رسولوں کا اتمام حجت - جاوید احمد غامدی

رسولوں کا اتمام حجت

 یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ جزا و سزا ہے جس کے لیے قیامت کا دن مقرر کیا گیا ہے۔ اِس کو اُسی معیار پر ثابت کر دینے کے لیے جس معیار پر سائنسی حقائق معمل (laboratory) کے تجربات سے ثابت کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے بارہا ایک قیامت صغریٰ اِسی دنیا میں برپا کر کے دکھائی ہے۔ اِس کے لیے جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کی طرف چاہتا، اپنا رسول بھیجتا جو اُس پر اتمام حجت کرتا، پھر پورے انصاف کے ساتھ اُس قوم کا فیصلہ اِسی دنیا میں کر دیا جاتا تھا۔ اِس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ ماننے والے نجات پاتے اور منکرین پر خدا کا عذاب آ جاتا جس کے نتیجے میں وہ زمین سے مٹا دیے جاتے یا ہمیشہ کی ذلت کے ساتھ محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے تھے۔ قوم نوح، عاد و ثمود، قوم لوط اور اِس طرح کی بعض دوسری قوموں کے جو واقعات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ اِسی عذاب کی سرگذشتیں ہیں۔
قرآن کا ارشاد ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بغیر یہ عذاب کسی قوم پر کبھی نہیں آیا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً‘* (ہم کبھی سزا نہیں دیتے، جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں)۔ اِس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ اتمام حجت کس طرح ہوتا ہے؟ قرآن کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:

اولاً، خدا کا رسول دنیا میں موجود ہو اور وہ کسی قوم کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے۔
ثانیاً، قوم کو اتنی مہلت دی جائے کہ اُس کے لوگ اگر چاہیں تو رسول کو آ کر دیکھیں اور اُس کی زبان سے براہ راست خدا کاپیغام سنیں، اِس لیے کہ روے و آواز پیمبر معجزہ ست۔
ثالثاً، رسول اور اُس کے ساتھیوں کے ساتھ خدا کی معیت کا ظہور اُن کی آنکھوں کے سامنے اور اِس شان کے ساتھ ہو جائے کہ اُس کے بارے میں کوئی دوسری راے قائم کرنا ممکن نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِس کے بعد کسی کے لیے کوئی عذر خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لیے باقی نہیں رہ جاتا: ’لِءَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُلِ‘۔** چنانچہ ماننے والوں کے لیے ممکن ہو تو اُنھیں، ورنہ فرشتوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ عذاب کا تازیانہ منکرین کی پیٹھ پر برسا دیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی خدا کے رسول تھے اور خدا کی زمین پر یہ قیامت صغریٰ آخری مرتبہ برپا کر دینے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ لہٰذا آپ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد آپ کے ساتھیوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ آپ کے منکرین پر عذاب کا فیصلہ نافذ کریں۔
چنانچہ مشرکین عرب کے بارے میں فرمایا:

فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(التوبہ ۹: ۵)
’’پھر جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور (اِس مقصد کے لیے) اِن کو پکڑو، اِن کو گھیرو اور ہر گھات کی جگہ اِن کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناًاللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اِسی طرح عرب کے اہل کتاب کے بارے میں فرمایا:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ. (التوبہ ۹: ۲۹)
’’اُن اہل کتاب سے بھی لڑو جو نہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اُس کے رسول کے حرام ٹھیرائے ہوئے کو حرام ٹھیراتے ہیں اور نہ دین حق کو اپنا دین بناتے ہیں، (اُن سے لڑو)، یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور محکوم بن کر رہیں۔‘‘

