نوح اور ابراہیم: نقدِ احباب کا جائزہ - ساجد حمید

نوح اور ابراہیم: نقدِ احباب کا جائزہ

 ’’ابراہیم ذریت نوح نہیں، قرآن کا ایک انکشاف‘‘ کے موضوع پر میرا ایک مضمون ستمبر ۲۰۱۸ء کے ’’اشراق‘‘ میں طبع ہوا تھا، جس پر اہل علم احباب کی طرف سے سوالات و تبصرے زبانی و تحریری (مطبوعہ ’’اشراق‘‘ شمارہ نومبر ۲۰۱۸ء) صورت میں موصول ہوئے۔ جس سے مجھ پر واضح ہوا کہ میرے استدلال کے بعض پہلو تشنۂ توضیح ہیں، اور بعض آیات کا محل بھی توضیح طلب ہے ۔اس مقصد سے یہ توضیحی مضمون پیش خدمت ہے۔ اس کے پہلے حصہ میں اپنے مدعا کو نئی ترتیب سے پیش کیا ہے اور دوسرے حصہ میں نقدِ احباب کا جائزہ لیا ہے۔

توضیح استدلال

پہلے میں اپنے استدلال کو نئی ترتیب سے بیان کروں گا، اس لیے کہ میرے طبع شدہ مضمون کی بُنت میں درج ذیل ترتیب ممکن نہیں تھی۔ میرا استدلال ان نکات پر مشتمل تھا:
۱۔ قرآن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح اور ان کی اولاد کے علاوہ لوگ بھی کشتی میں سوار تھے۔ یہ اتنا واضح ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں۔ اتنی بات مجھ پر نقد کرنے والوں نے بھی تسلیم کی ہے (’’اشراق‘‘ صفحہ ۴۸ اور ۵۴)۔ یہ بات اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:

حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَالتَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ ۱؂ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ہود ۱۱: ۴۰)
’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور طوفان ابل پڑا تو ہم نے کہا:ہر قسم کے جانوروں میں سے نر و مادہ، ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (اِس کشتی میں سوار کرا لو)، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی (سوار کرا لو) جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘(ترجمہ از البیان)

وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘اور ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ میں ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا عطف ’اَھْلَکَ‘ سے مغایرت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے انھیں ’اَھْلَکَ‘ سے الگ مراد لینا ہوگا، یعنی اہل خانہ کے علاوہ بھی لوگ کشتی پر سوار تھے۔
اس آیت میں حضرت نوح کے اہل خانہ کے علاوہ جن اہل ایمان کا ذکر ہوا ہے، بعض آیات سے ان کا تعارف بہ زبان کفار بھی ہوتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے اہل بیت کے علاوہ بھی لوگ ایمان لائے تھے اور حضرت نوح ان کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ انھی لوگوں کو مذکورہ بالا آیات کے مطابق کشتی نوح میں سوار کیا گیا تھا:

قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْاَرْذَلُوْنَ. قَالَ وَمَا عِلْمِیْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. اِنْ حِسَابُھُمْ اِلَّا عَلٰی رَبِّیْ لَوْ تَشْعُرُوْنَ. وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(الشعراء ۲۶: ۱۱۱۔۱۱۴)
’’اُنھوں نے جواب دیا: کیا ہم تمھیں مان لیں، دراں حالیکہ تمھاری پیروی تو رذیلوں نے اختیار کر رکھی ہے۔ نوح نے کہا: مجھے کیا معلوم جو وہ کرتے رہے ہیں؟ ان کا حساب تو میرے رب کے ذمے ہے، اگر تم سمجھنا چاہو۔ (وہ مجھ پر ایمان لائے ہیں) اور (تمھاری خوشنودی کے لیے) میں اِن اہل ایمان کو دھتکارنے والا نہیں ہوں۔‘‘ (ترجمہ از البیان)

رسولوں کی قوموں پر جب ہلاکت کا عذاب آتا ہے تومعلوم ومعروف بات ہے کہ تمام اہل ایمان کو بچایا جاتا ہے۔ لہٰذا، لاز م ہے کہ ان اہل ایمان کو بھی کشتی نوح میں جگہ ملی ہوگی۔
۲۔ جب قرآن سے ثابت ہے کہ کشتی میں اولادِ نوح کے علاوہ بھی لوگ تھے، تو جب کہا جائے کہ ’’یہ نوح کے ہم سوار کی اولاد ہے‘‘ تو اس سے مذکورہ شخص کے اولاد نوح میں سے ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔ ہاں، اگرصرف نوح اور ان کی اولاد ہی کشتی میں ہو تو پھر اس کی نفی نہیں ہوتی، لیکن اس صورت میں پھر یہ جملہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یوں کیوں کہا گیا: ’یہ نوح کے ہم سوار کی اولاد ہے‘۔ تب یہ اسلوب غیر ضروری ہوگا، کیونکہ جب نوح کے خانوادہ کے علاوہ کوئی ہے ہی نہیں تو پھر اس گھماؤ پھراؤ کے طریقے پر بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔وہ آیت یوں ہے:

وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا. ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۲۔۳)
’’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اُس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ۔ اے اُس شخص کے بیٹو، جسے ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کیا تھا۔ جو (ہمارا) شکر گزار بندہ تھا۔‘‘

یہاں سوال یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل اولادِ نوح میں سے تھے تو قرآن مجید نے ’ذریۃَ نوحٍ‘ کہنے کے بجاے ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ ۲؂ کا گھما پھرا کر بات کرنے کا اسلوب کیوں اختیار کیا ہے؟ میرا کہنا یہ ہے کہ اس جملے کی یہ ساخت واضح کرتی ہے کہ یہ بتانا پیش نظر ہے کہ بنی اسرائیل اولاد نوح میں سے نہیں ہیں۔میرے استدلال کو ایک سادہ مثال سے سمجھتے ہیں:

’’ہم نے نحوم کوشام میں بسایا، اس کے تین بیٹے، بہوئیں اور کچھ اہل ایمان بھی اس کے ساتھ بسائے۔ پھر ایک ہزار سال کے بعدافرایم پیدا ہوا، یہ نحوم کے ساتھ بسائے گئے شخص کی نسل سے ہے۔‘‘

اس مثال میں زبان کی صریح دلالت یہی کہتی ہے کہ افرایم، نحوم کی نسل سے نہیں ہے۔ اگرچہ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک امکان ہے کہ وہ نحوم کے کسی بیٹے کی اولاد ہو،کیونکہ نحوم کے ساتھ بسائے جانے کی صفت پر وہ بھی پورا اترتا ہے۔ بلاشبہ، منطقی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے، لیکن لسانی طور پر یہ درست نہیں ہے، کیونکہ اگر افرایم، نحوم کی نسل سے ہے تو پھر وہ وجہ متعین ہونی چاہیے جس کی وجہ سے یہ پیچ دار اسلوب: ’’یہ نحوم کے ساتھ بسائے گئے شخص کی نسل سے ہے‘‘ اختیار کیا گیا۔ قرآن کی ابانت یہ تقاضا کرتی ہے کہ یا سیدھا سیدھا یہ کہا جائے کہ ’ذریۃ نوحٍ‘ یا یہ کہاجائے کہ ’ذریۃَ ابنِ نوحٍ‘۔ لہٰذا جو بنی اسرائیل کو آل نوح مانتے ہیں، انھیں اس اسلوب کے اختیار کرنے کی وجہ بتانی ہوگی کہ سیدھا جملہ کہنے کے بجاے ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کا پیچ دار اسلوب کیوں اختیار کیا گیا؟ جب کہ قرآن مجید کا خود اپنا بیان ہے کہ اس میں کوئی اینچ پینچ یا کجی نہیں ہے، ’’بلکہ جو کچھ فرمایا ہے، فصیح و بلیغ زبان میں اور نہایت سادہ اور دل پذیر اسلوب میں فرمایا ہے‘‘ (البیان: تفسیر سورۂ زمر ۳۹: ۲۸) اگر یہ جملہ اولاد نوح ہی کے بیان کاہے تو —— نعوذ باللہ —— مجھے قرآن کا یہ جملہ پہیلیوں کے اسلوب کی یاددلاتا ہے۔۳؂
۳۔ ابراہیم علیہ السلام سے متعلق قرآن مجید کے تمام مقامات میں کہیں بھی ان کی نوح علیہ السلام سے نسلی نسبت —— بہ الفاظ تو دور کی بات —— کنایۃً بھی بیان نہیں ہوئی۔ بلکہ جن مقامات پر اس کے بیان کا امکان تھا، وہاں بھی کلام میں، الفاظ و ضمائر سے واضح کیا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا نوح علیہ السلام سے نسلی تعلق نہیں ہے۔ وہ الفاظ و ضمائر کے مقامات ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں:
ا: ابراہیم علیہ السلام کو ’من ذریۃ نوح‘ کے بجاے ’مِنْ شِیْعَتِہٖ‘ کہنا:

سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ. اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ. اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ. ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ. وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْمَ.(الصافات ۳۷: ۷۹۔ ۸۳) 
’’نوح پر سلامتی ہے تمام دنیا والوں میں۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ پھر ہم نے اوروں کو غرق کر دیا۔ یقیناً اُسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا۔‘‘(ترجمہ از البیان)

