جدید فلسفہ و سائنس سے مرعوبیت کے اثرات - امین احسن اصلاحی

جدید فلسفہ و سائنس سے مرعوبیت کے اثرات

 مغربی اقوام کی سائنس اور ان کے فلسفہ سے ہماری مرعوبیت یوں تو پہلے بھی کچھ کم نہ تھی، لیکن جب سے روس اور امریکا نے چاند پر کمند اندازی اور چاند ماری شروع کی ہے، اس وقت سے تو یہ مرعوبیت اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ اس تیزی کا مقابلہ شاید وہ راکٹ بھی نہ کر سکیں جو روس اور امریکا کی طرف سے چاند پر پھینکے جا رہے ہیں۔ یہ مرعوبیت ایک بالکل فطری اور قدرتی چیز ہے۔ جو قومیں زندگی کی بھاگ دوڑ، اسباب زندگی کی فراہمی اور وسائل فتح و تسخیر کی ایجاد میں پیچھے رہ جاتی ہیں، وہ لازمی طور پر اپنے سے برتر قوموں سے مرعوب رہتی ہیں۔ اس مرعوبیت کا علاج نہ بے جا فخاری سے ممکن ہے اور نہ اندھی بہری تقلید سے، اگر ممکن ہے تو صرف اس طرح ممکن ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے اندر بھی علم و تحقیق اور ایجاد و اختراع کا ذوق و شوق پیدا ہو، اورا ن کے اس ذوق و شوق کی حوصلہ افزائی اور اس کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری اسباب و وسائل انھیں بھی حاصل ہوں۔ لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ غیروں سے آزادی حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذہنی و عقلی قوتوں کو پروان چڑھانے والی فضا اب تک ہم خود اپنے ماحول میں پیدا نہ کر سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرعوبیت روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس حد پر جا کر رکے گی۔
اس مرعوبیت کا سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ میں اپنی روایات کی مخالفت اور اپنے مذہب سے بے زاری بطور فیشن کے ترقی پکڑ رہی ہے۔ بطور فیشن کے ترقی پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مخالفت اور بے زاری کی بنیاد کسی علم و تحقیق پر نہیں ہے، بلکہ مجرد احساس کہتری اور انفعال پر ہے۔ یہ نہیں ہوا ہے کہ غور و فکر اور تحقیق و تنقید سے ان پر ایک عقیدہ کی غلطی اور دوسرے نظریہ کی صحت ثابت ہو گئی ہے، اس وجہ سے وہ ایک کو رد اور دوسرے کو اختیار کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو خواہ یہ کتنی ہی غلط ہوتی ہمارے نزدیک زیادہ تشویش انگیز نہیں تھی۔ تشویش انگیز بات یہ ہے کہ محض اس وہم نے کہ جو قومیں سائنس کے میدان میں ہم سے برتر ہیں، لازماً مذہب و شریعت میں بھی وہ ہم سے برتر ہیں، بہتوں کے اندر یہ رجحان پیدا کر دیا ہے کہ وہ اپنی روایات کی مخالفت کریں اور دوسروں کی روایات کو سراہیں۔ بدقسمتی سے چونکہ عام طور پر اس طبقہ کے اندر اپنے مذہب کا علم محض روایتی ہی تھا، اس کی گہری بنیاد نہیں تھی، اس وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں اور ہر آنکھیں رکھنے والا شخص دیکھ سکتا ہے کہ جس طرح جنگل کی آگ پھیلا کرتی ہے، اسی طرح ہمارے کالجوں ہماری یونیورسٹیوں، اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں الحاد کی یہ آگ بھی پھیل رہی ہے۔
مرعوب ذہن کا یہ خاصہ ہے کہ وہ جس سے مرعوب ہو جاتا ہے، اس کی تقلید کرتا ہے اور یہ تقلید عموماً اندھی بہری ہوتی ہے۔ علامہ ابن خلدون نے تو اس باب خاص میں ایک عجیب و غریب نفسیاتی راز کا بھی انکشاف کیا ہے۔ اس نے اپنے مقدمہ میں مرعوب قوموں کی نفسیات بیان کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ مرعوب قومیں عموماً غالب قوموں کی تقلید ان کی خوبیوں میں نہیں کیا کرتیں، بلکہ ان کی کمزوریوں اور برائیوں میں ان کی تقلید کیا کرتی ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ خوبیوں میں غالب کی تقلید کرنا عزم و ہمت کا کام ہے اور عزم و ہمت کے کسی کام کا حوصلہ بھلا مرعوبوں میں کہاں؟ البتہ وہ ان کے فیشن اور ان کے بعض ظاہری عادات و رسوم میں ان کی نقالی کر کے اپنے آپ کو یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتی ہیں کہ ترقی کے جو اسرار غالب کے پاس تھے، ان کی کلید اب ان کے ہاتھ بھی لگ گئی ہے۔