اِن آیتوں کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ اِن کا حکم سرزمین عرب کے مشرکین اور اہل کتاب کے لیے خاص تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے جو لوگ آپ کے جانشین ہوئے، اُنھوں نے جزیرہ نماے عرب سے باہر کی بعض قوموں کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جو اِن آیتوں میں عرب کے اہل کتاب کے لیے مذکور ہے۔ یہ، ظاہر ہے کہ ایک اجتہادی فیصلہ تھا جسے غلط بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور صحیح بھی۔ ہمارے نزدیک صحابۂ کرام کا یہ فیصلہ بالکل صحیح تھا۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ اوپر جو چیزیں رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے لیے ضروری قرار دی گئی ہیں، وہ سب اِن قوموں کے معاملے میں بھی ہر لحاظ سے پوری ہو گئی تھیں۔ اِس کی تفصیل یہ ہے:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِسی دنیا میں تھے، جب آپ نے اپنے ایلچی بھیج کر اِن قوموں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دی۔ زمانۂ رسالت کی تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ آپ نے اِن کے سربراہوں کو خط لکھ کر متنبہ فرمایا کہ آپ خدا کے رسول ہیں اور آپ کی طرف سے دعوت کے بعد اب اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں سلامتی کی یہی راہ باقی رہ گئی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ یہ خط نجاشی شاہ حبش، مقوقس شاہ مصر، خسرو پرویز شاہ فارس، قیصر شاہ روم، منذر بن ساوی حاکم بحرین، ہوذہ بن علی صاحب یمامہ، حارث بن ابی شمر حاکم دمشق اور جیفر شاہ عمان کو لکھے گئے۔ اِن کے مضمون میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہم قیصر روم کے نام آپ کا خط یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہ خط کس اسلوب میں اور کس شان اور اذعان کے ساتھ لکھے گئے تھے۔ آپ نے تحریر فرمایا:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم. من محمد عبد اللّٰہ و رسولہ إلی ہرقل عظیم الروم. سلام علٰی من اتبع الھدیٰ. أما بعد، فإنی أدعوک بدعایۃ الإسلام. أسلم تسلم، یؤتک اللّٰہ أجرک مرتین. فإن تولیت فإن علیک إثم الأریسیین، ویا أھل الکتٰب، تعالوا إلی کلمۃ سواء بیننا وبینکم ألانعبد إلا اللّٰہ ولا نشرک بہ شیءًا ولا یتخذ بعضنا بعضًا أربابًا من دون اللّٰہ، فإن تولوا فقولوا اشہدوا بأنا مسلمون.(بخاری، رقم ۷)
’’اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔ اللہ کے بندے اور رسول محمد کی طرف سے روم کے حکمران ہرقل کی طرف۔ اُس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اِس کے بعد میں تمھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ تم مسلمان ہو جاؤ، سلامت رہو گے۔ اللہ تم کو اِس کا دہرا اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن منہ موڑو گے تو تم پر تمھاری رعایا کا گناہ بھی ہے۔ اے اہل کتاب، اُس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر وہ اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم ہیں۔‘‘

۲۔ یہ خطوط حدیبیہ سے واپسی کے بعد محرم ۷؍ ہجری میں لکھے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے بعد کم و بیش چار سال تک دنیا میں رہے۔ اِس عرصے میں آپ نے تبوک کا سفر بھی کیا جو رومیوں کی طرف سے کسی اقدام کے اندیشے ہی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ یہ مدت کم نہیں تھی۔ اِن قوموں کے لوگ اور اِن کے اعیان و اکابر اگر چاہتے تو آپ سے آکر مل سکتے اور خدا کی زمین پر خدا کے آخری پیغمبر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔
۳۔ خدا کی معیت کا جو ظہور بدر و احد، احزاب اور خیبر کے معرکوں میں جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور اہل کتاب کے لیے ہوا اور جس کے نتیجے میں اُن کے لیے سزا کا اعلان کر دیا گیا، وہ اِن سب قوموں کے لیے بھی اُس وقت ہو گیا، جب قرآن کی صریح پیشین گوئیوں کے مطابق قریش مکہ اپنی تمام قوت و شوکت کے باوجود مغلوب ہو گئے، اُن کی پوری قیادت ہلاک کر دی گئی، مکہ فتح ہو گیا، خدا کے اولین معبد کی تولیت اُن سے لے لی گئی، عرب کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے، دین کو تمکن حاصل ہوا، خدا کی شریعت نافذ کر دی گئی اور کسی دوسرے دین کا اقتدار سرزمین عرب میں باقی نہیں رہا۔ پھر یہی نہیں، اِن قوموں کے خلاف جب اقدام شروع ہوا تو اِن کی وہ سلطنتیں بھی ریت کے گھروندوں کی طرح بکھر کر ہوا میں اڑ گئیں جن کے حکمرانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُنھیں لازماً مغلوب ہو کر رہنا ہے۔ اِ س کے بغیر اب اُن کی بادشاہی خداکی زمین پر قائم نہیں رہ سکتی۔
یہ سب تاریخ کے ناقابل تردید حقائق ہیں جو اُس زمانے کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوئے۔ صحابۂ کرام نے جو کچھ کیا، اِنھی کی بنیاد پر کیا۔ وہ اپنی دعوت میں اِن کی طرف توجہ بھی ضرور دلاتے ہوں گے۔ اُن کے بارے میں اِس سوء ظن کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اِس کے بغیر ہی کسی فرد یا گروہ کے خلاف اقدام کر ڈالتے تھے۔
[۲۰۱۴ء]

 

* بنی اسرائیل ۱۷: ۱۵۔
** النساء ۴: ۱۶۵۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2014
مصنف : جاوید احمد غامدی