خلافت راشدہ کا تعارف - طالب محسن

خلافت راشدہ کا تعارف

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مختلف مراحل طے کرتے ہوئے جب اپنے اتمام کو پہنچی تو عرب کی سر زمین سیاسی اعتبار سے ایک ریاست کی صورت اختیار کر چکی تھی ۔ قبل ازیں عرب قبائل اپنے اپنے علاقوں میں خود مختار حیثیت سے رہتے تھے ۔اگرچہ ان میں رہن سہن ، رسوم ورواج ، لباس وطعام اور مذہبی عقائد و اعمال کااشتراک تھا، لیکن یہ اشتراک انھیں کسی سیاسی وحدت میں تبدیل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ہماری مراد یہ ہے کہ وہ کسی ایک سیاسی یا اجتماعی نظام میں جڑے ہوئے نہیں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی کامیابی کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کی اٹھائی ہوئی دینی اور اخلاقی اصلاح کی تحریک بڑے پیمانے پر کامیاب ہوئی ۔ دوسرا یہ کہ عرب منتشر اور متفرق گروہوں میں منقسم نہیں رہے ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں ایک سیاسی وحدت کی صورت اختیار کر گئے۔
مدینہ جاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ لکھ کر جس ریاست کی بنیاد رکھی تھی، اس کی حدیں چند ہی برسوں میں تمام سرزمین عرب کو محیط ہو گئیں۔اگلے دور یعنی دور صحابہ میں یہ ریاست عرب کی سرحدوں سے نکلی اور اس نے شام ، مصر اورایران کی سلطنتوں کو فتح کرکے اپنے زمانے کی سب سے بڑی سلطنت کی صورت اختیار کر لی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کیے گئے تھے۔ آپ کی دعوت کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا رسول ماناجائے اور رسول کی حیثیت سے آپ کی بے چون وچرا اطاعت کی جائے۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کو ایک نظم اجتماعی وجود پزیر کرنے کا موقع ملا تو فطری طور پر آپ ہی اس کے پہلے حکمران ہوئے۔ اس طرح اس وعدے کی تکمیل کے اسباب پیدا ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے کیا تھا۔ قرآن مجید میں یہ وعدہ کئی مقام پر بیان ہوا ہے۔ سورۂ مجادلہ میں ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ، اُولٰٓءِکَفِی الْاََذَلِّیْنَ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(۵۸: ۲۰۔۲۱)
’’بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں وہی ذلیل ہوں گے۔اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔بے شک اللہ قوی ہے، بڑا زبر دست ہے۔‘‘

بطور خاص صحابہ کے بارے میں ارشاد ہے:

وَعَدَ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْءًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ. (نور ۲۴: ۵۵)
’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو اس ملک میں اقتدار عطا فرمائے گا۔جس طرح اس نے ان لوگوں کو عطا فرمایا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو مضبوطی سے قائم کردے گا جو اس نے ان کے لیے پسند فرمایااور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرے ساتھ شریک نہ کریں گے۔اور جو اس کے بعد پھر منکر ہوں گے وہی ہیں جو نافرمان ٹھیریں گے۔‘‘

