حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ (2) - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ (2)

 شعبان ۸ھ: صلح حدیبیہ کی ایک شق تھی کہ عرب قبائل مسلمانوں یا قریش میں سے جس کا چاہیں، ساتھ دے کر جنگ نہ کرنے کے اس معاہدہ میں شامل ہو سکتے ہیں۔اس شرط کو سنتے ہی بنوخزاعہ (بنوکعب)مسلمانوں کے حلیف بن گئے، جب کہ جاہلیت قدیمہ سے اس کے حریف چلے آنے والے قبیلہ بنوبکر(بنو دئل، بنوکنانہ) نے قریش سے عہد و پیمان کر لیا۔ زمانۂ جاہلیت میں بنوخزاعہ نے بنوبکرکے سردار اسود بن رزن دئلی کی بیٹیوں سلمیٰ،کلثوم اور ذویب کو قتل کر رکھا تھا۔ صلح کے بعد ڈیڑھ سال گزرا تھا کہ بنوبکر کی نیت بگڑی، بنوبکر کی شاخ بنونفاثہ نے اپنا پرانا بدلہ لینے کے لیے بنوخزاعہ پر شب خون مارا جب وہ مکہ کے قریب اپنے ذخیرۂ آب (کنویں)وتیر (یا وتیرہ)پرآرام کر رہے تھے۔ وہ بھاگ کرحرم میں پناہ لینے پہنچے تو وہاں بھی نہ چھوڑا ،اس طرح ان کے بیس سے زیادہ آدمی مارے گئے۔ معاہدۂ صلح کی رو سے قریش کا فرض تھا کہ اپنے حلیف کو جنگ سے روکتے، لیکن انھوں نے نہ صرف بنوبکر کو ہتھیار فراہم کیے، بلکہ قرشی سرداروں صفوان بن امیہ، حویطب بن عبدالعزیٰ،عکرمہ بن ابوجہل، شیبہ بن عثمان اور سہیل بن عمرو نے بھیس بدل کرخودجنگ میں حصہ لیا۔بنوخزاعہ سہیل کے ننھیال تھے، اس کے باوجود وہ اس غارت گری میں شامل ہوئے۔ بلاذری کی روایت کے مطابق جنگ تب چھڑی جب قریش کے حلیف بنوکنانہ (بنوبکر) کے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی اور ایک خزاعی نے اس کا سر پھاڑ دیا ۔

اس واقعہ کے بعدعمرو بن سالم خزاعی مدینہ پہنچ کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملااورزمانۂ جاہلیت میں عبدالمطلب کے ساتھ کیے جانے والے عہد اور صلح حدیبیہ کا حوالہ دے کر مدد کی فریاد کی۔ آپ نے قریش کے پاس ایک قاصد بھیجا اور تین تجاویز پیش فرمائیں: ۱۔ مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔ ۲۔ قریش بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں۔ ۳۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کااعلان کر دیا جائے۔ قرطہ بن عمرنے قریش کی طرف سے تیسری شرط منظور کرنے کا اعلان کیا۔ آپ کے قاصد کے چلے جانے کے بعد انھیں اپنی عہد شکنی اور اس کے نتائج کا احساس ہوا تو ابوسفیان کو تجدید عہد کے لیے فوراً مدینہ روانہ کر دیا۔ ابوسفیان کی بیٹی ام المومنین ام حبیبہ نے اسے دیکھ کر اپنا بستر لپیٹ دیا، آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اورحضرت علی سے ملنے کے بعد وہ نامراد مکہ چلا گیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حلیف بنوخزاعہ کا بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا تو صحابہ کو سفر کی تیاری کرنے کا حکم دیا اور دعا فرمائی: اے اللہ، قریش کے جاسوسوں کی نگاہیں اچک لے تاکہ ہم ان کی مملکت پر اچانک حملہ کرسکیں۔ یہ غزوۂ فتح مکہ تھا جس میں جزیرہ نماے عر ب میں مشرکوں کا خاتمہ ہو گیا۔ آپ مدینہ ہی میں تھے کہ حضرت حاطب بن ابوبلتعہ نے بنو مزینہ کی ایک عورت کنود (یا بنو مطلب کی باندی سارہ )کو خط دے کرقریش کے سرداروں صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرواور عکرمہ بن ابوجہل کی طرف بھیج دیا ۔آپ کوبذریعہ وحی اس کی اطلاع ملی تو فوراً حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام کواس کاپیچھا کر نے کا حکم دیا۔ مدینہ سے آٹھ میل باہر حمرا اسد کے قریب واقع مقام روضۂ خاخ پر باندی سے خط پکڑا گیا توآپ نے حضرت حاطب کو بلاکر پوچھا: تم نے جاسوسی کیوں کی؟ انھوں نے کہا: میں اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں ،ایمان سے نہیں پھرا۔ میں نے مکہ میں موجود اپنے اعزہ و اقارب کو بچانے کے لیے ایسا کیا۔ حضرت عمر حضرت حاطب کی گردن اڑانا چاہتے تھے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔

غزوۂ فتح مکہ (۱۸ رمضان ۸ ھ،۱۱دسمبر ۶۲۹ء) کے موقع پرصفوان بن امیہ،عکرمہ بن ابوجہل اور سہیل بن عمرو نے جیش اسلامی کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ لوگوں کوجبل خندمہ کی اترائی میں جمع کیا۔ بنوبکر کا حماس بن قیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے ہی جنگ کی تیاری کیے بیٹھا تھا۔وہ بھی ان کے ساتھ مل گیا۔ جاہلیت کے ان پرستاروں کا حضرت خالد بن ولید کے دستے سے مختصر مقابلہ ہوا جس میں تین مسلمان شہید ہوئے ۔صفوان اور عکرمہ تو جلد ہی فرار ہو گئے، تاہم سہیل بن عمرو نے کچھ ثابت قدمی دکھائی ۔آخرکار اپنے تیرہ جنگجوؤں کا نقصان اٹھانے کے بعد مشرکوں کا یہ جتھا تتر بتر ہوگیا۔بلاذری اور ابن جوزی کہتے ہیں کہ اس جھڑپ میں قریش کے چوبیس اور ہذیل کے چار افراد مارے گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کرنے پر ناراضی کا اظہار فرمایا۔شکست کے بعد سہیل کو اندیشہ ہواکہ مجھے قتل نہ کر دیا جائے،انھوں نے گھر میں گھس کر دروازہ بند کر لیا اور اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن سہیل کو پیغام بھیجا کہ مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ لے دو۔آپ نے کمال شفقت سے انھیں امان دی ، گھر سے باہر نکل آنے کو کہااوراپنے پاس موجود صحابہ سے فرمایا: جو سہیل بن عمرو سے ملے ، ان کو خشمگیں نگاہوں سے نہ دیکھے۔ سچی بات ہے کہ سہیل دانش و تفوق رکھتے ہیں اور ا ن جیسا شخص اسلام سے غفلت نہیں برت سکتا۔ سہیل نے بھی کہا: واللہ، محمد ہر چھوٹے ،بڑے سے حسن سلوک کرتے ہیں۔

مکہ سر نگوں ہو گیا تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے ، باہر تشریف لانے کے بعدآپ نے باب کعبہ کی چوکھٹ کو تھام کر قریش سے پوچھا: اب تمھارا کیا خیال ہے؟سہیل بن عمرو نے کہا: آپ بھلی بات کہتے ہیں اور بھلا گمان ہی کرتے ہیں ۔مہربان بھائی اور مہربان بھتیجے ہیں اور اب تو ہم پر غالب آ چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں وہی کہتا ہوں جو میرے برادر یوسف علیہ السلام نے کہا تھا:

لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.(یوسف۱۲ : ۹۲)

