کیا گوہ حرام ہے؟ (2) - ساجد حمید

کیا گوہ حرام ہے؟ (2)

شرح موطا

ان۱ خالد بن الولید، الذی یقال لہ سیف اللّٰہ، قال: انہ دخل مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی میمونۃ، وہی خالتہ وخالۃ بن عباس، فوجد عندہا ضبا محنوذا، قدمت بہ اختہا حفیدۃ بنت الحارث من نجد. فقدمت الضب لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وکان قلما یقدم یدہ لطعام حتی یحدث بہ ویسمی لہ.
فاہوی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ الی الضب. فقالت امراۃ من النسوۃ الحضور: اخبرن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما قد متن لہ. ہو الضب یا رسول اللّٰہ. فرفع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ عن الضب.
فقال خالد بن الولید: احرام الضب یا رسول اللّٰہ؟ قال: لا ولکن لم یکن بارض قومی فاجدنی اعافہ.
قال خالد: فاجتررتہ فاکلتہ، ورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینظر الی[فلم ینہنی۲ ].

’’خالد بن ولید ،جنھیں سیف اللہ کا لقب ملا، کہتے ہیں کہ ایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میمونہ رضی اللہ عنھا کے گھر گئے۔ جو خالد اور ابن عباس کی خالہ تھیں۔ان کے پاس بھنی ہوئی گوہ (سوسمار) دیکھی جو انھیں ان کی بہن حفیدہ بنت حارث نے نجد سے بھیجی تھی۔ انھوں نے یہ گوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ کم ہی ہوتا تھا کہ آپ کسی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھائیں ، اور آپ کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ کھانا کیسا ہے اور یہ کہ کیا پکا ہوا ہے۔
آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایاتو موجود خواتین میں سے کسی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کہ تم نے کیا کھانے کوپیش کیا ہے۔ (لوگوں نے آپ کو بتایا ) یا رسول اللہ یہ گوہ ہے۔ تو آپ نے اپنا ہاتھ گوہ والے کھانے سے اٹھا لیا۔
خالد بن ولید کہتے ہیں، میں نے پوچھا: رسول اللہ، کیا گوہ حرام ہے؟
آپ نے فرمایا: نہیں ،مگر میری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی(کھائی نہیں جاتی)۔اس لیے میں اس سے طبیعت میں ابا محسوس ۱ کرکے چھوڑرہا ہوں۔
خالد کہتے ہیں:میں نے اس کھانے کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کھالیا، جب میں کھا رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے، مگر آپ نے مجھے روکا نہیں۔‘‘