یہ ریاست کسی نسل کی تنظیم کا نتیجہ نہیں تھی، نہ یہ کسی جغرافیائی وحدت کو ایک نظام کے تحت لانے کی سعی تھی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی فاتح تھے جن کی فتوحات نے تمام عرب کو ایک شخص کی اطاعت پر مجبورکر دیا تھا، بلکہ یہ ریاست شہادت کے اس عالمی نظام کی آخری کڑی کی حیثیت سے وجود پزیر ہوئی تھی، جسے اللہ تعالیٰ نے جاری کیا تھا۔ استاد جناب جاوید احمد غامدی شہادت کے اس کام کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ اللہ کے جو پیغمبر بھی اس دنیا میں آئے ،قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی دعوت الی اللہ اور انذار و بشارت کے لیے آئے۔ سورۂ بقرہ کی آیت ’کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللّٰہ النبیین مبشرین و منذرین ‘ میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ ان نبیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے جنھیں رسالت کے منصب پر فائز کیا ،ان کے بارے میں البتہ ، قرآن بتاتا ہے کہ وہ اس انذار کو اپنی قوموں پر شہادت کے مقام تک پہنچا دینے کے لیے بھی مامور تھے ۔ قرآن کی اصطلاح میں اس کے معنی یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اس طرح واضح کر دیا جائے کہ اس کے بعد کسی شخص کے لیے اس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو : ’لئلایکون للناس علی اللّٰہ حجۃ بعد الرسل‘ ( تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے )۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ ان کے ذریعے سے اسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں ۔ انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا اور اس سے انحراف کریں گے تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جائے گی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الہٰی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ یہی شہادت ہے ۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو جن کے ذریعے سے قائم ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ انھیں غلبہ عطا فرماتے اور ان کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، شمارہ اپریل ۲۰۰۳، ۱۴)

شہادت کے اس نظام کی تفصیل کرتے ہوئے استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں:

’’یہ شہادت درحقیقت دنیا میں خدا کی دینونت کا ظہور ہے ۔ اس کی جو تاریخ قرآن مجید اور دوسرے الہامی صحیفوں میں بیان ہوئی ہے ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا پہلا ظہور سیدنا نوح علیہ السلام کی دعوت میں ہوا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام قوموں میں وقتاً فوقتاً اپنے رسول اسی دینونت کے ظہور کے لیے بھیجے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم کی بعثت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ اب یہ منصب ان کی ذریت کو بھی بحیثیت جماعت عطا ہو گا اور ان کے ذریعے سے دین کی حجت سارے عالم پر قائم کی جائے گی ۔ قرآن اور بائیبل ، دونوں میں اس عالمی دینونت کی سرگزشت بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔ قرآن نے تین و زیتون ، طورو سینین اور مکہ کے شہر امین کی قسم میں اسی کا حوالہ دیا ہے۔ زیتون وہ پہاڑ ہے جہاں سیدنا مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد ان کے منکرین پر قیامت تک کے لیے عذاب کا فیصلہ سنایا گیا اور بنی اسرائیل میں سے ان کے ماننے والوں کی ایک نئی امت ، نصاریٰ کی ابتدا ہوئی ۔ تین اسی پر واقع ایک گاؤں ہے ۔ اس کا ذکر انجیل میں Beth Phageکے نام سے ہوا ہے ۔ اس میں Phage دراصل Figہے جسے عربی زبان میں تین کہتے ہیں ۔ لوقا (۱۹:۲۹) میں ہے کہ مسیح علیہ السلام جب یروشلم آئے تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے اسی جگہ ٹھیرے ۔ جبل طور کے بارے میں معلوم ہے کہ بنی اسرائیل نے بحیثیت امت اپنی زندگی اسی پہاڑ سے شروع کی۔ ام القریٰ مکہ سے بنی اسمٰعیل نے اپنی قومی زندگی کا آغاز کیا اور خدا کی زمین پر اس کی عبادت کے اولین مرکز، بیت الحرام کی تولیت انھیں عطا کی گئی ۔ اس سے واضح ہے کہ یہ تینوں ذریت ابراہیم کے لیے خدا کی دینونت کے مقامات ظہور ہیں ۔‘‘(ماہنامہ اشراق، شمارہ اپریل ۲۰۰۳، ۲۸)

بنی اسماعیل کے منصب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کو اسی بنا پر درمیان کی جماعت ’ امۃ وسطاً‘ قرار دیا ہے جس سے ایک طرف خدا اور اس کا رسول اور دوسری طرف ’ الناس‘ یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں اور فرمایا ہے کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے ، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تمھیں دینا ہو گی :

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ، وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا. (۲: ۱۴۳)
’’اور اِسی طرح ہم نے تمھیں ایک درمیان کی جماعت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر یہ شہادت دے ۔‘‘

