امام احمد بن حنبل - محمد رفیع مفتی

امام احمد بن حنبل

احمد نام، ابو عبداللہ کنیت، شیخ الاسلام اور امام السنۃ ان کے القاب ہیں ۔ امام احمد ۱۶۴ ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ ان کی نشوونما بغداد میں ہوئی اور یہیں ان کی عمر کا اکثر حصہ بسر ہوا ۔ سلسلۂ نسب احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال ہے۔ شیبانی، ذہلی بصری، مروزی، اور بغدادی ان کی نسبتیں ہیں۔ امام احمد خالص عربی النسل تھے۔ ان کا خاندان بنو شیبان میں سے تھا۔ ان کے دادا امویوں کے عہد میں سرخس کے گورنر تھے ۔ والد محمد ایک بہادر سپاہی تھے، والد جوانی ہی میں وفات پا گئے ۔ اس وقت امام احمد صرف تین سال کے تھے۔ ان کی والدہ نے ان کی پرورش کی ۔ ان کا خاندان دنیوی و جاہت کے ساتھ علمی حیثیت سے بھی ممتاز تھا۔

تحصیل علم

امام صاحب کی تعلیم کا سلسلہ بچپن ہی سے شروع ہو گیا تھا ۔ چار سال کی عمر میں انھوں نے قرآن حفظ کر لیا تھا۔ سات سال کی عمر میں حدیث پڑھنا شروع کر دی اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں اس کی باقاعدہ طلب و تکمیل میں مصروف ہو گئے۔

شیوخ و اساتذہ

امام صاحب کے مشہور اساتذہ کے نام یہ ہیں:
حافظ ہشیم بن بشیر واسطی ، امام ابو یوسف ، سفیان بن عیینہ ، سلیمان بن داؤد طیالسی، عبدالرحمن بن مہدی، عبداللہ بن نمیر، وکیع بن جراح ، یحییٰ بن سعید ، امام شافعی۔ 
بغداد میں انھوں نے چار سال تک مشہور محدث حافظ ہشیم بن بشیر واسطی سے کسب فیض کیا۔ بچپن میں امام ابو یوسف کے درس میں بھی شریک ہوئے۔ امام احمد کے اساتذہ میں سب سے ممتاز اور باکمال شخصیت امام شافعی کی ہے۔ امام شافعی فتویٰ دیتے تھے، تو اپنے شاگرد امام احمد سے بھی مشورہ لیتے تھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے بعض اور اساتذہ سے بھی کسب فیض کیا۔
امام احمد عرصہ تک بغداد ہی میں رہ کر وہاں کے مشائخ سے علم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد انھوں نے دوسرے مشہور علمی مراکز کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام اور جزیرہ وغیرہ کا رخ کیا اور ہر جگہ جا کر وہاں کے نام ور محدثین سے استفادہ کیا۔ انھوں نے محدث جریر بن عبدالحمید سے حدیثیں سننے کے لیے ایران کے شہر رے میں جانے کا قصد بھی کیا تھا، مگر خرچ نہ ہونے کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکے۔ اس کثرت اسفار کی وجہ سے اور اپنے غیرمعمولی حافظے کی وجہ سے ان کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔

مجلس درس

چالیس سال کی عمر میں امام احمد درس و تدریس کی مسند پر رونق افروز ہوئے۔ ان کی مجلس درس بڑی با وقار ، سنجیدہ اور شایستہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ ہمہ تن گوش رہتے اور مذا ق و مزاح کا ایک کلمہ بھی زبان پر نہ لاتے۔ ابو عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ امام احمد کی مجلس نہایت با رعب اور پر وقار ہوا کرتی تھی۔ درس میں حاضرین اور شرکا کا جم غفیر ہوتا تھا ۔ علماے سیر بیان کرتے ہیں کہ امام احمد کی مجلس درس میں پانچ پانچ ہزار سامعین ہوا کرتے تھے، جن میں سے پانچ سو لوگ لکھنے والے ہوتے تھے۔

تلامذہ

یہ امام صاحب کی جلالت علمی تھی کہ ان کے اساتذہ نے بھی ان سے کسب فیض کیا۔ امام احمد کے اساتذہ میں سے ان کے تلامذہ درج ذیل ہیں:
حسن بن موسیٰ اشیب ، زیاد بن ایوب، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالرزاق بن ہمام، محمد بن ادریس شافعی، وکیع بن جراح، ہشام بن عبدالملک طیالسی، یحییٰ بن آدم ، یزید بن ہارون ۔

ہم عصروں میں سے تلامذہ

ان کے ہم عصروں کو بھی ان سے شرف تلمذ حاصل ہے:
احمد بن ابی الحواری، حسین بن منصور، عبدالرحمن بن ابراہیم، عبداللہ بن سرخسی، علی بن عبداللہ مدینی ،محمد بن رافع قشری، محمد بن یحییٰ بن ابی سمینہ، یحییٰ بن معین ۔ 
صحاح ستہ کے مصنفین میں سے امام بخاری ، امام مسلم اور ابو داؤد بلا واسطہ ان کے شاگرد ہیں اور امام ترمذی ، نسائی اور ابن ماجہ بالواسطہ کے شاگرد ہیں۔ عام تلامذہ کی تعداد جن میں سے اکثر امام وقت سمجھے جاتے تھے، بے شمار ہے۔

