بعثت اور دعوت دین کا آغاز - خالد مسعود

بعثت اور دعوت دین کا آغاز

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 

آغاز وحی

اوپر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ صحابہ کے زمانہ ہی میں یہ سوال پیدا ہوگیاتھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کون سی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ بعض لوگ سورۃ العلق کی ابتدائی آیات کو پہلی وحی مانتے تھے، لیکن جابر بن عبداللہ کو اصرارتھا کہ میں نے بطور خاص خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔ حضور نے بتایا کہ میں حسب معمول غار حرا میں ایک ماہ مقیم رہا۔ جب یہ مدت ختم ہوئی تو میں پہاڑ سے اترا۔ وادی میں مجھے یوں لگا کہ کسی نے مجھے پکارا ہے۔ میں نے آگے پیچھے اور دائیں بائیں مڑ کر دیکھا، لیکن کوئی شخص نظر نہ آیا۔ پھر ندا آئی تو میں نے سر اٹھایا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارحرا میں میرے پاس آیا تھا، ہوا میں ایک تخت پر پورے شکوہ کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس منظر سے میرے جسم میں کپکپی طاری ہو گئی۱؂۔ چنانچہ میں گھر کو لوٹا اور کہا کہ مجھے چادر اوڑھا دو۔ بعض روایات میں ہے کہ فرشتہ افق سے اترنے لگا اور مجھ سے اتنا قریب ہو گیا جتنا استاد اپنے شاگرد سے قریب ہوتا ہے۔ تب اس نے جھک کر پورے التفات و اہتمام کے ساتھ وحی پہنچائی۔
ہمارے نزدیک یہ موقع ہے جب حضور کو خلعت رسالت سے نوازا گیا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن نے بھی بڑے اہتمام سے کیا ہے اور بتایا ہے کہ فرشتہ کو دیکھنا اور اس سے وحی حاصل کرنا ایک ایسا معاملہ تھا جس میں آپ کے واہمہ یا تخیل کو کوئی دخل نہ تھا۔ آپ کی عقل و فہم نے وحی کے پیغام کو سمجھنے میں ذرا بھی غلطی نہیں کی۔ فرشتہ نے اس موقع پر اللہ کا وہ پیغام پہنچایا جواس موقع پر آپ کو پہنچانا مقصود تھا ۔ ۲؂ اس کے بعد وحی کا سلسلہ باقاعدہ جاری ہو گیا۔
رہی یہ بات کہ پہلی وحی کن آیات پر مشتمل تھی تو اس بارے میں متعین طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم اگر حضرت جابر کی روایت پر انحصار کیا جائے تو پہلی وحی یوں تھی:

یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ. وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ. وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ.(المدثر ۷۴: ۱۔۵)
’’اے چادر اوڑھنے والے، اٹھ اور لوگوں کو خبردار کر۔ اپنے رب کی بڑائی بیان کر، اپنے دامن کو پاک رکھ اور ناپاکی سے دور رہ۔‘‘

ہمارے نزدیک یہ آیات ایسی ہیں جو وحی کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہیں۔ ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذمہ داری سے گھبرا کر چادر میں لپٹ جانے کے بجائے اٹھ کر لوگوں کا سامنا کرنے ، ان کے آگے صرف اللہ کی کبریائی کا چرچا کرنے اور شرک کی نجاست سے دور رہنے کی تلقین ہے۔ ان میں نبی کی اصل ذمہ داری انذار کا واضح ذکر موجود ہے۔ جس کا مطلب ہے لوگوں کو اللہ کی ہدایت کی طرف بلانا اور اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو اس کے برے نتائج سے خبردار کرنا اور ڈرانا۔
پہلی وحی حضور پر ماہ رمضان میں لیلۃ القدر میں نازل ہوئی۔ یہ بات قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اہم امور کے لیے یہ رات مخصوص کی ہوئی ہے اور نزول قرآن چونکہ انسانیت کی بھلائی کے لیے سب سے اہم پروگرام تھا، اس لیے ہزار ماہ سے بھی زیادہ قیمتی رات لیلۃ القدر میں اس کا اہتمام فرمایا گیا۔ مزید انتظام یہ کیا گیا کہ جبریل امین کو بارگاہ خداوندی سے رسول اللہ تک وحی پہنچانے میں جو شیطانی قوتیں، خصوصاً جنات، مزاحم ہو سکتی تھیں، ان کی افلاک میں آمدورفت کو روکنے کے لیے پہرے لگا دیے گئے۔
چونکہ فرشتۂ وحی کی پہلی آمد، جو روشناسی کے مقصد سے تھی، اور دوسری آمد میں ، جو فی الواقع حضور کی بعثت کی خبر دینے کے لیے تھی، چند ہفتوں کا وقفہ تھا، اس کو فترۃ الوحی سے تعبیر کر لیاگیا اور پھر اس کی مدت تین سال تک پھیلا دی گئی۔ حالانکہ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر رسالت کے کام کو شروع کرانے کے بعد تین سال تک معطل ہی کرنا تھا تو اس کا آغاز ہی کیوں کیا گیا۔ اس کی کوئی مصلحت تو ہونی چاہیے۔ ہمارے نزدیک حضرت جابر کی روایت مبنی برحقیقت ہے۔ وحی میں کوئی انقطاع نہیں ہوا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو پہلے دن ہی سے وحی کا آغاز ہو گیا اور آپ اس کی روشنی میں دعوت دین دینے لگے۔