یہی بات آل عمران میں اس طرح واضح فرمائی ہے :

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ . (۳: ۱۱۰)
’’تم وہ بہترین جماعت ہو جو لوگوں (پر حق کی شہادت) کے لیے برپا کی گئی ہے ۔ (اس لیے کہ) تم (ایک دوسرے کو) بھلائی کی تلقین کرتے ہو ، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد اللہ تعالیٰ کا جو عذاب جزیرہ نماے عرب سے باہر کی اقوام پر مسلمانوں کی تلواروں کے ذریعے سے نازل ہوا، وہ اسی شہادت کا نتیجہ تھا۔ اس عذاب کا فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اقوام کے سربراہوں کو خط لکھ کر کر دیاتھا۔ یہ خطوط جن اقوام کے سربراہوں کو لکھے گئے ، ان کا علاقہ کم و بیش وہی ہے جسے تورات میں ذریت ابراہیم کی میراث کا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کر لینے کے بعد بنی اسمٰعیل کے اہل ایمان اس فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہو گئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جاؤ، اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمھارے لیے باقی نہیں رہی ۔ ان میں سے کوئی قوم بھی اصلاً شرک کی علم بردار نہ تھی ، ورنہ وہ اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین عرب کے ساتھ کیا تھا۔
بنی اسمٰعیل کی یہی شہادت ہے جس سے دین کی حجت پورے عالم پر قائم ہوئی ہے ، لیکن قوموں کی جزا و سزا کا فیصلہ چونکہ اللہ کے حکم ہی سے ہو سکتا ہے ، اس لیے ان اقوام کے علاوہ جن کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دیا تھا،وہ اپنی دعوت کے منکرین کو خود کوئی سزا نہیں دے سکتے تھے ۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، شمارہ اپریل۲۰۰۳، ۲۹۔۳۰)

