کیا مذہب کاروبار ہے؟ خورشید احمد ندیم

کیا مذہب کاروبار ہے؟

 میڈیا نے مذہب کی خدمت کی ہے یا اسے بازیچۂ اطفال بنادیا ہے؟ 

ایک سرمایہ دارانہ نظام میں میڈیا کے کردار کو سمجھے بغیر،اس سوال کا جواب نہیں مل سکتا۔سرمایہ داری کا صرف ایک مذہب ہے: سرمایہ۔یہی فاتح ِعالم ہے اور یہی بادشاہ گر۔ ہر اخلاقی قدر اس کے لیے بے معنی ہے،اگر اس کے ساتھ کوئی مادی فائدہ وابستہ نہیں۔ اس کی بقا اس میں ہے کہ سرمایے میں مسلسل اضافہ ہو تا رہے۔ اس کے لیے اسے دست و بازو کی ضرورت ہے۔ آلات درکار ہیں۔ میڈیا بھی ایسا ہی ایک آلہ ہے۔
سرمایہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو اس کی بڑھوتی میں مانع ہو۔ مثال کے طورپر مذہب۔ مثال کے طور پر وطن۔ مذہب اخلاقی قیود عائد کرتا ہے۔ یہ قیود سرمایے کی بے لگام دوڑمیں رکارٹ بنتی ہیں۔ یوں مذہب اس کا معاون نہیں ہو سکتا۔ وطن بھی جغرافیائی حدود کا تعین کر تا ہے۔ سرمایہ چاہتا کہ سرحدیںاس کی رسائی کو محدود نہ کریں۔ اس طرح اسے سرحدوں کی پابندی بھی قبول نہیں۔ 
انسان کا شاکلہ مگر ایسا ہے کہ وہ مذہب اور وطن کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ مذہب اس کے اخلاقی وجود کا مطالبہ ہے ا ور وطن مادی بقا کا۔ سرمائے نے ان بنیادوں کو متزلزل ضرور کیا ہے مگرانہیں ڈھا نہیں سکا۔ اس نے ان کے لیے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے ان تصورات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ سادہ لفظوں میں مذہب اور وطن سے وابستہ جذبات کو جنسِ بازار بنا دیا۔
وطن کے معاملے میں اس نے ایک حل تلاش کیا۔قومی ریاست کے وجود کو باقی رکھتے ہوئے، عالمگیریت کا تصور دیا اور یوں سرمایے کے لیے ان سرحدوں کو بے معنی بنا دیا۔ یا پھر وطن کو لوکل مارکیٹ کے حوالے سے دیکھا۔ مذہب کے باب میں دو کام کیے گئے۔ میڈیا کے آلے کو استعمال کرتے ہوئے، ایک تو اس نے مذہب کو انفوٹینمنٹ کاشعبہ بنا دیا۔اب مذہبی پروگراموں کواس طرح ڈیزائن کیا گیا جیسے انٹر ٹینمنٹ کا کوئی پروگرام ہو تا ہے۔زرق برق لباس اور خواتین کو لازماً اس کا حصہ بنایا گیا۔ بات مزید آگے بڑھی تومذہبی پروگرام براہِ راست فلم اور ٹی وی اداکاروں کے حوالے کرد یے گئے۔ 
سالوں پہلے میں نے ایک مقبول ٹی وی چینل پر ایک علمی و مذہبی پروگرام کی میزبانی کا آغاز کیا۔ ایک دو پروگرام نشر ہوئے تو مجھے چینل کے مالک کا فون آیا۔ انہوں نے پروگرام کومقبول بنانے کے لیے مشورے دیے۔ مثال کے طور پر پروگرام میںمیری آنکھیں مسکرانی چاہئیں وغیرہ۔ سادہ لفظوں میںمجھے ایک بھرپور اداکار ہو نا چاہیے۔ انہوں نے مجھے ایک میزبان آن لائن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کو سامنے رکھنا چاہیے۔
میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ سب کچھ میرے بس میں نہیں۔ایک تو مذہب میرے لیے ایک سنجیدہ معاملہ ہے ۔دوسرا یہ کہ طبعاً میں کوئی مصنوعی لبادہ نہیں اوڑھ سکتا۔میں جیسا ہوں ویسا ہی دکھائی بھی دوں گا۔ یہ درست ہے کہ ہر میڈیم کے اپنے تقاضے ہیں اور میں انہیں پورا کرنے کی کوشش کروں گا‘ لیکن ایک حد تک۔ اس کے لیے میں اپنی فطری شخصیت قربان نہیں کر سکتا۔ میں ویسا ہی پروگرام کرتا رہا جیسے پہلے کر رہا تھا۔ اس تجربے سے مجھ پر واضح ہوا کہ میڈیا مذہبی پروگراموں کو کس زاویے سے دیکھتا ہے۔ میں ان کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ باوجود مخالفت کے، یہ پروگرام کم وبیش پانچ سال تک جاری رہااور انہوں نے مجھ سے دوبارہ اس طرح کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔تاہم،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ یا کوئی اور چینل ،اس کے بعد اس طرز کا پروگرام شروع کر نے کا حوصلہ نہیں کر سکا۔
مذہبی پروگراموں کے ساتھ دوسرا معاملہ یہ ہوا کہ انہیں سیاسی ٹاک شوز کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا۔ جس طرح اہلِ سیاست کے اختلافات کو ابھار کر ریٹنگ لی گئی، اسی طرح مذہبی و مسلکی اختلافات کو بھی نمایاں کیا گیا۔ جس پروگرام پر اب پیمرا کو ایکشن لینا پڑا اس میں بھی یہی ہوا۔ حیات و ممات کا مسئلہ نیا نہیں۔اس پربلا مبالغہ بیسیوں کتابیں لکھی گئیں۔ اسے ایک علمی اختلاف مانا گیا۔ اس اختلاف کی بنیاد پر کبھی کسی کو دائرہ اسلام سے نہیں نکالا گیا۔ پیشہ ور واعظین کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔
ٹی پروگراموں میں ان اختلافات کو ابھارنے کے لیے ان لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے جن کا کام ہی مسلکی بنیادوں پر معاشرے کو تقسیم کر ناہے۔ سماج میں جن کی دینی خدمت یہی ہے کہ انہوں نے مسلکی اختلافات کو کفر و اسلام کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔ ہر مسلک میں دوطرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو اپنی بات سنجیدگی اور دلیل سے کہتے اور دوسروں کے بارے میں فتوے کی زبان میں گفتگو نہیں کرتے۔ دوسرے وہ جو مناظرہ باز ہیں اور لوگوں کے مذہبی جذبا ت کو ابھار کر فرع کو اصل بناتے اور یوں مذہب کے نام پر فتنہ برپا کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے مذہبی پروگراموں میں دوسری طرز کے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
میڈیا جب تک سرمایے کے کھیل کا ایک حصہ ہے، اس کے لیے مذہب کی یہ حیثیت کہ وہ جنسِ بازار ہے، تبدیل نہیں ہو سکتی۔وہ مذہبی پروگرام اس لیے پیش نہیں کرتا کہ اسے لوگوں کے اخلاقی وجود کی سلامتی سے کوئی دلچسپی ہے۔ وہ یہ پروگرام اس لیے دکھاتا ہے کہ پاکستان ایک مذہبی معاشرہ ہے اور یہاں مذہبی پروگراموں کے ناظر موجود ہیں۔ وہ مذہب کے زاویے سے نہیں ،ناظرین یعنی مارکیٹ کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ چونکہ ہم ایک سرمایہ دارانہ نظام میں زندہ ہیں،اس لیے جب اس کے خلاف اقدام ہوتا ہے،اس نظام کے دوسرے ادارے اس کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ان کے خلاف فیصلہ دیا۔یہ فیصلہ ایک دن بھی نافذ نہ ہو سکا۔
یہاں میں 'دنیا‘ ٹی وی کے ا ستثنا کا ذکر کروں گا۔اس چینل پر دو مذہبی پروگرام ہو رہے ہیں۔ایک محترم جاوید احمدصاحب غامدی کا 'علم و حکمت‘اوردوسرا 'پیامِ صبح‘۔اب جاوید صاحب کی شائستگی اور متانت میں کس کو کلام ہو گا۔انیق احمد صاحب بھی مذہب کے تقدس اور سنجیدگی کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ان پروگراموں میں پیش کی جانے والی آرا سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان سے کسی فتنے کے پیدا ہونے کا احتمال نہیں۔فتنہ اختلافِ رائے سے نہیں رویے سے جنم لیتاہے کہ آپ اختلاف کو کس پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔
یہ مثال بتاتی ہے کہ اگر میڈیا کاکوئی ادارہ چاہے تو مذہب کو جنسِ بازار بنانے سے روک سکتا ہے۔یہ تو ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہوتے ہوئے،اس کی قلبِ ماہیت ہو جائے اور وہ دعوت و اصلاح کا ایک ادارہ بن جائے لیکن کم ازکم یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ مذہب کے نام پر فتنہ برپا کر نے کا سبب نہ بنے۔میڈیا کے ذمہ داروں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر،اس باب میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے،وہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہیں۔آخراپنے کاروباری مفادات کے لیے کوئی ادارہ یا فرد سماج کی زندگی سے کیسے بے نیاز ہو سکتا ہے؟ 
حل ایک ہی ہے۔ہر چینل کرنٹ افیئرز اور نیوز کی طرح مذہبی افیئرز کاشعبہ قائم کرے اور اس کی ذمہ داری کسی ایسے فرد کو سونپے جو مذہب کو جانتا ہو، بالخصوص سماجیاتِ مذہب کو۔وہی مذہبی پروگرام ترتیب دینے کا ذمہ دار ہو۔اسی طرح رمضان وغیرہ میں گھنٹوں رمضان کے نام پر کاروبار نہ کیا جائے۔کاروبار کو کاروبار ہی کی طرح کریں۔البتہ دو گھنٹے مذہب کے لیے وقف کریں اور اس وقت کو مذہب کی نظر سے دیکھیں ،سرمایہ کی نگاہ سے نہیں۔اب جو رمضان نشریات ہوتی ہیں،ان کا مذہب سے کیا تعلق ہے؟
بعض لوگ اس سے بڑھ کرمذہب کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے کہ وہ مذہب سے دور رہیں۔ٹی و ی چینلز کو اس باب میں ان کی مدد کر نی چاہیے اورانہیں مذہبی پروگراموں سے دور رکھنا چاہیے۔ اگر چینلزخودیہ کام کرگزریں تو پھر پیمرا کو پابندی لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
بشکریہ روزنامہ دنیا، تحریر/اشاعت 29 مئی 2018
مصنف : خورشید احمد ندیم
Uploaded on : May 30, 2018
1388 View