قریش کو عذاب الٰہی کا انذار - خالد مسعود

قریش کو عذاب الٰہی کا انذار

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

اہل مکہ کے لیے آزمائشیں:

جب رسول کی قوم اپنے تکبر کے اظہار کے طور پر پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ ظلم و زیادتی پر اتر آتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے کس بل نکالنے کے لیے اس قوم پر چھوٹی بڑی آفتیں نازل کرتا ہے تاکہ اس کے دلوں میں شکستگی پیدا ہو۔ وہ خدا کی طرف رجوع کریں، اس کے پیغام کو سنیں اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کریں۔ یہ اللہ کا ایک ایسا قانون ہے جس سے تمام رسولوں کی قومیں متاثر ہوئی ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں ہوا ہے:

وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْنَّبِی اِلَّا اَخَذْنَا اَھْلَھَا بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْنَ۔ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّءَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاءَ نَا الضَّرَّاءُ وَالسَّرَّاءُ َ اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔ عراف ۷:۹۴۔۹۵)
’’اور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا اس کے باشندوں کو مالی اور جسمانی مصائب سے آزمایا کہ وہ رجوع کریں۔ پھر ہم نے دکھ سے سکھ کو بدل دیا یہاں تک کہ وہ پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ دکھ اور سکھ ہمارے باپ دادوں کو بھی پہنچے ہیں۔ پھر ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ اس کا کوئی گمان بھی نہیں رکھتے تھے۔’’

دوسرے مقام پر خود قریش کے بارے میں واضح طور پر بتایا ہے کہ جب تک فیصلہ کن مرحلہ نہیں آ جاتا ان پر آفتوں اور مصیبتوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃ’‘ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِھِمْ حَتّٰی یَاْتِیَ وَعْدُاللّٰہ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ .(الرعد ۱۳:۳۱)
’’ان کافروں کو برابر کوئی نہ کوئی آفت ان کے اعمال کی پاداش میں پہنچتی رہے گی یا ان کی بستی کے قریب نازل ہوتی رہے گی یہاں تک کہ اللہ کے وعدے کے ظہور کا وقت آ جائے۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔’’

قرآن مجید کے اس بیان کاتقاضا یہ ہے کہ قریش پر متعدد آزمائشیں آئی ہوں لیکن تاریخ نے ان کو محفوظ نہیں کیا۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ صرف ایک آزمائش کا ذکر کرتے ہیں کہ قریش کی ضد و انانیت کے اسی زمانہ میں ان پر سخت قحط آیا یہاں تک کہ آدمی بھوک کے مارے زمین اور آسمان کے درمیان دھواں سا دیکھتے تھے۔ ہو سکتا ہے اس دوران میں قریش کوتجارت میں نقصانات ہوئے ہوں اور یہ چیز ریکارڈ میں نہ آئی ہو۔

عذاب الٰہی کے بارے میں اللہ کا قانون:

کسی قوم کی طرف رسول کی بعثت اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہوتا ہے۔ رسول اپنی قوم کے افراد کے مزاج اور ان کی روایات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے اس لیے جب وہ انہی کے ایک فرد کی حیثیت سے قوم کی زبان میں رب کا پیغام ان تک پہنچاتا ہے تو حقیقت میں وہ سب سے بڑی دولت ان میں بانٹ رہا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف وہ اپنی دنیا کو سنوار سکتے بلکہ آخرت میں فلاح کے مستحق بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی قوم کے لیے یہ بڑی بدبختی کی بات ہوتی ہے کہ وہ اپنے رسول کی ناقدری کرے اور اس کی بات ماننے سے انکار کر دے۔ اس صورت میں وہ قوم اللہ کے اس عظیم انعام کو اپنے لیے ایک عظیم مصیبت بنا لیتی ہے۔ چونکہ وہ رسول کی آمد کے نتیجہ میں خدا کے پیغام کی مخاطب بن جاتی ہے اس لیے اس کی بے پروائی کا مطلب کائنات کے بادشاہ حقیقی اور اپنے خالق و مالک کے فرمان سے بے اعتنائی ہوتا ہے اور یہ حرکت اللہ سے بغاوت ہے جس کی سزا سے وہ قوم اپنے آپ کو نہیں بچا سکتی۔ اگر قوم پیغام کی قدر کرتی ہے تو اس پر رب کریم کی رحمت کے مزید دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے زمین اپنے خزانے اگل دیتی اور آسمان اس کی خوشحالی میں اپناحصہ ادا کرتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے رسول کو بشیر اور نذیر کہا جاتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے والوں کو اللہ کی رحمت کی خوشخبری سناتا اور حق کے جھٹلانے والوں کو ان کی بد انجامی سے خبردار کرتا ہے۔
قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی بعثت کے ساتھ ہی اس کی قوم کے ایمان لانے کے لیے ایک مدت ٹھہرا دی جاتی ہے جس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ رسول کو بھی اس سے بے خبر رکھا جاتا ہے۔ قوم جب خدا کے پیغام کو نظر انداز کرتی ہے تو رسول کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کو اس کی اس حرکت کے انجام سے آگاہ کرے اور بتائے کہ اس پیغام کی تکذیب کے نتیجہ میں قوم پر دنیا میں بھی عذاب آئے گا اور آخرت میں بھی وہ مجرمین کی صف میں ہو گی۔ رسو ل اللہ ﷺ اپنی قوم کو نہایت دردمندی سے سمجھاتے کہ رب کے پیغام کو جھٹلا کر وہ اپنے آپ کو اسی عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں جو نابود ہو جانے والی اقوام ،عاد اور ثمود وغیرہ، پرآیا۔ قوم آپ سے یہ سوال کرتی کہ یہ عذاب کب آئے گا، ہم اس کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو حضورﷺ نہایت صاف گوئی سے کام لے کر بتا دیتے کہ میں عذاب کے آنے کی خبر تو پورے یقین کے ساتھ دے سکتا ہوں لیکن اس کے آنے کے وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اس کا علم صرف خدا کو ہے اور یہ امور غیب سے ہے۔

قریش کے لیے نزول عذاب کے اشارے:

قریش کے پیہم اصرار پر کہ ان پر عذاب کیوں نہیں آ رہا ہے نبی ﷺ کو وحی آسمانی کے ذریعے اشارے دیے گئے کہ عذاب کا آنا تو ایک حقیقت ہے لیکن متعین طور پر اس کا علم نہیں دیا جا سکتا۔ ممکن ہے وہ تمہاری زندگی میں آئے اور اس کا کچھ حصہ تم دیکھ سکو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو موخر کر دے اور تم اپنے مکذبین کا حشر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکو۔ لہٰذا تم پوچھنے والوں کو متعین طور پر کچھ نہ بتاؤ کہ یہ عذاب کب آئے گا۔ سورہ یونس میں فرمایا:

وَ اِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَھِید’‘ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ۔ وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُول’‘ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطوَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۔ وَ یَقُولُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن۔ قُلْ لَا اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا اِلَّا مَاشَآءَ اللّٰہُ۔ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَل’‘۔ اِذَا جَاءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ۔ قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُہ‘ بَیَاتًا اَوْ نَھَارًا مَّا ذا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس ۱۰: ۴۶۔۵۰)
’’یا تو ہم تم کو اس (عذاب) کا کوئی حصہ دکھا دیں گے جس کا ان سے وعدہ کر رہماری طرف ہو گی۔ پھر اللہ گواہ ہے اس چیز پر جو وہ کر رہے ہیں۔ اور ہر امت کے لیے ایک رسول ہے تو جب ان کا رسول آ جاتا ہے ان کے درمیان ا نصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچے ہو۔ کہہ دو کہ میں اپنی ذات کے معاملہ میں بھی کسی نقصان اور نفع پر کوئی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے ۔ جب ان کا وقت آ جاتا ہے تو پھر نہ ایک گھڑی پیچھے ہوتے نہہے ہیں یا تمہیں وفات دیں گے پس ان کی واپسی آگے۔ ان سے کہو کہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات میں آ دھمکے یا دن میں، تو کیاچیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں؟’’

قریش کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو اگلی قوموں سے مختلف نہ سمجھیں ۔ کسی بھی قوم میں جب رسول کی بعثت ہوتی ہے تو اس کے لیے فیصلہ کن مرحلہ آ جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کے لیے عذاب دنیا کافیصلہ کرتا ہے تو پھر نہ اس قوم کا نسب نامہ دیکھا جاتا ہے اور نہ اس کی طاقت و جمعیت کا کچھ لحاظ کیا جاتا ہے۔ وہ اسی انجام سے دوچار ہوتی ہے جو انجام قوم عاد اور قوم ثمود یا دوسری معذب قوموں کا ہوا:

فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صٰعِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ۔ اِذْ جَآءَ تْھُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَیْنِ اَیدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰہ۔ قَالُوْا لَوشَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰءِکَۃً فَاِنَّا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْنَ.(حم السجدہ ۴۱: ۱۳۔۱۴)
’’پس اگر وہ اعراض کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں اسی طرح کے کڑکے سے خبردار کرتا ہوں جس طرح کا کڑکا عاد اور ثمود پرنازل ہوا جب کہ ان کے پاس رسول ان کے آگے اور ان کے پیچھے سے آئے، اس دعوت کے ساتھ کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اتارتا تو ہم تو اس پیغام کے منکر ہیں جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو۔‘‘

نبی ﷺ جب اپنی قوم کی ضد سے پریشان ہوتے تو سوچتے کہ میری کسی کوتاہی کے سبب سے تو قوم اپنے موقف پر نہیں اڑ گئی ہے۔ قرآن نے حضورﷺ کو تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں۔ آپ تو تبلیغ کے کام میں اس سے زیادہ مشقت اٹھا رہے ہیں جتنی آپ سے توقع کی جاتی تھی۔ آپ کا کام رب کاپیغام قوم کو سنا دینا ہے۔ اس پیغام کو دلوں میں اتارنا اور اس کے مطابق ان کے رویوں کودرست کرنا آپ کی ذمہ داری میں شامل نہیں۔ اگر یہ اس پیغام کو نہیں مانیں گے تو ان کو عذاب الٰہی کا سامنا کرنا ہو گا۔ قریش کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی کہ اپنی تمام تر قوت و شوکت کے باوجود وہ عذاب سے کس طرح تباہ ہو سکتے ہیں اور بے سہارا مسلمان کیسے فتح مندی کا دعویٰ کر سکتے ہیں تو قرآن نے ان کو دعوت دی کہ ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ مکہ کے گردونواح میں کس تیزی سے نیا دین مقبول ہو رہا ہے اور شہر مکہ کو کس طرح گھیرے میں لیا جا رہا ہے۔

وَ اِنْ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا ا لْحِسَابُ۔ اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الاَرْضَ نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِھَا۔ وَاللّٰہُ یَحْکُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ وَھُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ۔(الرعد ۱۳: ۴۰۔۴۱)
’’اور جس چیز کی ہم ان کو دھمکی دے رہے ہیں اس کاکچھ حصہ یا تو ہم تم کو دکھا دیں گے یا ہم تم کو وفات دیں گے ۔ پس تمہارے اوپر صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے حساب کی ذمہ داری ہم پر ہے۔ کیا وہ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم سرزمین (مکہ) کی طرف اس کو اس کے اطراف سے کم کرتے ہوئے بڑھ رہے ہیں۔ فیصلہ اللہ کرتا ہے اور کوئی اس کے فیصلہ کو ہٹانے والا نہیں اور وہ بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔’’

ان آیات سے واضح اشارہ اس بات کا نکلتا ہے کہ قریش رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ میں شکست کھا جائیں گے اور مکہ فتح کر لیا جائے گا۔ اور غور کرنے والوں کو اس کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مکہ کے گردونواح میں آباد قبائل میں اسلام کا اثر، عرب سے باہر حبشہ میں اس کی پذیرائی اور مکہ کے اندر ان لوگوں کی معتدبہ تعداد کہ جو اسلام قبول کر کے اس کے لیے جانیں فدا کرنے پر آمادہ اور آزمائشوں کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے ہیں، اس بات کی علامت ہیں کہ ہر گزرنے والا دن قریش کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا باعث ہو گا۔ البتہ اس بات کو مبہم چھوڑ دیا گیا کہ آیا حضورﷺ خود اس صورت حال کامشاہدہ کر سکیں گے یا نہیں جس سے قریش کو دوچار ہونا پڑے گا۔