ان اقتباسات سے واضح ہے کہ شہادت کا یہ نظام اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے بعد، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو منصب امامت پر مامور کرکے جاری کیا تھااور ان کے لیے مشرق وسطیٰ کی سرزمین کو ارض موعود ۱؂ کی حیثیت دی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی ایک شاخ بنی اسرائیل صدیوں تک اس منصب پر فائز رہی اور اس عرصے میں حضرت موسیٰ کی حکومت ، ان کے بعد ان کے خلفا کی حکومت اور بعد میں حضرت سلیمان و داؤد علیہم السلام کی حکومتیں بنی اسرائیل کے دنیا پر اقتدار اور ان کے دنیا کے لیے امام ہونے کا عملی اظہار تھیں۔ بنی اسرائیل بگاڑ اور اصلاح کے دو بڑے ادوار سے گزرے ہیں، لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت کے موقع پر ان کا بگاڑ ناقابل اصلاح ہو چکا تھا ۔حضرت مسیح کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد یہود میں انبیا کی بعثت موقوف کر دی گئی۔ چنانچہ چھٹی صدی عیسوی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی دوسری شاخ بنی اسماعیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کی حیثیت سے مبعوث کیا گیا۔ اس طرح بنی اسماعیل نے بحیثیت جماعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کر لی اور وہ بنی اسرائیل ہی کی طرح منصب امامت پر فائز ہو گئے اور مشرق وسطیٰ کا سارا علاقہ یعنی ذریت ابراہیم کی ارض موعود ان کی سلطنت قرار پائی۔جس کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقے کے حکمرانوں کو دعوتی خط لکھ کر کر دی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست مدینہ درحقیقت بنی اسرائیل کے منصب امامت پر فائز ہونے کا نقطۂ آغاز تھا۔ یہ ریاست نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں چند برسوں میں تمام سرزمین عرب تک پھیل گئی ۔ مدینہ اس ریاست کا مرکز تھا۔ یہود کے مدینہ سے اخراج کے بعد مدینہ کی آبادی دو جماعتوں پر مشتمل تھی ۔ ایک وہ جماعت جو مکہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرکے آئی تھی اوردوسری مدینہ کی اصل آبادی جس نے مہاجرین کی اس جماعت کی مدد کی تھی۔ ان کی اسی خصوصیت کے باعث انھیں انصار کا نام ملا۔یہ دونوں جماعتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ مقابلے میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔جب آپ کے دشمن نابود ہو گئے اور آپ تمام عرب کے حاکم بن گئے تو یہی دونوں جماعتیں اس سیاسی نظام کو چلانے میں بھی آپ کا ساتھ دے رہیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیاسے رخصت ہوئے تو بدیہی طور پر یہی دونوں جماعتیں خلافت کی امید وار تھیں۔
سوال یہ تھا کہ ان دونوں جماعتوں میں سے اقتدار کسے منتقل ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے اس قضیے کا حل بتا دیا تھا۔آپ نے گروہ انصار کو یہ واضح کر دیا تھا کہ اقتدار میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ اہل عرب کے قبائل میں قبیلہ قریش کے لوگ ہی اقتدار میں آئیں گے۔ آپ نے اس کی وجہ واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ عرب کے اچھے قریش کے اچھوں کے پیرو ہیں اور عرب کے برے قریش کے بروں کے ۔ مزید برآں آپ نے یہ بھی فرما یا تھا کہ عرب قریش کے علاوہ کسی کی حکمرانی قبول نہیں کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے دو پہلو ہیں۔ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ اصل میں بنی اسماعیل کو دنیا کی امامت کا منصب عطا ہوا تھا۔ اوس وخزرج کی اگرچہ اسماعیلی قبائل کے ساتھ رشتہ داریاں تھیں ، لیکن وہ اسماعیلی بہرحال نہیں تھے ۔ چنانچہ ذریت ابراہیم کی امامت کے نقطۂ نظر سے انصار کا اقتدار میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ دوسری طرف اسماعیلی صرف قریش نہیں تھے ، مثلاً ثقفی اور مضری قبائل بھی اسماعیلی تھے، لیکن تین صدیوں پر محیط مذہبی سیادت کے باعث قریش ہی عرب کے سیاسی مقتدا بن چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمیق نگاہ اس حقیقت سے واقف تھی چنانچہ انھوں نے یہ بات مبہم نہیں چھوڑی اور سیاسی اور دینی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے بعد اقتدار میں آنے والی جماعت کی واضح الفاظ میں نشان دہی کردی۔ بعض علما کے نزدیک اوس وخزرج بھی اسماعیلی ہی تھے۔ اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر اس فیصلے کا سبب صرف سیاسی مصلحت ہی ہے۔
بنی اسماعیل کی اس حکومت کو اسلامی مورخین نے خلافت راشدہ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ عربی زبان میں خلافت کا لفظ اقتدار کے معنی میں آتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں آیا ہے:’ واذ قال ربک للملائکۃ إنی جاعل فی الارض خلیفۃ‘، ’’اور جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک صاحب اقتدار مخلوق بنانے والا ہوں‘‘۔ سورۂ ص میں یہ لفظ بالکل حکمران کے معنی میں آیا ہے: ’یا داؤد إنا جعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق‘، ’’اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں اقتدار دیا ہے تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘۔ سورۂ انعام میں خلائف الارض‘(۶:۱۶۵)کی ترکیب زمین کے حکمرانوں کے معنی میں آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین صحابہ کے لیے بھی خلیفہ کا لفظ ہی رائج ہوا ۔ البتہ صحابہ کی حکومت کے لیے خلفاے راشدین کی ترکیب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک روایت میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا:

