مولانا وحید الدین خان کا اسلوب تنقید - خورشید احمد ندیم

مولانا وحید الدین خان کا اسلوب تنقید

 مولانا وحید الدین خان کا شمار ہمارے عہد کے ان ممتاز علما میں ہوتا ہے جنھوں نے دین کی تعبیر و تشریح کے باب میں وقیع علمی کام کیا ہے۔ دین اپنی حقیقت میں کیا ہے، اس کائنات میں انسان، کائنات اور خالق کی مثلث کس ضابطے سے وجود میں آتی ہے اوراللہ کا دین عبادات و معاملات کے حوالے سے جو کچھ تعلیم کرتا ہے، وہ کس طرح ان تمام امور کو باہم مربوط کرتی ہے، جس سے ہم فرد اور اجتماعیت کو ایک اکائی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں؟ فلسفۂ دین میں، ان سوالات کا جواب دینے کی سعی چند لوگوں ہی نے کی۔ قدیم دور میں یہ کام اہلِ تصوف نے کیا اور ہمارے عہد میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا ، اس لیے جن لوگوں نے اس کی مشقت اٹھائی، ان کے غیرمعمولی ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔ مولانا وحید الدین خان نے اپنے ذوق سے اس بات کا سراغ لگایا کہ دین کی مجموعی تعبیر فی الواقع کوئی کام ہے اور مولانا مودودی نے اس باب میں کوئی نیا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ بالعموم لوگ اہلِ علم کے کام کی تحسین کرتے اور ان کی خدمات بیان کرتے ہیں ، لیکن اس پہلو سے کسی صاحبِ علم کے تمام کام کا فہم حاصل کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہی سبب ہے کہ جب اس حوالے سے کسی عالم کے کام پر نقد ہوتا ہے تو وہ پہلے حیرت میں مبتلا ہوتے اور پھر عام طور پر اس سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں کہ کسی علمی و فکری کام پر تنقید کا یہ بھی کوئی علمی منہج ہے!
مولانا وحید الدین خان، غالباً برِصغیر میں پہلے آدمی ہیں جنھوں نے مولانا مودودی کے علمی کام کو اس زاویے سے دیکھا، اس پر نقد کیا اور پھر جواباً ایک تصورِ دین پیش کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے نزدیک مولانا کی یہ خدمت انھیں معاصر اہلِ علم میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کے دینی کام پر کسی تبصرے سے پہلے، ان تمہیدی گزارشات کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ہمارے نزدیک، ان کا علمی مقام و مرتبہ کیا ہے اور ہم اگر اس باب میں کچھ عرض کرنے جا رہے ہیں تو یہ نقد اس تنقید سے جوہری طور پر مختلف ہے جو اس عہد میں ان کے علمی کام پر سامنے آئی ہے۔
مولانا وحید الدین خان کے اس علمی کام کے ہمارے نزدیک دو پہلو ہیں: ایک ان کا فلسفۂ دین اور دوسرا ان کا اسلوبِ بیان۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک صاحبِ اسلوب محرر ہیں اور تزکیہ و تذکیر کے حوالے سے اپنی بات کہنے کا انھیں غیرمعمولی ملکہ حاصل ہے ، لیکن یہاں جس اسلوبِ تحریر کا ذکر ہے، اس سے مراد ان کی وہ تحریریں ہیں، جن میں وہ اپنا مخصوص تصورِ دین بیان کرتے اور اس تناظر میں امت کے دیگر اصحابِ علم اور محترم شخصیتوں پر تبصرہ کرتے ہیں۔ جہاں تک ان کے فلسفۂ دین یا تعبیر دین کا تعلق ہے ، وہ بھی اس وقت زیرِ بحث نہیں۔ جن لوگوں کو اس طرح کے سنجیدہ مباحث سے دلچسپی ہے، انھیں چاہیے کہ وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘، مولانا وحید الدین خان کی ’’تعبیر کی غلطی‘‘، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ’’عصرِ حاضر میں دین کی تعبیر و تشریح‘‘ یا استاذِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے رسالے ’’دین کا صحیح تصور‘‘ کا مطالعہ کریں۔ ہم یہاں ان کے کام کے دوسرے پہلو سے تعرض کریں گے اور خود ان کے بیان کردہ فلسفے کی روشنی میں ان کے اسلوبِ تحریر کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، جس کے لیے شاید موزوں تعبیر اسلوبِ تنقید کی ہے۔