اَکُفَّارُکُمْ خَیر’‘ مِّنْ اُولٰءِکُمْ اَمْ لَکُمْ بَرَاءَ ۃ’‘ فِ ی الزُّبُرِ۔ اَمْ یَقُولُوْنَ نَحْنُ جَمِیع’‘ مُّنْتَصِر’‘۔ سَیُھْزَمُ الْجَمعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ۔ بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَالسَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ۔(القمر ۵۴:۴۳۔۴۶)
’’کیا تمہاری قوم کے کفار ان قوموں کے کفار سے کچھ بہتر ہیں یا تمہارے لیے آسمانی صحیفوں میں برأت نامہ لکھا ہوا ہے؟ کیا ان کا زعم یہ ہے کہ ہم مقابلہ کی قوت رکھنے والی جمعیت ہیں؟ یاد رکھیں کہ ان کی جمعیت عنقریب شکست کھائے گی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ بلکہ ان سے جو وعدہ ہے اس کے پورا ہونے کا اصلی وقت تو قیامت کا دن ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی سخت اور نہایت کڑوا ہے۔‘‘

قابل غور بات یہ ہے کہ القمر کی آیات میں بھی عذاب کی نوعیت کے بارے میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ اہل ایمان کے ساتھ مقابلہ میں کفار کی جمعیت کو شکست ہو گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ حالانکہ اس دور میں جب یہ سورہ نازل ہوئی مسلمان سخت دباؤ میں تھے اور قریش ان کو جینے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہ تھے۔ اس طرح کے حالات میں مستقبل کے بارے میں ایک پیشینگوئی کو حقیقت سمجھنا قریش کے لیے ناقابل فہم تھا۔ لیکن اہل ایمان نے اس سے جو اطمینان حاصل کیا ہو گا ، اس کا بس اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔
قریش کو جس قریبی عذاب کی خبر دی جا رہی تھی اس کے بارے میں قرآن نے یہ اشارہ بھی دیا کہ اس کا ہدف قریش کا قلع قمع کرنا نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے پیغام کی طرف رجوع کریں اور اس عذاب کا نوالہ بننے والوں کے انجام کو دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت پکڑیں، اور اپنی اصلاح کر لیں تاکہ بڑے عذاب سے بچ سکیں۔

وَلَنُذِیقَنَّھُم مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا۔ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُوْنَ۔(السجدہ ۳۲: ۲۱۔۲۲)
’’اور ہم ان کو بڑے عذاب کے سوا قریب کا عذاب بھی ضرور چکھائیں گے تاکہ یہ رجوع کریں۔ اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جن کو ان کے رب کی آیات کے ذریعہ سے یاددہانی کی جائے، پھر وہ ان سے اعراض کریں۔ ہم ایسے مجرموں سے ضرور انتقام لیں گے۔‘‘

جوں جوں مکہ کے حالات سنگین سے سنگین تر ہو رہے تھے عذاب کی دھمکی کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا اور قریش کو خبردار کیا جا رہا تھا کہ عذاب جب آئے گا تو اس سے بچنے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو سکے گی۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر خدا تمہارے قدموں کے نیچے کی زمین دھنسا دے اور تم پاتال میں چلے جاؤ تو کون تمہیں بچا سکے گا؟ اگر کنکر پتھر برسانے والی ہوا تمہارے اوپر مسلط ہو جائے تو کون سی طاقت اس کا رخ پھیر سکے گی؟ اگر اللہ تعالیٰ زمین کی تہوں میں موجود پانی ہی کو گہرا اتار دے تو صاف ستھرا پینے کاپانی کون تمہارے لیے مہیا کر سکتا ہے؟ پس عذاب سے بچنے کے لیے رسول کا دامن تھام لو۔ اس کی رہنمائی میں زندگی گزارو یہی چیز تمہاری حفاظت کی ضامن ہے۔

عذاب الٰہی کی نشانی کا مطالبہ:

اللہ کا رسول جب اپنی قوم کو عذاب سے ڈراتا اور اس سے بچنے کے لیے ان کو ایمان لانے کی تلقین کرتا ہے تو قوم کے بدبخت سردار اس کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ لیتے ہیں۔ وہ نہایت بے باکی سے یہ مطالبہ شروع کر دیتے ہیں کہ لو، ہم تمہاری تعلیم کا علی الاعلان انکار کرتے ہیں۔ اب لاؤ وہ عذاب جس کی دھمکی تم ہمیں دے رہے تھے۔ اور اگر تم عذاب نہیں لا سکتے تو اس کی کوئی نشانی اور علامت ہی مقرر کر دو جو تمہاری حقانیت کاثبوت ہو۔ اللہ کا رسول خود سے کوئی نشانی بھی مقرر نہیں کر سکتا۔ یہ کام اس کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہی کے اذن سے نشانی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے پیغمبر کے لیے عذاب کی خبر دینا لیکن نشانی دکھانے پر قادر نہ ہونا دشمنوں کے استہزاء کا باعث ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے بار بار یہ بات واضح کی کہ پیغمبر سے نشانی طلب کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تبلیغ کے لیے ایک مدت مقرر کر رکھی ہے۔ کفار اور مکذبین کی حرکتیں خدا کی نظر میں ہیں اور برابر ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ جب عذاب نازل ہونے کا وقت آئے گا تو ان کی کوئی تدبیر اس کو روک نہیں سکے گی۔ فرمایا:

وَیَقُولُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَولَا اُنْزِلَ عَلَیہِ اٰیَۃ’‘ مِّنْ رَّبِّہٖ۔ اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِر’‘ وَّ لِکُلِّ قَومٍ ھَادٍ۔ اَللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنْثٰی وَمَا تَغِیْضُ الاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَاد۔ وَکُلُّ شَیْءٍ عِنْدَہ‘ بِمِقْدَارٍ۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْکَبِیرُ الْمُتَعَالِ۔ (الرعد ۱۳: ۷۔۹)
’’اور جنہوں نے کفر کیا وہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی۔ تم تو بس ایک آگاہ کر دینے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے ہر مادہ کے حمل کو اور جو کچھ رحموں میں گھٹتا اور بڑھتا ہیاس کو بھی، اور ہر چیز اسکے ہاں ایک اندازہ کے مطابق ہے وہ غائب و حاضر سب کا جاننے والا، عظیم اور عالی شان ہے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ حاملہ کے وضع حمل کا مرحلہ یقینی ہوتا ہے لیکن اس کے لیے ایک اندازہ مقرر ہوتا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کس لمحہ بچہ جنے گی۔ اسی طرح عذاب آنے کے لیے بھی اندازہ مقرر ہے۔ اس کا آنا ناگزیر ہے البتہ اس کے لیے وقت کا تعین کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم کی چیز ہے۔
کفار جب اللہ کے رسول سے عذاب کی نشانی دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ایک طرف اس کو یقین دلاتے ہیں کہ جونہی نشانی ہمیں دکھا دی جائے گی ہم آپ کی دعوت پر ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ رسول دل سے متمنی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی معجزہ اور نشانی دکھا ہی دے تو میری قوم کی ہدایت کی راہ کھلے۔ دوسری طرف جب وہ یہ مطالبہ پورا نہیں کر سکتا تو وہی لوگ اس کو طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ یہ صورت حال بھی رسول کے لیے نہایت پریشانی کا باعث ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کاقانون آڑے آ جاتا ہے۔ پیغمبر اگر تمنا کا اظہار کرنے میں کچھ زیادہ ہی رغبت دکھائے تو اس کو سختی سے روک دیاجاتا ہے کہ ان لوگوں کی خاطر اللہ اپنے قوانین نہیں بدل سکتا۔ اسی طرح کے ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ سے فرمایا گیا:

وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُھُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاتِیَھُمْ بِاٰیَۃٍ۔ وَلَو شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْھُدی فَلا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ۔ اِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ وَالْمَوتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرجَعُوْنَ۔ (ا لانعام ۶: ۳۵۔۳۶)
’’اور اگر ان کا (قریش کا) اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو (تو ایسا کر دیکھو) اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا، تو تم ہرگز جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔ بات تو وہی مانیں گے جو سنتے سمجھتے ہیں۔ رہے یہ مردے تو اللہ ان کو اٹھائے گا ،پھر یہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ’’

قرآن نے یہ بات واضح کی کہ ساری کائنات ، آسمان، زمین اور چرند پرند خدا کی خالقیت، قدرت، حکمت، رحمت و ربوبیت کی لاتعداد نشانیاں ہی تو ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ لوگ ان نشانیوں پر غور کرنے کی عادت ڈالیں اور زندگی کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ نشانیاں اللہ رب العزت کی وحدانیت، اس کی تمام صفات، اس کی صفت عدل کے مظہر روز قیامت اور جزا و سزا کے نظام، سب کو واضح و روشن کر دینے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ان سے یہ لوگ سبق سیکھ لیں تو پھر کسی عذاب کی نشانی کے بھیجنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ وہ نشانی اگر نمودار ہو گئی تو کفار کاخاتمہ پھر قریب کی بات ہو گی۔ جو لوگ روز مرہ کی نشانیوں پر غور نہیں کرتے وہ عذاب کی نشانی دیکھ کر بھی راہ راست پر نہیں آتے۔ فرمایا:

وَ اِنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا نَحْنُ مُھْلِکُوْھَا قَبْلَ یَومِ الْقِیٰمَۃِ اَوْ مُعَذِّبُوھَا عَذَابًا شَدِیْدًا۔ کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا۔ وَمَا مَنَعَنَا اَنْ نُّرْسِلَ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا اَنْ کَذَّبَ بِھَا الاَوَّلُوْنَ۔ وَاٰتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَۃَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوْا بِھَا۔ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًا۔ وَ اِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْ یَا الَّتِیْ اَرَیْنٰکَ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ فِی الْقُرْاٰنِ۔ وَ نُخَوِّفُھُمْ فَمَا یَزِیْدُ ھُمْ اِلَّا طُغْیَانًا کَبِیْرًا۔ (بنی اسرائیل ۱۷: ۵۸۔۶۰)
’’اور کوئی بستی (جس میں رسول بھیجا گیا ہو) ایسی نہیں ہے جس کو قیامت سے پہلے ہم ہلاک نہ کر چھوڑیں یا اس کو کوئی سخت عذاب نہ دیں۔ یہ بات کتاب میں لکھی ہوئی ہے اور ہم کو نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا مگر اس چیز نے کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا اور ہم نے قوم ثمود کو ایک اونٹنی ۔۔۔ ایک آنکھیں کھول دینے والی نشانی ۔۔۔ دی تو انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اس کی تکذیب کر دی اور ہم نشانیاں بھیجتے ہیں تو ڈرانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں۔ اور یاد کرو جب ہم نے تم سے کہا کہ تمہارے رب نے ان لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے، اور وہ رویا جو ہم نے تم کو دکھائی تو اس کو ہم نے لوگوں کے لیے ایک فتنہ ہی بنا دیا، اور اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت وارد ہوئی۔ اور ہم تو ان کو ڈراتے ہیں لیکن یہ چیز ان کی غایت سرکشی میں اضافہ کیے جا رہی ہے۔’’