عن العرباض بن ساریۃ قال وعظنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یوما بعد صلٰوۃ الغداۃ موعظۃ بلیغۃ ذرفت منہا العیون ووجلت منہا القلوب فقال رجل إن ہذہ موعظۃ مودع فماذا تعہد إلینا یا رسول اﷲ قال أوصیکم بتقوی اﷲ والسمع والطاعۃ وإن عبد حبش فإنہ من یعش منکم یری اختلافا کثیرا وإیاکم محدثات الأمور فإنہا ضلالۃ فمن أدرک ذلک منکم فعلیہ بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین عضوا علیہا بالنواجذ.(ترمذی، رقم ۲۶۰۰)
’’ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز کے بعد ایک وعظ کیا ۔ یہ وعظ بہت بلیغ تھا۔ اسے سن کر آنکھیں بہ پڑیں اور دلوں پر لرزہ طاری ہو گیا۔ایک آدمی نے کہا : یہ تووداعی تقریر ہے۔یارسول اللہ آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈر کی اور سمع وطاعت کی نصیحت کرتا ہوں اگرچہ حبشی غلام ہی (حکمران ہو)، کیونکہ میرے بعد جو زندہ رہے گا وہ بہت کچھ اختلافات دیکھے گا۔ اپنے آپ کو نئی نئی باتوں سے بچاؤ۔ اس لیے کہ یہ ضلالت ہیں۔ تم میں سے جو بھی یہ زمانہ پائے اس پر لازم ہے کہ میرے اور ہدایت یافتہ خلفا کے طریقے کو اختیار کرے ، وہ اس کو دانتوں سے پکڑ لے۔‘‘

اپنے جا نشینوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعبیر بعد میں آنے والی صحابہ کی حکومت کے لیے ایک اصطلاح کے طور پر رائج ہو گئی۔

ملت ابراہیم کی تاریخ ایک نظر میں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد(بنی اسرائیل)
حضرت ابراہیم علیہ السلام    ۱۹۹۶سے ۱۸۲۲ قبل مسیح
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خروج    ۱۴۹۱ قبل مسیح
حضرت سلیمان علیہ السلام    ۹۷۵ سے ۱۰۱۵ قبل مسیح
بنی اسرائیل کی دو قوموں میں تقسیم    ۹۲۲ قبل مسیح
آشوریوں کے ہاتھوں تباہی    ۷۲۱ قبل مسیح
یروشلم کی تباہی    ۵۸۶ قبل مسیح
بابل کی اسیری سے رہائی    ۵۳۸ قبل مسیح
حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدایش    ۵ قبل مسیح ۲؂

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد(بنی اسماعیل)

منصب رسالت    ۱۳ قبل ہجرت بمطابق۶۰۸ء
ہجرت    ۱ ہجری بمطابق۶۲۱ء
میثاق مدینہ    ایضاً
فتح مکہ    ۹ ہجری بمطابق ۶۳۰ء
فتح خیبر    ایضاً
فتح یمن    ایضاً
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت    ۱۱ ہجری ۶۳۲ء
حضرت ابوبکر کی خلافت    ایضاً
حضرت عمر کی خلافت    ۱۳ ہحری ۶۳۴ء
حضرت عثمان کی خلافت    ۲۴ ہجری ۶۴۴ء
حضرت علی کی خلافت    ۳۵ ہحری ۶۵۶ء
حضرت حسن کی خلافت    ۴۰ ہجری۶۶۱ء
حضرت معاویہ کی خلافت    ۴۱ تا ۶۰ ہجری، ۶۶۱تا۶۸۰ء