کیفیت وحی

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحی نازل ہونے سے پہلے آپ گھنٹی کی آواز سنتے یا آپ کو مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے ملتی جلتی آواز سنائی دیتی۔ آپ اس کی طرف متوجہ ہو جاتے تو انھی آوازوں سے الفاظ وحی کی تراوش ہوتی۔ اس کیفیت میں آپ کا جسم پسینہ سے شرابور ہو جاتا اور اعضا پر کپکپی سی طاری ہو جاتی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی تو آپ کے ذہن میں وحی کے الفاظ محفوظ ہو چکے ہوتے تھے۔۳؂
نبی کے جسم پر طاری ہونے والی یہ کیفیات دیکھنے والوں کو نظر آتیں، لیکن نبی کے باطن میں کیا ہو رہا ہوتا، اس کو جاننے کا کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریل امین کے درمیان کا معاملہ ہوتا۔ گھنٹی کی آواز یا بھنبھناہٹ بھی صرف حضور ہی سنتے۔ آپ کے ساتھی اس سے بے خبر ہوتے۔ ہو سکتا ہے یہ آواز آپ کو متوجہ کرنے کے لیے آتی ہو اور اس وقت تک جاری رہتی ہو، جب تک پیغام وحی مکمل نہ ہو جاتا ہو۔ جہاں تک جسمانی تغیرات کا تعلق ہے یہ اس لیے واقع ہوتے کہ رسو ل اللہ کا رابطہ عالم ناسوت سے نکل کر عالم لاہوت میں فرشتہ کے ساتھ ہوتا۔ آپ کو اس میں غیر معمولی مشقت پیش آتی۔ اس کیفیت کو بدطینت مستشرقین نے العیاذباللہ مرگی کے دورہ کا نام دیا ہے، جبکہ مرگی کا مریض دورہ پڑنے پر بے ہوش ہو کر گر پڑتا ہے اور اس کے لیے دورہ کی کیفیت سے نکلنے کے بعد ڈھنگ سے باتیں کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ پیغمبر وحی اترنے کی حالت میں بے ہوش نہیں ہوتے تھے۔ اس کیفیت سے نکلنے کے بعد زندگی بخش معجز کلام آپ کی زبان سے ادا ہوتا اور آپ فوراً اس کی رہنمائی میں ساتھیوں کو نئی ہدایات دیتے اور پیش آمدہ مسائل کو حل فرماتے۔ وحی آپ کے لیے قوت اور تسکین کاباعث بنتی اور آپ کو اپنے کام کے لیے ولولہ تازہ مہیا کرتی۔ وحی شدہ کلام آپ اپنے دوست و دشمن، حلیف و حریف سب کو گوش گزار کرنے پر مامور تھے۔ اس لیے آپ کو نئی وحی نازل ہونے کا ہمیشہ انتظار رہتا۔