ابن خلدون کے اس فلسفہ کی سچائی کی تصدیق جس خوبی کے ساتھ خود ہمارا اجتماعی کردار کر رہا ہے، وہ نصیحت آموزی کے لیے کافی ہے۔ جب انگریز ہم پر حاوی ہوئے تو اس میں شبہ نہیں کہ ان کے انفرادی و اجتماعی کردار کے کچھ نہایت روشن پہلو بھی تھے جو ان کو ہم پر غالب کرنے کا سبب ہوئے تھے۔ اگر ہم ان کے کردار کے ان روشن پہلوؤں پر نگاہ جماتے اور ان کی ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے تو اس طرح ہم ان کے غلبہ اور اپنی شکست سے صحیح سبق حاصل کرنے والے بنتے اور اپنے اخلاقی ورثہ کو جو ہم ہی نے ان کی طرف منتقل کیا تھا، گویا دوبارہ ان سے واپس لیتے۔ لیکن بدقسمتی سے اس معاملہ میں ہم نے وہی غلط روش اختیار کی جس کی طرف ابن خلدون نے اشارہ کیا ہے، یعنی ہم میں سے بہتوں نے یہ سمجھا کہ انگریز کا اصلی کمال یہ ہے کہ وہ ٹانگوں میں پتلون ڈال کر چلتا ہے، سر پر ہیٹ لگاتا ہے، شراب پیتا ہے، بال روم میں جا کر ناچتا ہے اور اپنی عورتوں کو نیم عریاں حالت میں ہر مجلس میں پھراتا ہے۔ اس غلط فہمی کا اثر یہ ہوا کہ انگریزوں کی خوبیاں تو ہمارے اندر پیدا نہ ہو سکیں، البتہ ہماری قوم کے ایک طبقہ نے ان کی برائیاں بڑے اہتمام سے اور کافی پیسے خرچ کر کے اپنے اندر جمع کر لیں اور اس طرح اس نے اپنی قدیم طرز کی بہت سی برائیوں کے اوپر جدید طرز کی کچھ برائیوں کا بھی اضافہ کر لیا اور جب یہ نئی ولایتی بلا گھر میں داخل ہو گئی تو قدرتی طور پر خود اپنی قدیم طرز کی تہذیب و روایت کی کچھ اچھی چیزیں جو دست برد زمانہ سے بچ بچا کر ہمارے گھروں کے گوشوں اور کونوں میں دبی دبائی پڑی ہوئی تھیں، وہ بھی رخصت ہو گئیں۔
آزادی کے حصول کے بعد ہونا تو یہ تھا کہ یہ مرعوبیت کچھ کم ہوتی، لیکن افسوس ہے کہ یہ چیز نہ صرف یہ کہ کم نہیں ہوئی، بلکہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا، یہ چیز بڑھی ہے اور برابر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کا اثر ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ میں نمایاں ہو رہا ہے، خاص کر ہمارا وہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس مرعوبیت کا بری طرح شکار ہو رہا ہے جو ہماری قومی و ملی آرزؤں کا اصلی مرکز و محور خیال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عام طور پر امریکا یا روس کو بطور ایک نمونہ اور مثال کے اپنے سامنے رکھتے ہیں اور اس عقیدت کے ساتھ سامنے رکھتے ہیں کہ خود ان کا اپنا ماضی ان کی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو گیا ہے۔ اس عقیدت کے غلو نے ان لوگوں کو برائی اور بھلائی میں امتیاز سے بھی بالکل محروم کر دیا ہے، یہ آنکھ بند کر کے ان سب چیزوں کو اختیار کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں جو ان قوموں کے اندر ان کو چمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ یہ چیزیں مضر ہیں یا مفید۔