اہلِ علم جب دین پر غور کرتے ہیں تو اس امکان کو کسی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کوئی رائے قائم کرتے وقت ٹھوکر کھا جائیں۔ یہ ٹھوکر بعض اوقات معمولی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بہت بڑی بھی ہو سکتی ہے۔ ہر آنے والا صاحبِ علم پچھلے علمی کام پر نقد کرتا ہے اور پھر اپنی دانست میں درست بات کہتا ہے۔ علم کے ارتقا کا یہ وہ معلوم و معروف راستہ ہے، جس سے انسانی تہذیب مالامال ہے اور اس کے تمام تر حسن اور بوقلمونی کا راز بھی یہی ہے۔ محض دینی علوم، یعنی تفسیر، علمِ حدیث اور فقہ وغیرہ کو دیکھیے کہ ایک پوری تاریخ ہے اور مسلمانوں کے علمی طور پر ایک زندہ قوم ہونے کی ناقابلِ تردید دلیل ہے۔ ان صاحبانِ علم میں سے ایک طبقہ وہ ہے جس نے نظری کام کے علاوہ اپنے عہد کے مسلمانوں کو اجتماعی طور پر درپیش مسائل اور بحرانوں کا جائزہ لیا ہے اور ان کو ان مسائل سے نکالنے کے لیے ان کی فکری اور علمی رہنمائی بھی کی ہے۔ ایسی کوششوں کو کبھی مسلمانوں میں قبولیتِ عام ملی اور کبھی مسلمانوں کی اکثریت نے انھیں کسی توجہ کا مستحق نہیں سمجھا۔ ایسے مفکرین ہماری تاریخ کے ہر دور میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہم اگر اپنی بات کو محض اپنے خطے تک محدود رکھیں تو ایسے بے شمارلوگوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم ایسی کوئی فہرست مرتب کریں تو اس میں شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، سرسید احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ محمداقبال، علامہ مشرقی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لازماً شامل ہوں گے ۔ ان میں سے بعض حضرات کے فکر پر مسلمانوں نے وسیع پیمانے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، جیسے علامہ اقبال ہیں۔ اور بعض لوگوں کی بات محض ایک مخصوص گروہ سے آگے نہیں بڑھ سکی جیسے علامہ مشرقی۔ ان میں سے بہت سے لوگ وہ ہیں جن سے لوگوں نے اختلاف کیا ، لیکن ان کے اخلاص، دیانت، محنت اور دردمندی کے سبب، ان کا ذکر ہمیشہ احترام کے ساتھ کیا اور جب یہ لوگ تاریخ بن گئے تو پھر انھیں اپنے اسلاف اور اکابر میں شامل کیا۔ ان میں تقریباً وہ سبھی لوگ شامل ہیں جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
مولانا وحید الدین خان کو ان مذکورہ حضرات سے، سرسیداحمد خان کے استثنا کے ساتھ، شدید فکری اختلاف ہے اور وہ ان تجاویز کو بھی مکمل طور پر غلط سمجھتے ہیں جو ان حضرات نے مسلمانوں کو بحران سے نکالنے کے لیے پیش کیں۔ ظاہر بات ہے کہ وہ اس کا حق رکھتے ہیں کہ وہ ان آرا کو غلط کہیں اور ان پر علمی طور پر نقد بھی کریں ،لیکن وہ یہاں تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ ان حضرات کے بارے میں اپنی تحریروں میں طنز اور توہین کا اسلوب بھی اختیار کرتے ہیں۔ یہ محض ایک یا دو مرتبہ کا واقعہ نہیں، بلکہ بدقسمتی سے اس رویے میں ایک تسلسل ہے جو برسوں پر محیط ہے اور آج تک جاری ہے۔ اس حوالے سے ان کی تحریروں کا جو پہلو ہمارے نزدیک شدید قابلِ اعتراض ہے، وہ ان حضرات کی نیتوں پر حملہ ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال ’’الرسالہ‘‘ جون ۲۰۰۱ کا شمارہ ہے، جس میں انھوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو تحریف اور تفسیر بالرائے کا مرتکب قرار دیا ہے۔
قرآنِ مجید میں تحریف اور تفسیر بالرائے اتنے سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب تو درکنار، ان کے تصور سے بھی ایک مسلمان لرزہ براندام ہو جاتا ہے۔ تحریف سے مراد ہے قرآنِ مجید کے الفاظ یا مفاہیم کو دانستہ تبدیل کر دینا۔ تفسیر بالرائے سے بھی معنوی تحریف مراد ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ مولانا ان جرائم کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں۔ ’’الرسالہ‘‘ کے اسی شمارے میں انھوں نے تفسیر بالرائے کے بارے میں لکھا ہے:

’’قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا ایک گناہ کا فعل ہے۔ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن کی کسی آیت کا غلط مفہوم بیان کرے تو یہ تحریف ہے۔ اور قرآن میں اس قسم کی تحریف بلاشبہ ایک سنگین جرم ہے۔
یہ معاملہ اتنا نازک ہے کہ اپنی رائے کے تحت کی ہوئی تفسیر اگر بالفرض درست ہو، تب بھی اندیشہ ہے کہ وہ آدمی کے لیے گناہ کا سبب نہ بن جائے۱؂۔‘‘

مولاناوحید الدین خان کے نزدیک تفسیر بالرائے وہ ہے جو تدبر کے بغیر کی جائے اور ’’آدمی صرف اپنی رائے پر اعتماد کرے۔ آیت کے حوالے سے اس کے ذہن میں جو بھی خیال آئے، وہ اسے قرآن کی تفسیر سمجھ کر بیان کرنے لگے۔‘‘ ہم یہاں اس بحث سے دانستہ صرفِ نظر کر رہے ہیں کہ تفسیر بالرائے سے کیا مراد ہے، سلف میں اس کا کیا مفہوم رائج تھا اور وہ کون کون سی اہم تفاسیر ہیں جو آج مسلمانوں میں غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہیں، اور ان میں سے بعض تو دینی مدارس میں پڑھائی بھی جا رہی ہیں اور انھیں ’’جائز تفسیر الرائے‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں ہم صرف انھی کے متعین کردہ معیار کو ملحوظ رکھ کر اس جرم کی سنگینی بیان کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی پر یہ الزام عائد کرتے ہیں تو یہ محض تسامح نہیں ہے ، بلکہ وہ اس کی سنگینی کا ادراک رکھتے ہیں۔
ہمیں حیرت ہے کہ خوفِ خدا اور فکرِ آخرت کے بارے میں ایک حساس آدمی، جیسا کہ مولانا معلوم ہوتے ہیں، وہ کیسے ایک جید عالم پر یہ الزام دھر سکتا ہے! ہمارے نزدیک بھی مولانا مودودی نے سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر ۱۳ کی جو تفسیر بیان کی ہے، وہ درست نہیں ہے،۲؂ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تاویل کی ایک غلطی ہے، مولانا جس کا شکار ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جب استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے مولانا مرحوم کی اس تفسیر پر نقد کیا تو اس کے لیے ’’تاویل کی غلطی‘‘ ہی کا عنوان باندھا۳؂۔ اب تفسیری لٹریچر میں کون سی تفسیر ہے، جو اس طرح کی غلطیوں سے مبرا ہے، حتیٰ کہ قرآنِ مجید کی تفسیر کے باب میں حضرت عبداللہ ابن عباس جیسے صحابیِ رسول اور جلیل القدر شخصیت کی بعض تفسیری آرا کو، بعد کے مفسرین نے، جو ظاہر ہے کہ صحابی نہیں تھے، غلط قرار دیا ہے۔ اب کیا کوئی جرأت کر سکتا ہے کہ ابنِ عباس یا دوسرے مفسرین کی تفسیری آرا کو تفسیر بالرائے کا مظہر قرار دے۔ خود مولانا وحید الدین خان نے قرآنِ مجید کی بعض آیات کا جو مفہوم بیان کیا ہے، اس میں دوسرے مفسر، ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک ’’طاغوت‘‘ کا لفظ قرآنِ مجید میں شیطان کے لیے استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر مقامات پر اس لفظ کا ترجمہ ’’شیطان‘‘ کرتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے اس معاملے میں کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں جہاں پر یہ لفظ پہلی مرتبہ آیا ہے، مولانا اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قرآن نے اس لفظ کو مختلف مقامات پر استعمال کیا ہے اور ہر جگہ اس کے مقابل کا ذکر کر کے اس کے مختلف مفہوموں پر روشنی ڈال دی ہے۔ مثلاً زیرِ بحث آیت میں۔۔۔ اللہ کے تقابل سے واضح ہے کہ طاغوت سے مراد ماسوا اللہ ہے۔۔۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جو خدا کی بندگی اور اطاعت سے نکل جائے یا نکل جانے کا باعث اور ذریعہ ہو، وہ سب اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے۴؂۔‘‘