تصنیف و تالیف

المسند جسے مسند احمد کہا جاتا ہے، ان کی بہترین تالیف ہے۔ اس میں نو سو چار صحابہ کی مسانید ہیں۔ اس کتاب کی تہذیب سے پہلے ہی ان کی وفات ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ان کی بعض دوسری تصانیف درج ذیل ہیں: 
کتاب الزہد ، کتاب الناسخ والمنسوخ ، کتاب المنسک الکبیر، کتاب المنسک الصغیر، کتاب حدیث شعبہ، کتاب فضائل الصحابہ، مناقب صدیق اکبر و حسنین ،کتاب الاشربۃ، کتاب التاریخ، کتاب التفسیر ۔

علما کی شہادت

امام احمد کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے متعلق ان کے اساتذہ ، معاصرین اور تلامذہ کے اقوال بکثرت ملتے ہیں ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے جب بغداد کو چھوڑا تو وہاں امام احمد سے زیادہ صاحب علم وفضل اور متدین و متورع کوئی شخص نہیں تھا۔ امام ابو ثور فرماتے ہیں کہ وہ سفیان ثوری سے بڑے عالم و فقیہ ہیں اور وہ ہمارے شیخ و امام ہیں۔ یحییٰ بن معین کا بیان ہے کہ میں نے ان سے بہتر آدمی نہیں دیکھا۔ ان کی تعریف و توصیف میں مبالغہ برا نہیں ہے۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ امام احمد کا اس زمانے میں وہی حال ہے، جو سعید بن مسیب کا ان کے زمانے میں تھا۔

وفات

امام صاحب نے ۷۷ برس کی عمر پائی۔ ۹ روز بیمار رہے۔ عیادت کرنے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ خلیفہ کو خبر ہوئی تو اس نے گلیوں کے صدر دروازوں پر وقائع نگار مقرر کر دیے، جو لوگوں کو امام صاحب کے حال سے مطلع کرتے تھے۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے زائرین چھپ کر دیواریں پھاندتے اور امام صاحب کی زیارت کر آتے، آخری روز ایک بزرگ داخل ہوئے اور فرمایا: احمد خدا کے حضور حاضر ہونے کو یاد کرو تو بے اختیار چیخ نکل گئی اور آنسو رخسار پر ٹپک پڑے۔ بھرائی ہوئی آواز میں بچوں کو بلوایا اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انگلیوں میں خلال کرانے کے لیے کہا ۔ وضو کرتے وقت برابر اللہ کو یاد کرتے رہے۔ وضو کرنے کے بعد روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ تاریخ وفات ۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ ہجری ہے۔ تاریخ وفات میں کچھ اختلاف بھی روایت کیا گیا ہے۔ امام صاحب کے جنازے میں تقریباً آٹھ لاکھ آدمی شریک ہوئے تھے۔ امیر بغداد عبداللہ بن طاہر نے نماز جنازہ پڑھائی۔ وفات کے بعد بھی لوگ ایک عرصہ تک قبر پر آتے اور نماز جنازہ پڑھتے رہے۔