’’(بھائیو)، آج کے دن تم پر کوئی الزام یا ملامت نہیں۔ ‘‘

۸ ھ (۶۳۰ء): فتح کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ ہی میں تھے کہ بنوہوازن اور بنوثقیف کی فوجیں مالک بن عوف کی قیادت میں اسلامی فوج پر حملہ کرنے کے لیے اکٹھی ہو گئیں۔یہ اطلاع ملتے ہی آپ نے مدینہ سے آنے والے دس ہزار مہاجرین و انصار کے علاوہ دو ہزار اہل مکہ کو، جن میں نومسلموں کے علاوہ دین شرک پر قائم افراد بھی شامل تھے ،لے کر وادئ حنین کا قصد کیا۔ انھی میں سے ایک سہیل بن عمرو تھے جو اپنے عقائد چھوڑنے پرآمادہ نہ ہوئے تھے۔ صبح کاذب کے وقت ابھی اسلامی فوج حنین کی وادی میں اتری ہی تھی کہ دشمن فوج نے کمین گا ہوں سے نکل کر شدید تیر اندازی کرتے ہوئے اس پردھاوا بول دیا۔سب سے پہلے مکہ سے شامل ہونے والے سپاہی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگے ، ان کے بعد مسلمانوں کی اکثریت منتشر ہوئی۔صحابہ کی ایک مختصر جماعت پیغمبرآخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئی۔ آپ ’أنا النبي لا کذب، أنا ابن عبد المطلب‘ (میں نبی ہوں ،اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا فرزندہوں) کا رجز پڑھتے رہے اور حضرت عباس بن عبدالمطلب ایک ایک قبیلے کا نام لے کرپکارتے رہے۔رفتہ رفتہ اہل ایمان پھر سے مجتمع ہو ئے اورشکست کفار کا انجام بنی۔غزوۂ حنین میں فتح حاصل کرنے کے بعد آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا،یہاں کے لوگ بھی اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہ محاصرہ بیس روزجاری رہا،سہیل بن عمرو اس سفر میں بھی آپ کے ساتھ تھے۔ طائف سے فارغ ہونے کے بعد آپ جعرانہ آئے جہاں غزوۂ حنین میں حاصل ہونے والے اموال غنیمت جمع تھے۔یہاں حضرت سہیل بن عمرو نے اسلام قبول کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غنائم تقسیم فرمائے تو حضرت سہیل کو مؤلفۃ القلوب میں شمار کیا۔ چنانچہ حضرت ابوسفیان، حضرت معاویہ، حضرت حکیم بن حزام، حضرت نضیر بن حارث،حضرت حارث بن ہشام، حضرت حویطب بن عبد العزیٰ، حضرت علا بن جاریہ، حضرت عیینہ بن حصن ، حضرت اقرع بن حابس، حضرت مالک بن عوف اور حضرت صفوان بن امیہ کے ساتھ حضرت سہیل بن عمرو کو سو سو اونٹ عنایت فرمائے۔ مؤلفۃ القلوب میں انصار کا کوئی شخص نہ تھا،یہ بات انصاریوں کو بہت کھٹکی۔بنو خزرج کے حضرت سعد بن عبادہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت کی کہ تلواریں توہماری دشمنوں کے خون سے آلودہ ہیں اورآپ نے بڑے بڑے عطیات اپنی قوم اور عرب کے دوسرے قبائل میں بانٹ دیے ہیں۔ آپ نے تمام انصار کو جمع کیا اور فرمایا: میں نے ان لوگوں میں مال مویشی اس لیے تقسیم کیے ہیں تاکہ یہ اسلام کی طرف راغب ہو جائیں۔ تم اس پر راضی نہیں کہ ان کو بھیڑ بکریاں ملیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ ان نومسلم لیڈروں اور غیر مسلم سرداروں کی تالیف قلب کا نتیجہ یہ نکلا کہ جواب تک ایمان نہ لائے تھے، وہ بھی مشرف بہ اسلام ہو گئے (مسند احمد، رقم۱۳۵۷۴)۔