سورۂ بقرہ کی آیت ۲۵۶ میں مولانا اصلاحی کے نزدیک طاغوت سے مراد ماسوا اللہ ہے ، جبکہ مولانا وحید الدین خان کے ترجمے کے مطابق یہاں مراد شیطان ہے۔ سورۂ نساء کی آیت:۶ میں مولانا اصلاحی کے نزدیک طاغوت سے مراد یہود کے سردار اور لیڈر ہیں ،جبکہ مولانا وحید الدین خان یہاں بھی اس کا ترجمہ ’’شیطان‘‘ ہی کرتے ہیں۔
اب رائے کے اس تفاوت کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں: ایک تو یہ کہ آپ ایک رائے کو درست قرار دیں اور دوسری رائے کو غلط سمجھیں، لیکن اسے بھی ایک عالم ہی کی رائے قرار دیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک رائے کو درست سمجھیں، لیکن دوسرے مفسر کو تفسیر بالرائے کا مجرم قرار دیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان مقامات پر مولانا امین احسن اصلاحی نے جو رائے قائم کی ہے، وہ درست ہے۔ کیا مولانا یہ پسند کریں گے کہ ہم انھیں تفسیر بالرائے کا مرتکب قرار دیں؟ ہم یہاں انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف متوجہ کریں گے کہ بے شک مومن وہ ہے جو دوسرے کے لیے وہی پسند کرے جو اسے اپنے لیے پسند ہے۔ پھر حسنِ ظن کا باب تو بہرحال ایک محتاط آدمی کے سامنے کھلا ہی رہنا چاہیے۔
اب اس کی ایک اور مثال دیکھیے۔ مولانا وحید الدین خان نے ’’الرسالہ‘‘ کے اس شمارے میں سورۂ مدثر کی تیسری آیت ’وربک فکبر‘ کا ترجمہ کیا ہے: ’’اور اپنے رب کی بڑائی کرو‘‘ یا ’’اپنے رب کی بڑائی بول‘‘۔ ان کے نزدیک اس ’’آیت میں جس تکبیرِ رب کا ذکر ہے، اس کا تعلق کسی خارجی سیاست سے نہیں، بلکہ آدمی کی اپنی داخلی کیفیت سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا دماغ اللہ کی عظمت کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اس کا دل اللہ کی عظمت کے احساس سے تڑپ اٹھے۔ اللہ کی عظمت کااعتراف اس کی زبان پر جاری ہو جائے۔ یہی وہ تکبیر رب ہے جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۵؂۔
سورۂ مدثر کی یہ ابتدائی آیات اس موقع پر نازل ہوئیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت کا حکم دیا گیا۔ ظاہر بات ہے کہ یہ سراسر خارجی معاملہ ہے نہ کہ داخلی، مولانا امین احسن اصلاحی نے سورۂ مدثر کی پہلی تین آیات کا ترجمہ کیا ہے:

’’اے چادر لپیٹے رکھنے والے۔ اٹھ اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے رب ہی کی کبریائی کی منادی کر۔‘‘

مولانا اصلاحی نے تفسیر میں اسے توحیدِ خالص کی منادی قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’یہ اس انذار کا پہلا حکم ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت میں توحیدکو بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے، یعنی صرف اللہ ہی کی کبریائی ویکتائی کا اعلان۔ مفعول کی تقدیم سے یہاں حصر کا مضمون پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی اللہ کے سوا جو بھی کبریائی کے مدعی ہیں یا جن کی کبریائی کا بھی دعویٰ کیا جا سکتا ہے، وہ سب باطل، تم صرف اپنے رب ہی کی عظمت و کبریائی کا اعلان کرو۔ ایک جاہلی معاشرے میں یہ اعلان ساری خدائی سے لڑائی مول لینے کے ہم معنی تھا، لیکن دین کی بنیاد چونکہ اسی کلمہ پر ہے، اس وجہ سے ہر نبی کو بے درنگ یہ اعلان کرنا پڑا۶؂۔‘‘

جاوید احمد صاحب غامدی نے ان آیات کا ترجمہ اس طرح کیا ہے:

’’اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے، اٹھو اور انذارِعام کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار ہی کی بڑائی بیان کرو۔‘‘

حواشی میں انھوں نے لکھا ہے:

’’یعنی اعلان کرو کہ وہی سب سے بڑا، سب سے یگانہ، یکتا اور بے ہمتا ہے۔ اس کے سوا جن کی بڑائی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ وہ سب باطل ہیں۷؂۔‘‘

ان دونوں حضرات میں کوئی ایسا نہیں جو دین کی سیاسی تعبیر پر یقین رکھتا ہو، بلکہ جیسا کہ ہم نے لکھا ہے، جاوید احمد صاحب غامدی اس تعبیر دین پر نقد بھی کر چکے ہیں۔ اگر ان حضرات کے فہمِ قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو مولانا وحید الدین خان کی رائے کسی طرح درست معلوم نہیں ہو گی۔ یہ اسے خارجی دنیا سے متعلق کر رہے ہیں، جبکہ مولانا اسے داخلی کیفیت سے۔ غور کیجیے تو یہی بات مولانا کے اپنے مخصوص فلسفۂ دین کے مطابق ہے، اس لیے انھوں نے سیاق و سباق سمیت سب قرائن کو نظرانداز کرتے ہوئے، اسے اپنے فلسفۂ دین کے مطابق ڈھال لیا تو کیا اسے تفسیر بالرائے قرار دیا جائے گا؟
ہم یقیناًایسا نہیں سمجھتے، بلکہ اسے ایک عالم دین کا فہمِ قرآن سمجھتے ہیں، جو ہمارے نزدیک درست نہیں ہے۔ یہ محض تفہیم کا اختلاف ہے۔ یہی وہ بات ہے جو کہی جا سکتی ہے۔ اس سے آگے کی بات کہنے کے لیے، ہم اپنے اندر حوصلہ نہیں پاتے۔
مولانا مودودی کے حوالے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا وحید الدین خان ایک الجھن کا شکار ہیں۔ ان کے نزدیک دنیا کے ہر فساد کا باعث وہی تھے اور وہ اگر نہ ہوتے تو دنیا میں امن ہی امن تھا۔ چنانچہ وہ جب مولانا مودودی کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی یہ جھنجھلاہٹ نمایاں ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ نمونۂ تحریر دیکھیے:

’’میں نے ان حضرات سے کئی بار پوچھا کہ جس چیز کو آپ سید مودودی کا عہد کہتے ہیں وہ کہاں ہے تاکہ میں بھی وہاں جا کر اسے دیکھوں۔ کیا وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے اپنے مکان میں ہے۔ کیا وہ اس شہر میں ہے یا اس ملک میں ہے جہاں وہ رہتے تھے۔ کیا وہ اس جماعت میں ہے جس کو انھوں نے قائم کیا اور چلایا۔ اس کے باوجود اپنے اس محبوب تخیل کو لکھے اور چھاپے جا رہے ہیں۔ یہ مردہ قوم کی مخصوص علامت ہے کہ جس چیز کو وہ حقیقت میں نہ پائے اس کو وہ الفاظ میں پا کر کامیابی کا جشن مناتی ہے۸؂۔‘‘

اب معلوم نہیں کہ مولانا وحید الدین خان کے نزدیک کسی شخص کی صدی ہونے سے کیا مراد ہے؟ اگر کسی کے نزدیک مراد یہ ہے کہ ایک فرد کی فکر نے ایک صدی کے مسلمانوں کو متاثر کیا تو کیا اسے اس شخص سے منسوب نہیں کیا جا سکتا؟ خود ان کے نزدیک آج دنیا میں مسلمانوں نے جو ’’فساد‘‘ برپا کر رکھا ہے، اس کی بنیاد وہ تصورِ دین ہے جو مولانا مودودی نے پیش کیا۔ کیا ایسے شخص کو صدی کا انسان نہیں کہا جا سکتا؟ مولانا وحید الدین خان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مولانا مودودی کے فکر سے اختلاف کریں، لیکن اس کے لیے اگر وہ اپنے ہی قائم کردہ ایک معیار کو پیشِ نظر رکھتے تو کیا اچھا ہوتا۔ مولانا وحیدالدین خان نے ایک مرتبہ لکھا تھا:

’’آدمی کو جب کسی سے ضد ہو جاتی ہے تو وہ یہی طریقہ اپناتا ہے۔ وہ اس کے بارے میں یک رخا انداز اختیار کرتا ہے۔ وہ اپنے مزعومہ حریف کے اچھے پہلووں کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ وہ صرف اس کے ان پہلووں کا ذکر کرتا ہے جس سے اسے اپنے حریف کی تحقیر کا موقع مل رہا ہو۔ جو لوگ یہ طریقہ اختیار کریں گے، وہ دوسرے کے بارے میں کچھ ثابت نہیں کرتے، البتہ خود اپنے بارے میں ضرور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ راہِ راست پر نہیں ہیں، کیونکہ جو آدمی راہِ راست پر ہو، اس کا طریقہ عدل و انصاف کا طریقہ ہے نہ کہ ظلم اور تعصب کا طریقہ۔ آدمی سب سے زیادہ اس وقت پہچانا جاتا ہے جب کہ اس کو کسی سے اختلاف پیدا ہو جائے۹؂۔‘‘

