ بدکاری کو پیشہ بنا لیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں یا نظم ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا اغوا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کر دیں تو وہ فساد فی الارض کے مجرم ہوں گے۔ اُن کی سرکوبی کے لیے یہ چار سزائیں مقرر کی گئی ہیں:
۱۔ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے۔
۲۔ عبرت ناک طریقے سے سولی دی جائے۔
۳۔ ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں۔
۴۔ علاقہ بدر کر دیا جائے۔
اِن سزاؤں سے متعلق چند باتیں حدودوشرائط کے طور پر بیان ہوئی ہیں:
ایک یہ کہ قرآن نے حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت، مجرم کے حالات اور جرم کے موجود اور متوقع اثرات کے لحاظ سے اِن میں سے جو سزا مناسب سمجھے، اِس طرح کے مجرموں کو دے سکتی ہے۔ عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے اور سولی دینے جیسی سزاؤں کے ساتھ اِس میں علاقہ بدری کی سزا اِس لیے رکھی گئی ہے کہ سزا میں انتہائی سختی کے ساتھ حالات کا تقاضا ہو تو مجرم کے ساتھ نرمی کے لیے بھی گنجایش باقی رکھی جائے۔
دوسرے یہ کہ جرم اگر جتھا بنا کر ہوا ہے تو اُس کی سزا بھی انفرادی حیثیت سے نہیں، بلکہ اُس جتھے کو جتھے ہی کی حیثیت سے دی جائے گی۔ چنانچہ مجرموں کا کوئی گروہ اگر فساد فی الارض کے طریقے پر قتل ، اغوا، زنا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے جرائم کا مرتکب ہوا ہے تو اِس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ متعین طور پر جرم کا ارتکاب کن ہاتھوں سے ہوا اور کن سے نہیں ہوا ہے، بلکہ جتھے کا ہر فرد اِس ذمہ داری میں شریک سمجھا جائے گا اور اُس کے ساتھ معاملہ بھی لازماً اِسی حیثیت سے ہو گا۔
تیسرے یہ کہ اِس طرح کے مجرموں کو سزا دیتے وقت کسی شخص کے دل میں ہم دردی کے کوئی جذبات پیدا نہیں ہونے چاہییں۔ وہ پروردگار جو اُن کا خالق ہے، اِن جرائم کے بعد اُس کا فیصلہ یہی ہے کہ اُنھیں اِس دنیا میں بالکل رسوا کر دیا جائے۔ اِن سزاؤں کا مقصد یہی ہے اور اِسے ہر حال میں پیش نظر رہنا چاہیے۔
چوتھے یہ کہ اِس طرح کے مجرم اگر حکومت کے کسی اقدام سے پہلے خود آگے بڑھ کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیں تو اُن سے پھر عام مجرموں ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔ اِس صورت میں اُنھیں محاربہ یا فساد فی الارض کا مجرم قرار نہیں دیا جائے گا۔

قتل و جراحت

اِس کا قصاص ایک فرض ہے جو مسلمانوں کے نظم اجتماعی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کیا گیا ہے۔ معاشرے کے لیے اِسی میں زندگی ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قانون ہے جس سے انحراف صرف ظالم ہی کرتے ہیں، لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اُس کے علاقے میں اگر کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اُس کے قاتلوں کا سراغ لگائے، اُنھیں گرفتار کرے اور قانون کے مطابق اُن سے قصاص لے۔
قصاص کے معاملے میں پوری مساوات ملحوظ رہنی چاہیے، لہٰذا اگر کوئی غلام قاتل ہے تو اُس کے بدلے میں وہی غلام اور آزاد قاتل ہے تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے۔ کسی شخص کا معاشرتی اور سماجی مرتبہ اِس معاملے میں ہرگز کسی ترجیح کا باعث نہیں بننا چاہیے۔
خود مجروح یا مقتول کے اولیا اگر جان کے بدلے میں جان، عضو کے بدلے میں عضو اور زخم کے بدلے میں زخم کا مطالبہ نہ کریں اور مجرم کے ساتھ نرمی برتنے کے لیے تیار ہو جائیں تو عدالت جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے پیش نظر اُسے کوئی کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ یہ خدا کی طرف سے لوگوں کے لیے ایک رعایت اور اُن پر اُس کی عنایت ہے۔ چنانچہ اِس جرم کے متاثرین اگر اِسے اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں اُن کی یہ معافی اُن کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔
مجروح یا مقتول کے اولیا کو اِس صورت میں مجرم کی طرف سے دیت دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ معاشرے کے دستور کے مطابق اورنہایت حسن و خوبی سے ادا کی جائے۔
قتل اگر غلطی سے ہوا ہے اور مقتول اسلامی ریاست کا کوئی مسلمان شہری ہے یا اسلامی ریاست کا شہری تو نہیں ہے، مگر کسی معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہے تو قاتل پر لازم ہے کہ اُسے اگر معاف نہیں کر دیا گیا تو معاشرے کے دستور کے مطابق دیت ادا کرے اور اِس جرم کے کفارے میں اور اپنے پروردگار کے حضورمیں توبہ کے لیے، اُس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی آزاد کرے۔ لیکن مقتول اگر دشمن قوم کا کوئی مسلمان ہے تو قاتل پر دیت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اِس صورت میں یہی کافی ہے کہ اپنے اِس گناہ کو دھونے کے لیے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے۔ اِن دونوں صورتوں میں اگر غلام میسر نہ ہو تو اُس کے بدلے میں اُسے مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے۔

