امام مسلم بن حجاج - محمد رفیع مفتی

امام مسلم بن حجاج

 آپ کا نام مسلم بن حجاج قیشری ہے۔ ابو الحسین کنیت ہے۔ سلسلۂ نسب مسلم بن حجاج بن مسلم بن ورد بن کوشاد ہے۔ امام مسلم ۲۰۴ ہجری میں یا ایک روایت کے مطابق ۲۰۶ ہجری میں خراسان کے مشہورشہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ امام صاحب کا مولد و مسکن تو بے شک عجم کا یہ شہر ہے ، لیکن ان کا سلسلہ عرب کے مشہور قبیلہ بنی قشیر سے ملتا ہے۔

تحصیل علم

امام صاحب کی تعلیم کا زمانہ وہ زمانہ تھا، جس میں علم حدیث نے صحابہ اور تابعین کے مقدس سینوں سے نکل کر مستقل فن کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور ہزاروں مجتہد اور امام پیدا ہو چکے تھے۔ نیشا پور جس میں امام صاحب کی ولادت ہوئی تھی، محدثین کا پایۂ تخت تھا۔ چنانچہ امام صاحب کو اوائل عمر ہی میں حدیث کے مقدس فن کی طرف توجہ دینے کا موقع ملا۔ انھوں نے بارہ برس کی عمر میں حدیث کی سماعت شروع کر دی تھی، لیکن کس کے سامنے آپ نے سب سے پہلے زانوے تلمذ تہ کیا، اس کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔

شیوخ و اساتذہ

امام مسلم کے نمایاں اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن یحییٰ، حرملہ بن یحییٰ، امام احمد بن حنبل ، عمر و بن سواد ، سعید بن منصور ، ابو مصعب ، امام ذہلی، عبداللہ بن مسلمہ قعنبی۔ 
امام صاحب نے اسحاق بن راہویہ اور امام ذہلی جیسے اساتذہ فن سے نیشا پور میں استفادہ کیا۔دوسرے آئمہ حدیث سے استفادہ کرنے کے لیے آپ عراق، حجاز ، شام اور مصر کے علاقوں میں سفر کر کے گئے۔ بغداد میں علم ہی کی غرض سے متعدد بار آپ کا جانا ہوا۔ وہاں کے محدثین میں سے محمد بن مہران اور ابو غسان سے آپ نے سماعت کی۔ عراق ہی کے سفر میں امام احمد بن حنبل اور عبداللہ بن مسلمہ قعنبی سے استفادہ کیا۔ حجاز میں سعید بن منصور اور ابو مصعب سے روایتیں حاصل کیں۔ مصر میں عمرو بن سواد، حرملہ بن یحییٰ سے کسب فیض کیا۔ آپ نے احمد بن مسلمہ کی رفاقت میں بصرہ و بلخ کا سفر بھی کیا ۔

تلامذہ

امام مسلم سے کسب فیض کرنے والوں میں چند نمایاں نام یہ ہیں : 
امام ترمذی، ابو حاتم رازی، موسیٰ بن ہارون، ابو عوانہ یعقوب بن اسحاق، محمد بن عبدالوہاب فراء، علی بن حسین، حسین بن محمد بن زیاد۔

تصنیف و تالیف

امام صاحب کو تصنیف و تالیف کا فطری شوق تھا۔ آپ کی سب سے اہم تالیف صحیح مسلم ہے۔ اس کتاب کو جس تحقیق اور جامعیت کے ساتھ آپ نے لکھا ہے، وہ اپنی جگہ پر انتہائی قابل داد ہے۔ آپ نے اس کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھی ہیں مثلاً: مسند کبیر، الاسماء والکنی، جامع کبیر، کتاب العلل، کتاب الوحدان۔ 
ان کے علاوہ ۱۴ مزید اہم کتابوں کے نام بھی ملتے ہیں۔

علما کی شہادت

امام صاحب کی طباعی اور ذہانت نے خود ان کے اساتذہ کو اس قدر گرویدہ بنا لیا تھا کہ اسحاق بن راہویہ جیسے امام فن ان الفاظ میں ان کے فضل و کمال کی نسبت پیش گوئی کرتے تھے: 

’’خدا جانے یہ کس بلا کا شخص ہو گا۔‘‘ 

امام صاحب کی تنقید اور حقیقت شناسی کا اس قدر شہرہ تھا کہ ابو زرعہ اور ابو حاتم جیسے ادا شناس ان کو معرفت حدیث میں اپنے زمانے کے سب مشائخ پر ترجیح دیتے تھے۔ اسحاق کو سج خود امام مسلم سے خطاب کرکے فرماتے تھے:

’’جب تک خدا آپ کو مسلمانوں کے لیے زندہ رکھے گا، بھلائی ہمارے ہاتھ سے جانے نہ پائے گی۔ ‘‘

ابو قریش ان کو دنیا بھر کے چار بڑے حفاظ میں شمار کرتے تھے۔

وفات

امام مسلم کی وفات کا واقعہ علم حدیث سے آپ کے غیر معمولی تعلق کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ مجلس درس میں آپ سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ کو وہ حدیث یاد نہ تھی، جب آپ گھر واپس آئے اور آپ نے وہ حدیث تلاش کرنے کا ارادہ کیا تو اسی وقت آپ کو کھجوروں کی ایک تھیلی پیش کی گئی۔ آپ حدیث تلاش کرتے ہوئے بڑے انہماک کی حالت میں تھیلی سے کھجوریں نکال نکال کر کھانے لگ گئے۔ حدیث کی جستجو میں آپ اس قدر محو تھے کہ آپ کو یہ خیال نہ ہوا کہ آپ اس مقدار سے بہت زیادہ کھجوریں کھا چکے ہیں جو ہضم ہو سکتی ہے۔ بالآخر وہ حدیث مل گئی، لیکن اس دوران میں بے خیالی میں آپ حد سے زیادہ کھجوریں کھا چکے تھے، چنانچہ یہ کھجوریں آپ کی رحلت کا سبب بن گئیں۔

مناقب

امام صاحب نہایت پاکیزہ خو اور انصاف پسند آدمی تھے۔ پوری زندگی میں نہ کسی کی غیبت کی اور نہ کسی کو مارا پیٹا یا گالی دی۔ وہ اپنے اساتذہ اور شیوخ کا بے حد احترام فرماتے تھے ۔ نیشا پور کے سفر میں امام بخاری کی خدمت میں بکثرت حاضر ہوتے تھے ، امام مسلم ، امام بخاری کے تبحر علمی اور ان کے زہد و تقویٰ سے بہت متاثر تھے ۔ امام مسلم کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ اپنے ہم عصر امام کی عظمت کو دل و جان سے قبول کیا۔

____________

 

تاریخ: مئی 2004ء
بشکریہ: محمد رفیع مفتی

مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : Feb 17, 2016
6829 View