ترجمے کے حواشی

۱۔ اس مضمون کی تمام روایات سے تین اصولی باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ آپ نے گوہ کے باب میں اصلاً خاموشی اختیار کی ہے۔ اور فرمایا ہے: میں نہ اسے حرام کرتا ہوں اور نہ خود کھاتا ہوں۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گوہ ایسے جانوروں میں سے ہے جس کا الحاق متعین طور پر انعام کے ساتھ یا درندوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو آپ اسے حرام یا حلال قرار دے دیتے۔
۲۔ آپ نے خود نہیں کھائی اور فرمایا ’أنی أعافہ‘ میں اسے گھن آنے کی بنا پر نہیں کھا رہا ہوں۔ اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم احکام شریعت کے تحت لانے میں متردد ہوں، ان میں فیصلہ کن چیز آدمی کی فطرت کی ابا و گریز ہے۔دوسری علت بو ہے ،اس صورت میں نماز کے اوقات کے آس پاس اس کے کھانے میں احتیاط برتنا ہوگی۔
۳۔ آپ نے خود نہیں کھائی، مگرجس نے کھائی اسے کھانے دی۔ اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ چونکہ اسے انعام اور غیر انعام کے تحت درجہ بندی میں لانا ممکن نہیں ہے، اس لیے اس کے بارے میں انسان آزاد ہیں، وہ اگر کھا سکتے ہوں تو کھا لیں۔البتہ آپ کے اپنے عمل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مترددامور میں گریز ہی بہتر ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ روایت بخاری ،رقم ۵۰۷۶ سے لی گئی ہے ۔اس کے علاوہ یہ روایت کچھ کمی بیشی کے ساتھ درج ذیل کتب میں آئی ہے: بخاری، رقم ۵۰۸۵، ۵۲۱۷، سنن ابی داؤد، رقم ۳۷۳۰، ۳۷۹۴، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۳، ۵۲۶۷، سنن الکبریٰ، رقم ۴۸۲۹، ۴۸۲۸، مسند احمد، رقم ۱۹۷۸، ۳۰۶۸، ۱۶۸۵۸، ۱۶۸۵۹، ۱۶۸۶۱، ۲۶۸۵۷، ۸۴۴۴، سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۱۹۶، تا ۱۹۱۹۹، ۱۹۲۰۲، ابن ماجہ، رقم ۳۲۴۱، الدارمی، رقم ۲۰۱۷، النسائی، رقم ۴۳۱۶، ۴۳۱۷، مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۶۷۱، ۸۶۷۵، ۸۶۷۶، صحیح مسلم، رقم (۳)۱۹۴۵، (۲)۱۹۴۶، مسند ابی یعلیٰ، رقم ۷۰۸۴، موطا امام مالک، رقم ۱۷۳۸، ۱۷۳۷،المسند، رقم ۴۸۲۔
یہی روایت ایک دوسرے واقعے کی شکل میں ان مقامات پر وارد ہوئی ہے، اس پر الگ روایت کا گمان ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہی روایت ہے: صحیح مسلم، رقم (۲)۱۹۴۴، صحیح بخاری، رقم ۶۸۳۹، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۴، مسند احمد، رقم ۵۵۶۵، ۶۲۱۳،سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۱۹۵۔
یہی روایت ایک شادی کے حوالے سے ان مقامات پر آئی ہے۔ اس پربھی الگ روایت کا گمان ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہی روایت ہے: مسلم، رقم ۱۹۴۸، مسند احمد، رقم ۳۲۱۹، ۳۰۰۹، ۲۶۸۴، سنن بیہقی، رقم ۱۹۲۰۰۔
یہی روایت مختصر انداز میں درج ذیل مقامات پر آئی ہے، اس پر بھی الگ روایت کا گمان ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہی روایت ہے: صحیح بخاری، رقم ۲۴۳۶، ۵۰۷۴، ۵۰۸۷، ۶۹۲۵، صحیح مسلم، رقم ۱۹۴۷، سنن ابی داؤد، رقم ۳۷۹۳، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۲۱، ۵۲۲۳، مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۳۳۵، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۳۰، ۴۸۳۱، ۶۶۲۷، ۶۷۰۰، مسند احمد، رقم ۲۲۹۹، ۲۳۵۴، ۲۵۶۹، ۲۹۶۲، ۳۰۴۱، ۳۱۶۳، سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۲۰۱، سنن النسائی، رقم ۴۳۱۸، ۴۳۱۹۔
بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خالد بن ولید کے میمونہ کے گھر آنے کا قصہ بیان نہیں ہوا، جیسے صحیح بخاری، رقم ۵۰۸۵،صحیح مسلم، رقم ۱۹۴۵،مسند احمد، رقم ۳۰۶۸،ابن ماجہ، رقم ۳۲۴۱، النسائی، رقم ۴۳۱۶،مصنف عبدالرزاق، رقم ۸۶۷۵، ۸۶۷۱، السنن الکبریٰ،رقم ۴۸۲۸۔
بعض روایتوں میں خالد بن ولید کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موجودگی کا بھی ذکر ہے: مسند احمد، رقم ۱۶۸۵۹، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۳، ۵۲۶۷، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۲۹۔
صحیح بخاری، رقم ۵۰۸۵، ابن ماجہ، رقم ۳۲۴۱، النسائی، رقم ۴۳۱۶، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۲۸ میں ’ضبا محنوذا‘ کی جگہ ’بضب مشوی‘ کے الفاظ آئے ہیں، دونوں کے معنی بھنی ہوئی گوہ کے ہوں گے۔ مسلم، رقم ۱۹۴۵، بخاری، رقم ۵۰۸۵، مسند احمد، رقم ۳۰۶۸، مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۶۷۱ میں ’بضبین مشوین‘ (دو بھنی ہوئی گوہ) کے الفاظ آئے ہیں۔ موطا امام مالک، رقم ۱۷۳۷ میں ’ضب‘ کی جمع ’ضباب‘ استعمال ہوا ہے۔
’وکان قلما یقدم یدہ لطعام حتی یحدث بہ ویسمی لہ‘(کم ہی ہوتا تھا کہ آپ کسی کھانے کی طرف ہاتھ بڑھائیں، اور آپ کو یہ نہ بتایا جائے کہ یہ کھانا کیسا ہے اور کیا پکا ہوا ہے) والا جملہ اکثر روایتوں میں نہیں آیا، مثلاًبخاری، رقم ۵۰۸۵، مسلم، رقم ۱۹۴۵ وغیرہ، البتہ مسلم، رقم ۱۹۴۶ میں یہ جملہ مختلف الفاظ کے ساتھ یوں آیا ہے: ’وکان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یأکل شیئا حتی یعلم ما ہو‘ (آپ اس وقت تک کوئی چیز نہ کھاتے جب تک کہ جان نہ لیتے کہ کیا پکا ہوا ہے)۔