۹ھ میں غزوۂ تبوک ہوا جس میں حضرت سہیل بن عمرو کی شرکت کا ذکر نہیں ملتا۔غالباً وہ اس وقت مکہ میں تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت حضرت سہیل بن عمرونے مومنانہ شان کا مظاہرہ کیا۔جب اہل مکہ کی اکثریت اسلام سے پھرنے پر آمادہ تھی اور مکہ کے والی حضرت عتاب بن اسید روپوش ہوچکے تھے،حضرت سہیل اٹھے، حمد و ثنا کے بعد پرجوش خطبہ دیا اور کہا: ا ے قریشیو، سب سے آخر میں ایمان لا کر سب سے پہلے مرتد ہونے والے نہ بن جاؤ۔اے آل غالب، دین سے پھرنے والے تمھاراقافلہ لوٹ لے جائیں گے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسلام کی طاقت کم نہ کرے گی، بلکہ اس میں اضافہ ہو گا۔جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بندگی کرتا تھاتو وہ تو فوت ہو چکے اور جو اللہ کی بندگی کرتا ہے تو وہ زندہ ہے اور اسے کبھی موت نہ آئے گی۔ اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ یہ دین اسی طرح پھیلے گا، جیسے سورج طلوع ہوکر غروب ہونے تک روشنی پھیلا دیتا ہے ۔ جس نے ہمارے اند ر شک پیدا کرنے کی کوشش کی، اس کی گردن اڑا دیں گے۔میں قریش میں سب سے زیادہ دولت مند ہوں ،ضمانت دیتا ہوں اگر حالات درست نہ ہوئے تو میں انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش کروں گا۔تب لوگ ٹل گئے اور حضرت عتاب عوام میں واپس آ گئے۔ یہی موقع تھا جب نبی صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت عمر کوفرمائی ہوئی پیش گوئی پوری ہوئی: ’’ہو سکتا ہے، سہیل کو وہ مقام مل جائے جو تمھیں پسند آ جائے۔‘‘ مدینہ میں سیدنا ابوبکر نے ایمان ویقین سے بھرپور خطبات سے مسلمانوں کے دل مضبوط کیے، جب کہ مکہ میں یہی فریضہ حضرت سہیل بن عمرونے انجام دیا۔

۹ھ میں شاہ غسان کی تجویز پر قیصر روم نے مدینہ کی اسلامی سلطنت پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روم و غسان کی مشترکہ فوج کو شام کی سرحد پرجا کر روکنا ضروری سمجھا۔یہ غزوۂ تبوک تھاجس میں کافر فوج کے پیچھے ہٹ جانے سے جنگ نہ ہوئی۔پھر آپ نے وفات سے پہلے بیماری کی حالت میں جیش اسامہ کو رومی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہونے کا حکم دیا۔۱۳ھ میں حج سے فارغ ہونے کے بعدخلیفۂ اول سیدنا ابوبکر نے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا،ان کی ترغیب پر رضاکاروں کی ایک بڑی تعدادشام جا نے کے لیے تیار ہو گئی تو انھوں نے چارفوجیں ترتیب دیں، فلسطین کی طرف جانے والے لشکر کا قائد حضرت عمرو بن عاص کو ، جیش اردن کا کمانڈر حضرت ولید بن عقبہ کو ،دمشق (بلقا) کو جانے والی ایک فوج کا سربراہ حضرت یزید بن ابوسفیان کو اور حمص کی طرف جانے والی سپاہ کا امیر حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو مقرر کیا۔ حضرت سہیل بن عمرو حضرت یزید کی فوج میں شامل تھے۔