دعوت کا آغاز

جب کسی قوم کے اندر رسول کی بعثت ہوتی ہے تو وہ اس قوم کو مخاطب کر کے اللہ کا یہ پیغام دیتا ہے کہ لوگ اپنے غلط عقیدہ و عمل کو چھوڑ کر اللہ کے بندے بن جائیں۔ اس مقصد کے لیے وہ لوگوں کی فطری نیکی کو ابھارتا، غلط کاموں پر متنبہ کرتا، نصیحت و موعظت کے ذریعے سے ان کو خدا کی بتائی ہوئی راہ راست کو اختیار کرنے کی تلقین کرتا اور قوم کی فکری و عملی رہنمائی کرتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام خفیہ کرنے کا نہیں ہوتا۔ رسول کی ذمہ داری کی نوعیت سازش کر کے انقلاب برپا کرنے کی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی جدوجہد کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھے اور اپنی جماعت کھڑی کر کے ایسے افراد مہیا کرے جو قوم کے اندر رائج نظام کو تلپٹ کر کے اس کے تجویز کردہ نظام کو نافذ کر دیں۔ رسول کے کام کی نوعیت ہی کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اگرچہ وہ اس بات کا آرزو مند ہو کہ ساری قوم اس کی آواز پر لبیک کہہ دے، لیکن عملاً اس کو اس بات کی زیادہ پروا نہیں ہوتی کہ اس کاساتھ دینے والے کون اور کس حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ کل کتنے تھے اور آج ان کی تعداد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض رسولوں پر ایمان لانے والے چند ہی افراد ہوئے، باقی ساری قوم نے ان کا انکار کیا، تاہم رسول اپنا فریضہ ادا کرنے میں کامران ہوئے۔
رسول دین کی دعوت اپنی کسی غرض کو پورا کرنے کے لیے نہیں دے رہا ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری مالک ارض و سما اس کے سپرد کرتا ہے۔ جو اس کو کام کرنے کاپلان بھی عطا کرتا ہے۔ پیغمبر اسی پلان کی حدود میں رہ کر کام کرتا ہے اور جب اس کا قدم ان حدود سے باہر جانے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا اور اس کو واپس پلان کی حدود میں لے آتا ہے۔ چونکہ پیغمبر کا کام جان جوکھم میں ڈالنے کا ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لیتا ہے۔ ہر مشکل وقت میں وہی اس کی دست گیری فرماتا ہے۔ لہٰذارسول کو کسی بھی مرحلہ پر اپنی قوم کے کسی سخت ردعمل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی دعوت کو خفیہ رکھنے پر مجبور ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مصر میں تھے تو ان کے ہاتھوں ایک قبطی کے قتل کا واقعہ پیش آ گیا جس میں ان کے ارادہ کو کوئی دخل نہ تھا۔ چونکہ فرعون کو بنی اسرائیل سے بیر تھا، اس لیے موسیٰ علیہ السلام کو اس قتل کا ذمہ دار گردانا گیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب رسالت سے سرفراز فرمایا تو ساتھ ہی ان کو حکم ہوا کہ فرعون کے دربار میں جا کر میرا پیغام پہنچاؤ، وہ بے حد سرکش ہو چکا ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے کوئی خفیہ منصوبہ تیار نہیں کیا، بلکہ بے دھڑک فرعون کے پاس چلے گئے۔ فرعون نے ان کے پچھلے جرم کا حوالہ دیا اور یہ امکان بھی تھا کہ وہ ان کو گرفتار کر لے، مگر اللہ تعالیٰ کا ارشاد تھا:

لَا تَخَافَآ اِنَّنِی مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی. (طٰہٰ ۲۰: ۴۶)
’’تم دونوں (یعنی موسیٰ و ہارون علیہما السلام) اندیشہ مت کرو۔ میں تمھارے ساتھ ہوں، میں سنتا اور دیکھتا ہوں۔‘‘

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم المرتبت خاتم الانبیا کے بارے میں آپ کے سیرت نگاروں نے یہ تاثر کیسے پھیلا دیا، اور امت نے اس کو قبول کیسے کر لیا کہ بعثت کے بعد تین سالوں تک آپ نے خفیہ تبلیغ کی۔ یہ بات رسولوں کی سنت سے مطابقت نہیں رکھتی اور حقائق کے بھی منافی ہے۔ اگر آپ نے قریش کی مخالفت کے خوف سے ایسا کیا تو کیا اللہ تعالیٰ کی وہ حفاظت آپ کو حاصل نہ تھی جو تمام رسولوں کو حاصل رہی ہے؟ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ تین سالوں کے بعد جب آپ نے علانیہ تبلیغ شروع کی تو کیا اس وقت قریش کی عداوت ختم ہو چکی تھی؟ یا کیا اس عرصہ کے دوران میں آپ نے چوری چھپے اتنی نفری مہیا کر لی تھی کہ آپ قریش کے مدمقابل بن کر آ سکتے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصہ میں دعوت کو لوگوں کے علم میں لانے میں رکاوٹ پیدا کی تو یہ اللہ تعالیٰ کی ڈالی ہوئی ذمہ داری کے ادا کرنے میں کوتاہی تھی جو حضور کی عظمت و شان کے منافی ہے۔ خفیہ تبلیغ کی کوئی اور حکمت سیرت نگار بیان نہیں کرتے۔ ہمارے نزدیک آپ کی جدوجہد کا کوئی دور خفیہ نہیں رہا۔ آپ نے دعوت دین کا کام ٹھیک اس پلان کے مطابق کیا جو آپ کو اللہ رب العزت کی طرف سے دیا گیا تھا اور اس میں ایک تدریج ملحوظ رکھنے کا حکم تھا۔ فرمایا گیا:

وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ. فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّی بَرِیئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِ.(الشعراء ۲۶: ۲۱۴۔۲۱۷)
’’اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈراؤ اور جن اہل ایمان نے تمھاری پیروی کی ہے، ان کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے رکھو، اگر یہ لوگ تمھاری نافرمانی کریں تو ان کو سنا دو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، میں اس سے بری ہوں اور خداے عزیز و رحیم پر بھروسا رکھو۔‘‘

اس پلان کے مطابق دعوت دین کا آغاز آپ نے اپنے قریبی خاندان یعنی قریش سے کرنا تھا، جو لوگ دعوت قبول کرتے، ان کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کرنا اور ان کو کفار کے نرغے سے نکالنا تھا۔ بعد کے مرحلہ میں دعوت کو پورے زور و قوت کے ساتھ بلند آہنگ ہو کر پیش کرنا اور شرک پر جمے ہوئے ان لوگوں سے، جو آپ کی بات نہ سنیں، اعلان برأت کرنا تھا۔ اس پورے کام میں ہدایت یہ تھی کہ آپ محض اللہ پر بھروسا کریں جو زبردست اور اپنے ارادوں کو بروئے کار لانے پر قادر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کا آغاز بالکل فطری انداز میں الاقرب فالاقرب کے اصول پر کیا۔ یعنی اپنے قریب ترین لوگوں سے آغاز کر کے آپ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو پہلوں کے بعد قریب ترین تھے۔ سب سے پہلے آپ نے اپنی نئی ذمہ داری سے اپنی اہلیہ محترمہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آگاہ کیا جو پہلے ہی سے آپ کے عقیدہ و عمل کی مداح اور آپ کی رسالت کی خبر کی منتظر تھیں ، انھوں نے فی الفور آپ کی دعوت قبول کی۔ اس کے بعد یہ بات آپ کے باقی اہل خانہ کے علم میں آئی۔ ان میں سے آپ کی بیٹیوں زینب اور رقیہ اور آزاد کردہ غلام و متبنیٰ زید بن حارثہ نے اسلام قبول کیا۔ حضور کی تیسری اور چوتھی صاحب زادیاں ام کلثوم اور فاطمہ ابھی کم سن تھیں۔ قاضی سلیمان منصورپوری کی تحقیق کے مطابق تو حضرت فاطمہ کی ابھی ولادت نہیں ہوئی تھی اور حضرت علی، جو آں حضرت کی تولیت میں تھے، صرف آٹھ سال کے تھے اور ابھی سن شعور کو نہیں پہنچے تھے۔ بہرحال یہ صاحب زادیاں اور حضرت علی اسلام ہی کی آغوش میں پلے بڑھے اور سن شعور کو پہنچ کر انھوں نے اسلام ہی کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔۴؂
گھر سے باہر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوستوں ، قدر دانوں اور مداحوں کاایک وسیع حلقہ تھا۔ آپ نے ان پر توجہ دی۔ جوں جوں وہ اسلام کی تعلیم کے قائل ہوتے گئے، نہ صرف خود حلقہ بگوش اسلام ہوئے، بلکہ اپنے اپنے اہل خانہ یا دوستوں کو بھی اس دین میں لانے کا ذریعہ بنے۔ ان کا تعلق قریش کے سبھی خاندانوں سے تھا۔ اس کا اندازہ سابقون اولون (یعنی شروع ہی میں ایمان لانے والوں) کی فہرست سے لگایا جا سکتا ہے جو سیرت کی کتابوں میں ملتی ہے۔ ہم قریش کے خاندانوں کے حوالہ سے اسے یہاں نقل کرتے ہیں:
بنو ہاشم: جعفر بن ابی طالب مع زوجہ اسماء بنت عمیس
بنو مطلب: عبیدہ بن الحارث
بنو عبدشمس: عثمان بن عفان
خالد بن سعید بن العاص
سلیط بن عمرو
ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ
بنو اسد: زبیر بن العوام
خدیجہ بنت خویلد زوجۂ رسول اللہ
بنو مخزوم: ابوسلمہ بن عبدالاسد
عیاش بن ابی ربیعہ مع زوجہ اسماء بنت سلامہ
ارقم بن عبد مناف
بنو تیم: عبداللہ بن ابی قحافہ (حضرت ابوبکر)
طلحہ بن عبیداللہ
اسماء بنت ابی بکر (حضرت عائشہ ابھی سن شعور کو نہیں پہنچی تھیں)
بنو زہرہ: عبدالرحمن بن عوف
سعد بن ابی وقاص و عمیر بن ابی وقاص
خباب بن الارت (حلیف)
عبداللہ بن مسعود (حلیف)
بنو عدی: سعید بن زید مع زوجہ فاطمہ بنت خطاب
بنو جمح: عثمان بن مظعون و قدامہ بن مظعون و عبداللہ بن مظعون
بنو سہم: خنیس بن حذافہ
بنو اسد بن خزیمہ: عبداللہ بن جحش و ابو احمد بن جحش و زینب بنت جحش
بنو حارث: ابو عبیدہ بن الجراح
ان کے علاوہ غلاموں میں عمار بن یاسر، یاسر مع زوجہ سمیہ، عامر بن فہیرہ اور صہیب بن سنان کے نام قدیم الاسلام صحابہ کے طور پر آتے ہیں۔ سیرت کی قدیم ترین کتابوں کے مطابق نبوت کے پانچویں سال تک مسلمانوں کی تعداد سوا سو سے زیادہ ہو چکی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالکل ابتدا ہی میں قریش کے تمام خاندانوں کے اچھے افراد کو متاثر کر کے ان کے دلوں کو جیت لینے والی دعوت کیا خفیہ تھی اور اتنے لوگوں کااسلام کیا مخفی رہ سکتا تھا کہ قریش کی لیڈرشپ کو تین سالوں تک کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ وہ اس آنے والے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوئی تدبیر کر سکتے۔
دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو قریش کے خانوادے کوئی الگ الگ جزیرے نہ تھے کہ بنوہاشم میں پیش آنے والا ایک واقعہ بنو امیہ یا بنو اسد یا بنومخزوم کے علم میں نہ آ سکتا۔ ان کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں۔ آں حضرت کی پھوپھی ام الحکیم بیضاء بنو امیہ میں، پھوپھی صفیہ بنو اسد میں، پھوپھی برہ بنو مخزوم میں اور پھوپھی امیمہ بنو اسد بن خزیمہ میں بیاہی ہوئی تھیں۔ عثمان بن عفان بیضاء کے نواسے اور زبیر بن العوام حضرت خدیجہ کے بھتیجے اور صفیہ کے بیٹے تھے۔ جحش کے صاحب زادے امیمہ کی اولاد اور ابوسلمہ برہ کے بیٹے تھے۔ بنو زہرہ آں حضرت کے ننھیال اور بنو اسد آپ کے سسرال تھے۔ اتنی قریبی رشتہ داریوں میں باہمی تعلقات بے تکلف ہوتے ہیں، تمام لوگ ایک دوسرے کے احوال سے با خبر ہوتے ہیں اور کوئی بھی غیر معمولی واقعہ خفیہ نہیں رہ سکتا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت ہی تین سال تک کیسے خفیہ رہ گئی!