یہاں قوم ثمود کی اونٹنی کاحوالہ ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام اس قوم کی طرف رسول تھے۔ جب طویل مدت کی تبلیغ کے بعد بھی ان کی قوم نے اصلاح قبول نہ کی اورحضرت صا لح ا س کو عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے عذاب کی نشانی مقرر کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت صا لح نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک اونٹنی مقرر کر دی کہ اگر قوم اس کو کوئی گزند پہنچائے گی تو پھر عذاب نمودار ہو جائے گا۔ قوم کے ایک بدبخت آدمی نے اونٹنی کو زخمی کر دیا تو عذاب کے آنے میں جو رکاوٹ تھی وہ دور ہو گئی اور قوم ثمود ملیامیٹ ہو گئی۔
رسول اللہ ﷺ کو ان آیات میں بتایا ہے کہ آپ دیکھتے نہیں کہ جب قریش کو ان حقائق سے آگاہ کیاجاتاہے جو قریش کی شکست اور اسلام کے غلبہ کی دلیل ہیں تو یہ لوگ ان کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ اپنی خوش فہمیوں ہی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں۔ یہاں تین ایسے حقائق کا حوالہ دیا ہے جن سے قریش نے مطلوب اثر قبول نہ کیا۔ پہلی حقیقت یہ کہ مکہ کے گردونواح میں بسنے والے قبائل میں اسلام کی دعوت اپنا اثر دکھا رہی ہے اور ان میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ حالت ہو گی کہ مکہ مسلمانوں کے گھیرے میں ہو گا ۔ اس وقت قریش کو شکست قبول کرنے کے سوا کوئی چارا نہیں ہو گا۔ (کئی سالوں کے بعد مکہ فتح ہوا تو قریش نیز اہل مکہ نے ہتھیار ڈال دیے اور یہ شکست پورے اہل عرب کے اسلام لانے کا ذریعہ بنی) ۔ دوسری حقیقت یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو جو رویا دکھائی گئی اس سے قریش نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور اس کو مذاق میں اڑا دیا۔ رویا سے مراد اسراء و معراج کی رویا ہے جس میں نبی ﷺ کو بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی روحانیت اور برکات کا حقیقی وارث بتایا گیا اور اس میں نہ صرف قریش اور عرب کے مشرکین بلکہ یہود و نصاری کے لیے بھی یہ پیغام تھا کہ ان دونوں عظیم عبادت گاہوں کی تولیت اب رسول اللہ ﷺ اور ان کے پیرووں کو منتقل کرنے کا فیصلہ ہو چکاہے۔ (یہ فیصلہ فتح مکہ کے بعد اور پھر حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں بروئے کار آیا) ۔ تیسری حقیقت یہ کہ قرآن نے جہنمیوں کے لیے تھوہر کے درخت کا کھانا مہیا کرنے کی خبر دی لیکن بجائے اس کے کہ لوگ اس خبر سے دہشت زدہ ہوتے اور راہ حق کو اختیار کرتے، انہوں نے جہنم کے اس درخت ہی کو مذاق بنا لیا۔ اس طرح قریش نے ثابت کر دیا کہ انہیں اپنی خوش فہمیوں سے نکلنا گوارا نہیں۔ اگر عذاب کی نشانی بھی ان کو دکھا دی جائے گی تب بھی یہ اس کو جادوقرار دے کر اس کا انکار کر دیں گے۔ سلامتی کی راہ یہ ہے کہ یہ قرآن کو غور سے سنیں اور اس کی تعلیم کو حرز جان بنائیں۔ فرمایا:

اَوَلَمْ یَکْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ۔ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَومٍ یُّؤمِنُوْنَ۔ (العنکبوت ۲۹: ۵۱)
’’کیا ان کے لیے یہ چیز کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب اتاری۔ وہ ان کو پڑھ کر سنائی جا رہی ہے۔ بے شک اس کے اندر رحمت اور یاد دہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔’’

شق قمر کی نشانی کا ظہور:

قریش کے لیے عذاب کی فیصلہ کن نشانی تو مقرر ہوئی اور نہ اس کا ظہور ہوا۔ لیکن اللہ رب العزت نے اپنی قدرت کاملہ کا اظہار اور رسول اللہ کی دی ہوئی خبروں کی صداقت کے اثبات کے لیے شق قمر کی ایک غیر معمولی نشانی دکھائی۔ روایتوں میں آیا ہے کہ قریش کے پیہم اصرار پر کہ دوسرے رسولوں کی طرح کاکوئی معجزہ ہمیں بھی دکھایا جائے، نبی ﷺ نے ان کو توجہ دلائی کہ چاند کی طرف دیکھو۔ چاند کے دو ٹکڑے ہو ئے۔ ان میں سے ایک جبل نور کے سامنے کی جانب اور دوسرا اس کے پیچھے جاتا نظر آیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اب اس پر گواہ رہو۔ لیکن قریش نے حسب معمول اس کو جادو قرار دیا۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کا تذکرہ یوں کیا ہے:

اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ وَ اِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُعْرِضُوْا وَیَقُوْلُوْا سِحْر’‘ مُّسْتَمِرّ’‘۔ وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْا اَھْوَاءَ ھُمْ وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرّ’‘۔ وَلَقَدْ جَآءَ ھُمْ مِّنَ الْاَنْبَآءِ مَا فِیْہِ مُزْدَجَر’‘۔ حِکْمَۃ’‘ بَالِغَۃ’‘ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ۔ فَتَوَلَّ عَنْھُمْ یَومَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْ ءٍ نُّکُرٍ۔ (القمر ۵۴: ۱۔۶)
’’عذاب کی گھڑی سر پر آ گئی اور چاند شق ہو گیا۔ اور یہ (قریش) کوئی سی بھی نشانی دیکھیں گے تو اس سے اعراض ہی کریں گے اور کہیں گے کہ یہ تو جادو ہے جو پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اور انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی اور ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اور ان کو ماضی کی سرگزشتیں پہنچ چکی ہیں جن میں کافی سامان عبرت موجود ہے۔ نہایت دل نشین حکمت۔ لیکن تنبیہات کیا کام دے رہی ہیں۔ تو ان سے اعراض کرو (اور اس دن کا انتظار کرو) جس دن پکارنے والا ان کو ایک نہایت ہی نا مطلوب چیز کی طرف پکارے گا۔’’

ٍوحی الٰہی:

رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ کو وحی کاشدت سے انتظار ہوتا۔ آپ وحی جلد نازل ہونے کی تمنا بھی فرماتے۔ بعض معاملات میں آپ کو کسی معاملہ کے آسمانی فیصلہ کا انتظار ہوتا تو فرشتہ وحی کی راہ تکتے آپ کی نظریں بار بار آسمانوں کی طرف اٹھ جاتیں۔ آپ کو یہ خیال بھی ہوتا کہ اگر میں پچھلی وحی کا سبق جلد یاد کر لوں گا تب اگلی وحی کے نزول کا حق دار بن جاؤں گا۔ چنانچہ جب فرشتہ وحی کا پیغام لاتا تو آپ اس کو جلدی جلدی اخذ کرنے کی کوشش فرماتے تاکہ اس کو محفوظ کر لیں۔ قرآن میں آپ کو ایسا کرنے سے روکا گیا کہ وحی کے معاملہ میں آپ کی جلد بازی مناسب نہیں ہے۔ وحی کی تکمیل کے لیے خدا نے جو مدت ٹھہرا رکھی ہے اس کے پورا ہونے ہی میں مصلحت ہے۔ اس وقت تک بس علم وحی میں اضافہ کے لیے دعا کیا کرو۔

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرآنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقضٰی اِلَیکَ وَحْیُہ‘ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا۔ (ہ۲۰:۱۱۴)
’’اللہ بادشاہ حقیقی بہت برتر ہے۔ پس تم قرآن کے لیے، اپنی طرف اس کی وحی پوری کیے جانے سے پہلے، جلدی نہ کرو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب، میرے علم میں افزونی فرما۔’’

نبی ﷺ کی تسکین و اطمینان کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتہ وحی کو بھی حکم دیا کہ وہ اپنی زبان سے معذرت کر کے رسول اللہ ﷺ کو بتائیں کہ ہمارا اترنا ہماری اپنی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ وحی پانے کے لیے چشم براہ ہوتے ہیں لیکن اس شوق کی تسکین کے لیے جلدی جلدی وحی لانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ جونہی ہمیں حکم دیا جاتا ہے ہم بلاتاخیر اور بغیر کسی کوتاہی کے آپ کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا آپ اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں اور پورے صبر و استقامت کے ساتھ اس پر جمے رہیں۔ آپ کی مشکل کا مداوا اللہ کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے۔

وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ لَہ‘ مَا بَیْنَ اَیْدِینَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا۔ (مریم ۱۹: ۶۴)
’’اور ہم اپنے رب کے حکم کے سوا نہیں اترتے۔ ہمارے آگے اور پیچھے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب اسی کے اختیار میں ہے۔ اور آپ کا رب کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے۔’’

وحی نازل ہوتی تو اس میں حضورﷺ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے رہنمائی ہوتی۔ مخالفین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کا جواب ہوتا۔ اس سے حضورﷺ کو نئی قوت حاصل ہوتی جس سے آپ نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ حالات کا مقابلہ فرماتے۔

کثرت نماز اور صبر کی تلقین:

قریش کے اٹھائے ہوئے مخالفت کے طوفان میں نبی ﷺ کی ذاتی تربیت کے لیے بھی ہدایات ہوتیں۔ بطور خاص آپ کو کثرت سے نماز ادا کرنے کا حکم دیا جاتا اور بتایا جاتا کہ نماز آپ کی دعوت کی کامیابی کی کلید ہے۔ جتنا زیادہ آپ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوں گے اتنا آپ کا اعتماد اس پر بڑھے گا۔ اور آپ اپنے معاملات اس کے حوالہ کریں گے تو وہ آپ کو سنبھالے گا۔ اسی طرح اپنے موقف کی حقانیت پر کامل یقین کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر استقامت دکھائی جائے۔ جب آدمی مشکل سے مشکل حالات میں صبر کا دامن نہیں چھوڑتا تو ہر نیا چیلنج اس کے اندر نیا عزم و حوصلہ اور اپنے موقف کے ساتھ مضبوط تر وابستگی پیدا کرتا ہے۔ نبی ﷺ کی رہنمائی کے لیے ماضی کے رسولوں کے متعدد واقعات بار بار سنائے گئے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانہ میں حالات کامقابلہ کس صبر و عزیمت کے ساتھ کیا۔ حضورﷺ کی تربیت کے لیے بعض ہدایات ملاحظہ ہوں:

یٰاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ۔ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا۔ نِّصْفَہ‘ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا۔ اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرتِیْلًا۔ اِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَولًا ثَقِیْلًا۔ اِنَّ نَاشِءَۃَ الَّیلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّ اَقْوَمُ قِیْلًا۔ اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا۔ وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا۔ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا۔ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُولُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیلًا۔ وَذَرْنِی وَالْمُکَذِّبِینَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَ مَھِّلہُمْ قَلِیلًا۔(المزمل ۷۳: ۱۔۱۱)
’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات میں قیام کر مگر تھوڑا حصہ۔ آدھی رات یا اس میں سے کچھ کم کر دے یا اس پر کچھ زیادہ کر لے۔ اور قرآن کی تلاوت کر ٹھہر ٹھہر کر۔ ہم تم پر عنقریب ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ بے شک رات میں اٹھنا دل جمعی اور فہم کلام کے لیے نہایت خوب ہے۔ دن میں بھی تمہارے لیے کافی تسبیح کا موقع ہے۔ اور اپنے رب کے نام کا ذکر کر اور اس کی طرف گوشہ گیر ہو جا۔ وہی مشرق و مغرب کا خداوند ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بنا اور یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور ان کو خوبصورتی سے نظر انداز کر۔ اور ان خوشحال جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ اور ان کو کچھ دیر اور مہلت دے۔’’

چادر میں لپٹنے والے سے مراد حالات سے پریشان، فکرمند اور سوچ بچار میں گم شخص ہے۔ یہ تصویر نبی ﷺ کی ہے۔ آپ صورت حال سے مغموم، اپنی قوم کی ضد سے پریشان سوچتے کہ میں اس کو کس طرح خدا کے پیغام کی طرف لاؤں اور اس کی وحشت دور کروں۔ آپ چادر تان کر اس میں ماحول سے لاتعلق ہو کر غور و فکر کرتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کے بیشتر اوقات میں نماز پڑھنے اور قرآن کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کے پیغام کی صحیح معرفت اور اپنے رب پر کامل اعتماد و توکل آپ کو حاصل ہو۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا:

فَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُولُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا۔ وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّیلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی۔ وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖ اَزوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ۔ وَ رِزقُ رَبِّکَ خَیْر’‘ وَّ اَبْقٰی۔وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبْرِ عَلَیْھَا لَا نَسْءَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی۔(طٰہ ۲۰: ۱۳۰۔۱۳۲)
’’تو جو کچھ (مخالفین) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور اپنے رب کی، اس کی حمد کے ساتھ، تسبیح کرو، سورج کے طلوع اور اس کے غروب سے پہلے۔ اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تم نہال ہو جاؤ۔اور ان کی بعض جماعتوں کو آسائش زندگی کی جس رونق سے ہم نے، ان کی آزمائش کے لیے، بہرہ مند کر رکھا ہے اس کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤ۔ اور تمہارے رب کا ذکر بہتر اور پائیدار ہے۔ اور اپنے لوگوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو۔ ہم تم سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ہم تم کو رزق دیں گے اور انجام کار کی فیروز مندی تقویٰ کے لیے ہے۔’’

فااسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا اِنَّہ‘ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر’‘۔ وَلَا تَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَالَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَولِیَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیلِ۔ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ۔ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِینَ۔ وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِینَ۔(ہود ۱۱: ۱۱۲۔۱۱۵)َ
پس تم جمے رہو جیسا کہ تمہیں حکم ملا ہے، اور وہ بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ توبہ کی ہے اور کج نہ ہونا۔ بے شک وہ ، جو کچھ تم کر رہے ہو اس کو دیکھ رہا ہے۔ اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہونا جنہوں نے ظلم کیا کہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ پکڑے۔ اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حامی نہیں۔ پھر تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ اور نماز کا اہتمام کرو دن کے دونوں حصوں میں اور شب کے کچھ حصہ میں۔ بے شک نیکیاں بدیوں کو دور کرتی ہیں۔ یہ یاد دہانی ہے یاددہانی حاصل کرنے والوں کے لیے۔ اور ثابت قدم رہو، اللہ خوب کاروں کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

اہل ایمان کا لحاظ:

آنحضرت ﷺ کے لیے دلبستگی کا بڑا سامان آپ کے وہ ساتھی تھے جو آپ کی دعوت پر لبیک کہہ کر اہل ایمان کے قافلہ میں شامل ہو گئے تھے۔ جب حضورﷺ کفار کی ریشہ دوانیوں سے پریشان ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام ملتا کہ آپ اپنے ساتھیوں کی موجودگی سے اطمینان حاصل کریں، ان کے معاملات میں دلچسپی لیا کریں اور کفار سے بے اعتنائی برتیں۔ یہی وفادار ساتھی آپ کے لیے کفایت کریں گے۔
اوپر سورہ ہود کی آیات میں ایک ہدایت یہ بھی ہے کہ ظالموں کی طرف مائل نہ ہونا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیغمبر ﷺ کافروں کو منہ ہی نہ لگائیں ۔ کفار سے ملنا ملانا اور اپنا پیغام ان کو سنانا تو آنحضرت ﷺ کی ذمہ داری میں شامل تھا۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا کر ساتھی بن چکے ہوتے ہیں ان کی طرف سے ایک طرح کا اطمینان ہوتا ہے کہ یہ لوگ تو اپنے ساتھیوں میں شامل ہو چکے۔ اب توجہ دوسرے لوگوں پر مرکوز کرنی چاہیے جو ابھی تک اس پیغام سے بدکے ہوئے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہوتی ہے کہ جن لوگوں نے اپنے گھر والوں کی خواہشات کے علی الرغم اپنی ساری دلچسپیاں رسول کے پیغام کی پیروی میں تج دی ہوں ان کے ظاہری نقصان کی تلافی کی واحد شکل یہ ہوتی ہے کہ اللہ کا رسول ان کو اپنی خصوصی توجہ کا محور بنائے، ان کی مشکلات میں ان کو دلاسا دے اور حق پر استقامت کی خصوصی بشارتوں سے ان کو نوازے۔ اس مقصد کی خاطر اگر وقتی طور پر اسے کفار کے بڑے لوگوں سے بے اعتنائی بھی برتنی پڑے تو وہ ان سے بے اعتنائی بھی برتے۔ قرآن مجید میں حضورﷺ کو خاص طور پر اس سلسلہ میں ہدایات دی گئیں:

وَلَا تَطْرُدِالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہ‘۔ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیءٍ فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْا اَھٰؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ بَیْنِنَا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ۔ وَاِذَا جَآءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰم’‘ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوءً ا بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہ غَفُور’‘ رَّحِیْم’‘۔ (الانعام ۶: ۵۲۔۵۴)
’’ اور تم ان لوگوں کو اپنے سے دور نہ کیجیو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی خوشنودی چاہتے ہوئے۔ ان کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں اور نہ تمہاری ذمہ داری کا کوئی حصہ ان پر ہے کہ تم ان کو اپنے سے دور کر کے ظالموں میں سے بن جاؤ۔ ا ور اسی طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے سے آزمایاہے کہ وہ کہیں کہ کیا یہی لوگ ہیں جن کواللہ نے ہمارے درمیان سے اپنے فضل کے لیے چنا؟ کیا اللہ شکرگزاروں سے اچھی طرح واقف نہیں، اورجب تمہارے پاس وہ لوگ آیا کریں جو ہماری آیات پرایمان لائے تو تم ان کوکہو کہ تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے انبیاپر رحمت واجب کر رکھی ہے۔ جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے گا ، پھر وہ اس کے بعد توبہ اوراصلاح کرلے گا تو وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔’’

لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖ اَزوَاجًا مِّنْھُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤمِنِیْنَ۔ (الحجر۱۵: ۸۸)
’’ہم نے ان کے مختلف گروہوں کو جن چیزوں سے بہرہ مند کر رکھا ہے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو اور نہ ان کی حالت پر غم کرو، اور اپنی شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھو۔’’