صحیح بخاری، رقم ۵۰۸۵، مسند احمد، رقم ۳۰۶۸، مصنف عبدالرزاق، رقم ۸۶۷۱ میں ’فقالت امراۃ من النسوۃ الحضور: اخبرن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما قدمتن لہ. ہو الضب یا رسول اللّٰہ. فرفع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ عن الضب‘ ( تو موجود خواتین میں سے کسی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کہ تم نے کیا کھانے کوپیش کیا ہے۔ (لوگوں نے آپ کو بتایا) یا رسول اللہ یہ گوہ ہے۔ تو آپ نے اپنا ہاتھ گوہ والے کھانے سے اٹھا لیا) کے بجائے ’فقیل لہ انہ ضب فامسک یدہ‘ (تو آپ کو بتایا گیا کہ یہ گوہ ہے تو آپ نے اپنے ہاتھ روک لیے) کے الفاظ آئے ہیں۔ بخاری، رقم ۵۲۱۷ میں اس کے الفاظ یوں ہیں: ’فقال بعض النسوۃ أخبروا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بما یرید أن یأکل‘ کسی عورت نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تو بتا دو کہ آپ کیا کھانے لگے ہیں۔ سنن ابی داؤد، رقم ۳۷۹۴، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۳، میں ’بعض النسوۃ‘ (ایک عورت) کے بعد ’اللاتی فی بیت میمونۃ‘ (ان عورتوں میں سے جو میمونہ کے گھر میں تھیں) کے الفاظ آئے ہیں۔ صحیح مسلم، رقم ۱۹۴۵، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۷ میں ’النسوۃ‘ سے پہلے ’بعض‘ کا لفظ نہیں ہے، یعنی جملہ بس یہ ہے: ’فقالت النسوۃ اللاتی فی بیت میمونۃ أخبروا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بما یرید أن یأکل‘ (میمونہ کے گھر میں موجود عورتوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کہ وہ کیا کھایا چاہتے ہیں)۔ صحیح مسلم، رقم ۱۹۴۶ میں یہ جملہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ یوں ہے: ’فقالت امراۃ من النسوۃ الحضور اخبرن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بما قدمتن لہ قلن ہو الضب یا رسول اللّٰہ فرفع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ‘ (تو موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ تم رسول اللہ کو بتاؤکہ تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانے کو کیا پیش کیا ہے، تو ان عورتوں نے بتایا کہ یہ گوہ ہے تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھا لیے)۔ مسند احمد، رقم ۲۶۸۵۷ میں یہ جملہ یوں ہے: ’ألا تخبرین رسول اللّٰہ ما یأکل فأخبرتہ انہ لحم ضب‘ کیا (اے میمونہ)، تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نہیں بتاؤ گی کہ وہ کیا کھانے والے ہیں؟ تو میں نے آپ کو بتایا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے)۔ سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۱۹۹ میں یہ جملہ یوں ہے: ’فقالت میمونۃ أخبروا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما ہو، فلما اخبر ترکہ‘ (میمونہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤ کو یہ کیا ہے۔ جب آپ کو بتایا گیا تو آپ نے اسے کھانا چھوڑ دیا)۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۳۲۴۱ ، النسائی، رقم ۴۳۱۶، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۲۸ میں یہ جملہ یوں ہے: ’فقال لہ من حضرہ یا رسول اللّٰہ إنہ لحم ضب فرفع یدہ‘ (جو لوگ وہاں تھے انھوں نے آپ کو بتایا کہ اے رسول اللہ، یہ گوہ کا گوشت ہے تو آپ نے کھانے سے ہاتھ اٹھالیا)۔
’فقال خالد بن الولید: احرام الضب یا رسول اللّٰہ قال لا ولکن لم یکن بارض قومی فاجدنی اعافہ‘ (خالد بن ولید نے پوچھا: رسول اللہ کیا گوہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ،مگر میری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی (کھائی نہیں جاتی)۔ اس لیے میں اس سے طبیعت میں ابا محسوس کرکے چھوڑرہا ہوں) کے بجائے سنن الکبریٰ، رقم ۴۸۲۹، مسند احمد، رقم ۱۶۸۵۸، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’لا ولکنہ طعام لیس فی أرض قومی ...‘ (نہیں یہ حرام نہیں لیکن یہ کھانا میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا...)۔ اس مکالمے کی جگہ مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۶۷۵ میں روایت یوں ہے: ’اتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلحم ضب فقال لم یکن ابی- او ابائی- یاکلونہ قال خالد بن الولید لکن ابی قد کان یاکلہ قال فاکل منہ خالد والنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینظر الیہ‘ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گوہ کا گوشت کھانے کو دیا گیا، تو آپ نے فرمایا میرے آباواجداد نے یہ کبھی نہیں کھایا، خالد بن ولید نے کہا، میرے والد کبھی کبھی کھا لیتے تھے، چنانچہ خالد بن ولید نے کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے رہے)۔
ان تما م روایتوں میں گوہ کھانے سے انکار کا سبب آپ نے یہ بتایا ہے کہ یہ جانورہمارے علاقے میں نہیں کھایا جاتا۔ اس لیے میں اس سے طبعی ابا محسوس کرتا ہوں۔ لیکن موطا کی ایک روایت میں فرشتوں کی آمد کو اس کی علت بتایا گیا ہے۔ یہ روایت امام مالک نے اپنی موطا، رقم ۱۷۳۷ میں یوں نقل کی ہے:

عن سلیمان بن یسار انہ قال دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیت میمونۃ بنت الحارث فاذا ضباب فیہا بیض ومعہ عبد اللّٰہ بن عباس وخالد بن الولید فقال من این لکم ہذا فقالت اہدتہ لی اختی ہزیلۃ بنت الحارث فقال لعبد اللّٰہ بن عباس وخالد بن الولید کلا فقالا اولا تاکل انت یا رسول اللّٰہ فقال انی تحضرنی من اللّٰہ حاضرۃ قالت میمونۃ انسقیک یا رسول اللّٰہ من لبن عندنا فقال نعم فلما شرب قال من این لکم ہذا فقالت اہدتہ لی اختی ہزیلۃ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارایتک جاریتک التی کنت استامرتینی فی عتقہا اعطیہا اختک وصلی بہا رحمک ترعی علیہا فانہ خیر لک.
’’سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ بنت حارث کے گھر تشریف لے گئے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ گوہ کا گوشت پکا ہوا ہے، جس میں انڈے بھی ڈالے گئے ہیں۔ آپ کے ساتھ عبد اللہ بن عباس اور خالد بن ولید بھی تھے۔ آپ نے پوچھا یہ سب تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے؟ تو میمونہ نے کہا، یہ میری بہن ہزیلہ بنت حارث نے تحفہ میں بھیجا ہے۔ آپ نے خالد بن ولید اور ابن عباس سے کہا کھاؤ، تو دونوں نے کہا: کیا آپ نہیں کھائیں گے؟ آپ نے فرمایا: میں وہ شخص ہوں جس کے پاس خدا کی طرف سے آنے والے (یعنی فرشتے)آتے ہیں۔یہ سن کر میمونہ نے پوچھا: کیا میں آپ کو دودھ پینے کے لیے دوں؟ آپ نے فرمایا :ہاں۔ جب آپ نے دودھ پی لیا تو آپ نے پوچھا: یہ دودھ کہاں سے آیا تھا؟ انھوں نے کہا:یہ بھی میری بہن ہزیلہ نے بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: (آپ نے تحائف بھیجنے کے اس عمل سے متاثر ہو کر کہا) کیا خیال ہے، جس لونڈی کے بارے میں تم آزادکرنے کا مشورہ مجھ سے کرتی رہی ہو، وہ اپنی بہن کو دے کر صلہ رحمی کرو، وہ اس کی بکریاں چرائے گی۔ اور یہ چیز تمھارے لیے بہتر رہے گی۔‘‘