مولانا وحید الدین خان نے صرف مولانا مودودی ہی نہیں، بلکہ دیگر ملی راہنماؤں پر جس اسلوب میں تنقید کی ہے، وہ بلاشبہ ہر اس شخص کی دل آزاری کا باعث ہے، جو ان سے محبت رکھتا ہے۔ غور کیجیے تو یہ بات خود ان کے اپنے فلسفۂ دین سے متصادم ہے۔ اگر جنوبی ایشیا کے مسلمان ان کے مدعو ہیں تو کیا ان پر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ ان کو اپنی بات کا مخاطب بناتے وقت ان کے جذبات کو پیشِ نظر رکھتے۔ آج اس خطے کا کون سا مسلمان ایسا ہے جو شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی، سید احمد شہید، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شبلی نعمانی، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، ٹیپو سلطان، محمدعلی جناح جیسی تمام شخصیات یا ان میں سے بہت سے لوگوں سے تعلقِ خاطر نہیں رکھتا یا ان کی فکر اور اخلاص کا مداح نہیں ہے؟ جب آپ ان سب پر ایسے اسلوب میں تنقید کریں گے جن سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو پھر یہ لوگ آپ کے مخاطب کیسے بن سکتے ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ مولانا نے اپنے اس تنقیدی اسلوب کی بنا پر مسلمانوں کے قریباً تمام قابلِ ذکر طبقات میں اپنے لیے ایک ناپسندیدہ فضا پیدا کر دی ہے۔ چنانچہ ان کے قلم سے نکلنے والی بہت سی مثبت اور قابلِ قدر باتیں بھی ان حلقوں میں نہیں پہنچ پاتیں اور یوں خود مولانا کا اپنا اسلوبِ تحریر ان کی دعوت کے فروغ کے راستے میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ اگر ہم مولانا کی ایسی تحریروں کے اقتباسات نقل کریں تو یہ مضمون غیر معمولی طور پر طویل ہو جائے گا۔۔۔ صرف ایک اقتباس یہاں درج کیا جا رہا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا قلم زورِ تنقید کے کیا نمونے پیش کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر نے یزید بن معاویہ کے عہد میں جو طرزِعمل اختیار کیا، وہ مولانا کے تصور دین کے مطابق چونکہ درست نہیں تھا، اس لیے دیکھیے کہ وہ ان کا اور ان کی والدہ کا ذکر کیسے کرتے ہیں:

’’میں اپنے قریبی رشتے داروں میں سے ایک سے زیادہ ایسے افراد کو جانتا ہوں جو کم عمری میں ماں کی سرپرستی سے محروم ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری زندگی بربادی کا نشان بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں کے روپ میں عورت کا رول انسانی زندگی میں بہت زیادہ ہے۔ عبداللہ بن زبیر کی ماں (اسما) نے ان کو ایک بڑے اقدام پر ابھارا۔ چنانچہ ایک شخص جو اقدام کا ارادہ چھوڑ چکا تھا، وہ دوبارہ اقدام کے لیے آمادہ ہو گیا۔ شہنشاہِ اکبر کی ماں (مریم مکانی) نے اکبر کو ملاعبدالنبی کے خلاف کارروائی سے روکا۔ چنانچہ اکبر ان کے خلاف سخت کارروائی سے باز رہا، وغیرہ وغیرہ۔
راقم الحروف اگر بچپن میں ماں سے محروم ہو جاتا یا اگر مجھ کو ایسی ماں ملتی جو مجھے اپنے ’’دشمنوں‘‘ کے خلاف لڑنے جھگڑنے پر اُکساتی رہتی تو یقینی طور پر میری زندگی کا رخ دوسرا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے انجام سے بچایا اور مجھ کو اپنی ایک صداقت کے اظہار کا ذریعہ بنایا۱۰؂۔‘‘

