حضرت یاسر رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت یاسر رضی ﷲ عنہ

 

[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔
اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

حضرت یاسرعنسی رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عامر اور دادا کا مالک تھا۔ان کا شجرۂ نسب یعرب بن قحطان سے جا ملتا ہے جو ایک قول کے مطابق اس دنیا میں عربی بولنے والے پہلے شخص تھے، دوسری راے میں یہ شرف حضرت اسماعیل علیہ اسلام کو حاصل ہے۔ یعرب یمن کے تمام عرب قبائل کے جد اعلیٰ ہیں،ان کی دسویں نسل میں زید بن مالک (مذحج) ہوئے جو اپنے لقب عنس سے مشہور ہیں۔انھی کے نام سے قبیلۂ عنس منسوب ہواجس میں حضرت یاسر پیدا ہوئے۔ شہر سبا کے اجڑنے کے بعد عنس اور خزرج قبائل یثرب( مدینہ) میں آ بسے، جبکہ دوسرے یمنی قبائل شام، عراق ، یمامہ اور نجد کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے ۔مکہ ہر دور میں بے سہارا لوگوں کی جاے پناہ رہا ہے،بیت اﷲ کی موجودگی کی وجہ سے یہ امن کا گہوارا تھا۔یہی وجہ ہے کہ یمن کے خراب حالات اور خشک سالی کے باعث حضرت یاسرکا ایک بھائی اپنے کئی ہم وطنوں کی طرح گھر سے بھاگ نکلا تو انھوں نے اس کا کھوج لگانے کے لیے مکہ کا رخ کیا۔ان کے دو دوسرے بھائی حارث اور مالک ان کے ساتھ تھے۔بھائی نہ ملا تو وہ دونوں تو مایوس ہو کر وطن واپس چلے گئے، لیکن حضرت یاسرکو مکہ ایسا بھایا کہ وہیں بس گئے۔ انھوں نے قبائلی رواج کے مطابق ابوجہل کے چچا مہشم بن مغیرہ مخزومی کے ساتھ جینے مرنے کا حلف اٹھا لیا۔مہشم جواپنی کنیت ابوحذیفہ سے مشہور ہیں ، اپنے قبیلے بنومخزوم کے معزز سردار تھے۔ انھوں نے حضرت یاسر کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا، حضرت یاسر بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ کچھ وقت گزرا تو انھوں نے بنولخم سے تعلق رکھنے والی اپنی باندی سمیہ بنت خباط(یا خیاط) سے حضرت یاسر کی شادی کر دی۔
۵۷۰ ء ،عام الفیل(دوسری روایت :۵۶۶ء) میں حضرت یاسر کے ہاں عمارکی ولادت ہوئی ،یہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کا سال ہے۔ان کے دو بیٹے اور ہوئے ، عبداﷲ (یاعبود)اور حریث(یا حویرث)،ما بین القوسین تحریر کردہ نام شارح سیرت ابن ہشام ،سہیلی نے لکھے ہیں۔ حضرت یاسر کی کنیت ابو عمار تھی۔ تاریخ میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ ابو حذیفہ نے یاسر اور عمارکو آزاد کر دیا، لیکن اس ضمن میں سمیہ کا نام نہیں لیا گیا۔ حضرت یاسر کا کنبہ آخری وقت تک ابوحذیفہ کے ساتھ رہا۔ابوحذیفہ کی وفات بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہوئی۔حریث کو دورجاہلیت میں بنودیل نے قتل کر دیا ۔
بعثت سے قبل بھی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضرت یاسر کے کنبہ سے قریبی تعلقات تھے۔ سیدنا ابوبکر کی طرح حضرت عمار بھی آپ کے دوست تھے ۔کتب سیرت میں درج ابن اسحاق کی یہ روایت مشہور ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی امانت و دیانت کا شہرہ سن کر سیدہ خدیجہ نے مال تجارت دے کر اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ شام بھیجا۔