مراد یہ ہوئی کہ اس کے گوشت سے ناگواربو آتی ہو گی ، جس کی وجہ سے آپ نے اسے کھانے سے گریز کیا، تاکہ اگر خدا کا پیغام لے کر فرشتے آئیں تو انھیں آپ سے کسی قسم کی اذیت نہ پہنچے۔
مسند ابو یعلیٰ، رقم ۷۰۸۴ میں خالد بن ولید یا ابن عباس کے بجائے دو نجدی لوگوں کی آمد اور گوہ کھانے کا قصہ نقل ہوا ہے:
<

strong>عن میمونۃ قالت اہدی لنا ضب قالت فاتاہا رجلان من قومہا فامرت بہ فصنع ثم قرّبتہ الیہما قالت فجاء نی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہما یاکلان فرحب بہما ثم اخذ یاکل فلما اخذ اللقمۃ الی فیہ قال ما ہذا قالت ضب اہدی لنا قالت فوضع اللقمۃ فاراد الرجلان ان یطرحا ما فی افواہہما فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تفعلا انکم اہل نجد تاکلونہا وانا اہل تہامۃ نعافہا.
’’سیدہ میمونہ کہتی ہیں کہ ہمیں ایک گوہ ہدیہ میں بھیجی گئی، اسی اثنا میں ان کی قوم سے دو آدمی ان سے ملنے آئے۔ انھیں گوہ پکانے کو کہا گیا تو انھوں نے گوہ پکائی اور ان کو پیش کی۔میمونہ کہتی ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، جب آئے تو وہ دونوں گوہ کھا رہے تھے۔ آپ نے دونوں کو آنے پر خوش آمدید کہا۔ او ر کھانے میں شریک ہو گئے۔ جب آپ نے لقمہ لیااور منہ کے پاس لے گئے تو آپ نے پوچھا یہ کیاسالن ہے؟ میمونہ نے کہا یہ گوہ ہے، ہدیے میں آئی تھی۔ آپ نے لقمہ واپس رکھ دیا۔ آپ کو دیکھ کر ان دونوں آدمیوں نے چاہا کہ وہ بھی منہ میں سے کھانے کو نکال پھینکیں (یہ دیکھ کر) آپ نے ان سے کہا: ایسا نہیں کرو، تم اہل نجد گوہ کھا لیتے ہو، ہم تہامہ کے رہنے والے اس سے ابا محسوس کرتے ہیں۔‘‘

بعض روایتوں میں اسی واقعے کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

عن العنبری قال قال لی شعبۃ أرأیت حدیث الحسن عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقاعدت بن عمر قریبا من سنتین أو سنۃ ونصف فلم أسمعہ یحدث عن النبی غیر ہذا. قال: کان ناس من اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہم سعد فذہبوا یاکلون من لحم فنادتہم امراۃ من بعض ازواج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ لحم ضب فامسکوا فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلوا او اطعموا فانہ حلال او قال لا باس بہ شک فیہ ولکنہ لیس من طعامی(بخاری، رقم ۶۸۳۹)
’’عنبری کہتے ہیں کہ شعبہ نے مجھے حسن بصری کی کثرت روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: دیکھویہ کتنی حدیثوں کی حکایت کرتے ہیں ، جبکہ میں دویا ڈیڑھ سال تک ابن عمر کے ساتھ بیٹھتا رہا تو انھوں نے بس یہی ایک حدیث سنائی کہ صحابہ میں سے کچھ لوگ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں )تھے جن میں سعد بھی تھے، یہ سب کسی قسم کا گوشت کھاتے چلے جا رہے تھے۔ اتنے میں ازواج نبی میں سے کسی نے پکار کر کہا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے۔ تو سب نے ہاتھ رو ک دیے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ، یا (کہا:) تناول کروکیونکہ یہ حلال ہے۔ یا راوی کو شک ہے کہ آپ نے فرمایا تھا: اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ میرا کھاجا نہیں ہے۔‘‘

