سوال سے احتراز کے بارے میں روایات - امین احسن اصلاحی

سوال سے احتراز کے بارے میں روایات

 

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِی التَّعَفُّفِ عَنِ الْمَسْءَلَۃِ)

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَزِیْدَ اللَّیْثِیِّ عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاھُمْ، ثُمَّ سَأَلُوْہُ فَأَعْطَاھُمْ، حَتّٰی نَفِدَ مَا عِنْدَہُ، ثُمَّ قَالَ: مَا یَکُوْنُ عِنْدِیْ مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَہُ عَنْکُمْ، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ، وَمَنْ یَتَصَبَّرْ یُصَبِّرْہُ اللّٰہُ وَمَا أُعْطِیَ أَحَدٌ عَطَاءً ھُوَ خَیْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ.
’’حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ کچھ انصار آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے سوال کیا تو آپ نے دیا، پھر سوال کیا تو پھر دیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ بھئی! میرے پاس جو مال ہو گا، میں اس کو تم سے اٹھا نہیں رکھوں گا، لیکن یاد رکھو کہ جو پاک دامنی اختیار کرنا چاہے گا، اللہ تعالیٰ اس کو پاک دامنی بخشے گا۔ اور جو استغنا اختیار کرنا چاہے گا، اللہ تعالیٰ اس کو غنی بنا دے گا۔ اور جو صبر اختیار کرنا چاہے گا، اللہ تعالیٰ اس کو صابر بنا دے گا۔ اور یہ یاد رکھو کہ بہترین اور وسیع ترین عطیہ جو خدا کی طرف سے ملتا ہے، وہ صبر ہے۔‘‘

وضاحت

یہ روایت ہے تو ابن شہاب کے ذریعے سے، مگر نہایت لاجواب روایت ہے۔ فلسفۂ دین کے لحاظ سے یہ بہت اہم روایت ہے۔ بس ایسی روایات کی بدولت ابن شہاب کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے اور ان ہی کے پردے میں وہ اپنی خرافات بھی بھر دیتے ہیں۔
اس روایت میں تمام بنیادی اخلاقیات آ گئی ہیں۔ اگر آپ پاک دامن بننا چاہتے ہیں تو امتحان ضرور پیش آئے گا۔ اگر آپ ثابت قدمی سے کوشش کریں گے تو سیدنا یوسف علیہ السلام کی طرح بازی لے جائیں گے۔ اگر آپ ارادہ رکھتے ہیں کہ چاہے کچھ ہو جائے مانگوں گا نہیں تو ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا اور آپ کو غنی کر دے گا۔ علیٰ ہٰذاالقیاس، کسی امتحان میں اگر آپ نے ارادہ کر لیا کہ میں بہرحال استقامت دکھاؤں گا، گردن نہیں جھکاؤں گا تو اللہ تعالیٰ آپ کے اندر وہ صبر و استقامت پیدا کر دے گا جو آپ کو بہت اونچا آدمی بنا دے گا۔ بہرحال، کوشش آپ کی طرف سے ہونی چاہیے۔ آخر میں بتا دیا کہ سب سے وسیع تر نعمت جو خدا سے مل سکتی ہے، وہ صبر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ سارا دین دو ستونوں پر قائم ہے، آدھا شکر پر اور آدھا صبر پر۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ وَھُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ وَھُوَ یَذْکُرُ الصَّدَقَۃَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْءَلَۃِ: أَلْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِنَ الْیَدِ السُّفْلٰی، وَالْیَدُ الْعُلْیَا ھِیَ الْمُنْفِقَۃُ، وَالسُّفْلٰی ھِیَ السَّاءِلَۃُ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے صدقہ پر ابھارتے اور سوال سے احتراز کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اوپر والے ہاتھ سے مطلب خرچ کرنے والا اور نیچے والے ہاتھ سے مراد مانگنے والا ہے۔‘‘