زنا

زانی مرد ہو یا عورت، اُس کا جرم اگر ثابت ہو جائے تو اِس کی پاداش میں اُسے سو کوڑے مارے جائیں گے۔
مجرم کو یہ سزا مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں دی جائے گی تاکہ اُس کے لیے یہ فضیحت اور دوسروں کے لیے باعث نصیحت ہو۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اہل ایمان کی کسی حکومت یا عدالت کو اِس معاملے میں ہرگز کوئی نرمی روا نہیں رکھنی چاہیے۔
اِس سزا کے بعد کسی پاک دامن مرد یا عورت کو اِس زانی یا زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے اِسے حرام ٹھیرایا ہے۔
یہ اِس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف اُنھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری صورت میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔چنانچہ سزا کے تحمل سے معذور، مجبور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اِس سے یقیناًمستثنیٰ ہیں۔

قذف

اِس کی دو صورتیں ہیں:
ایک یہ کہ کوئی شخص کسی شریف اور پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے۔
دوسری یہ کہ اِس طرح کا معاملہ کسی میاں اور بیوی کے درمیان پیش آجائے۔
پہلی صورت میں اُس شخص کو ہر حال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ وہ اِس سے قاصر رہے تو اُسے قذف کا مجرم قرار دیا جائے گا جس کی سزا یہ ہے کہ اُسے اسی کوڑے مارے جائیں گے اور اُس کی گواہی پھر کسی معاملے میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس جرم کے مرتکبین اللہ تعالیٰ کے حضور میں فاسق قرار پائیں گے، الاّ یہ کہ اپنے جرم سے توبہ کریں اور آیندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لیں۔
دوسری صورت میں شہادت نہ ہو تو معاملے کا فیصلہ قسم سے ہو گا۔ اِس کی صورت یہ ہو گی کہ میاں چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ وہ جو الزام لگا رہا ہے، اُس میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ وہ اگر اِس الزام میں جھوٹا ہے تو اُس پر خدا کی لعنت ہو۔ اِس کے جواب میں عورت اگر اِس قسم کی کوئی مدافعت نہ کرے تو اُس پر زنا کی وہی سزا جاری ہو جائے گی جو شریعت میں اُس کے لیے مقرر ہے۔ لیکن وہ اگر اِس الزام کو تسلیم نہیں کرتی تو صرف اُس صورت میں سزا سے بری قرار پائے گی جب چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ہو، اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔
یہی معاملہ اُس وقت ہو گا جب بیوی نے میاں پر الزام لگایا ہو۔

چوری

اِس کی سزاہاتھ کاٹنا ہے۔ چور مرد ہو یا عورت، اُس کا جرم اگر ثابت ہو جائے تو اِس کی پاداش میں اُس کا دایاں ہاتھ پونچے سے کاٹ دیا جائے گا۔ زنا کی طرح یہ بھی اِس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف اُسی صورت میں دی جائے گی جب مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ رہا ہو۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2008
مصنف : جاوید احمد غامدی