تکمیل ایمان - طالب محسن

تکمیل ایمان

 عن علی رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : لایؤمن عبد حتی یؤمن بأربع: یشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وأنی رسول اﷲ بعثنی بالحق، ویؤمن بالموت، والبعث بعد الموت، ویؤمن بالقدر۔
ٌٌ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بندہ (پوری طرح) ایمان نہیں لاتا جب تک وہ اس بات کا برملا اقرار نہ کرے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ وہ موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لائے۔اور وہ تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘

لغوی مباحث

لا یؤمن عبد حتی یؤمن بأربع: کوئی بندۂ مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ چار پر ایمان نہ لے آئے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایمان میں اصل اہمیت کس چیز کو حاصل ہے ۔ان میں سے کوئی جز بھی اگر رہ گیا تو ایمان درست نہیں رہا۔
یشہد: یہ اور اس کے بعد دوبار ’یؤمن‘ آیا ہے ۔یہ دونوں فعل ’یؤمن بأربع‘ کا بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔
بعثنی بالحق: اس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ یعنی میں اس کا سچا پیغمبر ہوں۔یہ جملے میں دوسری خبر واقع ہوا ہے۔

متون

یہ روایت تمام کتب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سند ہی سے نقل ہوئی ہے۔ اس روایت کے متون میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے ۔ چند لفظی اختلافات حسب ذیل ہیں: بعض روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ ’ثم‘ سے شروع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات کسی طویل گفتگو کا حصہ تھی۔ایک روایت میں ’لا یؤمن‘ کی جگہ ’لن یؤمن‘ آیا ہے۔عام طور پر اس روایت کے متون میں ’عبد‘ کا لفظ نکرہ ہی استعمال ہوا ہے، لیکن ابن حبان کی ایک روایت میں لام تعریف کے ساتھ معرفہ آیا ہے۔ ایمانیات کا پہلا جز اس روایت کے متون میں چار مختلف اسالیب میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً کسی میں محض ’یؤمن باللّٰہ‘ کسی میں ’حتی یشہد أن لا الہ الا اﷲ‘یا ’یشہد أن لا إلہ إلا اﷲ‘ اور کسی میں ’باللّٰہ وحدہ لا شریک لہ‘ کے الفاظ سے یہ حقیقت بیان ہوئی ہے۔ ایمان بالرسالت کا جز بھی دو اسالیب میں نقل ہوا ہے۔ کسی روایت میں ’أن اللّٰہ بعثنی بالحق‘ اور کسی روایت میں ’أنی محمد رسول اﷲ بعثنی بالحق‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ زیر نظر روایت میں موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا الگ الگ ذکر ہوا ہے۔ بعض روایات میں موت کا ذکر نہیں ہے ۔ صرف بعث بعد الموت کا ذکر ہے۔ تقدیر پر ایمان کا ذکر بھی بعض روایات میں ’خیرہ و شرہ‘ کے اضافے کے ساتھ ہوا ہے اور بعض میں یہ اضافہ مذکور نہیں ہے۔اس تفصیل سے واضح ہے کہ اس روایت کے متون میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔

معنی

دین میں ایمان کو اصل اور جڑ کی حیثیت حاصل ہے۔ دین اسلام میں ایمانیات کے بنیادی اجزا تین ہیں۔ ایک ’لا إلہ إلا اﷲ‘ کا دل اور زبان سے اقرار ، دوسرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت پر ایمان اور تیسرے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر یقین۔ اس روایت میں اس پر تقدیر کا اضافہ بیان ہوا ہے اور اس مضمون کی حامل دوسری روایات میں فرشتوں اور کتابوں پر ایمان کو بھی ایمانیات کے حصے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔واضح ہے کہ تقدیر پر ایمان ، ایمان باللہ کا جز ہے اور فرشتوں اور کتابوں پر ایمان کا تعلق بنیادی طور پر نبوت و رسالت پر ایمان سے ہے۔ اسی طرح کی کچھ اور جزئی چیزیں بھی اس فہرست میں شامل کی جاسکتی ہیں ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم موقع کلام کی رعایت سے کبھی کچھ اجزا کا ذکر کرتے اور کبھی کچھ دوسرے اجزا کا ذکر کرتے ہیں۔ اس نوع کی روایات میں تقدیر کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ ایمان باللہ کی نسبت سے یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ انسانوں کو کائنات کے محکم اور علت و معلول پر مبنی نظام کو دیکھ کر یہ غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ وجود میں آیا ہے یا یہ کہ اگر اللہ تعالیٰ ہی نے اسے تخلیق کیا ہے تو اب وہ اس میں کوئی مداخلت نہیں کرتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ بات اس لیے فرمائی ہے کہ اہل اسلام اس نوع کی کسی غلطی کا شکا ر نہ ہوں۔
اس روایت میں موت کا ذکر الگ سے بھی ہوا ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ کیا موت کے ساتھ انسان ہمیشہ کے لیے مٹ جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور معاملہ شروع ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ یہاں موت کا لفظ محض تمہیداً آیا ہے۔ اصل بات وہی ہے جو آگے بیان ہوئی ہے۔

کتابیات

ترمذی ،رقم ۲۰۷۱۔ ابن ماجہ، رقم ۷۸۔مسند احمد ،رقم۷۱۹،۱۰۵۷۔ ابن حبان، رقم ۱۷۸۔ المستدرک علی الصحین،رقم ۹۰۔ الأحادیث المختارہ، رقم ۴۴۰، ۴۴۱، ۴۴۳، مواردالظمآن ، رقم ۲۳۔مسند البزار، رقم ۹۰۴۔ مسند الطیالسی، رقم ۱۰۶۔مسند ابویعلیٰ ۳۵۲، ۵۸۳۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۷۵۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2002
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Jan 21, 2017
3888 View