طبری اور ابن کثیر کی روایت کے مطابق ۱۳ھ میں عہد صدیقی کے اواخر میں جنگ یرموک ہوئی ۔حضرت سہیل بن عمرونے اس میں بھی شجاعت کے جوہر دکھائے۔ جیش اسلامی کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدنے چھتیس یا چالیس کمانڈروں کی سربراہی میں ہزار ہزار جوانوں پر مشتمل دستے ترتیب دیے ۔ قلب کی کمان حضرت ابوعبیدہ بن جراح کو، میمنہ کی حضرت عمرو بن عاص کو، میسرہ کی حضرت یزید بن ابوسفیان کو ،مقدمہ کی حضرت قباث بن اشیم کو اور ساقہ کی حضرت عبداللہ بن مسعودکو سونپی۔حضرت ابوالدردا اس دن قاضی تھے، حضرت ابوسفیان سپاہیوں کو جوش دلا رہے اورحضرت مقداد بن اسود قرآنی آیات کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت خالد بن ولید نے اسلامی فوج کے ایک دستے کی کمان حضرت سہیل بن عمرو کے سپردکر رکھی تھی۔دیگر کمانڈروں کے نام یہ ہیں: حضرت قعقاع بن عمرو، حضرت مذعور بن عدی،حضرت عیاض بن غنم،حضرت ہاشم بن عتبہ،حضرت زیاد بن حنظلہ،حضرت دحیہ بن خلیفہ، حضرت یزید بن یحنس، حضرت عکرمہ بن ابوجہل،حضرت عبدالرحمن بن خالد،حضرت حبیب بن مسلمہ،حضرت صفوان بن امیہ،حضرت سعید بن خالد،حضرت ابو الاعور بن ابوسفیان، حضرت شرحبیل بن حسنہ،حضرت عبداللہ بن قیس، حضرت عمرو بن عبسہ ،حضرت ذوالکلاع ،حضرت معاویہ بن حدیج،حضرت جندب بن عمرو، حضرت عمرو بن فلان، حضرت لقیط بن عبدالقیس، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عصمہ بن عبداللہ، حضرت ضرار بن ازور،حضرت مسروق بن فلان، حضرت عتبہ بن ربیعہ، حضرت جاریہ بن عبداللہ۔ابن اسحاق ،واقدی اور ابن عساکر کی روایات کے مطابق یرموک کا معرکہ عہد فاروقی میں ۱۵ھ میں پیش آیا۔

ارتداد کی جنگوں میں حضرت سہیل بن عمروکے ساتھی حضرت ابوسعد (ابوسعید )بن ابوفضالہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ حضرت سہیل نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کیا ہوا یہ ارشاد نبوی سنایا: ’’تم میں کسی کا جہاد اللہ کے رستے میں ایک گھڑی بھی ٹھہرنا اپنے اہل خانہ میں رہ کرکیے جانے والے عمر بھر کے اعمال سے بہتر ہے‘‘ اور کہا: میں جہاد کرنے کے لیے اپنی موت تک سرحدوں پر رہوں گا اور کبھی مکہ واپس نہ جا ؤں گا ۔

حضرت سہیل بن عمرو عہد فاروقی کے اوائل میں مدینہ آئے اور ایک ماہ کے قیام کے بعد اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کو لے کر شام کے محاذ پر چلے گئے۔ حضرت حارث بن ہشام ان کے ہمراہ تھے۔

۱۳ھ: (فروری ۶۳۵ء) جنگ فحل (Battle of Pella) میں اسلامی فوج کے سپہ سالار حضرت شرحبیل بن حسنہ نے دس ہزار(دوسری روایت: اسّی ہزار) رومیوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد وادئ اردن (تب غور شام ) میں واقع شہر بیسان کا رخ کیا۔ حضرت عمرو بن عاص ،حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمرو ان کے ساتھ تھے۔شام و فلسطین کے اکثر شہر مسلمانوں کے زیر ہو گئے توباقی علاقوں کے باشندوں نے قلعہ بند ہونے میں عافیت سمجھی۔ حضرت شرحبیل نے بیسان کے قلعہ گیروں کا محاصرہ کر لیا۔کچھ روز گزرے تھے کہ اہل بیسان میں سے کچھ مہم جو لڑنے کے لیے قلعہ سے باہر آئے، لیکن جب وہ مارے گئے تو شہر کے لوگ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔

۱۵ھ میں خلیفۂ دوم سیدنا فاروق اعظم نے مسلمانوں میں وظائف تقسیم کرنے کے لیے دیوان(رجسٹر) مدون کیا تو عطیات کی رقوم متعین کرنے میں سبقت الی الاسلام کا لحاظ کیا ۔اس طرح حضرت صفوان بن امیہ ، حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمرو کے وظیفے کم ہو گئے، کیونکہ یہ سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ان حضرات نے یہ کہہ کروظائف لینے سے انکار کیا کہ ہم نہیں مانتے کہ کوئی ہم سے زیادہ اعلیٰ خاندان رکھتا ہے۔حضرت عمر نے جواب دیا: میں نے تمھارے حسب ونسب کا نہیں، بلکہ اسلام کی طرف پہل کرنے کا اعتبار کیا ہے۔تب یہ خاموش ہو گئے اور درہم و دینار قبول کر لیے۔جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے حضرت سہیل بن عمرو کو چار ہزار درہم ملے۔

ایمان لانے کے بعد حضرت سہیل بن عمرو اپنا زیادہ وقت فرائض و نوافل پڑھنے میں گزارتے ، روزے رکھتے اور دل کھول کر صدقات دیتے۔فرماتے تھے: میں نے کوئی اہم موقع نہیں چھوڑاجس میں مشرکوں کا ساتھ دیا ہواورپھر اس طرح کے موقع پر مسلمانوں کا ساتھ نہ دیا ہو۔اور ایسا انفاق بھی نہیں رہنے دیا کہ ویسا ہی انفاق اہل ایمان کی خاطر نہ کیا ہو۔ یہی سوچتا رہا کہ یہ اعمال و انفاق زمانۂ جاہلیت کے کارناموں کا بدل ہو جائیں گے۔ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے قریش کے زعما (طلقاء)میں سے کوئی بھی رقت و ورع میں ان سے بڑھا ہوا نہ تھا۔قرآن مجید کی تلاوت سنتے ہی ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتیں۔کثرت بکا اور طوالت قیام سے ان کا رنگ متغیرہو چکا تھا۔ جب تک حضرت معاذ بن جبل مکہ میں رہے ،حضرت سہیل ان کے پاس جا کر قرآن سیکھتے رہے۔ حضرت ضرار بن خطاب نے ایک بار کہا: ابویزید، تم قرآن سیکھنے اس خزرجی کے پاس جاتے ہو، اپنی قوم کے کسی فرد سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟ حضرت سہیل نے جواب دیا: معاذ نے ہمارے ساتھ خوب کیا کہ ہم پر مکمل سبقت حاصل کر لی۔قسم میرے دین و ایمان کی! میں اس کے پاس آتا جاتا رہوں گا۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے جاہلیت والے معاملے نمٹا دیے۔ اس دین نے ایسی قوموں کو رفعت عطا کر دی ہے جو زمانۂ جاہلیت میں کسی شمار میں نہ آتی تھیں۔ کاش! ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو آگے نکل جاتے۔میں اسلام میں اس تقدم کو یادکرتا ہوں جو اللہ نے میرے گھر کے مردوں ،عورتوں اور میرے آزاد کردہ عمیر بن عوف کے لیے مقدر کر رکھا تھااور اس پر خوشی محسوس کرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ ان اعزہ کی دعاؤں سے اتنا نفع ضرور دے گا کہ میں اس طرح مروں نہ مارا جاؤں گا، جس طرح میرے ہم سر مرے یا جہنم رسید کر دیے گئے۔ بدر، احد اور خندق کی تمام جنگوں میں، میں شریک رہا اور حق سے دشمنی کی۔ سنوضرار، حدیبیہ میں معاہدۂ صلح تحریر کرنے کی ذمہ داری مجھ پرپڑی،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جانے والی اپنی تکرار اور باطل سے اپنا چمٹے رہنا یاد کرتاہوں تومکہ میں رہتے ہوئے آپ سے حیا محسوس کرتا ہوں ۔ ہمارا شرک میں مبتلا رہنا اس سے بھی بڑا گناہ تھا۔میں بدر کے دن کو یاد کرتا ہوں جب میں مشرکوں کی طرف تھا اور اپنے بیٹے عبداللہ اور آزادکردہ عمیر بن عوف کو دیکھ رہا تھا کہ مجھ سے بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے گئے تھے۔ میرا اڑتیس سالہ بیٹاعبداللہ جنگ یمامہ میں شہید ہوا تو ابوبکر نے مجھ سے تعزیت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا: ’’شہید اپنے ستر گھر والوں کی شفاعت کرے گا‘‘ (ابوداؤد، رقم ۲۵۲۲)۔ مجھے توقع ہے کہ سب سے پہلے میری ہی شفاعت کی جائے گی۔