حالاں کہ ’ذریت‘ کا لفظ بولنے میں نہ آہنگ و ذوق کے لیے گرانی تھی اور نہ فصاحت و بلاغت میں۔ پھر اسی سلسلۂ آیات میں آگے اسحق و ابراہیم علیہما السلام کی اولاد کا ذکر لفظ ’ذریت‘ ہی سے ہوا ہے: ’وَبٰرَکْنَا عَلَیْہِ وَعَلٰٓی اِسْحٰقَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِھِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ مُبِیْنٌ‘ (الصافات ۳۷: ۱۱۳)۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ ابراہیم حضرت نوح کی ذریت میں سے نہیں تھے، اسی لیے ’مِنْ شِیْعَتِہٖ‘ کے الفاظ چنے گئے ہیں۔ 
ب: ذیل کی آیات میں اسم ضمیر کے استعمال سے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ لہٰذا، اگر داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف اور موسیٰ و ہاورن نسلاً خاندان نوح علیہم السلام میں سے ہیں تو خط کشیدہ مقام پر ’مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ‘ کے بجاے ’من ذریتہما‘ کیوں نہیں ہے؟

وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ۴؂ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ.(الانعام ۶: ۸۴) 
’’(پھر یہی نہیں)، ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب عنایت فرمائے۔ اُن میں سے ہر ایک کو ہم نے ہدایت بخشی۔ اِس سے پہلے یہی ہدایت ہم نے نوح کو بخشی تھی اور اس کی ذریت میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ ہم نیکوکاروں کو اِسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘ (ترجمہ از البیان)

ج: نوح علیہ السلام کے علاوہ سوار لوگوں کی اولاد میں نبی ہونے کی بشارت۔ اگر یہ کہا جاتا کہ نبوت صرف اولاد نوح کے لیے خاص ہے تو پھر مذکورہ بالا آیات سے پیدا ہونے والے تناقض کو فراموش کرتے ہوئے ماننا پڑتا کہ بنی اسرائیل اولاد نوح میں سے ہی مانے جائیں،کیونکہ اگر اولاد نوح کے علاوہ کسی میں نبی نہ آئے ہوتے تو ثابت ہو جاتا کہ ابراہیم اولاد نوح ہی میں سے تھے ۔لیکن ذیل کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت خاندان نوح علیہ السلام کے علاوہ کشتی میں سوار بعض خانوادوں کو بھی ملی ہے۔ آیت کریمہ یوں ہے:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیۡمَ وَاِسْرَآءِ یۡلَ وَمِمَّنْ ھَدَیۡنَا وَاجْتَبَیۡنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَیۡھِمْ اٰیٰتُ الرَّ حْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا.(مریم ۱۹: ۵۸)
’’یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے اپنا فضل فرمایا، آدم کی اولاد میں سے اور اُن کی نسل سے جسے ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا تھا۔ اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔‘‘(ترجمہ از البیان)

یہ آیت بھی دیکھیے، ’وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ‘ میں بقا و برکات نسل نوح کے علاوہ کے لیے مذکور ہیں :

قِیْلَ یٰنُوْحُ اھْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ وَاُمَمٌ سَنُمَتِّعُھُمْ ثُمَّ یَمَسُّھُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(ہود ۱۱: ۴۸)
’’ارشاد ہوا: اے نوح، اتر جاؤ، ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ اور برکتوں کے ساتھ، تم پر بھی اور اُن امتوں پر بھی جو اُن سے ظہور میں آئیں گی جو تمھارے ساتھ ہیں۔ اور کچھ ایسی امتیں بھی ہیں جنھیں ہم آگے بہرہ مند کریں گے، پھر (ان میں رسول آئیں گے، اگر وہ ہمارے رسولوں کو جھٹلائیں گے تو)۵؂ اُن کو بھی ہماری طرف سے ایک دردناک عذاب پکڑ لے گا۔‘‘

ان آیات سے معلوم ہوا کہ نوح علیہ السلام کے خانوادے کے علاوہ نسلیں بھی دنیا میں موجود ہیں، اور ان میں نبوت بھی جاری ہوئی۔ توان سے یہ تردد زائل ہو گیا ہوگا کہ ان کے خاندان کے باہر نبوت نہیں ہو سکتی۔
۴۔ ذیل کی آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذریت نوح کا ذکر علی الاطلاق نہیں کرنا چاہتے۔ اگر انعام یافتگان اور انبیا صرف اولاد نوح میں سے تھے تو ’ذریۃ آدم‘ ہی کی طرح ’ذریۃ نوح‘ کہنا کافی تھا:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیۡمَ وَاِسْرَآءِ یۡلَ وَمِمَّنْ ھَدَیۡنَا وَاجْتَبَیۡنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَیۡھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّا.(مریم ۱۹: ۵۸)
’’یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے اپنا فضل فرمایا، آدم کی اولاد میں سے اور اُس شخص کی نسل سے جسے ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی پر)سوار کیا تھا، اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا تھا۔ اُن کو جب خداے رحمن کی آیتیں سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔‘‘

اس آیت میں خط کشیدہ الفاظ کو دیکھیے کہ آدم، ابراہیم اور اسرائیل علیہم السلام کے ساتھ براہ راست ’ذریت‘ کا لفظ آیا ہے، لیکن حضرت نوح کے ساتھ نہیں آیا۔ حضرتِ نوح کے لیے وہی پیچیدہ ۶؂ اسلوب: ’وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ آیا ہے۔ لہٰذا یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہاں بھی اولاد نوح کے ساتھ کچھ اور کا ذکر بھی پیش نظر ہے ۔ اگر کشتی میں بس انھی کی اولاد سوار تھی یا کم از کم نبوت ہی ان کی اولاد میں محدود ہوتی تو ’ومن ذریۃ نوح‘ کہنا کافی تھا۔یہاں بھی اسلوب وہی ہے جو اوپر سورۂ بنی اسرائیل میں اختیار کیا گیا ہے۔سورۂ مریم اور سورۂ بنی اسرائیل کے اس موازنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت نوح کے کسی ساتھی کا معاملہ حضرت نوح کی طرح کاہے، وگرنہ مطلقاً حضرتِ نوح کا ذکر ہونا موزوں تھا۔
۵۔ ذیل کی آیت کی وجہ سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ خود قرآن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذریت نوح ہی دنیا میں باقی رہی، باقی سب ہلاک ہو گئے اور وہ آیت یہ ہے:

وَلَقَدْ نَادٰنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَ. وَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ. وَجَعَلْنَا ذُرِّیَّتَہٗ ھُمُ الْبٰقِیْنَ.(الصافات ۳۷: ۷۵۔ ۷۷)
’’نوح نے ہم سے فریاد کی تھی۔ پھر (دیکھو کہ) ہم کیا خوب فریاد سننے والے ہیں! ہم نے اُس کو اور اُس کے اہل وعیال کو بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ اور ہم نے ٹھیرایا کہ اس کے بچے تولازماً بچیں گے ۔‘‘

ہمارے خیال میں ’ہُمُ الْبٰقِیْنَ‘ میں حصر کا اسلوب نہیں، بلکہ تاکید کاہے۔ لیکن یہ حصر کا اسلوب بھی لیا جائے تو اس بات کو مستلزم نہیں کہ نوح علیہ السلام کی اولاد کے سوا سب لوگ مارے گئے، بلکہ یہ اپنے موقع ومحل کے لحاظ سے صرف ان کے دشمنوں کے مقابل میں بولاگیا ہے، جوآپ کو ماردینے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔۷؂ اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ نوح کو ستانے والوں کے مقابلے میں نوح علیہ السلام کے اہل خانہ ہی تو تھے جو بچائے گئے۔ یعنی یہ جملہ اسی معنی میں آیا ہے جس معنی میں سورۂ بقرہ کا یہ جملہ: ’اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ‘ (۲: ۱۲) ہے۔ وہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری دنیا میں بس وہ منافقین ہی ’مُفْسِدُوْنَ‘ تھے، اور کوئی مفسد نہیں تھا، بلکہ مراد یہ تھی کہ صحابہ نہیں، بلکہ یہ منافقین ہی مفسد ہیں۔ ٹھیک اس آیت کا مطلب بھی یہ ہے کہ دشمنانِ نوح نہیں، بلکہ ذریتِ نوح کے افرادہی بچائے گئے۔ اس آیت میں باقی اہل ایمان کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے، یہ صرف اولاد نوح کے بارے ہی میں ہے، اس لیے کہ یہ اہل ایمان کے مقابل میں نہیں، بلکہ کفار کے مقابل میں بولا گیا ہے۔ 
اگر اہل ایمان نہیں بچائے گئے تو یہ بات قانون رسالت کے عمومی اصول —— کہ عذاب کے وقت تمام اہل ایمان کو بچایا جاتا ہے —— کے خلاف ہوجائے گی ۔اوپر دونوں باتیں واضح ہیں: ایک یہ کہ اہل خانہ کے علاوہ لوگ ایمان لائے تھے، اور دوسرے یہ کہ کشتی میں اہل خانہ کے علاوہ اہل ایمان سوار کیے گئے تھے۔ یعنی وہ —— قانونِ رسالت کے عین مطابق —— ہلاک نہیں کیے گئے۔ اس لیے مندرجہ بالا آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہو گا کہ خانوادۂ نوح کے سوا کوئی بچا ہی نہیں۔ قرآن کی صریح نص موجود ہے کہ غیر خاندان کے اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرکے بچایا گیا تھا۔
لہٰذا اس استدلال سے لازماً ثابت ہو جاتا ہے کہ:
۱۔ دنیا میں اولادِ نوح کے علاوہ اقوام و ملل بھی موجود ہیں۔
۲۔ کشتی میں نوح علیہ السلام ان کے بہو بیٹے، اور دیگر اہل ایمان سوار ہوئے اور قانون رسالت کے تحت عذاب سے بچا رکھے گئے۔بعد میں ان سب پر برکات ہوئیں، ان سب سے امتیں پیدا ہوئیں، اور ان میں سے بعض میں —— اولاد نوح سمیت —— نبوت بھی جاری ہوئی ۔
۳۔ بنی اسرائیل اولاد نوح نہیں، جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ابراہیم ، جو اسرائیل (حضرت یعقوب) کے سگے دادا ہیں، وہ بھی اولاد نوح علیہم السلام سے نہیں ہیں۔