مولانا وحید الدین کے نزدیک صحابہ پر تنقید کرنا جائز نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ عبداللہ ابن زبیر پر تنقید نہیں؟ کیا یہ حضرت اسما بنت ابی بکر پر تنقید نہیں۔۔۔؟ ہم اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ مولانا وحید الدین خان کی رائے میں صحت کا امکان کتنا ہے، ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت اسما کا ذکر اس اسلوب میں اور اس تقابل کے ساتھ، کیا تنقید کا کوئی قابلِ تحسین اسلوب ہے؟
ہم نے اس مضمون کے شروع میں یہ لکھا ہے کہ اس تحریر میں ان کے فکر کا کوئی تنقیدی جائزہ مطلوب نہیں ہے، مولانا کے اسلوبِ تنقید میں ہمارے نزدیک جو ضرر رساں پہلو ہے، اس کی نشان دہی مطلوب ہے۔ ہم نے اس تنقیدی لٹریچر کو بڑی حد تک دیکھا ہے جو مولانا وحید الدین خان کے فکر اور کام کے حوالے سے بھارت اورپاکستان میں سامنے آیا ہے۔ ایسی اکثر تنقیدی تحریریں کسی علمی استدلال اور فکری گہرائی سے خالی ہیں۔ یہ کام دراصل مولانا کے غیرمحتاط اندازِتنقید پر اظہار ناراضی ہے۔ جہاں تک ماضی اور حاضر کے محترم افراد کے فکر اور کام پر تنقید کا تعلق ہے تو وہ علمی دنیا کی ایک معروف روایت ہے، جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ خود مولانا مودودی کے کام میں اس کے بے شمار نمونے موجود ہیں، بالخصوص ’’تجدید و احیائے دین‘‘ کا تو موضوع ہی یہی ہے۔ جو چیز ہمارے نزدیک قابلِ اعتراض ہے، وہ تنقید کا حدِاعتدال سے گزر جانا اور اس کا بہت سے لوگوں کے لیے دل آزاری کا باعث ہونا ہے۔ ہم نے اس تحریر میں استاذِ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کی اس تنقید کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے ’’تاویل کی غلطی‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ مولانا مودودی کا احترام کرتے اور انھیں امت کے بڑے لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کے ایک ماہنامے ’’انڈی پینڈینٹ ریسرچ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے مولانا مودودی کے ساتھ اپنے فکری اختلافات کا ذکر کیا، لیکن ساتھ ہی یہ کہا کہ مولانا مودودی کا نقطۂ نظر ایک عالم کا نقطۂ نظر ہے اور وہ اس کی قدر کرتے ہیں۔ اس سے قبل مصر کے عبدالقادر عودہ اور پھر یہاں مولانا ابوالحسن علی ندوی مولانا مودودی کے بنیادی فکر پر نقد کر چکے ہیں، لیکن ان حضرات نے بھی مولانا مودودی کے کام کے اعتراف میں کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا اور ان کی آرا کو تفسیر بالرائے قرار نہیں دیا۔ ہمارے دل میں مولانا وحید الدین خان کے کام کی بڑی قدر ہے۔ ہم ان کاشمار ملت کے علما میں کرتے ہیں۔ ان کے فکر کے بعض پہلووں سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن اسے ایک عالم کی رائے سمجھتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مولانا وحید الدین خان کی تحریروں میں ایجابی پہلو غالب رہے اوراگر تنقید ہو تو وہ اسی درد کی مظہر ہو جو وہ اپنے دل میں مسلمانوں اور دوسرے بے راہ لوگوں کے لیے رکھتے ہیں؟ مولانا ایک مرتبہ لاہور تشریف لائے تو وہ مولانا مودودی کے گھر بھی گئے۔ اس واقعہ کا تذکرہ انھوں نے ’’الرسالہ‘‘ میں بہت اچھے انداز میں کیا۔ ہم مولانا وحید الدین خان کی ایسی ہی تحریروں کے متمنی ہیں۔ افکار کی اصلاح ایک نیکی کا کام ہے، لیکن اس کی بنیاد اگر کسی کی دل آزاری پر رکھی جائے تو اس کا حسن گہنا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دین کے سبھی خدام اس بات کو پیشِ نظر رکھیں۔ 

________

۱ ؂   الرسالہ، بحوالہ ماہنامہ تذکیر،لاہور ،جون ۲۰۰۱ ،۳۲۔
۲ ؂   ابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن۔
۳ ؂   جاوید احمد غامدی، برہان، لاہور۔
۴ ؂   امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن،۱/ ۵۹۱۔
۵ ؂   تذکیر، جون ۲۰۰۱،۳۵۔
۶ ؂   تدبر قرآن، ۹/ ۴۴۔
۷ ؂   جاوید احمد غامدی، البیان۔
۸ ؂   الرسالہ، اپریل ۱۹۸۷۔
۹ ؂   الرسالہ، دسمبر ۱۹۹۱۔
۱۰ ؂   وحید الدین خان، خاتون اسلام، دارلتذکیر لاہور، ۱۹۹۸، ۲۰۴۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2001
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : Jul 02, 2018
4400 View