دین کا ماخذ - جاوید احمد غامدی

دین کا ماخذ

دین و دانش

خدا نے انسان کو پیدا کیا تو دوچیزیں اُس کے اندر رکھ دیں: ایک یہ احساس کہ اُس کا ایک بنانے والا ہے جو اُس کا مالک ہے۔ دوسرے یہ احساس کہ کیا عمل اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ خدا نے اِس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں انسان کے اندر رکھی ہیں جنھیں یاد دلایا جائے تو وقت کے ساتھ انسان کے علم اور عمل میں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ یہ دونوں چیزیں بھی اِسی طرح رکھی گئی ہیں۔
یہی اصل دین ہے جو خدا نے انسان کو اُسی وقت دے دیا، جب اُس نے انسان کو پیدا کیا۔ پھر خدا نے انسانوں کے اندر سے کچھ لوگوں کو چنا، اُنھیں اپنا پیغام دیا اور اُنھیں انسانوں کی طرف بھیج دیا کہ جاؤ اور میرا یہ پیغام اُنھیں پہنچاؤ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں نبی اور رسول کہا جاتا ہے۔ یہ آئے اور خدا نے جو دین انسان کے اندر رکھا تھا، اُس کے سب عقیدے اور قاعدے ضابطے کھول کھول کر انسان کو بتا دیے۔
یہ سلسلہ پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گیا ہے۔ خدا نے بتا دیا ہے کہ آپ اِس سلسلے کے آخری شخص تھے، آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ چنانچہ دین اب آپ ہی سے حاصل کیا جاتا ہے اور سچا دین وہی ہے جسے آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ یہ خدا کا دین ہے یا اپنے عمل سے بتا دیں یا کوئی چیز دین سمجھ کر آپ کے سامنے کی جائے اور آپ اُس سے منع نہ کریں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کی زندگی میں ہزاروں لوگوں نے سیکھا اور آپ کے سامنے اُس پر عمل کیا۔ پھر لاکھوں نے اِسی طرح اُن سیکھنے والوں سے سیکھا اور اُس پر عمل کیا۔ یہ سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹا۔ آپ کے ماننے والے ہر نسل میں اِس دین کو پڑھتے پڑھاتے، زبان و قلم سے دوسروں کو بتاتے اور اِس پر عمل کرتے ہوئے اِس کو آگے پہنچاتے رہے۔ اب یہ ہم تک پہنچ گیا ہے اور ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ٹھیک اُسی طرح پہنچ گیا ہے، جس طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اُن لوگوں کو دیا تھا جو آپ کی زندگی میں آپ کو خدا کا نبی اور رسول مان کر آپ کے ساتھی بن گئے تھے۔
ہمارے اِس یقین کی وجہ یہ ہے کہ ہر نسل میں اِس کے ماننے والوں کی اتنی بڑی تعداد نے اور اتنے مختلف علاقوں میں اِس کو اپنی زبان سے، اپنے قلم سے اور اپنے عمل سے آگے پہنچایا ہے کہ اُن کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ سب مل کر جھوٹ بول سکتے ہیں یا غلطی کر سکتے ہیں۔ علم کی زبان میں اِس کو اجماع اور تواتر کہا جاتا ہے۔ سب عاقل مانتے ہیں کہ اِس طریقے سے جو بات ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچے، وہ یقینی ہوتی ہے۔
یہ دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
ایک قرآن،
دوسری سنت۔
قرآن وہی کتاب ہے جس کو مسلمان قرآن کہتے ہیں۔ خدا نے یہ کتاب اپنے ایک فرشتے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اتاری تھی۔ یہ کتاب جن الفاظ میں اور جس طرح اتاری گئی، آپ نے اُسی طرح اور اُنھی الفاظ میں لوگوں کو بار بار پڑھ کر سنائی۔ آپ کے ماننے والوں نے اِس کو آپ سے سن کر یاد کیا اور اگر لکھنا جانتے تھے تو لکھ کر اپنے پاس بھی رکھ لیا۔ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ اِن میں سے کسی نے ایک سورت، کسی نے دو سورتیں، کسی نے دس بیس اور کسی نے پورا قرآن یاد کیا یا اپنے پاس لکھ کر رکھا۔ اگلی نسل کے لوگوں نے بھی یہی کیا۔ مسلمانوں کی ہر نسل میں لوگ یہی کرتے رہے۔ اِس وقت بھی یہ ہر گھر میں لکھی ہوئی موجود ہے اور دنیا میں لاکھوں انسان اِس وقت بھی اِس کو پہلے حرف سے آخری حرف تک زبانی سنا سکتے ہیں۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ لوگوں کی ہزار کوشش کے باوجود اِس میں کوئی تبدیلی نہ اِس سے پہلے ہو سکی ہے اور نہ اب ہو سکتی ہے۔ اِس لیے یہ بالکل یقینی ہے کہ اِس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے، وہ حرف بہ حرف وہی کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو دی تھی۔
یہی معاملہ سنت کا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس قوم میں پیدا ہوئے، اُس کے سب لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے۔ خدا نے آپ کو حکم دیا کہ آپ اُس طریقے کی پیروی کریں جو ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ اِس طریقے کی بعض چیزیں اُسی طرح باقی تھیں، جس طرح ابراہیم علیہ السلام اُنھیں اپنی اولاد میں چھوڑ کر گئے تھے۔ لیکن بعض چیزیں بھلا دی گئی تھیں اور بعض میں غلطی ہو رہی تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں یاد دلایا، اُن میں جو غلطیاں ہو رہی تھیں، اُن کو درست کیا اور خدا کے حکم سے اُن میں اضافے بھی کیے، پھر اپنے ماننے والوں کو پابند کر دیا کہ وہ اُنھیں اختیار کر لیں۔ یہی سب چیزیں ہیں جنھیں آپ کی سنت کہا جاتا ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر قرآن سے پہلے کی چیزیں ہیں جن سے عرب کے سب لوگ واقف تھے، اِس لیے قرآن جب اِن کا ذکر کرتا ہے تو ایسی چیزوں کے طور پر کرتا ہے جنھیں سب جانتے ہیں۔ اِن کے لیے کسی تعارف یا تفصیل کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ بالکل اُسی طرح ہم تک پہنچی ہیں، جس طرح قرآن پہنچا ہے۔ مسلمانوں کی ہر نسل کے لوگوں نے پچھلوں سے لے کر اِن پر عمل کیا اور اگلوں تک پہنچا دیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم ہے۔ اِس لیے یہ بھی یقینی ہیں۔ ثبوت کے لحاظ سے اِن میں اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔
[۲۰۱۲ء]

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت نومبر 2015
مصنف : جاوید احمد غامدی