نقدِ احباب کا جائزہ

یہ میرا استدلال تھا،جسے نئی ترتیب اور مزید توضیح کے ساتھ اوپر دہرادیا ہے۔اب ان اعتراضات و سوالات کا جائزہ لیتے ہیں، جو میرے احباب کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ان میں سے کوئی بیان، اعتراض یا سوال ایسا سامنے نہیں کہ جس سے میری راے کی غلطی ثابت ہوئی ہو۔ذیل میں ایک ایک نکتے کولے کر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
۱۔ حضرت ابراہیم کے اولاد نوح میں سے ہونے کے ثبوت میں یہ آیت پیش کی گئی ہے:

اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰھِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ. ذُرِّیَّۃًم بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ.(آل عمران ۳: ۳۳۔ ۳۴)
’’ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔ یہ ایک دوسرے کی اولاد ہیں۔...‘‘ (ترجمہ انھی دوست کا ہے)

اس آیت سے ہمارے مضمون کے خلاف جو استدلال کیا گیا ہے، وہ ذیل میں ہمارے دوست ہی کے الفاظ میں یوں ہے:

’’ ’’ایک دوسرے کی اولاد ہیں‘‘، اس جملے کا یہ مطلب، ظاہر ہے کہ نہیں لیا جاسکتا کہ ان میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کا باپ بھی ہے اور اولاد بھی، بلکہ اس کا ایک ہی مطلب بنتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سب لوگ ایک ترتیب سے ایک دوسرے کی اولاد ہیں، ۸؂ یعنی نوح آدم کی اولاد ہیں، آل ابراہیم نوح کی اور آل عمران ابراہیم کی۔‘‘ (ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۵۶) 

یہ ساری بات ہر گز درست نہیں ہے کہ ’بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘ میں ترتیب کا مفہوم ہوتا ہے۔ نہ اس مرکب میں یہ مفہوم عموماً ہوتا ہے ،اور نہ یہاں کلام میں اس مفہوم کے ادخال کے لیے کوئی قرینہ یا گنجایش موجود ہے۔اگر ان کی مراد یہ ہے کہ ’بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘ کے مرکب میں ترتیب اس کا لازمی حصہ ہے تو یہ بے بنیادبات ہے۔ مثلاً ذیل کی آیت دیکھیے: ’اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْ م بَعْضٍ‘ (التوبہ ۹: ۶۷) کیا ہم اس کا ترجمہ یوں کر سکتے ہیں کہ ’’منافق مرد اور منافق عورتیں، بالترتیب ایک دوسرے سے ہیں‘‘؟ یقیناً نہیں ۔اس لیے یہ استدلال بداہۃً غلط ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب چار پانچ جگہوں پر آیا ہے کہیں بھی ترتیب کا مفہوم ان میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اصل مفہوم بلا ترتیب ایک دوسرے سے ہونا ہے۔
بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘ کا مطلب بیانِ ماخذ ہوتا ہے، یہ بھی درست نہیں۔عربی مبین اس سے اِبا کرتی ہے کہ یہاں بیانِ ماخذ کے معنی میں اس مرکب کو لیا جائے۔ پہلی بات یہ کہ ’بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘، ایک دوسرے سے ہونے کا مفہوم رکھتا ہے۔ اس میں دونوں اطراف میں سے ہونے کا مفہوم لازم ہے، اس دو طرفہ نسبت کے مفہوم سے اسے جدا نہیں کیا جاسکتا، جیسا ہمارے دوست نے کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مرکب دراصل اس معنی میں بیانِ ماخذ کے لیے آتا ہی نہیں، جس معنی میں ہمارے ساتھی نے لے لیا ہے، بلکہ یہ دراصل مماثلت اور برابری وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی طرفین میں یکسانیت، برابری ، ہم مشربی اور عدم تفاوت پر دلالت کرتا ہے۔اس میں آیا ہوا ’مِنْ‘ وہی مفہوم رکھتا ہے، جیسا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایتوں میں آتا ہے کہ ’حسین مني وأنا من حسین‘ (مسند احمد، رقم ۱۷۱۱۱)۔ یعنی حسین اور میں مماثل ہیں۔ یہی مفہوم ’بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘ کا ہوتا ہے۔ ’أنا من حسین‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں حسین کی اولاد ہوں، اور نہ ’حسین مني‘ میں یہ مراد ہے۔یعنی یہی جملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق کے لیے بھی بول سکتے تھے۔قرآن میں تقریباً تمام مقامات پر یہ اسلوب اسی معنی میں آیا ہے: مثلاً سورۂ توبہ کی مذکورہ بالا آیات کے ساتھ یہ آیت بھی دیکھیے: ’...اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ م بَعْضٍ‘ (آل عمران ۳: ۱۹۵)۔ ۹؂ لہٰذا اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ وہ صرف ایک طرف سے بالترتیب پہلے لوگوں کی اولاد ہیں۔اس کا مطلب صرف اور صرف یہی ہے کہ پہلے والے بعد والوں میں سے ہیں اور بعد والے پہلے والوں میں سے۔اس دو طرفہ نسبت کی نفی ہر گز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ہمارے دوست نے جو ترجمہ کیا ہے، وہ لسانی نہیں محض منطقی ہے۔ زبان کو اس کے منطقی نہیں لسانی مفاہیم اور مبین معنی میں لینا ہی اصل الاصول ہے ۔
ذریۃ‘ کا لفظ شاید اس غلطی کا سبب بنا ہوگا۔ ’ذریۃ‘ کا لفظ صرف ’’آل اولاد‘‘ کے معنی میں نہیں آتا، بلکہ ’’لوگوں‘‘، یعنی ’’بنی نوع آدم‘‘ کے معنی میں بھی آجاتا ہے۔اس معنی میں یہ قرآن مجید میں بھی آیا ہے:

وَاٰیَۃٌ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ.(یٰسٓ ۳۶: ۴۱) 
’’اور اِن کے لیے ایک بہت بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ اِنھی کی ذریت (لوگوں)۱۰؂ کو ہم نے بھری ہوئی کشتیوں میں اٹھا رکھا ہے۔‘‘

ہمارے خیال میں آل عمران کی زیر بحث آیت میں بھی یہ اسی معنی میں آیا ہے،اس لیے اس تکلف کی ضرورت ہی نہیں کہ ’بَعْضُھَا مِنْ م بَعْضٍ‘ کو اس کے عام مفہوم سے ہٹایا جائے۔
ہمارے معترض دوست نے سیاق و سباق کا خیال بھی نہیں رکھا۔ یہ موقع و محل سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عدم الوہیت پر استدلال کا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ آل ابراہیم اور آل عمران، دونوں کے گھرانے ابناے آدم پر مشتمل ہیں۔یہ سب لوگ انسان ہیں، جو ایک جیسے ہیں۔لہٰذا آل عمران میں ظاہر ہونے والے ابن مریم بھی ان جیسے انسان ہی ہیں۔یہ ایک دوسرے سے ہیں، ان میں سے کوئی بھی الوہی نہیں ہے۔اسی لیے اس آیت میں آل عمران کے ذکرکے فوراً بعد عیسیٰ علیہ السلام کی نیک طینت نانی کا ’امْرَاَتُ عِمْرٰنَ‘ کے الفاظ میں ذکر کر کے اس استدلال کو محکم کیا گیا ہے۔ یعنی آدم و نوح اور آل ابراہیم جیسی ہی ایک آل سے حضرت عیسیٰ منتخب کیے گئے۔ جو ایک نیک بی بی کی نذر سے ملنے والی بیٹی مریم کے بطن سے تھے۔
لسانی ذوق کا تقاضا ہے کہ ’ذریۃ‘ کا لفظ اگر اولاد یا نسل کے معنی میں لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ آل ابراہیم اور آل عمران کا بدل مانا جائے، نوح اور آدم کانہیں۔ اس لیے کہ ان کے لیے ’ذریت‘ کا لفظ بطور بدل درست نہیں، کیونکہ ذریت کے معنی آل، اولاد اور نسل کے ہیں۔مثلاً ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ:

ہم نے آدم اور نوح کو چنا، یعنی اولادکو چنا جو ایک دوسرے سے تھی۔

یہاں دیکھ لیجیے ’اولاد‘ کا لفظ نوح و آدم دونوں کے لیے درست بدل نہیں ہے۔ واضح ہے کہ یہاں ذریت —— بمعنی اولاد —— صرف آل کا بدل ہوسکتا ہے۔ لیکن فرض کرلیجیے کہ توسعاً استعمال ہوا ہو تو تب بھی حضرت آدم کویہ ہرگز شامل نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ کسی معنی میں بھی ذریت نہیں تھے۔۱۱؂ اس لیے مزعومہ ترتیب کا دعویٰ غلط ہوجاتا ہے۔ لہٰذا،ہماری راے میں ذریت کو اگر اولاد اور نسل کے معنی میں لیا جائے تو صرف آخری دو خاندانوں کا بدل ہے۔ یعنی آل ابراہیم اور آل عمران۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زمخشری نے اسے صرف انھی دو کا بدل مانا ہے۔لکھتے ہیں:

وذُرِّیَّۃً بدل من آل إبراہیم وآل عمران بَعْضُہَا مِنْ م بَعْضٍ یعني أنّ الآلین ذرّیۃ واحدۃ متسلسلۃ بعضہا متشعب من بعض.(الکشاف ۱/ ۳۵۴)
’’اور ذریت بدل ہے، آل ابراہیم و آل عمران سے، ’بَعْضُہَا مِنْ م بَعْضٍ‘ کا یہاں مطلب یہ ہے کہ دونوں خانوادے ایک نسلِ متسلسل ہیں، یہ ایک دوسرے کے شعوب ہیں۔‘‘

لہٰذا سیاق و سباق سے واضح ہے کہ آیت کے معنی بس یہ ہیں کہ حضرت عیسیٰ آل ابراہیم اور آل عمران کے فرزند ہیں، اور انھی کے جیسے ہیں۔ یہاں ’ذُرِّیَّۃً بَعْضُہَا مِنْ م بَعْضٍ‘ یہ بتانے آیا ہی نہیں ہے کہ یہ ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں،بلکہ یہ بتانے آیا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیا و رسل بنی آدم ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآن کا یہ واحد مقام ہے جہاں آل عمران کے ’اصْطَفٰٓی‘، اور عمران کی بیوی کا ذکر ہوا ہے۔پورا قرآن اس مضمون سے خالی ہے۔لہٰذا اس جملے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ بالترتیب نسلوں کا ذکر ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں نے آدم و نوح کو چنا، آل ابراہیم و آل عمران کو چنا ۔حضرت عیسیٰ اسی آخری خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں۔ لہٰذا خدا کیسے ہوئے؟ اور ابن اللہ کیسے ہوئے؟
دوسرے یہ کہ مذکورہ بالاآیات میں ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ اور ’مِنْ شِیْعَتِہٖ‘ والی آیات صریح ہیں، جب کہ یہاں محض اشارہ سا ہے، اس لیے اشارہ کو صراحت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔

 

۲۔ قرآن کا اصلاحِ تورات کا طریقہ

ہمارے دوست نے ایک دل چسپ استدلال اختیار کیا ہے۔ میں نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ قرآن مجید یہ انکشاف کررہا ہے، اور یوں وہ اہل کتاب کی غلطی بتا رہا ہے کہ ابراہیم اولاد نوح علیہما السلام نہیں ہیں۔ان صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن یوں نہ انکشاف کرتا ہے اور نہ بائیبل کی تصحیح کرتا ہے۔ آئیے، پہلے ان کا استدلال انھی کے الفاظ میں سن لیں، پھر ہم اس کا جائزہ لیں گے:

’’اس سے پہلے کہ ہم اصل حقیقت کوقرآن میں سے واضح کریں،ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کے اُس اندازکوواضح کر دیں جو تورات کے بیان کی اصلاح یااُس کی تردیدکرتے ہوئے وہ عام طور پر اپنایا کرتا ہے۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تورات کابیان یہ ہے کہ اُنھوں نے معجزہ دکھاتے ہوئے جب اپناہاتھ باہر نکالا تو وہ کوڑھ سے برف کے مانند سفید تھا۔ ۱۲؂ قرآن نے جب یہ واقعہ بیان کیا توبڑے ہی واضح اندازمیںیہ کہتے ہوئے اس کی اصلاح کی: ’تَخْرُجْ بَیۡضَآءَ مِنْ غَیۡرِ سُوْٓءٍ‘،۱۳؂ یعنی یہ ہاتھ بغیرکسی بیماری کے سفیدہوتاتھا۔اسی طرح تورات میں بیان ہواہے کہ خداوندنے چھ دن میں زمین وآسمان کی تخلیق کی اورساتویں دن آرام کیا۔۱۴؂ قرآن نے یہ کہتے ہوئے بڑی صراحت سے اس کی تردید کی: ’وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ‘ ۱۵؂ کہ ہمیں کوئی تکان لاحق نہیں ہوئی۔ بلکہ اگر کوئی غلطی بہت زیادہ سنگین ہواورلوگوں میں اس کا عام رواج بھی ہوچکاہواور قرآن کواس کے جواب میں واقعی کوئی انکشاف کرناہو تواس کے لیے وہ محض اشارے کنایے میں اورمحض ضمیروں کی دلالت سے بات نہیں کرتا، بلکہ انکشاف ہی کے طریقے سے اسے بیان کرتا ہے ۔ مثال کے طورپر، یہود سیدنا مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کا دعویٰ کرتے تھے، انجیلوں میں بھی یہی کچھ نقل کردیاگیاتھا، اوراسے کم وبیش ہر مسیحی فرقے میں مان لیاگیا ، یہاں تک کہ نزول قرآن کے وقت اسے گویاایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی؛اس پرقرآن نے اصل حقیقت کاانکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے اور دیکھ لیاجاسکتاہے کہ کتنے زوردارطریقے سے بتایا ہے: ’وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ‘ (اُنھوں نے نہ اُس کوقتل کیااورنہ اُسے صلیب دی،بلکہ معاملہ اُن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا)، یعنی پہلے اُن کی بات کی ہر دو پہلو سے تردید کی اورپھران کوجہاں سے غلطی لگی تھی ،اس بنیاد کی بھی وضاحت کی، بلکہ پھر سے دہرا کر اصل بات کو موکد کیا: ’وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًام ‘۱۶؂ کہ اِنھوں نے ہرگزاُس کوقتل نہیں کیا ۔غرض یہ ہے کہ تورات کے بیان کی تردید کرتے ہوئے قرآن کواگریہ بتاناہوتاکہ وہ نوح کے بجاے کسی اورکی اولاد ہیں تووہ اپنے معروف طریقے کے مطابق ہی بتاتا، نہ کہ اس طرح بتاتا کہ اسے جاننے کے لیے بڑے باریک اورمنطقی استدلال کی ضرورت آن پڑتی۔‘‘(ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۵۵) 

یہ سارا پیرا گراف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے عمل سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بائیبل کی اصلاح کے ضمن میں جتنے حوالے قرآن سے بطور مثال دیے گئے ہیں، وہ سب کے سب کنایے ہی ہیں۔ مثلاً، ان میں سے کس آیت میں کہا گیا ہے کہ میں اہل تورات کی غلطی بتا رہا ہوں؟کہیں بھی نہیں ۔بس کہیں ایک جملہ اضافہ کردیا، تو کہیں دو۔ یہاں بھی قرآن مجید نے دو مقامات پر ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ کا جملہ بڑھا دیا ہے، ایک مقام پر ’مِنْ شِیْعَتِہٖ‘ بڑھا دیا ہے۔ ایک مقام پر ضمیر کی گواہی دی ہے ۔اگر اب بھی یہ محض باریک منطقی استدلال ہی ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ پھر ’مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ‘ اور ’مِنْ غَیۡرِ سُوْٓءٍ‘ اور مذکورہ بالا دونوں جملوں: ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ اور ’مِنْ شِیْعَتِہٖ‘ میں وہ کیا فرق ہے کہ ایک جملہ واضح بات قرار پاتا ہے اور دوسرا محض اشارہ ۔ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے!
رہا صلیبِ عیسیٰ کا معاملہ تو وہ قرآن کے قانون رسالت کی نفی کرنے والا واقعہ ہے، اس لیے اس کے لیے واضح تر الفاظ آگئے ہیں۔ابراہیم کا ذریت نوح ہونا، اتنا ہی اہم ہو گا جتناساتویں دن آرام کرنا۔ اسی لیے ساتویں دن آرام کی تردید کے لیے ایک جملہ: ’مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ‘ کفایت کرگیا ، اور حضرت ابراہیم کے لیے تین مقامات پر تصریح کفایت کرگئی۔حضرت موسیٰ کے ید بیضا کے لیے بھی ’مِنْ غَیۡرِ سُوْٓءٍ‘ کا غیر محسوس سا اضافہ کفایت کرگیا ۔ لہٰذا قرآن کا معروف اسلوب تو و ہی ہوا جو اس نے تین باتوں کی تردید کے لیے اختیار کیا، حضرت عیسیٰ والا معاملہ معروف اسلوب سے ہٹ کر ہے،اس لیے اسے مثال نہیں بنایا جاسکتا، بلکہ مجھے لگ رہا ہے کہ ابراہیم کا نوح علیہما السلام سے تعلق کا معاملہ بھی معروف اسلوب سے ہٹ کر ہے، اس لیے کہ اس کے لیے دو مقامات پر واضح الفاظ، اور ایک جگہ پر ضمائر سے اشارات ہیں۔اتنی اہمیت تو صلیبِ عیسیٰ کے معاملہ کو بھی نہیں ملی۔جس کے لیے ایک ہی مقام پر تصریح پر انحصار کیا ہے۔
۳۔ میں نے اپنے مضمون میں یہ بات بھی عرض کی تھی کہ حضرتِ نوح کے اہل کے لیے کشتی میں سوار ہونے کے لیے اہل میں سے ہونا کافی تھا۔ ہمارے دوست نے ذیل کی آیت کی بنیاد پر آلِ نوح کے لیے ایمان کی شرط لازم قرار دی ہے۔ الفاظ کی حد تک یہاں تعین کے لیے کوئی چیز نہیں ہے۔یا کم از کم ہمارے ناقد نے بیان نہیں کی ہے۔ غالباً قانونِ رسالت کا ایک عمومی ضابطہ ان کے پیش نظر ہے، میں اس کا قائل ہوں، اور اس کا بھی قائل ہوں کہ کلام میں ایسے ضوابط کا ذکر کیے بغیر بھی کلام میں یہ خود بخود موجود ہوتے ہیں ۔ لیکن کیایہ قاعدہ یہاں اس آیت میں بھی ہے، میں اس کا قائل نہیں ہوں۔ آیت پر ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ یہاں لفظوں میں کوئی قرینہ ایمان کی طرف اشارہ نہیں کرتا، بلکہ ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کا عطف ایما ن کے بجاے رشتہ داروں کی طرف دلالت کرتا ہے ۔آیت یہ ہے:

حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَالتَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ۱۷؂ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ.(ہود ۱۱: ۴۰)
’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور طوفان ابل پڑا تو ہم نے کہا:ہر قسم کے جانوروں میں سے نر و مادہ، ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (اِس کشتی میں سوار کرا لو)، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘

لہٰذا ، میرے خیال میں یہاں ایمان کے بجاے اہل میں سے ہونے کی شرط کا قرینہ موجود ہے۔وہ یہ کہ ’اَھۡلَکَ‘ پر اہل ایمان کا عطف ہوا ہے۔ ۱۸؂ دوسرے یہ کہ میری راے کے حق میں دیگر قرآنی نصوص موجود ہیں۔ جو ایمان کے بجاے اہل خانہ ہونے پر واضح تر لفظوں میں دلالت کر رہی ہیں۔ مثلاً ذیل کی آیت میں دیکھیے کہ بیٹے کو ’مِنْ اَھۡلِی‘ کہا گیا۔ بیٹا جو کہ ہوتا ہی اہل میں سے ہے، اسے ’مِنْ اَھۡلِی‘ کیوں کر کہا جائے گا؟ صرف اسی لیے کہ حضرت نوح اس بات کو بطور دلیل پیش کررہے تھے کہ اہل میں سے ہونا شرطِ نجات تھا اور یہ خداکے ہاں بھی تسلیم شدہ شرط تھی۔ اگر ایمان شرطِ نجات ہوتی تو جملہ یوں ہوتا ’إِنَّ ابْنِی مِنْ المؤمنین‘، کہ میرا بیٹا صاحب ایمان ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ بیٹے کو ’مِنْ اَہۡلِی‘ کہہ کر اس شرط کو ’وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ‘ کے الفاظ میں وعدۂ الٰہی قرار دیا گیا ہے۔دل جمعی کے لیے آیت پر نگاہ ڈال لیجیے:

وَنَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ. قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْئَلْنِ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ.(ہود ۱۱: ۴۵۔ ۴۶)
’’نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ پروردگار، میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب منصفوں سے بڑھ کرمنصفانہ فیصلہ کرنے والا ہے۔ فرمایا: اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ فعلِ نابکار ہے۔۱۹؂ سو مجھ سے اُس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تجھے کچھ علم نہیں ہے۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔‘‘

دوسرے یہ کہ اگر اللہ کے نزدیک بھی ایمان ہی شرط نجات تھی، تو اللہ ’اِنَّ ابْنِی مِنْ اَھۡلِی‘ کو رد کرتے اور کہتے کہ وہ اہل میں سے تو ہے، مگر اہل ایمان میں سے نہیں ۔ اللہ نے تو وہ جواب دیا ہے جس سے میرے فہم کی تصدیق ہوتی ہے کہ اہل نوح کو نجات کا وعدہ تھا، لیکن بیٹے کو اس لیے نہیں بچایا گیا کہ وہ اہل ہی میں سے نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں: ’اِنَّہُ لَیْسَ مِنْ اَھۡلِکَ‘، اس لیے قرآن کے الفاظ واضح طور پر یہ بیان کررہے ہیں کہ ان کے اہل خانہ کو بچایا گیا تھا، جس میں اہل خانہ ہونا ہی شرطِ نجات تھی۔
اگر اہل ایمان ہی کو بچانا مقصود تھا، تو اس دراز گوئی کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اہل خانہ کا ذکر الگ سے کیا گیا اور اہل ایمان کا الگ سے۔بس سادہ بات کہہ دی جاتی کہ ان ان جانوروں کو بھی سوار کرلو، اور اہل ایمان کو بھی۔ اس تفصیل کی ضرورت سمجھ نہیں آتی۔ سواے اس کے جو بات ہم عرض کررہے ہیں، وہ پیش نظر ہو۔
یہاں از راہ اطمینان کچھ مزید باتوں کی طرف اشارہ مفید رہے گا۔ایک یہ کہ بنی اسرائیل کا مصر سے اخراج اور فرعون کے ساتھ غرق ہونے سے نجات بشرط ایمان نہیں تھی، بلکہ صرف اسرائیلی ہونے کی بنا پر تھی۔ ان کے ایمان کی حالت تو قدم قدم پر خروج از مصر سے پہلے اور بعد میں واضح ہی تھی، جس کے چیدہ چیدہ پہلو سورۂ بقرہ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ سلسلۂ رسالت و نبوت میں نوح علیہ السلام ہی کے بعد۲۰؂ سے ذریت انبیا کو ایک اہمیت رہی ہے۔ حضرت نوح برگزیدگی پاتے ہیں، لیکن اس ذاتی برگزیدگی کا صلہ یہ ملتا ہے کہ ان کی اولاد میں آمد انبیا کا وعدہ بھی شامل ہو جاتا ہے۔۲۱؂ انبیا کے اہلِ بیت کو عموماً ایک اہمیت رہی ہو گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو بھی ایک اہمیت حاصل رہی ہے۔ سورۂ تحریم اور سورۂ احزاب میں اس اہمیت کو بھانپا جاسکتا ہے۔ 
حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کے معاملے میں کوئی وجہ ہے کہ اہل کا ذکر بطور خاص ہوا ہے۔حضرت نوح سے متعلق آیات اوپر آچکی ہیں ، ان کا دوبارہ حوالہ باعث طوالت ہوگا۔ البتہ حضرت لوط سے متعلق چند آیات پیش ہیں:

قَالُوْا یٰلُوْطُ اِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا اِلَیْکَ فَاَسْرِ بِاَھْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ اِلَّا امْرَاَتَکَ اِنَّہٗ مُصِیْبُھَا مَآ اَصَابَھُمْ اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ.(ہود ۱۱: ۸۱)
’’فرشتوں نے کہا: اے لوط، ہم تمھارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔ (مطمئن رہو)، یہ تمھارے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔ سو اپنے اہل و عیال کو لے کر کچھ رات رہے نکل جاؤاور تم میں سے کوئی پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ تمھاری بیوی نہیں، اِس لیے کہ اُس پر وہی کچھ گزرنے والا ہے جو اِن لوگوں پر گزرنا ہے۔ اِن (پر عذاب) کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ (تم پریشان کیوں ہوتے ہو)؟ کیا صبح قریب نہیں ہے!‘‘ (ترجمہ از البیان)

دیکھ لیجیے ، خاندان کی بات ہوئی ہے اور خاندان میں سے جیسے حضرت نوح کے بیٹے کو خارج سمجھا گیا، یہاں حضرت لوط کی بیو ی کو خارج از اہل بیت سمجھا گیا:

قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ. اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ اِنَّا لَمُنَجُّوْھُمْ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا امْرَاَتَہٗ قَدَّرْنَآ اِنَّھَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ.(الحجر ۱۵: ۵۸۔ ۶۰)
’’فرشتوں نے جواب دیا: ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ صرف لوط کے گھروالے مستثنیٰ ہیں۔ اُن سب کو ہم لازماً بچا لیں گے۔ اُس کی بیوی کے سوا۔ ہم نے ٹھیرا لیا ہے کہ وہ اُنھی میں ہو گی جو پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ (ترجمہ از البیان)

اس مضمون کی آیتوں ۲۲؂ میں دیکھ لیجیے کہ آل لوط کے بچائے جانے کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے لفظوں کا یہ چناؤ خاص پہلو رکھتا ہے، جو تحقیق طلب ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ عذاب کے موقع پر بچانے کے لیے ایمان کے بجاے ’اہل‘ کا ذکر کیا گیا ہے ؟ان دونوں انبیاے عظام کی دعائیں بھی کچھ اسی مضمون کی ہیں،۲۳؂ جس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کے اہل خانہ کو دعوت کے کسی خاص مرحلے پر یہ اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نصاریٰ کے خلاف مباہلے میں اہل خانہ کی ہلاکت و نجات معیار و دلیل قرار پائی تھی، ویسے ہی ان دونوں کی پوری دعوت ہی شاید مباہلہ نما بن گئی تھی، جن میں اہل خانہ کا بچایا جانا ان کے حق پر ہونے کی دلیل تھا۔ چنانچہ اسی مباہلہ نما صورت حال کے باوصف ان دونوں کے اہل خانہ کو ہر صورت بچایا گیا۔
۴۔ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء میں طبع شدہ اس مضمون میں ایک دل چسپ تضاد بھی اسی بحث میں آپ کو ملے گا۔ مضمون کے پہلے حصے میں میری بات کو تسلیم کرلیا گیا، اور دوسرے حصے میں اسی آیت سے دوسرے معنی پر استشہاد کیا گیا ہے:

حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَالتَّنُّوْرُ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلٌ. (ہود ۱۱: ۴۰)
’’یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور طوفان ابل پڑا تو ہم نے کہا:ہر قسم کے جانوروں میں سے نر و مادہ، ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی (اِس کشتی میں سوار کرا لو)، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں۔ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘(ترجمہ از البیان)

اس آیت کے بارے میں میری بات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا گیا کہ(خط کشیدہ الفاظ نگاہ میں رہیں):

’’دیکھ لیاجاسکتاہے کہ یہاں ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کو ’اَھْلَکَ‘ پرعطف کیاگیاہے۔ یہ مغایرت کا تقاضا کرتا اور یوں بڑی خوبی سے اس بات کو بیان کردیتا ہے کہ نوح کو اپنے اہل کے علاوہ کچھ اورمومنین کوبھی سوارکرنے کاحکم ہواتھا۔‘‘(ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۴۷) 

لیکن آگے چل کر اس بات کو فراموش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دو مقامات پر ’اَھْلَکَ‘ کالفظ استعمال ہواہے،مگران دونوں مقامات پر وہ اپنے عموم کے بجاے تخصیص میں ہوا ہے۔ یعنی،اس لفظ سے مراد تمام اہل وعیال سرے سے ہے ہی نہیں کہ اس سے کوئی شخص اہل ہونے کونجات کی وجہ قراردے۔مذکورہ بالاآیت میں اس تخصیص کی دلیل اس لفظ کو استعمال کرنے کا موقع اور اس پرعطف ہونے والے ’وَمَنْ اٰمَنَ‘ کے الفاظ ہیں۔‘‘ (ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۵۰)

نہ جانے وہ کون سی منطق ہے، جس سے ایک ہی لفظ ایک ہی آیت میں نقیضین کے لیے دلیل بن رہا ہو ۔یعنی ایک طرف یہ اہل وعیال سے مغایرت بن رہا ہو اور دوسری طرف وہ ان کے لیے ایمان کے لحاظ سے تخصیص کا باعث بھی ہو۔مغایرت اور یہاں پیش نظر تخصیص ایک ساتھ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ مثلاً یہ جملہ دیکھیے کہ:

بیٹا اپنے بچوں کو اورپاکستانی بچوں کو لیتے آنا۔

’پاکستانی بچوں کو لیتے آنا‘ سے یہ تخصیص کیسے ہوگی کہ ’’اپنے بچے‘‘ بھی پاکستانی ہوں۔ 
۵۔ اس ضمن میں، یعنی ’’اہل کو محض اہل ہونے کی بنا پر کشتی میں سوار کرنے‘‘ کی میری راے کے رد میں ایک اور دلیل دی گئی ہے کہ:

’’دوسرے اس پرآنے والا ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ کا استثنا ہے جس نے واضح طورپر بتادیاہے کہ سوار ہونے کے اس حکم میں اہل سے آپ کے تمام اہل نہیں، بلکہ وہ خاص اہل مرادہیں جن کے بارے میں خداکے عذاب کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا۔بلکہ دوسری جگہ پراِس استثنا کے بعدآنے والے ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا۲۴؂ ‘ کے الفاظ نے توسلبی طریقے سے بھی اس تخصیص کو نمایاں کر دیا ہے۔‘‘ (ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۵۰)

اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ کے الفاظ بلاشبہ تخصیص کررہے ہیں ۔ لیکن تخصیص کا جو پہلو یہاں بیان ہوا ہے: ’’جن کے بارے میں خدا کے عذاب کا فیصلہ صادر نہیں ہو چکا‘‘، اس کے تعین کی کوئی وجہ کلام میں موجود نہیں ہے ۔ اگر بفرض محال میں اسے مان بھی لوں تو میں یہ کہوں گا کہ ہاں ابن نوح کے بارے میں یہ فیصلہ صادر ہو چکا تھا، اس لیے اس کے سوا باقی اہل خانہ سوار کرلیے گئے۔لیکن یہ فیصلہ اس کے بارے میں کیوں صادر ہوا، اس کی ایمان کے علاوہ وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔کلام میں کوئی وجہ ایمان سے تخصیص کی موجود نہیں ہے۔ ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ‘ اس جملے کا جس طرح مصداق ’’کافر ہونا‘‘ ہو سکتا ہے، اسی طرح ’’غیر اہل ہونا‘‘ بھی ہو سکتا ہے۔مراد یہ ہے کہ جو اہل ہونے کے معیار پر پورا نہیں اترے گا ، اسے سوار نہیں کیا جائے گا ۔
رہا ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘ کا معاملہ تو مجھے اس سے بھی اتفاق نہیں ہے کہ یہ جملہ تخصیص کے محل میں ہے۔یہ جملہ محض تنبیہ و تاکید کاہے کہ جب ظالم غرق ہوں تو اس وقت آپ ظالموں کی ہم دردی میں مجھ سے بات نہیں کریں گے۔ حضرت نوح کا ہلاک ہونے والا بیٹا یقیناًاہل میں سے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ایمان میں سے بھی نہیں تھا،ورنہ دو میں سے کسی شرط کے پورا ہونے پر بچا لیا جاتا۔ لہٰذا، بیٹے سمیت ہلاک ہونے والے سب کے سب ظالم تھے، انھی کے بارے میں بات ہو رہی ہے کہ ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘، ’’تم ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات بھی نہ کرنا‘‘۔ پچھلے کلام کے لیے اس میں تخصیص نام کی کوئی چیز اشارہ کی حد تک بھی موجود نہیں ہے۔ میری بات تو تب رد ہوتی کہ ہلاک ہونے والا بیٹا ظالموں میں سے نہ ہوتا، اور یہ جملہ بولا گیا ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ظالم بھی تھا اور بے نسب بھی۔ 
اور اگر تخصیص کے محل میں مان بھی لیں تو تب بھی یہ جملہ کشتی کے سوار وں کی تخصیص نہیں کرتا۔کشتی والوں کا بیانِ استثنا ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْھُمْ‘ پر ختم ہو جاتا ہے۔ ’وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘ والا جملہ صرف یہ بتا رہا ہے کہ ہلاک ہونے والے سب ظالم ہی ہوں گے۔یہ نہیں کہتا کہ بچنے والے ظالم نہیں ہوں گے۔ اگر جملہ یوں ہوتا کہ: ’اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ‘، تو یقیناً تخصیص قائم ہو جاتی۔ یہاں تو جو جملہ —— یعنی ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْھُمْ‘ —— ان کے استثنا کے لیے آرہا ہے، وہ ایمان و کفر کی کسی چیز کا حامل نہیں ہے۔
۶۔حضرت نوح کی بیوی کے خائن ہونے کے معنی کیا ہیں؟ میرے لیے یہ نہایت تکلیف دہ امر ہے کہ میں ان اولوالعزم اور جلیل القدر رسولوں کے بارے میں اس موضوع پر زور قلم صرف کروں۔ لیکن چونکہ یہاں استدلال درست استوار نہیں کیا گیا ہے، اس لیے اس کا تجزیہ ضروری ہے ۔ یہاں صاحب مضمون نے زیادہ تر استدلال کے بجاے اپنے مزعومات کو پیش کیا ہے۔ان سب کا ایک اصولی اور مختصر جواب تو یہ ہے کہ جب اللہ نے اسے خائن کہا ہے تو میرا تو اس میں قصور نہیں ہے۔وہ مزعومات جو معترض نے پیش کیے ہیں، کچھ ایسے ہیں: مثلاً یہ کہ حضرت نوح کو اللہ نے کیوں نہیں بتایا کہ ان کی بیوی بد چلن ہے، وہ عذاب تک ان کی بیوی کیوں رہی وغیرہ۔محض خود ساختہ باتیں ہیں۔ ۲۵؂ خود جس معنی میں انھوں نے زوجۂ نوح کو خائن مانا ہے، یہ سب سوالات اس لحاظ سے بھی پیدا ہوجائیں گے۔ کہیں ان کی شدت کم اورکہیں زیادہ ہو جائے گی۔البتہ ہمارے دوست نے یہ جو کہا ہے، اسے ضرور سمجھ لینا چاہیے کہ :

’’جہاں تک خیانت کاتعلق ہے، تویہ بات واضح رہنی چاہیے کہ محض یہ لفظ اُن کی عورت پراتنابڑاالزام لگادینے کے لیے ہرگزصریح نہیں ہے۔عربی زبان میں یہ لفظ اصل میں امانت کے مقابلے میں آتااورامین بنادینے کے بعد کسی شخص پرجواعتمادپیداہوتاہے ،اُس کے مجروح ہوجانے پراستعمال کیا جاتا ہے۔ ... بدچلنی توکسی صورت نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ اس دعوے کے لیے جس درجے کاقرینہ چاہیے ،وہ اشارے کی حدتک بھی کہیں کلام میں موجودنہیں ہے۔‘‘(ماہنامہ ’’اشراق‘‘ نومبر ۲۰۱۸ء ، ۵۲) 