یہ الفاظ صحیح بخاری، رقم ۶۸۳۹ کے ہیں، کچھ اختلافات کے ساتھ یہ قصہ ان مقامات پر آیا ہے: صحیح مسلم، رقم (۲) ۱۹۴۴، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۶۴، مسند احمد، رقم ۵۵۶۵، ۶۲۱۳، سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۱۹۵۔
سنن ابی داؤد کی روایت ۳۷۳۰، مسند احمد، رقم ۱۹۷۸، المسند،رقم ۴۸۲، مصنف عبد الرزاق، رقم ۸۶۷۶ میں یہ واقعہ کچھ اور انداز سے سامنے آتا ہے:

عن بن عباس قال: کنت فی بیت میمونۃ فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ومعہ خالد بن الولید فجاؤوا بضبین مشویین علی ثمامتین فتبزق رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال خالد اخالک تقذرہ یا رسول اللّٰہ قال اجل ثم اتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلبن فشرب فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا اکل احدکم طعاما فلیقل اللہم بارک لنا فیہ واطعمنا خیرا منہ واذا سقی لبنا فلیقل اللہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ فانہ لیس شیء یجزء من الطعام والشراب الا اللبن.(سنن ابی داؤد، رقم ۳۷۳۰)
’’ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں میمونہ کے گھر میں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ان کے ساتھ خالد بن ولید بھی تھے، لوگ بھنی ہوئی دوگوہ دو لکڑیوں پر ڈال کرلائے۔ آپ نے دیکھتے ہی کراہت سے آخ تھو کیا۔ تو خالد بن ولید نے کہا: میرا خیال ہے آپ اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ آپ نے کہا، ہاں۔ پھر آپ کو دودھ دیا گیا تو آپ نے پیا۔ پھر آپ نے فرمایا: جو تم میں سے کھانا کھائے تو یہ دعاکرے: اے اللہ اس کھانے میں ہمیں برکت دے اور ہمیں اس سے بہتر کھانا کھلا، اور جب دودھ پیے تو یہ دعا کرے: اے اللہ اس میں برکت دے اور اس میں اضافہ کر۔ کیونکہ کھانے اور پینے میں سے کفایت کرنے والی غذا صرف دودھ ہے۔‘‘

