اسلام اور موسیقی - سید منظور الحسن

اسلام اور موسیقی

 غنا یا موسیقی مباحات فطرت میں سے ہے۔  اسلامی شریعت نے اسے حرام قرار نہیں دیا۔  لوگ چاہیں تو حمد، نعت، غزل، گیت یا دیگر المیہ، طربیہ اور رزمیہ اصناف شاعری میں فن موسیقی کو استعمال کر سکتے ہیں ۔ شعر و ادب کی ان اصناف میں اگر شرک و الحاد اور فسق و فجور جیسے نفس انسانی کو آلودہ کرنے والے مضامین پائے جائیں تو یہ بہرحال مذموم اور شنیع ہیں ۔  اس شناعت کا باعث ظاہر ہے کہ نفس مضمون ہے۔ نفس مضمون اگر دین و اخلاق کی روسے جائز ہے تو نظم ، نثر ، تقریر، تحریر، صدا کاری یا موسیقی کی صورت میں اس کے تمام ذرائع ابلاغ مباح ہیں ، لیکن اس کے اندر اگر کوئی اخلاقی قباحت موجود ہے تو اس کی حامل مخصوص چیزیں لازماً لغو قرار پائیں گی۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر کسی نعت میں مشرکانہ مضامین کے اشعار ہیں تواس نعت کی شاعری ناجائز سمجھی جائے گی ، صنف نعت ہی کو غلط نہیں کہا جائے گا ۔  اسی طرح اگر کوئی نغمہ فحش شاعری پر مشتمل ہو تواس کے اشعار ہی لائق مذمت ٹھیریں گے، نہ کہ اصناف شعر و نغمہ کو مذموم تصور کیا جائے گا۔  تاہم، کسی موقع پر اگر کوئی اخلاقی برائی کسی مباح چیز کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر لے تو سد ذریعہ کے اصول کے تحت اسے وقتی طور پر ممنوع قرار دیا جا سکتاہے۔

 ہمارے نزدیک اس معاملے میں دین کا اصولی موقف یہی ہے۔ چنانچہ اگر ہم قرآن مجید سے رجوع کریں تو اس کے اندر کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو موسیقی کی حلت و حرمت کے بارے میں کسی حکم کو بیان کر رہی ہو۔  البتہ اس میں بعض ایسے اشارات ضرور موجود ہیں جن سے موسیقی کے جائز اور مباح ہونے کی تائید ہوتی ہے۔  مثال کے طور پر اس کی آیات میں قوافی کے التزام کی بنا پر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس میں صوتی آہنگ کی رعایت کی گئی ہے۔ مزید برآں اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام جب اللہ کی حمد و ثنا کرتے تو اللہ کے اذن سے پہاڑ اور پرندے ان کے ہم نوا ہو جاتے تھے، جب کہ قدیم صحائف میں یہ بات درج ہے کہ سیدنا داؤد  علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ساز و سرود کے ساتھ کرتے تھے۔ 

احادیث نبوی کے مجموعوں میں صحیح اور حسن کے درجے کی متعدد روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے ایک موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گانا سنا (بخاری، رقم ۹۰۷)؛ شادی کی ایک تقریب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو گانے کے لیے کہا اور مثبت طور پر اس بات کا اظہار فرمایا کہ انصار گانے کوپسند کرتے ہیں (ابن ماجہ، رقم ۱۹۰۰)؛ ہجرت کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے تو عورتوں اور بچوں نے دف بجا کر استقبالیہ گیت گائے اور آپ نے انھیں پسند فرمایا (ابن ماجہ، رقم۱۸۹۹)؛ ایک مغنیہ نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا گانا سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے سیدہ عائشہ کو اس کا گانا سنوایا (سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۸۹۶۰)؛ آپ کے سامنے آلۂ موسیقی دف بجایا گیا تو آپ نے منع نہیں فرمایا، بلکہ ایک موقع پر اعلان نکاح کے لیے آپ نے دف بجانے کی تاکید فرمائی (بخاری رقم، ۳۷۷۹)، (ابن ماجہ، رقم۱۸۹۶)؛ سفروں میں آپ نے صحرائی گیتوں کی معروف قسم حدی خوانی کو نہ صرف پسند فرمایا، بلکہ اپنے اونٹوں کے لیے ایک خوش آواز حدی خوان بھی مقرر کیا (بخاری، رقم ۳۹۶۰، ۵۸۵۷)۔

یہ اور اس نوعیت کی موسیقی کے جواز پر دلالت کرنے والی روایتوں کے علاوہ اس کی ممانعت کی روایتیں بھی حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں ، مگر ان میں سے بیش تر کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔  ان میں سے جو صحیح کے درجے کی ہیں ، وہ موسیقی کی حرمت کے لیے صریح نہیں ہیں ۔ تاہم، ان کی صحت اور ضعف سے قطع نظر ان کے مضامین سے واضح ہوتا ہے کہ موسیقی یا آلات موسیقی کی شناعت کا سبب ان کی بعض صورتوں کا شراب نوشی، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے ۔  مثال کے طور پر صحیح بخاری میں بیان ہوا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو شرم گاہ (زنا)، ریشم، شراب اور معازف (سازوں ) کو حلال کر لیں گے۔ اسی طرح ابوداؤد میں نقل ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سر راہ بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں رکھ لیں اور راستہ تبدیل کر لیا۔