عمومی مستعمل معنی کے لیے قرائن فراہم کرنے کا مطالبہ غیر علمی تقاضا ہے۔ مثلاًاگر کوئی یہ کہے کہ ’’تھوڑی سی پیتا ہوں‘‘۔ تو اس میں شراب نوشی کے لیے قرینہ کا مطالبہ نہایت تعجب کی بات ہوگی۔عربی زبان کا یہ اسلوب واضح ہے کہ جب بھی کہا جائے کہ ’خانت بعلہا‘ (اس نے شوہر سے خیانت کی)، اور یہ نہ بتایا جائے کہ خیانت کس معاملے۲۶؂ میں کی تو مراد صرف بدچلنی ہی ہوگی۔ جیسے ہماری اردو میں بے وفائی کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور انگریزی میںcheat her husband کا۔ آیت دیکھیے: ’...امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰھُمَا...‘ (التحریم ۶۶: ۱۰)، اس میں کسی اور معاملے کا ذکر نہیں ہے۔بس شوہروں کے ساتھ خیانت کا ذکر ہے۔ جب سیدہ عائشہ پر نازیبا تہمت لگی، تو اس واقعہ کی روایات میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ کے بارے میں جو جملہ نبی کریم کو کہا، اس کے الفاظ یہ تھے: ’الَّتِي خَانَتْکَ، وَفَضَحَتْنِي‘ ۲۷؂ (المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۶۳۸۹)۔ اسی طرح بری بیوی کے اوصاف بتاتے ہوئے ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ’وَامْرَأَۃٌ غَابَ زَوْجُہَا وَقَدْ کَفَاہَا مُؤْنَۃَ الدُّنْیَا فَخَانَتْہُ بَعْدَہُ‘ ۲۸؂ (ابن حبان، رقم ۴۵۵۹)۔ عباسی دور کے ایک شاعر ابن رومی کا شعر ہے:

خانت بہ أمُّہ أباہُ        فعینُہ عینُہا الخَؤونُ۲۹؂

مختصر یہ کہ یہ اسلوب واضح اور دو ٹوک ہے۔آج بھی عربوں کے ہاں اس کے لیے باقاعدہ ایک اصطلاح: ’الخیانۃ الزوجیۃ‘ استعمال ہوتی ہے۔ اس کے معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ میاں یا بیوی کا کسی غیر مردو عورت سے تعلق رکھ کر اپنے جوڑے سے خیانت کرنا۔حقیقت یہ ہے کہ دوسرے معنی لینے کے لیے یہاں قرائن کی ضرورت ہے۔اگر قرینے ہی کے پہلو سے بات کریں تو خیانت کی شوہر یا بیوی کی طرف نسبت ہی اس کا دو ٹوک قرینہ ہے، جسے یہاں ’فَخَانَتَاہُمَا‘ کے الفاظ سے بتایا گیا ہے۔خیانت کرنے والی دو عورتیں ہیں جنھوں نے اپنے شوہروں کے نکاح میں ہوتے ہوئے خیانت کی۔ نکاح کا قرینہ فراہم کرنے کے لیے ’تَحْتَ عَبْدَیْنِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، وگرنہ کلام میں ان الفاظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
۷۔ اس زیر بحث مضمون میں ، امانت کا ایک عجیب پہلو بھی بیان ہوا ہے کہ نوح اور لوط علیہما السلام کو بڑی امید تھی کہ ان کی بیویاں حق کو قبول کرتے ہوئے اپنے شوہروں کی مؤید و معاون بنیں گی، لیکن انھوں نے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی (اشراق ۵۳)۔ اگریہی امانت ہے تو پھر اسی سورہ میں اسی آیت کے فوراً بعد فرعون کی بیوی کا ذکر آیا ہے ۔ ان کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جو شوہر کی مؤید و معاون ہونے کے بجاے موسیٰ علیہ السلام کے دین پر آگئی تھیں۔ اگر پہلی چیز شوہر کی خیانت ہے تو دوسری کیوں نہیں؟ ہے نہ طرفہ تماشا!

وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ.(التحریم ۶۶: ۱۱)
’’اللہ ماننے والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے، جب اُس نے دعا کی: پروردگار، میرے لیے جنت میں اپنے ہاں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے نجات دے اور اِس ظالم قوم سے نجات عطا فرما۔‘‘

۸۔ حضرت نوح کا بیٹا انھی کی صلب سے تھا، کو ثابت کرتے ہوئے ہمارے دوست نے ایک اور دلیل دی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’خداے علام نے کسی اور کی زبان سے نہیں، بلکہ اپنی طرف سے تبصرہ کرتے ہوئے اسے نوح کا بیٹا قرار دیا ہے۔ فرمایا ہے: ’...وَنَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ‘ (ہود ۱۱: ۴۲)‘‘۔ یہ استدلال درست نہیں۔ واضح رہے کہ ’’اپنی طرف سے تبصرہ کرنے‘‘۳۰؂ اور ’’حکایت کرنے‘‘ میں بہت فرق ہوتا ہے۔مندرجہ بالا جملے میں اللہ کا تبصرہ تو کہیں نہیں ہے، البتہ، جو حضرت نوح نے کیا، اللہ تعالیٰ اسے حکایت کررہے ہیں۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے ہی کو پکارا تھا۔وہ اللہ کی اطلاع سے پہلے اسے اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے۔تو صحیح بات یہ ہے کہ یہ اللہ کا تبصرہ ہر گز نہیں ہے، محض حکایتِ ماجرا ہے۔ اس سے یہ دلیل ہر گز نہیں نکالی جاسکتی،جو ہمارے دوست نے برآمد کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہاں، اس صورت میں کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ اللہ نے اس کی تردید نہیں کی، تو اس لیے اس کے حقیقت ہونے کا امکان ہے۔ لیکن قسمت سے یہاں اس کی تردید بھی کلام میں موجود ہے۔ حضرت نوح کے اپنے بیٹے کو پکارنے کی حکایت بیالیسویں ۳۱؂ آیت میں ہے اور چھیالیسویں آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تردید آگئی ہے۔ اس مقام پر نگاہ ڈال لیجیے۔ ہم طوالت سے بچنے کے لیے صرف تردید والی چھیالیسویں آیت ہی اقتباس کررہے ہیں:

قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَاِلحٍ فَلَا تَسْئَلْنِ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْٓ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ.(ہود ۱۱: ۴۶) 
’’فرمایا: اے نوح، وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ نہایت نابکار ہے۔ سو مجھ سے اُس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تجھے کچھ علم نہیں ہے۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔‘‘ (ترجمہ از البیان)

اس پر آخری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکایتِ ماجرا کی مجبوری ہے کہ اس ناخلف کو حضرت نوح کا بیٹا کہہ کر ہی ذکر کیا جائے گا، اس لیے کہ اسے بیٹا کہے بغیر حکایت ممکن ہی نہیں ہے۔ جو بات کہنا پیش نظر ہے، اس کے لیے اسے ’بیٹا‘ کے لفظ کا حوالہ دیا جانا ضروری ہے۔ میں اپنے پورے مضمون میں اس کے باوجود کہ اسے نوح علیہ السلام کا بیٹا نہیں مانتا ، مگر لکھنا یہی پڑا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حقیقت کے خلاف ہونے کے باوجود لکھنا یہی پڑے گا کہ بقول نصاریٰ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ وہ واقعہ جو ان آیات میں بیان ہوا ہے، وہ اسے بیٹا کہے بغیر بیان کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ واقعہ جب وقوع پذیر ہورہا تھا تو حضرت نوح اس سے بیٹے ہی کی طرح معاملات کررہے تھے۔ ایک موٹی سی مثال دیکھیں: اگر پہلے ’وَنَادٰی نُوحُنِ ابْنَہٗ‘ حکایت نہ کیا جائے تو حضرت نوح کا یہ جملہ آیا حکایت کیا جاسکے گا کہ ’یّٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا‘؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ 
حکایت اور تبصرہ کے فرق کو نہ سمجھنے ہی کی وجہ سے لوگ قرآن پر اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کا مصنف یہ مانتا ہے کہ زمین پر ہی سورج کے غروب ہونے کی ایک جگہ ہے، وہاں سیاہ کیچڑ کا ایک چشمہ ہے ،اور واقعتا سورج روزانہ اس چشمہ میں جا ڈوبتا ہے۔قرآن کا یہ مقام یوں ہے:

حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِءَۃٍ....(الکہف ۱۸: ۸۶)
’’یہاں تک کہ جب ذوالقرنین سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا تو اُس نے سورج کو دیکھا کہ ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوب رہا ہے...۔‘‘ (ترجمہ از البیان)

کیا خیال ہے، اسے بھی اللہ کا تبصرہ نہ سمجھ لیا جائے، اور مان لیا جائے کہ واقعی سورج زمین پرہی کسی جگہ غروب ہوتا ہے اور واقعتا وہاں سیاہ کیچڑ کا ایک چشمہ ہے جس میں وہ ہر شام کو ڈوبتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ماننا ممکن نہیں ہے ، حالاں کہ اس کی تردید بھی نہیں آئی، اس لیے ضروری ہے کہ حکایت اور تبصرۂ الٰہی میں فرق ملحوظ رکھا جائے، وگرنہ کئی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
یہ ہمارے اس عزیزدوست کا نقد تھا جس نے حال ہی میں قرآن کے گہرے مطالعے کا کام بڑی جاں فشانی سے مکمل کیا ہے، ’بارک اللّٰہ فیہ‘۔ لہٰذا ، توقع یہی ہے کہ قرآن کے تمام مقامات جو اس موضوع پر پیش کیے جاسکتے تھے، سامنے آگئے ہوں گے۔اپنے دوست کی اس گراں قدر خدمت پر ان کا تہ دل سے شکرگزار ہوں۔ اس نقد کے جائزے کے بعد اب میں مزیدتسلی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ قرآن کے واضح بیانات کے مطابق بنی اسرائیل حضرت نوح علیہ السلام کی نہیں، بلکہ ان کے کسی ساتھی کی نسل سے ہیں۔ لہٰذا، حضرت ابراہیم حضرت نوح کے خانوادے سے نہیں، بلکہ نوح علیہما السلام کے ساتھی ’عَبْدًا شَکْوْرًا‘ کی اولاد سے ہیں۔ دنیا میں حضرتِ نوح ہی کی نہیں، کئی اور نسلیں بھی آباد ہیں، اور یہ کہ حضرت نوح کا بیٹا، ان کے اہل خانہ میں سے نہیں تھا۔ والعلم عند اللّٰہ۔

