روزہ - جاوید احمد غامدی

روزہ

 

نماز اور زکوٰۃ کے بعد تیسری اہم عبادت روزہ ہے۔ عربی زبان میں اِس کے لیے ’صوم‘ کا لفظ آتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے اور اُس کو ترک کردینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ خاص حدود وقیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اِسی کو روزہ کہتے ہیں۔ انسان چونکہ اِس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اِس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اُس کا جذبۂ عبادت جب اُس کے عملی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ روزہ اِسی اطاعت کا علامتی اظہارہے۔ اِس میں بندہ اپنے پروردگار کے حکم پراور اُس کی رضا اور خوشنودی کی طلب میں بعض مباحات کو اپنے لیے حرام قرار دے کر مجسم اطاعت بن جاتا او راِس طرح گویا زبان حال سے اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ اگر قانون فطرت کی رو سے جائز کسی شے کو بھی اُس کے لیے ممنوع ٹھیرا دیتا ہے تو بندے کی حیثیت سے زیبا یہی ہے کہ وہ بے چون وچرا اِس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔


اللہ کی عظمت و جلالت اور اُس کی بزرگی اور کبریائی کے احساس واعتراف کی یہ حالت، اگر غور کیجیے تو اُس کی شکر گزاری کا حقیقی اظہار بھی ہے۔ چنانچہ قرآن نے اِسی بنا پر روزے کو خدا کی تکبیر اور شکر گزاری قرار دیا اور فرمایاہے کہ اِس مقصد کے لیے رمضان کا مہینا اِس لیے خاص کیا گیا ہے کہ قرآن کی صورت میں اللہ نے جو ہدایت اِس مہینے میں تمھیں عطا فرمائی ہے اور جس میں عقل کی رہنمائی اورحق وباطل میں فرق و امتیاز کے لیے واضح اورقطعی حجتیں ہیں، اُس پراللہ کی بڑائی کرو اور اُس کے شکرگزار بنو۔


اِس کا منتہاے کمال یہ ہے کہ آدمی روزے کی حالت میں اپنے اوپر مزید کچھ پابندیاں عائد کر کے اوردوسروں سے الگ تھلگ ہو کر چند دنوں کے لیے مسجد میں بیٹھ جائے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرے۔ اصطلاح میں اِسے اعتکاف کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ رمضان کے روزوں کی طرح لازم تو نہیں کیا گیا، لیکن تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ روزہ ونماز اور تلاوت قرآن کے امتزاج سے جو خاص کیفیت اِس سے پیدا ہوتی اور نفس پر تجرد وانقطاع اورتبتل الی اللہ کی جو حالت طاری ہو جاتی ہے، اُس سے روزے کااصلی مقصود درجۂ کمال پرحاصل ہوتا ہے۔

روزے کی تاریخ

نماز کی طرح روزے کی تاریخ بھی نہایت قدیم ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ روزہ مسلمانوں پر اُسی طرح فرض کیا گیا، جس طرح وہ پہلی قوموں پرفرض کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تربیت نفس کی ایک اہم عبادت کے طور پر اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے۔

روزے کا مقصد

اِس کا مقصد قرآن نے یہ بیان کیاہے کہ لوگ خدا کا تقویٰ اختیار کر لیں۔ قرآن کی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے شب وروزکو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اِس بات سے ڈرتا رہے کہ اُس نے اگر کبھی اِن حدود کو توڑا تو اِس کی پاداش سے اللہ کے سوا کوئی اُس کو بچانے والا نہیں ہو سکتا۔

روزے کا قانون

 

 اِس کا قانون درج ذیل ہے:


روزے کی نیت سے اور محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ تعلق سے اجتناب ہی روزہ ہے۔
یہ پابندی فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک ہے، لہٰذا روزے کی راتوں میں کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا بالکل جائز ہے۔
روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا ہے، اِس لیے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُس پر فرض ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
بیماری یا سفر کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کے باعث آدمی اگر رمضان کے روزے پورے نہ کر سکے تو لازم ہے کہ دوسرے دنوں میں رکھ کر اُس کی تلافی کرے اور یہ تعداد پوری کر دے۔
حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ تاہم اِس طرح چھوڑے ہوئے روزے بھی بعدمیں لازماً پورے کیے جائیں گے۔
روزے کا منتہاے کمال اعتکاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو اِس کی توفیق دے تو اُسے چاہیے کہ روزوں کے مہینے میں جتنے دنوں کے لیے ممکن ہو، دنیا سے الگ ہو کر اللہ کی عبادت کے لیے مسجد میں گوشہ نشین ہو جائے اور بغیر کسی ناگزیر انسانی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔

آدمی اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو تو روزے کی راتوں میں کھانے پینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن بیویوں کے پاس جانا اُس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ اعتکاف کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اِسے ممنوع قرار دیا ہے۔(الاسلام ۱۰۳۔۱۰۶)

 ------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2016
مصنف : جاوید احمد غامدی