اصل میں عرب میں ناچ گانا اور شراب لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے تھے اور آلات موسیقی زیادہ تر عریانی اور فحاشی کی محفلوں ہی کے ساتھ خاص ہو کر رہ گئے تھے۔  چنانچہ ایسی مجالس عام تھیں جن میں امرا اظہار تکبر کے لیے ریشمی لباس پہن کر شریک ہوتے، سازوں کے ساتھ ناچ گانے کا اہتمام کیا جاتا ، شراب نوشی کی جاتی اور ان کا اختتام فواحش پر ہوتا تھا۔  اس نوعیت کی موسیقی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب سے حرمت اور شناعت کے حکم کا صدور اور ناپسندیدگی کا اظہار عین قرین قیاس ہے۔  تاہم چونکہ صحیح احادیث کی بنا پر موسیقی کی اباحت پوری طرح مسلم ہے، اس لیے اسے علی الاطلاق حرام قرار دینا درست نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم و جدید دور کے متعدد اہل علم اس کی اباحت کے قائل ہیں :

امام غزالی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

’’واضح رہے کہ سماع (موسیقی) کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ (یہ ایک گناہ ہے اور) اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ فرمائیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات محض عقل کی بنیاد پر نہیں کہی جا سکتی، بلکہ اس کا تعلق سمع، یعنی نقل سے ہے۔  شرعی احکام نص پر مبنی ہوتے ہیں یا انھیں نص پر قیاس کیا جاتا ہے۔  نص سے مراد وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے صریح طور پر معلوم ہو اور قیاس سے مراد وہ بات ہے جو آپ کے قول یا فعل سے مفہوم ہو۔  چنانچہ اگر سماع (کی حرمت) کے بارے میں نہ کوئی نص ہے اور نہ کسی نص پر اسے قیاس کیا جا سکتا ہے تو سماع (موسیقی) کے حرام ہونے کا دعویٰ ہی باطل ہو جاتا ہے۔  اس صورت میں اس کی نوعیت دوسرے مباحات کی طرح ایک ایسے مباح کی ہے جس میں کوئی مضایقہ نہ ہو۔  سماع کی حرمت کے بارے میں نہ کوئی نص موجود ہے اور نہ کوئی قیاس ہے۔ ‘‘ (احیاء علوم الدین ۲/ ۲۷۰)

مولانا ابو الکلام آزاد کا نقطۂ نظر یہ ہے:

’’اس بات کی عام طور پر شہرت ہو گئی ہے کہ اسلام کادینی مزاج فنون لطیفہ کے خلاف ہے، اور موسیقی محرمات شرعیہ میں داخل ہے حالانکہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ فقہا نے سدوسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا، اور یہ تشدد بھی باب قضا ء سے تھا، نہ کہ باب تشریع سے، قضاء کا میدان نہایت وسیع ہے ہر چیز جو سوء استعمال سے کسی مفسدہ کا وسیلہ بن جائے، قضاء ردکی جاسکتی ہے۔  لیکن اس سے تشریع کا حکم اصلی اپنی جگہ سے نہیں ہل جاسکتا۔ ‘‘ (غبار خاطر۳۶۳)

علامہ یوسف القرضاوی نے اس موضوع پر ایک مفصل مقالے میں یہ بیان کیا ہے:

’’علما ء اسلام نے ایک اصول طے کیا ہے کہ چیزوں کی اصل اباحت ہے یعنی اس کا جائز ہونا ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں ۔  (البقرہ: ۲۹)

اور کوئی چیز اس وقت تک حرام نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سلسلہ میں کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ سے کوئی صحیح اور صریح دلیل نہ وارد ہوئی ہو یا اجماع نہ ثابت ہو۔  اس لیے جب تک کوئی دلیل وارد نہ ہو یا اجماع ثابت نہ ہو یا کوئی نص صریح ہو لیکن صحیح نہ ہو یا صحیح ہو صریح نہ ہو اس وقت تک کوئی چیز حرام نہیں ہو سکتی اور چیزوں کی حلت پر اثر انداز بھی نہیں ہو سکتی بلکہ وہ چیز وسیع دائرۂ عفو میں داخل رہے گی... گانے کو حرام قرار دینے والوں نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ صحیح ہیں تو صریح نہیں یا صریح ہیں تو صحیح نہیں ، اور ایک بھی ایسی مرفوع حدیث اللہ کے رسول سے مروی نہیں جو حرمت پر دلالت کرتی ہو۔ ‘‘(ماہنامہ زندگی نو، انڈیا، نومبر۲۰۰۵ء،۲۷ ، ۳۶ )

 یہاں یہ بات پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ روایتوں میں موسیقی یابعض دیگر فنون لطیفہ کا مثبت ذکر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے آیا بھی ہے تو اس سے فقط ان فنون کی اباحت معلوم ہوتی ہے، میلان، دل چسپی اور اشتغال کا ادنی    ٰدرجے میں بھی کوئی تاثر نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ بات ہر لحاظ سے مسلم ہے کہ کھیل تماشے، شعرو شاعری اور مصوری وموسیقی جیسی چیزوں سے آپ کی ذات اقدس ہمیشہ بالا رہی ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ من جملۂ مباحات ہیں اور شریعت نے انھیں ممنوع قرار نہیں دیا، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے اسالیب جب حد اعتدال سے متجاوز ہو جائیں تو یہی مباحات نمودونمایش، فخرواستکبار اور اشتغال بالادنی  ٰکا مظہر بن جاتے اور انسان کو آخرت سے غافل کر کے دنیا پرستی کی طر ف راغب کردیتے ہیں ۔  یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی ان میں مستغرق ہونے اور انھیں اوڑھنا بچھونا بنا لینے کو ناپسند کرتے ہیں ۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایسی چیزوں کو اصلاً جائز قرار دیا، انھیں اوڑھنا بچھونا بنا لینے کو ناپسند کیا اور اپنے طبعی میلان اور منصبی ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنی ذات کی حد تک ان سے بالعموم گریز ہی کا رویہ اختیار کیا۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2019
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Apr 12, 2019
4154 View