دعوت کو برداشت کرنے کا دور

ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ نہ صرف یہ کہ قریش کی لیڈرشپ کی نگاہوں کے سامنے ہو رہی تھی، بلکہ انھی کو مخاطب کیا جا رہا تھا، کیونکہ حضور کے عشیرہ و قبیلہ وہی تھے۔ لوگوں کے قبول اسلام کی رفتار بالکل فطری تھی۔ لوگ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے ، آپ کا نقطۂ نظر معلوم کرتے اور جیسے جیسے دعوت کے معاملہ میں یک سو ہوتے قبول اسلام کی راہ میں کوئی چیز سد راہ نہیں بنتی تھی۔ آغاز کار میں بوجوہ قریش کے لیڈروں نے حضور کی مخالفت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا، بلکہ دعوت توحید کو برداشت کیا۔ اس لیے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ آں حضرت کی دعوت کا خفیہ دور تھا۔ قریش کے اس رویہ کے بظاہر تین اسباب سمجھ میں آتے ہیں:
اولاً: اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنے رسول پر ایک تدریج کے ساتھ نازل ہوا۔ ابتدا میں اس کا ہدف دلوں کے اندر نیکی کے فطری داعیہ کو ابھارنا اور معاشرتی برائیوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا تھا۔ اس میں خدا سے شکرگزاری کے تعلق، بندوں کے حقوق کے شعور، غربا پروری، مسکینوں کی دست گیری، یتیموں پر شفقت اور مکارم اخلاق کو تعلیم کا مرکزی نقطہ بنایا گیا تھا۔ مثال کے طور پر کچھ آیات ملاحظہ ہوں:

کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیمَ. وَلَا تَحآضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ. وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا. وَّ تُحِبُّوْنَ المَالَ حُبًّا جَمًّا.(الفجر ۸۹: ۱۷ ۔ ۲۰)
’’ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیموں کی قدر نہیں کرتے، مسکینوں کو کھانا کھلانے پر ایک دوسرے کو نہیں ابھارتے، وراثت کو سمیٹ کر ہڑپ کرتے اور مال کے عشق میں متوالے ہو۔ ‘‘

اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ. وَلِسَانًا وَّشَفَتَیْنِ. وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ. فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ. وَمَآ اَدْرٰکَ مَاالْعَقَبَۃُ. فَکُّ رَقَبَۃٍ. اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ. یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ. اَوْ مِسْکِینًا ذَا مَتْرَبَۃٍ. ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.(البلد۹۰: ۸۔ ۱۷)
’’کیا ہم نے (انسان) کو دو آنکھیں نہیں دیں، اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے، اور اس کو دونوں راہیں نہیں سجھا دیں؟ پر اس نے گھاٹی نہیں پار کی۔ اور تم کیا سمجھے کہ کیا ہے وہ گھاٹی! گردن کو چھڑانا یا بھوک کے زمانہ میں کسی قرابت دار یتیم یا کسی خاک آلود مسکین کو کھلانا۔ پھر وہ بنے ان میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور ہمدردی کی نصیحت کی۔‘‘

اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی. فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی. وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی. فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی. وَ اَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی. وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی. فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی. (اللیل ۹۲: ۴ ۔ ۱۰)
’’تمھاری سرگرمی کے ثمرات الگ الگ ہیں۔ سو جس نے انفاق کیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور اچھے انجام کو سچ مانا اس کو تو ہم اہل بنائیں گے راحت کی منزل کا اور جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا اور اچھے انجام کو جھٹلایا اس کو ہم ڈھیل دیں گے کٹھن منزل کے لیے۔‘‘

تمام اچھے اہل عرب ان اعلیٰ مقاصد کے ہمیشہ سے خوگر تھے جن کی تعلیم قرآن دے رہا تھا۔ اس تعلیم سے شرفاے قریش کے دلوں میں کوئی کھٹک نہیں پیدا ہوئی۔ انھوں نے اس دعوت کو ایک مقبول و ہر دلعزیز مصلح کی ایک قابل قدر سرگرمی قرار دیا۔
ثانیاً: قریش کے اندر دین حنیف کے ماننے والوں کی ایک روایت پہلے سے موجود تھی۔ ان لوگوں کی تعداد اگرچہ زیادہ نہ رہی ہو، لیکن یہ لوگ عین خانہ کعبہ کے سایہ میں اپنے عقائد کا برملا اظہار کرتے اور معاشرہ ان لوگوں کو برداشت کرتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حنیف تو تھے ہی، آپ معاشرے کے سب سے زیادہ باکردار، مکارم اخلاق کاپیکر، حسن عمل کا نمونہ، مجسم صداقت و امانت اور حق نصیحت ادا کرنے والے بھی تھے۔ قوم آپ کی قدردان اور آپ پر اعتماد کرتی تھی۔ آپ نے دین کی دعوت دینا شروع کی تو وہ آپ کے اسی کردار کو مزید نمایاں کرنے والی تھی۔ لہٰذا قریش کو ابتدا میں اس دعوت سے کوئی وحشت نہیں ہوئی۔ یہ اسی طرح کی صورت حال تھی جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد اور قوم کو بتوں کی پوجا سے منع کرتے رہے تو قوم ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوئی۔ حتیٰ کہ جب انھوں نے بتوں کو توڑ ڈالا اور بتوں کے پجاریوں نے قیاس آرائی شروع کی کہ یہ کارروائی کس شخص کی ہو سکتی ہے تو انھوں نے یقین کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کا نام نہیں لیا، بلکہ محض گمان کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہٓٗ اِبْرَاہِیْمَ. (الانبیاء ۲۱ :۶۰)
’’ایک نوجوان کو، جس کا نام ابراہیم ہے، ہم نے ان بتوں کا (برا) ذکر کرتے سنا ہے۔‘‘