اس حقیقت کا ایک واضح ثبوت ہماری قوم کے ان طلبہ اور طالبات کے کردار سے بھی ملتا ہے جو امریکا یا انگلستان تعلیم کے لیے جاتے یا بھیجے جاتے ہیں، ہر شخص جانتا ہے کہ ان ملکوں میں تعلیم کے لیے جانے اور بھیجنے کا اگر کوئی فائدہ ہے تو یہی ہے کہ ان ملکوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں جو حیرت انگیز ترقیاں کی ہیں، ان کی تعلیم ہماری قوم کے نوجوان بھی حاصل کریں اور ان چیزوں کو سیکھ کر جب وہ واپس آئیں تو پوری محنت اور جاں فشانی کے ساتھ ان کو اپنے ملک میں بھی رائج کریں، تاکہ ان کا پس ماندہ ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا ہو سکے، لیکن ان نوجوانوں کے تعلیمی و تحقیقی مشاغل سے متعلق جو تفصیلات وقتاً فوقتاً اخبارات و رسائل میں نکلتی رہتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قوم کے یہ نوجوان، جن پر ہماری مستقبل کی بہت سی امیدوں کا انحصار ہے، اپنی اسی نفسیاتی بیماری کے سبب سے، جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، اس ماحول میں پہنچ کر اس بری طرح تباہ ہوتے ہیں کہ اس قسم کی تباہی کسی بدقسمت قوم ہی کے حصہ میں آسکتی ہے۔ جو مرعوبیت وہ یہاں سے ساتھ لے کر جاتے ہیں، وہ وہاں پہنچ کر انھیں وہ ٹھوکر کھلاتی ہے کہ انھیں کچھ ہوش ہی نہیں رہ جاتا کہ کیا کرنے آئے تھے اور کیا کر چلے ہیں۔
ضرورت تھی کہ ہماری قوم کے اہل فکر اس مرعوبیت کو دور کرنے کی کوشش کرتے تاکہ ہمارے نوجوان ذہنی توازن اور خیر و شر میں امتیاز کے ساتھ ان قوموں کے علم و فلسفہ سے استفادہ کر سکتے، لیکن اس مرعوبیت ہی کا ایک نہایت گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسے ایسے مفسر پیدا ہو گئے ہیں جو اپنے زعم کے مطابق قرآن سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ قرآن نے جن لوگوں کو آیت ’اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمآؤُا‘ * (اللہ سے اس کے بندوں میں سے علما ہی ڈرتے ہیں) میں علما کہا ہے، اس سے مراد یہی سائنٹسٹ اور کائناتی مفکر ہیں جو طبیعات، نباتات، حیوانات، طبقات الارض اور فضائیات کے اسرار پر غور کرتے ہیں، اس لیے کہ خدا کی عظمت و ہیبت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اولوالباب ہیں، اس لیے کہ یہ لوگ سمع و بصر اور فوأد سے کام لے رہے ہیں اور کائنات میں غور و فکر کرتے ہیں۔ یہی لوگ مومن و متقی ہیں، اس لیے کہ قرآن میں مومنین و متقین کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ کائنات کے متعلق تحقیق و تدقیق کے بعد رموز فطرت کی عقدہ کشائی کرتے ہیں۔ پھر یہی لوگ اہل جنت ہیں، اس لیے کہ قرآن نے فقر و غربت کی زندگی کو عذاب سے تعبیر کیا ہے اور رزق کی فراوانی قرآن میں جنت کی خاص خصوصیت بیان کی گئی ہے۔
اس قسم کی مہمل باتیں جو بعض رسالوں میں نکل رہی ہیں، یہ سب اسی مرعوب ذہن کی غمازی کر رہی ہیں جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ہر شخص خواہ اس کو قرآن کا کچھ علم ہو یا نہ ہو، اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ قرآن دنیا کے ملحدین و منکرین کو سند فضیلت بانٹنے کے لیے نہیں آیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ طبیعات، نباتات، طبقات الارض اور فضائیات کے اسرار و قوانین پر غور و فکر اور ان کا اکتشاف قرآن کی نگاہوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کا کام ہے، لیکن جو سائنٹسٹ اور کائناتی مفکر اتنے کوڑھ مغز اور بے بصیرت ہیں کہ انھیں خدا کی اس کائنات کے اتنے عجائب دیکھنے کے بعد بھی خدا کہیں نظر نہیں آتا۔ قرآن کے نزدیک وہ علما نہیں، بلکہ جہلا اور حمقا ہیں۔ اسی طرح سمع و بصر اور فوأد سے کام لینا اور ان کو ان کے مقاصد میں استعمال کرنا قرآن کے نزدیک انسانی سعادت کے فتح باب کی کلید ہے، لیکن اگر یہ سمع و بصر سب کچھ دیکھیں اور سب کچھ سنیں، لیکن اسی کو نہ دیکھ سکیں جو سب سے زیادہ آشکارا اور اسی نداے غیب کو نہ سن سکیں جو سب سے زیادہ بلند اور رعد آسا ہے تو قرآن کے نزدیک یہ کان بہرے اور یہ آنکھیں اندھی ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس کائنات کے اسرار کی جستجو اور رموز فطرت کی عقدہ کشائی کا ذوق ایمان کے دروازے کی کلید ہے، لیکن جس جستجو کا مطلوب خدا نہ ہو اور جو عقدہ کشائی ایمان بالآخرت کی طرف رہبری کرنے والی نہ ہو، قرآن کے نزدیک یہ جستجو ہرزہ گردی اور یہ عقدہ کشائی بادپیمائی ہے۔ ٹھیک اسی طرح روٹی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت و رحمت ہے، بشرطیکہ یہ جن کو ملے، وہ شکرگزاری کے جذبہ اور اطاعت الٰہی کے مقصد کے ساتھ کھائیں اور کھلائیں، لیکن اگر خدا یہ روٹی اور اس کے سارے لوازم ان لوگوں کو دے جو اس کے باغی اور نافرمان ہیں اور وہ اسی جذبہ اور اسی مقصد کے ساتھ اس روٹی کو کھائیں بھی تو یہ روٹی خدا کی رحمت نہیں ہے، بلکہ اس کی طرف سے ایک لعنت ہے جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا عذاب چھپا ہوتا ہے۔
یہ باتیں قرآن مجید میں اس قدر واضح ہیں کہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص قرآن کا ایمان و اسلام کے ساتھ ایک مرتبہ بھی مطالعہ کرے اور اس کی ہر سورہ میں اس کے یہ حقائق اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو کر نہ آئیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص قرآن مجید کی طرف اس طرح کے مزخرفات منسوب کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ تو ہرگز نہیں ہو سکتی کہ خدانخواستہ قرآن میں ان چیزوں کے لیے کوئی گنجایش موجود ہے، بلکہ اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے آغاز مضمون میں اشارہ کیا ہے، یعنی ہمارے اندر بہت سے ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو روس اور امریکا وغیرہ سے اس درجہ مرعوب ہیں کہ انھیں ہر چیز اب انھی کی پسند آتی ہے اور یہ بیماری ان کے اندر اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کی خواہش یہ ہے کہ قرآن بھی اپنے ہر پارے اور اپنی ہر سورہ میں روس اور امریکا ہی کی تعریف و توصیف کرتا نظر آئے اور اگر ان کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی تو وہ کوشش کر کے قرآن کی آیتوں کو وہ معنی پہنا دیتے ہیں جو ان کے اپنے دل میں ہوتے ہیں۔
اس قسم کے خیالات اگر کسی حلقہ میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان خیالات کے لیے قرآن سے بزعم خویش جو دلیلیں فراہم کی جاتی ہیں، وہ بڑی موثر اور دل نشیں ہوتی ہیں۔ آخر اتنا سادہ لوح کون ہو سکتا ہے جو یہ مان لے کہ قرآن فی الواقع انھی ملحدین و بے دین سائنس دانوں کو اولوالالباب اور علما کے القاب سے نوازتا ہے یا انھی فساق و فجار کو مومن و متقی قرار دیتا ہے۔ ان باتوں کو سب ہی لایعنی سمجھتے ہیں، لیکن اگر ایک چیز کو ان کا دل چاہتا ہے اور ایک دوسرا شخص ان کو یہ اطمینان دلا دیتا ہے کہ یہ جو کچھ تم چاہ رہے ہو، ٹھیک یہی قرآن کی تعلیم بھی ہے تو آخر اس کے قبول کر لینے میں کیا خرابی ہے؟ یہ چیز ایک دھوکا اور مغالطہ سہی، لیکن دھوکا اور مغالطہ اپنی خواہشوں کے مطابق ہے، اس میں پڑ جانے میں کیا حرج ہے! بس اس قسم کے احمقانہ خیالات کے تحت بہت سے لوگ ان مزخرف باتوں کی تائید و تشہیر شروع کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں پر یہ دھونس جما سکیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں حرف بحرف قرآن کے احکام کی تعمیل میں کر رہے ہیں۔