میسرہ نے واپس آ کرآپ کی نیک نامی کا اور بھی چرچا کیا،اس نے بتایا کہ سخت گرمی میں دو فرشتے آپ پر سایہ فگن ہوتے تھے اورایک عیسائی راہب نے آپ کے نبی ہونے کا اشارہ کیا۔یہ باتیں سن کر سیدہ خدیجہ کو رغبت ہوئی اور انھوں نے آپ کو نکاح کا پیغام بھیج دیا۔ اس ضمن میں ایک دوسری روایت بھی نقل کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ آپ اور عمار بن یاسرمکہ کے بازار ’حزورہ‘ سے گزر رہے تھے۔ سیدہ خدیجہ کی بہن نے جو وہاں چمڑا بیچ رہی تھیں، حضرت عمار کو بلا کر آپ کے لیے سیدہ خدیجہ کا رشتہ تجویز کیا۔آپ نے رضامندی ظاہر کی تو اگلے ہی روز یہ پاک جوڑا نکاح کے بندھن میں بندھ گیا۔(مجمع الزوائد)
مکہ نور اسلام سے منور ہوا تو حضرت یاسر نے ایمان لانے اور اس کا اظہار کرنے میں دیر نہ لگائی ۔ان کی اہلیہ حضرت سمیہ نے ان کا ساتھ دیا۔ چنانچہ وہ اسلام کی طرف لپکنے والے نفوس قدسیہ(السابقون الاولون )میں شامل ہوئے۔ حضرت عمار اور حضرت صہیب رومی ایک ہی روز ایمان لائے ۔ابن اثیر کہتے ہیں،تب اہل ایمان کی تعداد تیس سے کچھ اوپر ہو چکی تھی اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم دار ارقم منتقل ہو چکے تھے۔غالب گمان ہے کہ ان کے والد حضرت یاسر اور والدہ حضرت سمیہ ان سے پیشتر نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ حضرت یاسرکے دوسرے بیٹے عبداﷲنے بھی دین حق کی دعوت پر لبیک کہا۔ حضرت عمار بن یاسر فرماتے ہیں ، (ابتداے اسلام میں) میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا ہے کہ پانچ غلام، دوعورتوں اور (ایک آزاد مرد) سیدنا ابوبکر کے علاوہ آپ کا ساتھ دینے والا کوئی نہ تھا۔ (بخاری، رقم ۳۶۶۰) ابن حجر کہتے ہیں،مذکورہ پانچ غلاموں میں حضرت بلال،زید بن حارثہ ، عامر بن فہیرہ اور ابو فکیہہ کا شامل ہونا یقینی ہے تاہم پانچویں غلام مومن کے بارے میں مختلف احتمالات ہیں۔ممکن ہے کہ وہ شقران ہوں، یاسر عنسی ہوں یا خود راوئ حدیث عمار بن یاسر ہوں۔اس روایت میں دو عورتوں سے مراد سیدہ خدیجہ اور سمیہ یا ام ایمن ہیں۔ حضرت عمار نے ایمان لانے والے آزاد مردوں میں صرف سیدنا ابوبکر کا نام لیا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ احرار مسلمانوں کی ایک جماعت موجود تھی جو اعزہ و اقارب سے اپنا ایمان چھپائے ہوئی تھی۔ 
جب آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کیا ،بنو مخزوم کی سیادت عمرو بن ہشام( ابوجہل )کے پاس آ چکی تھی ۔وہ اول روز سے اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا،یہی وجہ ہے کہ حضرت سمیہ اس کی اور دوسرے مشرکین کی ایذاؤں کا خاص نشانہ بننے والے سات اصحاب میں شامل ہوئیں۔(ابن ماجہ، رقم ۱۵۰) حضرت یاسر ان کے ساتھ تھے۔ حضرت یاسر سے ان کے حلیف قبیلے والوں نے پوچھا، کیا سچ ہے ،تم محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم)پر ایمان لے آئے ہو؟ حضرت یاسر نے کہا،ہاں۔مزید کہا، تمھیں پتا ہے ،وہ ہمارے معبودوں اور آبا کی تنقیص کرتے ہیں؟ جواب دیا ،ہاں۔ پھر بھی ان کی پیروی کرتے ہو؟کیا تمھیں لات ،عزیٰ اور ہبل پرایمان نہیں رہا؟ حضرت یاسر نے کہا، ہمیں محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت کے حق ہونے کا یقین ہے،آسمانوں اور زمین کا مالک اﷲ ہی ہمارا رب ہے۔ حضرت سمیہ نے بھی پختہ ایمان ظاہر کیا تو بنومخزوم نے اپنے تشدد میں اضافہ کر دیا۔ حضرت یاسر اور سمیہ کوزنجیروں سے باندھ کر سخت گرمی میں کھلے آسمان تلے گرم ریت پر لٹا دیا جاتا۔ انھیں پیٹا جاتا ، کوڑے برسائے جاتے ،داغا جاتااور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنے اور لات وعزیٰ کی ستایش کرنے کو کہا جاتا۔ وہ اﷲ اکبر ، لا الٰہ الا اﷲ کے کلمے بلند کرتے تو سینوں پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔اس قدر تکلیف دی جاتی کہ ذہن ماؤف ہو جاتا اور انھیں اپنی کہی بات سمجھ نہ آتی۔
حضرت عبداﷲ بن مسعو د بیان کرتے ہیں، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر، عمار، سمیہ،صہیب، بلال اور مقداد (یا خباب) اپنے اسلام کا اظہار کرنے والے پہلے سات نفوس تھے۔ آپ کی حفاظت آپ کے چچا ابوطالب نے کی، سیدنا ابوبکر کو ان کی قوم نے بچایا، باقی پانچوں کو مشرکین لوہے کی زرہیں پہنا کرتپتی دھوپ میں بٹھا دیتے۔ غلام ہونے کی وجہ سے ان کا دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ان میں سے کوئی نہ تھا جس نے مشرکین کی بات نہ مانی، حضرت بلال ہی تھے جنھوں نے اﷲ کی راہ میں اپنی جان کی پروا نہ کی ، ان کی قوم کوبھی ان کا خیال نہ ہوا ۔کافروں نے ان کو بچوں کے حوالے کر دیا، وہ انھیں پکڑ کر مکہ کی گھاٹیوں میں گھومے پھرے ،وہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘، ’’اﷲ ایک ہے ‘‘کی صدا لگاتے رہے۔ (مسند احمد، رقم ۳۸۳۲،ا بن ماجہ، رقم ۱۵۰)
جسمانی سزائیں دینے کے علاوہ اہل مکہ کو مستضعفین کے ساتھ لین دین کرنے سے منع کر دیا گیا۔دونوں میاں بیوی نے عمر رسیدہ اور ضعیف ہونے کے باوجود صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا ۔مسلمان اس وقت تعداد میں کم اور کم زور تھے ، ان میں سے بھی اکثر نے اپنا ایمان مخفی رکھا تھا اس لیے مشرکوں کو جور و ستم سے روکنے والا کوئی نہ تھا۔ان کی ایذاؤں کی تاب نہ لا کر پہلے حضرت یاسر شہادت سے سرفراز ہوئے۔ تاریخ اسلامی میں ان کے آخری ایام اور شہادت کے حالات کا ذکر نہیں ملتا، البتہ حسب ذیل روایتوں سے ان مظالم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو ان کی جان لینے کا سبب بنے۔سیدنا عثمان بتاتے ہیں، ایک بار میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے ریگ زار گیا، آپ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت یاسر،سمیہ اورعمار کے پاس سے آپ گزرے (تو دیکھا کہ) انھیں ایذائیں دی جا رہی ہیں۔ حضرت یاسر نے التجا کی،یا رسول اﷲ! کیا یہ سلسلہ ہمیشہ جار ی رہے گا؟آپ نے جواب دیا،صبر کرو ،پھر دعا فرمائی، اﷲ!آل یاسر کی مغفرت کر دے۔ بلاشبہ تونے مغفرت کر دی ہے۔(مسند احمد، رقم ۴۳۹) اس روایت کے راوی سالم بن ابوجعد کی عثمان سے ملاقات ثابت نہیں ،روایت کے اس ضعف کو امام مسلم کی شرائط پر پورااترنے والی مستدرک حاکم کی یہ حدیث دور کر دیتی ہے:

صبرًا یا آل یاسر، ان موعدکم الجنۃ. (مستدرک حاکم، رقم ۵۶۴۶) 
’’ آل یاسر صبر سے چپکے رہو ،تم سے جنت کا وعدہ ہے۔ ‘‘

حضرت عمار نے کہا، یارسول اﷲ !ہم پر پوری شدت سے عذاب ٹوٹ پڑا ہے ۔آپ نے فرمایا،ابو الیقظان! (عمارکی کنیت) صبر کروپھر رب سے التجا کی، ’اللّٰہم لا تعذب احدًا من آل یاسر بالنار‘۔’’اے اﷲ!آل یاسر میں سے کسی کو دوزخ کی سزا نہ دینا۔‘‘(الاستیعاب) 