اس سلسلے کی ایک روایت مسند احمد، رقم ۱۹۷۸ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی میمونہ کے گھر میں آمد کے بعد سیدہ میمونہ کا یہ جملہ بھی نقل ہوا ہے: ’فقالت الا نطعمکم من ہدیۃ اہدتہا لنا ام حفید، قال فجیء بضبین مشویین فتبرق‘ (میمونہ نے کہا: کیا میں آپ کو ایسی چیز نہ کھلاؤں جو ہمیں ام حفید نے تحفے میں بھیجی ہے، تو کہتے ہیں کہ پھر دو بھنی ہوئی گوہ لائی گئیں تو آپ نے کراہت سے آخ تھو کیا)۔ المسند، رقم ۴۸۲ میںیہی جملہ یوں ہے: ’فقالت لہ میمونۃ الا نقدم الیک یا رسول اللّٰہ شیئا اہدتہ لنا ام عفیق فاتتہ بضباب مشویۃ‘ (تو آپ سے میمونہ نے کہا: اے رسول اللہ، کیا میں آپ کو ایسی چیز پیش نہ کروں ، جو ام عفیق نے ہمیں تحفے میں بھیجی ہے۔ تو پھر وہ پکی ہوئی گوہ لائیں)۔ تھوکنے والا جملہ اس روایت میں یوں آیا ہے: ’فلما رأہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تفَل ثلا ث مرات ولم یاکل منہا، وامرنا ان ناکل ثم اتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باناء فیہ لبن فشرب وانا عن یمینہ وخالد عن یسارہ فقال لی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الشربۃ لک یا غلام وان شئت اثرت بہا خالدا فقلت ما کنت لاوثر بسؤر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احدا‘ ( جب آپ نے گوہ دیکھی تو آپ نے تین دفعہ تھوکا، اسے نہیں کھایا، البتہ ہمیں آپ نے کھانے کا مشورہ دیا، پھر آپ کو ایک برتن پیش کیا گیا، جس میں دودھ تھا، آپ نے اسے پیا۔ ابن عباس کہتے ہیں میں آپ کے دائیں تھا اور خالد آپ کے بائیں تھے۔ آپ نے ابن عباس سے کہا: اے لڑکے پینے کی باری تو تمھاری ہے۔ اگر تم چاہو تو خالد کو باری سے ہٹ کر پینے دو۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹے دودھ میں میں کسی کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ پھر ابن عباس کہتے ہیں میں نے دودھ پی کر خالد کی طرف بڑھا دیا، تو انھوں نے بھی پیا)۔
اس روایت کے الفاظ ’وامرنا ان ناکل‘ کے بجائے مصنف عبدالرزاق، رقم ۸۶۷۶ میں ’وقال لخالد بن الولید وکلوا‘ (اور آپ نے خالد سے کہا کہ اور بھئی تم لوگ کھاؤ)۔
مسلم، رقم ۱۹۴۸، مسند احمد، رقم ۳۲۱۹، ۳۰۰۹، ۲۶۸۴، سنن بیہقی، رقم ۱۹۲۰۰ میں یہی واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شادی کے حوالے سے بیان ہوا ہے، جب بعض لوگوں نے یہ کہا کہ آپ نے گوہ کے بارے میں فرمایاتھا: نہ میں اسے کھاؤ ں گا، نہ حرام کرو ں گا، نہ کسی کو اس کے کھانے کا کہوں گا اور نہ کسی کو اس کے کھانے سے روکوں گا۔ سیدنا ابن عباس اس بات پر غصہ ہوئے اور کہا یہ غلط ہے آپ تو آئے ہی حلت و حرمت کے لیے تھے۔ پھر انھوں نے اصل واقعہ سنایا۔ اس واقعہ میں کچھ تفصیلات مختلف ہیں۔ مسلم کے الفاظ یہ ہیں:

عن یزید بن الاصم قال: دعانا عروس بالمدینۃ فقرب الینا ثلاثۃ عشر ضبابا فاکل وتارک فلقیت بن عباس من الغد فاخبرتہ فاکثر القوم حولہ حتی قال بعضہم قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا اکلہ ولا انہی عنہ ولا احرمہ فقال بن عباس بئس ما قلتم ما بعث نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الا محلا ومحرما ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بینما ہو عند میمونۃ وعندہ الفضل بن عباس وخالد بن الولید وامراۃ اخری اذ قرب الیہم خوان علیہ لحم فلما اراد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یاکل قالت لہ میمونۃ انہ لحم ضب فکف یدہ وقال ہذا لحم لم اکلہ قط وقال لہم کلوا فاکل منہ الفضل وخالد بن الولید والمراۃ وقالت میمونۃ لا اکل من شیء الا شیء یاکل منہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.قال بن عباس رضی اللّٰہ عنہما: اہدت ام حفید خالۃ بن عباس الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اقطا وسمنا واضبا فاکل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الاقط والسمن وترک الضب تقذرا. قال بن عباس فاکل علی مائدۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولو کان حراما ما اکل علی مائدۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.
’’یزید بن اصم کہتے ہیں: مدینہ میں ایک دلہا نے ہمیں کھانے پر بلایا۔ اس نے ہمارے آگے تیرہ گوہ رکھے۔ (لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے)۔ ایک کھانے والے اور دوسرے نہ کھانے والے۔ اگلی صبح میں ابن عباس سے ملا، تو ان کے گرد بہت سے لوگ ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ تک کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا: نہ میں اسے کھاؤں گا، نہ اس سے کسی کو روکوں گااور نہ اسے حرام قرار دوں گا۔ ابن عباس نے یہ سنا تو فرمایا: کیا بری بات ہے جو تم لوگوں نے کی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم حلال و حرام ہی تو بتانے آئے تھے(بھلا وہ ایسی بات کیوں کر کہتے )جب آپ میمونہ کے ہاں تھے تو آپ کے ساتھ فضل بن عباس، اور خالد بن ولید اور ایک عورت بھی تھی۔جب آپ کے سامنے دستر خوان آیا، تو اس پر دیکھا کہ گوشت بھی تھاآپ نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میمونہ نے بتایا کہ یہ گوہ کا گوشت ہے۔آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ پھر فرمایا کہ یہ گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا۔لیکن موجودلوگوں سے کہا کھاؤ۔فضل بن عباس، خالد بن ولید اور اس عورت نے کھایا، مگر میمونہ نے یہ کہا کہ میں بس وہ چیز کھاؤں گی، جسے آپ کھائیں گے۔‘‘