________

۱؂ اس آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کے اہل خانہ کو اہل خانہ ہونے کی بنا پر کشتی کے سواروں میں شامل کیا گیا۔
۲؂ سورۂ بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت ’ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ‘ میں آیا ہوا ’مَنْ‘ جمع کے معنی میں نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ ذریت سے اضافت ا س میں مانع ہے۔
۳؂ واضح رہے کہ یہ اس وقت پیچیدہ نہیں رہتا، جب اسے اس معنی میں لیا جائے، جو میں نے بیان کیے ہیں۔ اس صورت میں اس اسلوب کے اختیار کرنے کی وجہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح کے اس ہم سفر کا نام چونکہ ہم نہیں جانتے، اس لیے ان کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے۔
۴؂ اس ضمیر کا یوں لانا، صاف واضح کررہا ہے کہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہے کہ یہ انبیا حضرت نوح علیہم السلام کی نسل سے نہیں ہیں۔
۵؂ یہ حذف ہم نے اس آیت کی وجہ سے کھولا ہے:... ’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۱۵)۔ باقی ترجمہ استاذی الجلیل کی تفسیر ’’البیان‘‘ سے ہے۔
۶؂ دیکھیے حاشیہ ۳۔
۷؂ ’قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ یٰنُوْحُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِیْنَ‘ (الشعراء ۲۶: ۱۱۶)۔
۸؂ اس جملے میں ’’ترتیب‘‘ اور پھر ’’ایک دوسرے کی اولاد‘‘ جمع نقیضین کی نہایت صریح مثال ہے۔
۹؂ ہمارے دوست کے بتائے ہوئے اصول پر اس کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے: عورت بالترتیب مذکر سے ہے۔ ظاہر ہے، یہ مرکب ترتیب اورصرف ایک طرف سے ہونے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے آتا ہی نہیں۔
۱۰؂ ’لوگوں‘ ترجمہ ہے ’ذُرِّیَّتَہُمْ‘ کا ۔ا ستاذی الجلیل، اس آیت میں موجود لفظ ’ذریت‘ پر نوٹ لکھتے ہوئے رقم فرما ہیں:

’’یعنی اِن کے ابناے نوع کو۔ اِس سے بنی آدم مراد ہیں۔‘‘

۱۱؂ سواے اس کے کہ ذریت کوکسی غیر معروف معنی میں لیا جائے۔ جیسے بعض لوگوں نے ’آبا‘ کے معنی میں لیا ہے۔

۱۲؂ کتاب خروج ۴: ۶۔
۱۳؂ طٰہٰ۲۰: ۲۲۔
۱۴؂ خروج ۲۰: ۱۱۔
۱۵؂ ق ۵۰: ۳۸۔
۱۶؂ النساء ۴: ۱۵۷۔
۱۷؂ اس سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کے اہل خانہ کے لیے ایمان کی شرط نہیں تھی۔
۱۸؂ واضح ہے کہ یہاں یہ اسلوب اختیار نہیں کیا گیا، جو حضرت شعیب کے بارے میں اس آیت میں ہے: ’وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ‘ (ہود ۱۱: ۹۴)۔
۱۹؂ مزید وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ تحریم کی دسویں آیت۔
۲۰؂ ان سے پہلے کی معلومات میسر نہیں ہیں، ہوسکتا ہے پہلے بھی ایسا رہا ہو۔
۲۱؂ مثلاً دیکھیے: ’وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ فَمِنْھُمْ مُّھْتَدٍ وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ‘ (الحدید ۵۷: ۲۶)۔ قرآن میں سورۂ انعام (۶) کی آیات ۸۴ تا ۸۷ والا مقام بہت دل نواز ہے۔ آیت ۸۴ میں ’وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ‘ا ور ۸۶، ۸۷ میں ’وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَ لُوْطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ. وَمِنْ اٰبَآئِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ‘ پر خاص طور سے نگاہ ڈالیے۔ حضرت ابراہیم کو امامت پر سرفراز کیا جاتا ہے، تو وہ ذریت میں اس کے اجرا کا مطالبہ کرتے ہیں (البقرہ ۲: ۱۲۴)۔ سورۂ عنکبوت (۲۹) میں ابراہیم علیہ السلام کے بارے ہی میں آیا ہے: ’وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰہُ اَجْرَہٗ فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ‘ (۲۷)۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اولاد، آبا اور اخوان وغیرہ میں چناؤ میرٹ پر ہی ہوا کرتاتھا۔
۲۲؂ اسی مضمون کی ایک آیت یہ ہے: ’کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوْطٍ م بِالنُّذُرِ. اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ نَجَّیْنٰھُمْ بِسَحَرٍ‘، ’’قوم لوط نے بھی تنبیہ کو جھٹلا دیا۔ ہم نے اُن پر پتھر برسانے والی ہوا مسلط کر دی۔ صرف لوط کے گھر والے اُس سے محفوظ رہے۔ ہم نے خاص اپنی عنایت سے اُن کو صبح دم نکال دیا۔‘‘ (القمر ۵۴: ۳۳۔ ۳۴۔ ترجمہ از البیان)۔
۲۳؂ نوح و لوط علیہما السلام کی یہ دعائیں ذیل میں ہیں۔
حضرت نوح کی دعا: 

وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ.(الانبیاء ۲۱: ۷۶)
’’یاد کرو، اِن سب لوگوں سے پہلے جب نوح نے پکارا تو ہم نے اُس کی دعا قبول کی اور اُسے اور اُس کے اہل کو بڑی مصیبت سے نجات بخشی ۔‘‘

حضرت لوط کی دعا:

رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَھْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ. فَنَجَّیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗٓ اَجْمَعِیْنَ. اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ.(الشعراء ۲۶: ۱۶۹۔ ۱۷۱) 
’’(تب لوط نے دعا کی): میرے پروردگار، تو مجھے اور میرے گھر والوں کو اُس عمل کے انجام سے نجات عطا فرما جو یہ کر رہے ہیں۔ سو ہم نے اُسے اور اُس کے سب گھر والوں کو نجات دی۔ ایک بڑھیا کے سوا جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئی۔‘‘ (ترجمہ از البیان)۔

ان دونوں دعاؤں میں اہل ایمان کی نہیں اہل خانہ کی نجات طلب کی گئی ہے۔اس پہلو کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن ان کے اہل کا اس اہتمام سے ذکر کیوں کرتا ہے۔
۲۴؂ پورا جملہ یوں ہے: ’... فَاسْلُکْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ مِنْھُمْ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ‘ (المومنون ۲۳: ۲۷)۔
۲۵؂ مثلاً اسی بات کودیکھیں کہ وہ عذاب تک ان کی بیوی کیوں رہی؟ غیر ضروری سوال ہے؟ کہاں آیا ہے کہ وہ عذاب تک ساتھ ہی تھی، پھر کیسے معلوم ہوا کہ وہ دائمی خائن تھی ؟ اور پھر کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کو نہیں بتایا تھا، اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ بتانے کے بعد بیٹے کے نسب پر لازماً سوال اٹھے گا۔ لہٰذا، اس طرح کی باتیں محض مزعومہ تصورات پر قائم ہیں۔ ان کی اس بحث میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جتنے سوال اٹھائے گئے ہیں، سب کی نوعیت ایسی ہی ہے۔ اگر استدلال کی کوئی قوت ان میں ہوتی تو میں ضرور جواب دیتا۔ 
۲۶؂ مثلاً ’خانت بعلہا في العہد‘ (اس نے عہد میں شوہر سے خیانت کی)۔
۲۷؂ ’’جس نے آپ سے خیانت کی ہے اور مجھے رسوا کیا ہے۔‘‘ (میں صرف لسانی حوالے کے لیے لکھ رہا ہوں، صحتِ واقعہ زیربحث نہیں)۔
۲۸؂ ’’جس کا شوہر مفقود ہو جائے، اس حال میں کہ ضروریات زندگی جمع کرگیا ہو تو وہ اس کے پیچھے اس سے خیانت کرے۔‘‘
۲۹؂ ’’یہ ، جس کی ماں نے اس کے حمل پر اس کے باپ سے خیانت کی، اب اس کی آنکھیں وہی ماں کی خیانت بھری آنکھیں ہیں‘‘۔(نوٹ یہ بہت بعد کا شعر ہے، اس لیے یہ صرف تائیدی طور پر پیش کررہا ہوں۔)
۳۰؂ یہ تعبیر صریح نہیں، لیکن مجانست کے اسلوب پر اسی کو اختیار کررہا ہوں۔
۳۱؂ یہ آیت یوں ہے:

...وَنَادٰی نُوْحُنِ ابْنَہٗ وَکَانَ فِیْ مَعْزِلٍ یّٰبُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ.(ہود ۱۱: ۴۲)
’’...اور نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی، جو (کچھ فاصلے پر اُس سے)الگ تھا، بیٹا: ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور اِن منکروں کے ساتھ نہ رہو۔‘‘ (ترجمہ از البیان)
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2018
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Dec 22, 2018
3322 View