حضرت یاسر کی شہادت کے بعد حضرت سمیہ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔ تب ابوحذیفہ کے بیٹوں نے انھیں ابو جہل کی تحویل میں دے دیا۔اس نے ان پر خوب ظلم ڈھایا اور طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں ۔ آخرکار اس نے ان کے پیٹ کے نچلے حصے میں بھالادے مارا اور ان کی جان لے لی۔ان کی تاریخ شہادت ہجرت نبوی سے سات سال پہلے ۶۱۵ ء ہے۔حضرت عمار کو بھی تپتی دھوپ میں لٹا کر، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کریا پانی میں ڈبکیاں دے کر ایذا دی جاتی رہی۔ انھیں کہا گیا، محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو گالیاں دے دو ،لات و عزیٰ کو بھلا کہہ دو تو ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں۔شدت تکلیف سے عاجز آ کر انھوں نے یہ سب کہہ دیا،پھر روتے روتے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے۔آپ نے سوال فرمایا،تم اپنے دل کو کس کیفیت میں پاتے ہو؟ جواب دیا، میں اسے ایمان پر مطمئن پاتا ہوں۔ فرمایا، دوبارہ ایسی صورت حال پیش آئے تو پھر یہی کچھ کرنا۔(مستدرک حاکم، رقم ۳۳۶۲) شیعہ اسے تقیہ کی ایک دلیل قرار دیتے ہیں۔ابن مسعود کی روایت (ابن ماجہ، رقم ۱۵۰)کی یہ بات کہ حضرت بلال کے علاوہ سزائیں جھیلنے والے ہر اولوالعزم نے مشرکوں کی مانگ پوری کی، یعنی بظاہر کفریہ کلمات کہہ کرجان بچائی، حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کی سیرتوں کے مطالعہ سے غلط ثابت ہو جاتی ہے تاہم حضرت عمار بن یاسر ضرور اس زمرہ میں شامل ہوئے۔ 
افسوس کہ حضرت یاسر کی تاریخ شہادت کے بارے میں ہمیں کوئی راہ نمائی نہیں ملتی تاہم جن مؤرخین نے ان کی شہادت کاذکر کیا ہے، اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ حضرت سمیہ کے منصب شہادت پر فائز ہونے سے پہلے جام شہادت نوش کر چکے تھے۔اس لیے مجاہد کے اس قول کی کہ ’’سمیہ عہد اسلامی کی پہلی شہید تھیں‘‘ یہ تاویل کی جائے گی کہ وہ پہلی شہید عورت تھیں۔ابن سعد اور ابن قتیبہ کہتے ہیں، حضرت یاسر کے شہید ہونے کے بعد سمیہ حارث بن کلدہ کے رومی غلام یاسر ازرق کے نکاح میں آئیں۔مزی اور ذہبی نے اس قول کو اختیار کیا ہے، لیکن ابن عبدالبر اورابن حجر نے قطعی غلط قرار دیا۔
حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کی شہادت کے وقت اہل ایمان پر بڑا کٹھن وقت تھا ۔ان کی شہادت کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا مشورہ دیا ۔ایک روایت کے مطابق حضرت عمار بن یاسر بھی ان مہاجرین میں شامل تھے۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، دلائل النبوۃ (بیہقی)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، البداےۃ و النہاےۃ (ابن کثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، فتح الباری (ابن حجر)،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)،منتہی الآمال فی تاریخ النبی و الآل ( عباس قمی)،نساء مبشرات بالجنۃ(احمد خلیل جمعہ)، یاسر پسر عامر(وکی پدیا، دانشنامہ آزاد)۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2013
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Oct 19, 2018
3160 View