خلافت راشدہ کی دینی اہمیت

شہادت علی الناس
ہم یہ بات تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ بنی اسماعیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اتمام شہادت کے بعد اس ذمہ داری پر فائز تھے کہ وہ بھی لوگوں پر دین کی شہادت دیں۔ بنی اسماعیل یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ذمہ داری پور ی کی اور پچیس تیس سال کے محدود عرصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ ہدف کے مطابق شہادت کی ذمہ داری ادا کردی۔اس طرح اسلام نہ صرف یہ کہ تمام متمدن دنیا کے سامنے آگیا ، بلکہ اس کے قبول کرنے میں حائل ہونے والا جبری نظام بھی ختم کر دیا گیا۔ چنانچہ یہ ایک حیرت انگیز نتیجہ سامنے آیا کہ صحابہ کے فتح کیے ہوئے اکثر علاقوں کے تمام باسیوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ درآں حالیکہ اس کے لیے کوئی جبری طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا گیا۔
صحابہ کی اس حیثیت کو سمجھنے کا دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی تمام فوج کشی اور فتوحات کو اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ مشن کے پہلو سے دیکھا جائے۔ استادگرامی جناب جاوید احمد غامدی اپنے مضمون ’’قانون جہاد‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ شریعت کی اصطلاح میں یہ جہاد ہے اور اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک ،ظلم و عدوان کے خلاف ،
دوسرے ، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔
پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ انھی لوگوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ ’’شہادت‘‘ کے منصب پر فائز کرتے ہیں ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کی ایسی گواہی بن جاتے ہیں کہ اس کے بعد کسی کے لیے اس سے انحراف کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم بنی اسمٰعیل کو حاصل ہوا ہے :

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلیَ النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا . (البقرہ ۲: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ایک درمیان کی جماعت بنایا تاکہ تم دنیا کی اقوام پر (حق کی شہادت) دینے والے بنو اور رسول تم پر یہ شہادت دے ۔‘‘

اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اس کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی ۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے اہل ایمان کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی ۔ چنانچہ انھیں جس طرح ظلم و عدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی ۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا ۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے ۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبھم اللّٰہ بایدیکم ‘، ( اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ ‘‘(میزان ۲۴۱)

اس تفصیل سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ صحابہ(بنی اسماعیل) کی جماعت ایک خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی فتوحات اور ان کا اعلان جنگ کسی قوم کی کشور کشائی کے جذبے اور صلاحیت کا اظہار نہیں ہے۔ وہ حزب اللہ تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی دینونت کا نمونہ تھے۔ ان کی کامیابیاں اور ناکامیاں اللہ تعالیٰ کے قانون جزاوسزا کا مظہر تھیں۔بنی اسماعیل جب تک حق پر قائم رہے۔ انھیں یہ غلبہ حاصل رہا۔ جب ان کی اگلی نسلوں میں انحراف نے راہ پائی وہ دنیاکی امامت کے منصب سے محروم ہو گئے۔

دین کا اگلی نسلوں تک ابلاغ

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو امت وسط قرار دیا گیا تھا۔ اس حیثیت سے جہاں انھیں شہادت علی الناس کی ذمہ داری ادا کرنا تھی ، اسی طرح انھیں اپنی قوم کو راہ حق پر قائم بھی رکھنا تھا۔ انھوں نے اپنی اس ذمہ داری کو کما حقہ پورا کیا۔اس ضمن میں دور صحابہ کی چند نمایاں خصوصیات حسب ذیل ہیں:

قرآن مجید کی حفاظت

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور ہی میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ قرآن مجید کا ایک سرکاری نسخہ تیار کیا جائے جو دارالخلافہ میں موجود رہے تاکہ انفرادی نسخوں سے نقل در نقل میں غلطی کے امکان کا سدباب ہو سکے۔
پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بعض مثالوں کے سامنے آنے سے یہ واضح ہو گیا کہ قرآن مجید کے پڑھنے اور نقل کرنے میں مسائل پیش آرہے ہیں تو نہایت اہتمام سے سرکاری نسخے کی سات کاپیاں تیار کی گئی اور انھیں مملکت کے اہم مقامات پر اساتذہ کے ساتھ میسر کر دیا گیا تا کہ لوگ اپنے لیے صحیح متن نقل کر لیں اور اسے صحیح تلفظ اور اعراب کے ساتھ پڑھنا سیکھ لیں۔اس کے ساتھ یہ اقدام بھی کیا گیا کہ وہ انفرادی نسخے جن میں غلطیاں در آئی تھیں ، انھیں تلف کر دیا گیا۔ خلافت راشدہ کی قرآن مجید کے بارے میں یہی حساسیت اور بروقت کارروائی ہے جس کا نتیجہ ایک متفق علیہ قرآن مجید کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔پوری امت بغیر کسی شک کے اسے لفظ لفظ کے اعتبار سے خدا کی کتاب مانتی ہے۔