وضاحت

والید العلیا ھی المنفقۃ والسفلٰی ھی السائلۃ‘، میرے نزدیک راوی کی طرف سے شرح ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد صرف اوپر والا ٹکڑا، یعنی ’الید العلیا خیر من الید السفلٰی‘ ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ دینے والے ہاتھ کو لینے والے ہاتھ پر درجے اور مرتبے کے لحاظ سے ترجیح حاصل ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی تلقین ہے کہ آدمی کو جب تک برداشت کر سکے، صبر کر سکے، مانگنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اوپر والی حدیث میں یہ بات آ چکی ہے کہ جو شخص اپنی خودداری کو بچانا چاہے گا، اللہ تعالیٰ اس کی خودداری کو محفوظ رکھے گا۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ اِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعَطَاءٍ فَرَدَّہُ عُمَرُ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لِمَ رَدَدْتَّہُ؟ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلَیْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ خَیْرًا لِأَحَدِنَا أَنْ لَاْیَأْخُذَ مِنْ أَحَدٍ شَیْءًا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا ذٰلِکَ عَنِ الْمَسْءَلَۃِ، فَأَمَّا مَا کَانَ عَنْ غَیْرِ مَسْءَلَۃٍ فَإِنَّمَا ھُوَ رِزْقٌ یَرْزُقُکَہُ اللّٰہُ، فَقَالَ عُمَرُ: أَمَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَا أَسْأَلُ أَحَدًا شَیْءًا، وَلَا یَاتِیْنِیْ مِنْ غَیْرِ مَسْءَلَۃٍ شَئٌ إِلَّا أَخَذْتُہُ.
’’عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی چیز بھیجی تو حضرت عمر نے لوٹا دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں لوٹا دی؟ تو انھوں نے کہا: کیا آپ نے یہ بات نہیں فرمائی تھی کہ ہمارے لیے بہتر ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص کسی سے کوئی چیز قبول نہ کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو اس شکل کے لیے ہے کہ جب کوئی آدمی سوال کرے، مگر بغیر سوال کیے کوئی چیز ملے تو وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں دیتا ہے، تو اس پر حضرت عمر نے کہا کہ خدا کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، اب میں کسی سے مانگوں گا تو نہیں، لیکن اگر کوئی چیز بن مانگے ملے گی تو اس کو قبول کروں گا۔‘‘

وضاحت

اس میں شبہ نہیں کہ بن مانگے جو چیز ملے، وہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رزق ہے، البتہ نہ مانگنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ دل میں اس کی تمنا نہیں ہونی چاہیے۔ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے لیے دل شکنی کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو دل شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی چیز کو خواہ مخواہ رد نہیں کرنا چاہیے، لیکن نہ اس کا طالب ہونا چاہیے نہ خواہش مند۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ، لَأَنْ یَأْخُذَ أَحَدُکُمْ حَبْلَہُ فَیَحْتَطِبَ عَلٰی ظَھْرِہِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یَأْتِیَ رَجُلًا أَعْطَاہُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ فَیَسْأَلُہُ أَعْطَاہُ أَوْ مَنَعَہُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم جس کی مٹھی میں میری جان ہے، یہ بات کہ تم میں سے کوئی رسی اٹھائے اور لکڑیاں جمع کر کے اپنی پیٹھ پر ڈھو کر لائے بہتر ہے اس بات سے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس جس کو خدا نے کچھ دیا ہے، آئے اور اس سے مانگے تو وہ چاہے اس کو دے یا نہ دے۔‘‘

وضاحت

یہ صحیح مومنانہ کردار کی تعلیم ہے۔ مانگنے سے حتی الامکان احتراز کرنا چاہیے۔ البتہ وہ سوال اس سے مستثنیٰ ہو گا جو قومی، دینی، اصلاحی اور رفاہی کاموں کے لیے کیا جائے، اگرچہ اس میں خطرات بہت ہیں۔ اسلام میں اس قسم کے اداروں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پر ہے۔ عوام کے ہاتھوں میں آکر یہ کام تجارت کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔ لیکن جن ممالک میں صحیح قسم کی حکومت رہی ہے، وہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اچھے اہل دین لوگوں کو بھی جھولی اٹھا کر دوسروں کے سامنے چندہ مانگنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِیْ أَسَدٍ اَنَّہُ قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَ أَھْلِیْ بِبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ، فَقَالَ لِیْ أَھْلِیْ: إِذْھَبْ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْأَلْہُ لَنَا شَیْءًا نَأْکُلُہُ وَجَعَلُوْا یَذْکُرُوْنَ مِنْ حَاجَتِھِمْ، فَذَھَبْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُّ عِنْدَہُ رَجُلًا یَسْأَلُہُ وَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: لَا أَجِدُ مَا أُعْطِیْکَ فَتَوَلَّی الرَّجُلُ عَنْہُ وَھُوَ مُغْضِبٌ وَھُوَ یَقُوْلُ: لَعَمْرِیْ إِنَّکَ لَتُعْطِیْ مَنْ شِءْتَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّہُ لَیَغْضَبُ عَلَیَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِیْہِ مَنْ سَأَلَ مِنْکُمْ وَلَہُ أُوقِیَۃٌ أَوْ عَدْلُھَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا قَالَ الْأَسَدِیُّ: فَقُلْتُ: اللُقْحَۃُ لَنَا خَیْرٌ مِنْ أُوقِیَۃٍ. قَالَ مَالِکٌ: وَالْأُوقِیَۃُ أَرْبَعُوْنَ دِرْھَمًا فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْہُ فَقُدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذٰلِکَ بِشَعِیْرٍ وَزَبِیْبٍ فَقَسَمَ لَنَا مِنْہُ حَتّٰی أَغْنَانَا اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ.
وَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ الْعُلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّہُ سَمِعَہُ یَقُوْلُ: مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ عَبْدٌ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ. قَالَ مَالِکٌ: لَا أَدْرِیْ أَیُرْفَعُ ھٰذَا الْحَدِیْثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْ لَا.