یعنی یہ شخص چونکہ بتوں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار مخالفانہ انداز میں کرتا رہا ہے، لہٰذا ممکن ہے اسی نے یہ حرکت کی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جب وہ تقاضے سامنے آئے جن کی زد قریش کے مفادات پر پڑتی تھی اور انھیں اپنے مذہبی نظام میں دراڑیں پڑنے کا خطرہ محسوس ہوا تب انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کے معاملہ میں رویہ تبدیل کیا۔
ثالثاً: عربوں کی زندگی قبائلی تھی ۔ ہر خاندان اپنے افراد کا بہی خواہ اور محافظ ہوتا تھا۔ دوسرے قبائل اور خاندانوں کے لوگ کسی غیر خاندان کے فرد کو نقصان پہنچانے سے پہلے سو بار سوچتے تھے کہ اس فرد کے خاندان کے جذبۂ انتقام کو کیسے ٹھنڈا کریں گے اور ان کے نقصان کی تلافی کی کیا صورت ہو گی۔ قریش کے اندر جب اسلام قبول کرنے والوں پر تشدد کرنے اور دعوت دین کو زور و قوت سے کچل دینے کا خیال پیدا ہوا تو بار بار یہی سوال سامنے آتا رہا کہ متاثرین کے خاندانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت بھی کسی میں ہے یا نہیں۔ عرب قبائل میں اپنے افراد کاساتھ دینے اور ان کے ساتھ زیادتی کا انتقام لینے کی روایت اس قدر مستحکم تھی کہ بعد میں جب یثرب کے قبائل اوس اور خزرج نے اسلام قبول کیا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاں لے جانے کی پیشکش کی تو اس سے پہلے آپ سے یہ یقین دہانی حاصل کی کہ ان قبائل کے ان افراد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا جو یہودیت اختیار کر چکے ہیں۔ چنانچہ حضور نے ان یہودیوں کے وہی حقوق تسلیم کیے جو اسلام لانے والوں کے تسلیم کیے۔

