شوہر کا برتر رتبہ اور جدید مغربی تصورات - عمار خان ناصر

شوہر کا برتر رتبہ اور جدید مغربی تصورات

(شوہر اور بیوی کے درجے میں فرق کے ضمن میں ایک استفسار کا جواب)
خاندان، انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اور اس کے نظم وضبط کو قائم رکھنے کے لیے حقوق وفرائض کی تقسیم کے ساتھ ساتھ اختیارات کی درجہ بندی اور فرق مراتب کو ملحوظ رکھنا بھی ناگزیر ہے۔ قرآن مجید نے سورئہ نساءکی آیت ۳۳ میں خاندان کا سربراہ واضح طور پر شوہروں کو قرار دیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے بعض خلقی صفات کے لحاظ سے عورتوں پر برتری عطا کی ہے اور اسی برتری کی بنا پر کسب معاش کی ذمہ داری بھی انھی کے کندھے پر ڈالی گئی ہے۔ قرآن مجید نے اسی بنا پر خاوند کو یہ حق دیا ہے کہ اگر بیوی اس کی اس حیثیت کو چیلنج کرے اور خاندان کے نظم کو بربادی کے گڑھے میں دھکیلنا چاہے تو وعظ ونصیحت کے بعد شوہر کو اپنی بیوی کو مناسب تادیب وتنبیہ کا اختیار حاصل ہے۔

تاہم مذہب میاں بیوی کے رشتے اور اس سے قائم ہونے والے حقوق وفرائض اور فرق مراتب کو محض ایک انتظامی ضرورت تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے مخصوص مذہبی مفہوم میں ’تقدس‘ کا درجہ عطا کرتا ہے۔ مذہب کے نزدیک دنیوی زندگی کے معاملات کو دیکھنے کا صحیح زاویہ نگاہ مابعد الطبیعیاتی، اخلاقی اور روحانی ہے اور وہ انسانی تعلقات کے دوسرے دائروں کی طرح خاندان کے دائرے میں بھی اس پہلو کو خاص طور پر اجاگر کرتا ہے، چنانچہ وہ خاوند کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فضیلت اور اس سے پیدا ہونے والی حقوق وفرائض کی تقسیم کو تسلیم کرنے اور عملاً اس کی پابندی قبول کرنے کو نیکی، تقویٰ اور اطاعت کی لازمی شرط قرار دیتا ہے۔ سورئہ نسا ءکی مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے نیک بیویوں کی علامت یہ بتائی ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی فرماں بردار اور مطیع ہوتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت میں داخل ہونے کی مستحق بن جاتی ہے۔ ایک موقع پر آپ کو جہنم کے مختلف مناظر دکھائے گئے تو آپ نے بتایا کہ میں نے جہنم میں زیادہ تعداد خواتین کی دیکھی ہے۔ دریافت کرنے پر آپ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ خواتین لعن طعن بہت زیادہ کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں خدا کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔

ایسا نہیں ہے کہ انسانوں میں ایک دوسرے کی حق تلفی اور استحصال کا داعیہ نہیں پایا جاتا اور نہ یہ بات ہی درست ہے کہ مذہب، رشتوں ناتوں میں فرق مراتب اور طبقات کے باہمی تفاوت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات سے صرف نظر کر لیتا ہے کہ تفوق اور بالاتری بہرحال طاقت اور اختیار کے غلط استعمال کو جنم دے سکتے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل انکار ہے، لیکن مذہب کے نزدیک اس کا حل یہ نہیں کہ سرے سے فرق مراتب اور تفاوت ہی کا انکار کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو ان بلند تر روحانی اور اخلاقی قدروں کی یاد دہانی کرائی جائے اور انھیں معاشرے میں زندہ اور فعال قدروں کے طور پر establish کیا جائے جو انسان کو بہکنے اور اپنے ہی بنی نوع کی حق تلفی سے روک سکتی ہیں۔ میاں بیوی کے رشتے کے حوالے سے بھی مذہب یہی طریقہ اختیار کرتا ہے اور شوہروں کو بار بار اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ان کو حاصل ہونے والی فضیلت کا اظہار بیویوں کے ساتھ ناانصافی کی صورت میں نہیں بلکہ مردانگی، بلند اخلاقی، وسیع الظرفی اور ایثار کی صورت میں ہونا چاہیے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ شوہروں کو حاصل ہونے والے تفوق اور اختیار سے پیدا ہونے والے عدم توازن کا علاج بیویوں کو شوہروں کے مساوی قرار دینے اور اس طرح خدا کی قائم کردہ تقسیم کو تلپٹ کرنے میں نہیں بلکہ شوہروں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے اور ان کی صحیح تعلیم وتربیت کرنے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی معاشرتی فضا قائم کرنا اور ایسا قانونی بندوبست کرنا بھی دین کی تعلیمات کا ناگزیر تقاضا ہے جو عورتوں کو ان کے شوہروں یا دوسرے مرد رشتہ داروں کے ظلم واستحصال سے محفوظ رکھ سکے اور کسی بھی ناپسندیدہ صورت حال میں ان کی فوری اور موثر داد رسی میں معاون ثابت ہو۔ 

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 1 نومبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 01, 2016
3341 View