’’عطاء بن یسار بنی اسد کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ میں اور میرے گھر والے بقیع غرقد میں اترے۔ گھر والوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ان سے سوال کرو کہ ہمیں کچھ کھانے کو دیں، اور وہ اپنی ضرورت بیان کرنے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں دیکھا کہ ایک شخص آپ سے کچھ سوال کر رہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو فرما رہے ہیں کہ بھئی! میرے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔ وہ شخص وہاں سے مڑا اور غصے میں تھا اور یہ کہہ رہا تھا: خدا کی قسم، آپ تو اس کو دیتے ہیں جس کو چاہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھیے، یہ شخص میرے اوپر غصہ اس بات پر ہو رہا ہے کہ میرے پاس اس کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، اور جس نے تم میں سے سوال کیا جب کہ اس کے پاس ایک اوقیہ یا اس کے برابر مال ہے تو اس کا سوال الحافاً قرار پائے گا اسدی شخص کہتا ہے کہ میں نے (دل میں) کہا کہ ہماری دودھ دینے والی اونٹنی تو ایک اوقیہ سے بہتر ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پس میں وہاں سے پلٹ آیا اور میں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ نہیں مانگا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جَو اور منقیٰ آئے تو آپ نے ہمارے لیے بھی اس میں سے بھیجا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مستغنی کر دیا۔
امام مالک علاء بن عبداالرحمن کے بارے میں بتاتے ہیں کہ انھوں نے ان کو یہ فرماتے سنا کہ کسی مال میں سے صدقہ اس میں کمی نہیں کرتا اور جو شخص عفو و درگذر کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی میں اضافہ کرتا ہے۔ اور جو شخص تواضع کی راہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہے کہ نہیں۔‘‘

وضاحت

اس حدیث میں عطاء بن یسار بنی اسد کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے اس شخص کا نام نہیں لیا ہے۔ محدثین کے اصول کے مطابق اس روایت میں یہ ضعف کا پہلو ہے۔ اس کو صرف امام نسائی نے لیا ہے اور کسی نے نہیں لیا۔ امام مالک علاء بن عبدالرحمن سے روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہے کہ نہیں، گویا امام مالک سندوں کو اہمیت نہیں دیتے، بلکہ بات کو اہمیت دیتے ہیں، اس لیے کہ سندوں میں لپیٹ کر نہ جانے کیا کیا زہر دیا جا سکتا ہے، لیکن بات اگر وزن دار ہوتی ہے، اس کو دل قبول کرتا ہے تو یہ خود اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ کلام بہرحال کسی پاکیزہ منبع سے نکلا ہے۔
بقیع غرقد‘ مسجد نبوی کے قرب میں ایک مقام ہے جس میں قبرستان بھی ہے۔
إلحاف‘ کے معنی لپٹ کر اور پیچھے پڑ کر سوال کرنے کے ہیں۔ ’لَا یَسْءَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا‘ (وہ لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے) میں اصل مقصود سوال کرنے کی نفی ہے۔ ’إِلْحَافًا‘ کی قید اس کے ساتھ صرف سوال کرنے والوں کی عام حالت کی تصویر اور اس کے گھنونے پن کے اظہار کے لیے لگائی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی ایک اوقیہ کے برابر مال رکھتے ہوئے اگر سوال کرے گا تو وہ پیچھے پڑ کر مانگنے والے غیر مستحق سائل کے حکم میں ہو گا۔ راوی نے جب یہ سنا تو سوچا کہ میری اونٹنی کی مالیت تو اس سے زیادہ ہے۔ پھر میں کیوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کروں۔ چنانچہ وہ بغیر اپنا مدعا بیان کیے گھر والوں کے پاس لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت اس طرح پوری کر دی کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جو اور منقیٰ تقسیم کے لیے آ گئے تو آپ نے اس مسافر گھرانے کو بھی حصہ بھجوایا۔
امام مالک نے اوقیہ کی مقدار یہ بتائی کہ یہ چالیس درہم کے برابر ہے۔ یہ تعریف المجہول بالمجہول ہے۔ درہم کے نرخ بدلتے رہتے ہیں، بلکہ ہر چیز کے نرخ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے آپ کوئی حساب ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے۔ موجودہ تمدن کے دور میں ضروری ہے کہ اس طریقہ کی تمام چیزوں میں زیادہ سے زیادہ یکسانی پیدا کر دی جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو بہت مفید ہو گا۔
(تدبر حدیث ۵۳۱۔۵۳۷)

____________
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2015
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Dec 15, 2017
1595 View