مناقب

امام احمد بڑے بلند پایہ محدث اور ان تمام اوصاف و کمالات سے متصف تھے جو کسی امام حدیث میں ہونے چاہییں۔ ابوزرعہ رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ میں سے کوئی بھی ضبط و حفظ میں ان کے پائے کا نہیں ہے۔ انھیں لاکھوں حدیثیں یاد تھیں۔ شہرت و نام وری اور امامت و سیادت سے کنارہ کش رہنے کے باوجود عالم اسلام کا کوئی گوشہ بھی ان کے آوازۂ شہرت سے خالی نہ تھا۔ 
آپ عشا کے بعد تھوڑی دیر تک آرام فرماتے، پھر ساری رات نماز اور یاد الٰہی میں گزارتے تھے۔ تلاوت قرآن سے بڑا شغف تھا ۔ ہر ساتویں دن ایک قرآن ختم کر لیتے تھے۔ غربت و ناداری کے باوجود طبیعت میں بڑی فیاضی تھی۔ روزوں کے اہتمام کا یہ حال تھا کہ قید کے دوران میں قید خانے میں سحر و افطار کا اہتمام نہ ہونے کے باوجود پانی کے چند گھونٹ پی کر روزہ رکھتے رہے۔ آپ پانچ مرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے، ان پانچ میں سے تین مرتبہ آپ اپنی ناداری کی وجہ سے پا پیادہ حج بیت اللہ کے لیے گئے۔ دنیا سے ان کی بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے کہ مجھے سب سے زیادہ اس دن آرام ملتا ہے جس دن میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ 
امام احمد کی زندگی میں ابتلا کا ایک ایسا دور آیا تھا جس نے ان کی عظمت کردار کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس ابتلا کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے سامنے یہ سوال آیاکہ اللہ کے کلمات مخلوق ہیں یا غیرمخلوق ؟ اولاً اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ مخلوق نہیں ہیں۔اس پر انھوں نے کہا کہ تمھارا قرآن عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا کلمہ کہتا ہے ، لہٰذا عیسیٰ علیہ السلام قرآن کے مطابق غیر مخلوق قرار پائے ۔ یعنی ان کے بارے میں الوہیت کا وہ عقیدہ جو عیسائیوں میں رائج ہے ،وہ قرآن کے مطابق بالکل درست عقیدہ ہے۔ اس الجھن کے سامنے آنے کے بعد حکومت نے یہ موقف سختی سے اپنا لیا کہ قرآن مخلوق ہے، یعنی اللہ کے سبھی کلمات مخلوق ہیں۔ حکومت نے یہ کوشش بھی کی کہ اسی رائے کو سب علماے امت کی تصویب حاصل ہو جائے۔ چنانچہ اس کی خاطر پہلے علما کو قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کئی علما نے یہ موقف اختیار کر لیا۔ جن علما نے بغیر کسی شرعی دلیل کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا، ان پر پھر خوب ظلم و ستم ڈھایا گیاتاکہ وہ خلق قرآن کے قائل ہو جائیں۔
امام احمد کو اسی رائے کا قائل کرنے کے لیے طرموس سے قید و بند کی حالت میں بغداد لایا گیا ۔ ان کے پیروں میں کئی بھاری بیڑیاں پہنا کر انھیں داخل زنداں کیا گیا۔ پھر ان کو جب سزا کے لیے معتصم باللہ کے سامنے پیش کیا گیا تو پہلے درباری علما نے اور خود معتصم نے بھی ان کو عقیدۂ خلق قرآن اختیار کرنے کی دعوت دی ۔اس مقصد کے لیے درباری علما نے ان سے مناظرہ بھی کیا۔ آپ اپنے مخالفین کی ساری دلیلوں کے جواب میں ایک ہی بات کہتے تھے کہ تم اپنی بات کے حق میں کتاب و سنت کی کوئی دلیل پیش کرو تو میں مان لوں گا۔ ان کی یہ استقامت دیکھ کر، جسے درباری علما ان کی طرف سے ہٹ دھرمی کا رویہ قرار دیتے تھے، خلیفہ معتصم باللہ نے ان کو کوڑے لگانے کا فیصلہ کیا اور اس نے جلادوں کو یہ حکم دیا کہ وہ امام احمد کو کوڑے لگائیں۔
امام احمد خود بیان کرتے ہیں کہ معتصم باللہ کے حکم پر کئی جلادوں نے مجھے کوڑے لگائے۔ ہر جلاد مجھے دو کوڑے پوری قوت سے لگاتا اور پیچھے ہٹ جاتا پھر نیا جلاد آتا۔ اس طرح مجھے بہت سے کوڑے لگائے گئے۔ ہر کوڑے پر مجھے غشی طاری ہوجاتی تھی۔ جب کوڑے لگانے بند کر دیے جاتے تو میں ہوش میں آجاتا اور دیکھتا کہ معتصم باللہ میرے پاس موجود ہے اور کہہ رہا ہے کہ احمد تم لوگوں کی بات کیوں نہیں مان لیتے۔ دوسرے حاضرین ان سے مخاطب ہو کر کہتے کہ خلیفہ تم سے درخواست کر رہے ہیں اور تم ان کی بات ٹھکرا رہے ہو۔ امام احمد کہتے ہیں کہ میرے کان میں ان کی باتیں پڑ رہی تھیں، مگر میں کسی بات پر دھیان نہ دیتا تھا ۔ میرا اصرار صرف اس قدرتھا کہ میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کوئی دلیل پیش کرو، میں تمھاری بات تبھی مان سکتا ہوں۔ اس پر مجھے زدوکوب کیا جاتا، بالآخر مار کی شدت سے میرے ہوش و حواس بجا نہ رہے اور تکلیف کا احساس تک ختم ہو گیا۔ اس سے خلیفہ خوف زدہ ہو گیا اور اس نے میری رہائی کافرمان جاری کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس فرمان کے جاری ہونے تک جلاد مجھے کل اسی کوڑے اپنے پورے زور و قوت کے ساتھ لگا چکے تھے۔ بہرحال، اس کے بعد مجھے رہا کر دیا گیا۔ امام صاحب کو اس ابتلا کے دوران میں ۲۸ سے ۳۰ مہینے تک قید و بند اور محن و مشقت میں گزارنے پڑے۔
اس عظیم ابتلا سے جو امام احمد کی ہمت اور ان کی عزیمت کا غیر معمولی نمونہ تھی، ان کی شہرت و مقبولیت میں بڑا اضافہ ہوا۔ امام صاحب کے دوسرے اوصاف و کمالات میں تو اور لوگ بھی ان کے شریک و سہیم ہیں ، لیکن راہ حق میں یہ ثابت قدمی اور اولوالعزمی انھی کے حصے میں آئی ہے۔

 

 

مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 28, 2016
4573 View