مختصر انداز میں یہ روایت اس طرح بھی آئی ہے۔ سیدہ میمونہ والے واقعے ہی کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بالاختصار یوں بیان کیا ہے:
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : ام حفید،ابن عباس کی خالہ،نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور گوہ تحفے میں بھیجیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پنیر اور گھی کھا لیا اور گوہ کراہت کی بنا پر نہیں کھائی۔ ابن عباس کہتے ہیں: پھرآپ کے دستر خوان پر گوہ کو کھایا گیا(یعنی آپ کے سامنے) اگر گوہ حرام ہوتی تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتی۔‘‘
یہ الفاظ بخاری، رقم ۲۴۳۶ کے ہیں اس کے علاوہ یہ روایت ان مقامات میں آئی ہے: بخاری، رقم ۵۰۷۴، ۵۰۸۷، ۶۹۲۵، صحیح مسلم، رقم ۱۹۴۷، سنن ابی داؤد، رقم ۳۷۹۳، صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۲۱، ۵۲۲۳، مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۳۳۵، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۳۰، ۴۸۳۱، السنن الکبریٰ، رقم ۶۶۲۷، ۶۷۰۰، مسند احمد، رقم ۲۲۹۹، ۲۳۵۴، ۲۵۶۹، ۲۹۶۲، ۳۰۴۱، ۳۱۶۳، سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۹۲۰۱، سنن النسائی، رقم ۴۳۱۸، ۴۳۱۹۔
بخاری، رقم ۵۰۷۴ میں آخری جملہ یوں ہے: ’فدعا بہن فأکلن علی مائدتہ، و ترکہن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کالمستقذر لہن، ولو کن حراما، ما أکلن علی مائدۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولا أمر بأکلہن‘ (آپ نے ان سے پکے کھانے پر ہمیں بلایا، پھر یہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ناپسند کرنے والے کی طرح چھوڑا (نہ کہ حرام قرار دے کر)، کیونکہ اگر حرام ہوتیں، تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھائی جاتیں اور نہ آپ ہمیں ان کے کھانے کو کہتے۔ سنن الکبریٰ، رقم ۶۶۲۷ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کراہت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أما ہذہ فلیس تکون بأرضنا فمن أحب منکم أن یأکل علی خواء و لم یأکل منہ‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہمارے وطن (تہامہ) میں نہیں (کھائی جاتی)۔ تو جو تم میں سے بھوک کی صورت میں کھانا چاہے وہ اسے کھائے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا۔
مسند احمد، رقم ۸۴۴۴ میں یہ قصہ یوں بیان ہوا ہے: ’أتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بسبعۃ أضب علیہا تمر وسمن فقال کلوا فإنی أعافہا‘ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات گوہ پیش کی گئیں، جن پر کھجوریں اور گھی بھی ڈالا گیا تھا۔ آپ نے لوگوں سے کہا: کھاؤ، مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے (میں نہیں کھاؤں گا)۔
مسند احمد، رقم ۱۹۴ میں سیدہ میمونہ اور سیدہ عائشہ کے گھر گوہ کھانے سے گریز کے ایسے واقعات کے پیش نظر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خیال آپ کے اس عمل کے بارے یوں بیان ہوا ہے: ’ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ قال ان نبی اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یحرم الضب ولکن قذرہ‘ (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ ناپسند کی حرام نہیں کی)۔
یہ جملہ سنن دارمی، رقم ۲۰۱۷ سے لیا گیا ہے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اکتوبر 2006
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Nov 15, 2016
4840 View