قریش کو انذار کا حکم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو برداشت کرنے کا یہ دور عارضی تھا۔ جلد ہی بیت اللہ کے متولیوں پر قرآن میں تنقید ہونے لگی اور ان کی کوتاہیوں کاپردہ چاک ہونے لگا تو ان کارویہ بھی بدل گیا۔ انھوں نے رسول اللہ کی برملا مخالفت شروع کر دی اور دعوت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے۔ قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت ملی کہ اپنے قرابت مند خاندان کو انذار کرو۔ انذار کا مطلب یہ تھا کہ ان کو خبردار کرو کہ وہ اپنی حرکتوں کو چھوڑ کر اسلام کی تعلیم کو قبول کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے لیے تیار رہیں، جس سے چھڑانے والا اور اللہ کے عذاب سے پناہ دینے والا کوئی نہ ہو گا۔ قرابت مند خاندان سے مراد بنو ہاشم ہی نہیں، بلکہ وہ تمام خاندان بھی تھے جن کا تعلق خانہ کعبہ کے نظم و نسق، اس کی حفاظت و خدمت اور مذہبی رسوم ادا کرانے سے تھا یعنی قریش کے تمام خانوادے۔ انذار کی ہدایت کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے گھر کے یہ متولی اور ناظمین اس سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی اصلاح کر کے دوسرے عربوں کے لیے قبول اسلام کی راہ کھولیں، کیونکہ دین کے معاملہ میں یہ ان کے مذہبی پیشوا ہیں۔ اگر یہ طبقہ کسی طرح دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے تو دوسرے لوگ بہ آسانی ان کی پیروی میں دعوت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اور جب تک یہ طبقہ دعوت کو قبول نہ کرے تو یہ عوام الناس کو اپنے مشوروں اور نصیحتوں کے ذریعے سے دعوت کی مخالفت اور بیخ کنی پر اکساتا رہتا ہے۔
یاد رہے کہ حضرت ابراہیم نے خانہ کعبہ اللہ واحد کی عبادت کے مرکز کے طور پر بنایا تھا اور اپنی اولاد کو اس میں نماز، طواف ، اعتکاف، حج اور قربانی کی سہولتیں مہیا کرنے اور زائرین کی خدمت کرنے کا فریضہ سونپا تھا۔ لیکن اب صورت حال یہ تھی کہ اولاد ابراہیم بیت اللہ کے اندر شرک کو تحفظ دینے اور توحید کی آواز دبانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اگر یہ لوگ حضور کی دعوت کو قبول کر لیتے تو بیت اللہ کے نظام کو اس کی اصل شکل میں قائم کرنا ممکن ہوتا جس کی آرزو ابراہیم نے کی تھی اور جس کے لیے درد دل کے ساتھ دعائیں کی تھیں۔
قرآن کی مذکورہ ہدایت پر عمل کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں ہر ممکن طریقہ اختیار فرمایا وہیں عربوں میں مروج طریقہ بھی اپنایا۔ ان کے ہاں یہ روایت تھی کہ اپنے دشمنوں کی غارت گری سے محفوظ رہنے کے لیے وہ اپنی بستی کے قریب کسی ٹیلہ پر ایک دید بان مقرر کر دیتے جو چاروں طرف نگاہ رکھتا۔ اگر دیدبان کبھی خطرہ محسوس کرتا تو ’یا صباحاہ‘ کا نعرہ بلند کرتا جس کا مطلب ہوتا کہ غارت گری کا خطرہ ہے۔ لوگ آواز سنتے ہی گھروں سے نکل کر بھاگتے ہوئے اس کے پاس آتے اور خطرہ کی نوعیت پوچھتے۔ اگر حملہ ہونے والا ہوتا تو وہ اپنے ہتھیار لگا کر میدان میں آ جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک صبح کوہ صفا پر کھڑے ہو کر یہی نعرہ لگایا تو لوگوں نے حیرت سے ایک دوسرے سے پوچھا کہ یہ نعرہ کون لگا رہا ہے۔ جب معلوم ہوا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز ہے تو قریش کے عام و خاص صفا کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں ایک نذیر (یعنی خطرہ سے خبردار کرنے والا) ہوں۔ میری اور تم لوگوں کی مثال اس آدمی کی ہے جو دشمن پر نظر رکھنے کے لیے اپنے قبیلہ کی دیدبانی کرتا ہے۔ پھر جب ڈرتا ہے کہ دشمن کہیں ان تک پہنچ نہ جائے تو ’یا صباحاہ‘ کا نعرہ بلند کر دیتا ہے۔ میں ایک آنے والے سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ اے بنو کعب بن لوی، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے بنو مرہ بن کعب ، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے بنو عبدشمس، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے بنو عبد مناف، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے بنو ہاشم، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے بنو عبدالمطلب، اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ میں اللہ کے ہاں تمھارے لیے کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ البتہ تمھارے ساتھ میرا رحمی رشتہ ہے، سو میں اس کا حق ادا کرتا رہوں گا۔ اس موقع پر واحد آواز جو آپ کے خلاف اٹھی ،وہ ابولہب کی تھی جس نے کہا:’ تبَّاَ لَکَ أَلِھٰذا دَعوَتَنَا‘(غارت ہو، کیا اسی لیے تم نے ہمیں بلایا تھا؟)۵؂ ۔
دوبارہ آپ نے انذار کی ہدایت پر عمل کرنے کی یہ تدبیر اختیار کی کہ تمام قرابت داروں کو کھانے پر بلایا۔ جب لوگ کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے ان سے خطاب کرکے اپنی دعوت پیش کرنا چاہی، لیکن ابولہب آپ کی تقریر میں مخل ہو گیا اور لوگوں سے کہا کہ اب یہ شخص تم پر اپنا جادو چلانا چاہتا ہے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی منتشر ہو گئے۔ اس طرح حضور کو دعوت پیش کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برملا انذار کے مضمون کو عوام میں بیان کرنا شروع کر دیا جس سے قرشی لیڈر چیں بجبیں ہوئے۔
 

۱؂ صحیح مسلم۔ باب بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ۱/۸۰۔
۲؂ سورۃ النجم ۵۳: ۱۔۱۰۔
۳؂ صحیح بخاری، باب کیف کان بدء الوحی۔
۴؂ سلیمان منصور پوری ۔ رحمۃللعالمین۔ ۸۱، ۱۲۳۔
۵؂ صحیح مسلم ۔ باب فی قولہ تعالیٰ و انذر عشیرتک الاقربین ۱۰۷۔ ۱۰۹۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جولائی 2007
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
4064 View