درحقیقت غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ان کی یہ خواہش بھی ان کی مرعوبیت ہی کا ایک پہلو ہے۔ ایک طرف روس اور امریکا سے ان کی مرعوبیت انھیں مجبور کرتی ہے کہ یہ انھی کے فکر و عمل کو ہر پہلو سے سراہیں اور آنکھیں بند کر کے کم از کم بے قیدی و آزادی اور لذات نفس کے حد تک ان کی پیروی کریں، دوسری طرف اپنی روایات اور اپنے مذہب سے جو مرعوبیت وراثۃً انھیں ملی ہے، وہ تقاضا کرتی ہے کہ جو جرم بھی وہ کریں، اس کی تائید و حمایت میں کسی نہ کسی طرح مذہب کو بھی کھڑا کر لیں۔ ضمیر اور راے کی آزادی نہ ان بیچاروں کو روس اور امریکا کی عقیدت اور نیاز مندی کے معاملہ میں حاصل ہے اور نہ قرآن کے ساتھ اظہار وفاداری کے معاملہ میں۔ یہ روس اور امریکا کے مرید ہیں، لیکن صرف ان کی لذت پرستیوں اور بے قیدیوں کے حد تک، ان کی اولوالعزمیوں میں ساتھ دینے کے عزم و حوصلہ کا اب تک انھوں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔ اسی طرح یہ قرآن کے ساتھ بھی وفاداری کا دم بھرتے ہیں، لیکن صرف اسی حد تک جس حد تک اس کو کھینچ تان کر اپنی خواہشوں کے مطابق بنا سکیں۔ مخلص اور جری یہ کسی کے معاملہ میں بھی نہیں ہیں۔ نہ اپنے ارضی خداؤں کے معاملہ میں، نہ اپنے آسمانی خدا کے معاملہ میں۔
یہ مرعوبیت، ہمارے نزدیک اس وقت ہماری قوم کی سب سے بڑی بیماری ہے جس کا دور ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس بیماری کے موجود ہوتے ہوئے ہم علم یا عمل کے کسی میدان میں بھی کوئی صحت مندانہ قدم کبھی نہیں اٹھا سکتے۔ اس کا جوڑ ایک غلام قوم کے ساتھ تو ہو سکتا ہے، لیکن ایک آزاد قوم کے اندر، جو ایک اولو العزم قوم کی طرح اپنے نظریات اور اپنی آئیڈیالوجی کے مطابق زندگی بسر کرنا اور ترقی کرنا چاہتی ہو، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بیماری اگر ہمارے اندر موجود ہے تو امریکا اور روس والے تو ممکن ہے چاند پر پہنچ سکیں یا نہ پہنچ سکیں، لیکن ہم تو تحت الثریٰ میں یقیناًپہنچ جائیں گے۔ اس لیے قوم کے ہر بہی خواہ کا یہ فرض ہے کہ اس بیماری کو سمجھنے اور اس کو اپنی استعداد اور صلاحیتوں کے مطابق دور کرنے کی کوشش کرے۔ ذہنی مرعوبیت کو دور کرنے کے لیے بے جا قسم کی فخاری اور حقائق سے چشم پوشی کوئی مفید چیز نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں ان قوموں سے بہت کچھ سیکھنا ہے جو زندگی کی جدوجہد میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ اگر ہم اس ضرورت کا احساس نہ کریں گے تو اس کا نتیجہ دوسروں کے حق میں نہیں، بلکہ خود ہمارے ہی حق میں مضر نکلے گا، لیکن جو کچھ سیکھنا ہے، وہ ہوش و تمیز کے ساتھ سیکھنا ہے، مرعوبانہ ذہنیت کے ساتھ آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے لگ جانا یا ان کی ہر غلط اور صحیح چیز میں ان کی نقالی کرنا نہیں ہے۔ اگر وہ سائنس کی تحقیقات اور تجربات میں ہم سے آگے ہیں تو اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ وہ مذہب و شریعت، تمدن و معاشرت اور معیشت و سیاست کے اصولوں میں بھی ہم سے برتر ہیں۔ اگر ہم اس غلط فہمی میں پڑ گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ان سے جتنا حاصل کریں گے، اس سے کئی گنا ان کے پیچھے لگ کر خود اپنا برباد کر دیں گے۔ اس وجہ سے وقت کی یہ نہایت اہم ضرورت ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس وقت اپنی قوم کی نئی نسل کو اس مرعوبیت سے بچانے اور اس کو صحیح راستہ پر لگانے کے لیے کیا تدبیریں اختیار کی جا سکتی ہیں؟

 

* فاطر ۳۵: ۲۸۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Mar 29, 2017
2867 View