ابن ام مکتوم کی آمد پر حضورﷺ کی ناگواری:

سورہ عبس میں ایک واقعہ کا حوالہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ قرشی سرداروں سے گفتگو فرما رہے تھے اور ان تک دین کی تعلیم پہنچا رہے تھے کہ اسی دوران میں ایک صحابی عبداللہ بن ام مکتومؓ آ نکلے۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے خالہ زاد بھائی تھے اور تھے نابینا۔ کفار کے سامنے عین تبلیغ کے دوران ان کا موقع پر آ نکلنا نبی ﷺ کو ناگوار ہوا۔ آپ کو اندیشہ ہوا کہ اب قرشی سرداروں کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ تمہارا ساتھ اسی طرح کے معذور اور کچھ غریب لوگ دے رہے ہیں۔ ان کو تو تم نے بے وقوف بنا لیا۔ اب چاہتے ہو کہ ہم بھی تمہارے دام میں گرفتار ہو کر ان کے ساتھ برابری کی سطح پر آ جائیں۔ ہم کسی طرح تمہاری دعوت قبول نہیں کر سکتے۔ مصلحت تبلیغ و دعوت کے تقاضے سے حضورﷺ کی پیشانی سے جو ناگواری ظاہر ہوئی اس پر قرآن نازل ہوا:

فَاَنْتَ لَہ‘ تَصَدّٰی۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی۔ وَاَمَّا مَنْ جَآءَ کَ یَسْعٰی۔ وَھُوَ یَخْشٰی۔ فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃ۔ فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہ‘۔ (عبس ۸۰: ۱۔۱۲)
’’اس نے (پیغمبر نے) تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا، اس پر کہ اندھا اس کے پاس آیا۔ اور تجھے کیا معلوم شاید وہ سدھرنا چاہتا ہو یا نصیحت سنتا تو نصیحت اس کو نفع پہنچاتی؟جو بے پروائی برتتا ہے اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔ حالانکہ تم پر کوئی ذمہ داری نہیں اگر وہ اپنی اصلاح نہ کرے۔ اور جو تمہارے پاس شوق سے آتا ہے اور وہ خدا سے ڈرتا بھی ہے تو تم اس سے بے پروائی برتتے ہو! ہرگز نہیں، یہ تو ایک یاددہانیہے تو جو چاہے اس سے یاددہانی حاصل کرے۔‘‘

صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپنی قوم کے لیے رافت و رحمت کے جذبہ اور ادائے فرض کے جوش میں نبی ﷺ فکرمند ہوئے کہ ابن ام مکتوم کی اس موقع پر آمد کفار کو بھگانے کا بہانہ نہ فراہم کر دے اس لیے آپ نے اپنے صحابی کی طرف سے منہ پھیرا لیکن اس میں وہ ہدایت آپ کی نظروں سے اوجھل ہو گئی جس کا ذکر اوپر سورہ الحجر کے حوالہ سے ہوا ہے۔ سورہ عبس کی آیات میں اسلوب کلام سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حضورﷺ پر عتاب ہوا ہو، لیکن عتاب کا یہ رخ آپ کی طرف نہیں بلکہ کفار و منکرین کی طرف ہے۔ اس کی وضاحت امام حمیدالدین فراہیؒ نے اپنی تفسیر میں یوں کی ہے:

’’اس معاملہ کی اصل نوعیت کو ایک مثال سے سمجھو۔ فرض کرو ایک نہایت مستعد اور ذمہ دار چرواہا ہے۔ اس کے گلّے کی کوئی فربہ بھیڑ گلّے سے الگ ہو کر کھو جائے، چرواہا اس کی تلاش میں نکلے، ہر قدم پر اس کی کھر کے نشانات ملتے جا رہے ہوں۔ جنگل کے کسی گوشہ سے اس کی آواز بھی سنائی دے رہی ہو تو چرواہا کامیابی کی امید میں دور تک نکل جاتا ہے۔ اور اپنے اصلی گلے سے تھوڑی دیر کے لیے غافل ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس لوٹتا ہے تو اس کا آقا اس کو ملامت کرتاہے کہ تم پورے گلے کو چھوڑ کر ناحق ایک دیوانی بھیڑ کے پیچھے ہلکان ہوئے۔ اس کو چھوڑ دیتے اسے بھیڑیاکھا جاتا تو وہ اسی کی مستحق تھی۔ بتاؤ اس میں عتاب کس پر ہوا۔ چرواہے پر یا کھوئی ہوئی بھیڑ پر۔ ظاہر ہے کہ یہ عتاب کھوئی ہوئی بھیڑ پر ہے۔ چرواہے اور گلے کی تو اس میں زیادہ سے زیادہ دلداری ہوئی۔ بالکل یہی صورت معاملہ یہاں بھی ہے۔ عتاب کاروئے سخن بظاہر آنحضرت ﷺ کی طرف ہے لیکن خفگی کاتمام زور منکرین و معاندین پر پڑ رہا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے لیے تو اس عتاب کے اندر شفقت و التفات کی نہایت جاں نواز ادائیں پنہاں ہیں۱؂۔‘‘

پس سورہ عبس میں آنحضرت ﷺ کو ہدایت کی گئی ہے کہ آپ مغروروں اور سرکشوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے کوئی ایسی شکل اختیار نہ کریں جو آپ کے بلند مرتبہ سے فروتر ہو اور کتاب الٰہی کے شایان شان نہ ہو۔ جو لوگ اس نعمت گراں مایہ سے منہ پھیر رہے ہیں وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ توجہ کے اصل مستحق وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان کی صف میں شامل ہو گئے اور اب چاہتے ہیں کہ وہ بہتر سے بہتر اخلاق و کردار کے مالک بنیں، دین سیکھیں اور اپنے نفس کاتزکیہ کریں۔ 

 

حوالہ جات
۱؂ حمیدالدین فراہی۔ مجموعہ تفسیر فراہی۔ ص ۲۵۷

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2009
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 07, 2016
3627 View