سنت کا تسلسل

دین اسلام کا دوسرا ماخذ سنت ہے۔ سنت اپنی اصل میں دین ابراہیمی کی میراث ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا احیا اور اجرا کیا اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے دور میں اس پر اس اہتمام اور تسلسل کے ساتھ عمل ہوا کہ یہ بھی قرآن مجید ہی کی طرح صحابہ کے اجماع سے امت کو منتقل ہوئی ہے۔اس طرح امت مسلمہ جس طرح قرآن مجید کے باب میں کسی شبے میں مبتلا نہیں ہے ، اسی طرح سنت کے معاملے میں بھی وہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت میں کسی شک میں نہیں ہے۔

تعلیم وتعلم

صحابہ رضوان اللہ علیہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض صحبت پایا تھا۔ نسل انسانی نے کردار کی عظمت کی اتنی مثالیں یک جا شاید ہی دیکھی ہوں۔ دین کے بارے میں ان کی ذمہ دارانہ روش کو اس سے بڑھ کر کیا خراج تحسین پیش کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت کرکے کوئی صحابی کوئی بات بیان کرے تو اس میں کسی غلط بیانی کا کوئی امکان نہیں مانا جاتا ۔ وہ محدثین جو راویوں کے کردار کوہر اعتبار سے نظر تنقید سے دیکھتے اور ان کے صادق وکاذب کو ممیزکرتے رہتے ہیں سب کے سب صحابہ رضوان اللہ علیہم کو بغیر کسی اختلاف کے ہر طرح کی جرح سے بالا مانتے ہیں۔
یہی صحابہ اگلی نسلوں کی دینی تعلیم وتربیت کا ذریعہ بنے ۔ علماے اسلام نے ان صحابہ سے تربیت پانے والوں کو اگلی نسلوں سے ممتاز مانا اور انھیں تابعین قرار دیا۔ صحابہ کی ایک بڑی تعداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پائے ہوئے کو آگے بانٹنے کے عمل میں جت گئی ۔ چنانچہ عالم اسلام کے تمام مراکز میں قرآن و سنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ، مواعظ اور سیرت کے سیکھنے اور سکھانے کے حلقے ان صحابہ کے گرد قائم ہو گئے۔ بعد میں لکھی گئی سیرت ، حدیث ، فقہ اور تفسیر کی کتابیں اسی روایت کا منطقی نتیجہ ہیں، بلکہ ابتدائی دور کی بعض تصنیفات صحابہ اور تابعین کے فتاوی،تفسیری نکات اور تاریخی بیانات سے معمور ہیں۔
صحابہ رضوان اللہ علیہم کوشش کرتے تھے کہ ان کی روزمرہ کی زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو۔ یہی جذبہ انھوں نے تابعین میں بھی پیدا کیا اور انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے اچھی طرح واقف کر دیا ۔ان کا یہی عمل ہے جس نے اسلامی تہذیب کو وجود بخشا اور اس کے اگلی نسلوں تک تسلسل کا ذریعہ بنے۔
غرض یہ کہ ایک طرف صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے شہادت علی الناس کے فریضے کو بے کم وکاست ادا کیا اور دوسری طرف دین کے استحکام اور فروغ میں بھی پوری تندہی سے سعی وجہد کی ۔ یہی پہلو ہیں جن کے باعث ان کے دور کو خیر القرون کہا گیا ہے۔

 

۱؂ جس کی تعبیر تورات میں دریاے مصر سے دریاے فرات تک کی سرزمین کے الفاظ سے کی گئی ہے۔
۲؂ William Smith, A dictionary of the Bible, (Michigan: Regency Reference Library, 1967) p13-307-343-158.

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2004
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 14, 2017
2432 View