ایک بار قریش کے رؤسا حضرت سہیل بن عمرو ،حضرت ابوسفیان بن حرب خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب سے ملنے آئے، لیکن انھوں نے وہاں پر موجود حضرت صہیب رومی ،حضرت بلال حبشی اور دوسرے بدری صحابہ کوپہلے بلا لیا۔ حضرت ابوسفیان بولے: میں نے آج جیسا دن نہ دیکھا تھا ،حضرت عمر نے ان غلاموں کو بلا لیا ہے اور ہم بیٹھے رہ گئے ہیں۔ حضرت سہیل بن عمرو نے فرمایا: اے قوم قریش، میں تمھارے چہروں کے تاثرات دیکھ رہا ہوں،اگر تمھیں غصہ آ رہا ہے تو یہ اپنے اوپر نکالو ۔تمھاری قوم کو دعوت دی گئی اور تمھیں بھی پکارا گیا۔لوگ دین حق کی طرف لپکے اور تم نے سستی دکھائی۔روز قیامت کیا کرو گے جب ان کو بلا لیا جائے گااور تمھیں چھوڑ دیا جائے گا؟جو افسوس تمھیں اب ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ رنج اس فضیلت کو کھونے پر ہونا چاہیے جسے پانے میں ان لوگوں نے سبقت حاصل کر لی۔ تم ان کی سبقت الی الایمان کا مقابلہ تونہیں کر سکتے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد نہیں کر سکے تو ا ب جہاد کو اپنا شعار بنا لو ،امید ہے ،اللہ تمھیں شہادت عطا کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت سہیل بن عمرو نے کپڑے جھاڑے اورشام میں برسر پیکار اسلامی فوج میں شامل ہونے کے لیے روانہ ہو گئے۔حسن بصری کہتے ہیں کہ حضرت سہیل نے کیا سچی بات کی۔ اللہ اپنی طرف لپکنے والے بندے کو اس شخص کی طرح نہ ٹھہرائے گا جو سست ہو کر پیچھے رہ گیا۔

دوسری روایت میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیاگیا ہے کہ حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمرو خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن خطاب سے ملنے آئے۔حضرت عمر ان دونوں کے بیچ تشریف فرما تھے۔اسی اثنا میں مہاجرین صحابہ حضرت عمر سے ملنے کے لیے آنا شروع ہوئے۔حضرت عمر کہتے جاتے: سہیل یہاں بیٹھ جائیے ،حارث ادھر ہو جائیں۔ اس طرح کرتے کرتے یہ دونوں اصحاب سب سے آخر میں چلے گئے۔حضرت عمر کی مجلس سے واپس آنے کے بعد حضرت حارث نے حضرت سہیل سے کہا: آپ نے دیکھا ، ہمارے ساتھ کیا برتاؤہوا؟حضرت سہیل نے کہا: ہم عمر کو ملامت نہیں کر سکتے، البتہ خود اپنے آپ کو برا بھلا کہنا چاہیے۔ہماری قوم کودین اسلام کی دعوت دی گئی تو ہمارے اعزہ و اقارب اس کی طرف لپکے، لیکن ہم پیچھے پیچھے رہے۔ دونوں اصحاب پھر پلٹ کر حضرت عمر کے پاس آئے اور کہا: آپ نے ہمارے ساتھ آج جو سلوک کیا، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہی کی وجہ سے ہوا۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ہم کھوئی ہوئی فضیلت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ میں اس کی ایک ہی صورت پاتا ہوں، حضرت عمر نے یہ کہہ کر روم کی سرحد کی طرف اشارہ کیا۔چنانچہ دونوں شام پہنچے اور وہاں شہادت حاصل کی۔

شام کے جہاد میں حضرت سہیل کاپورا کنبہ ان کے ساتھ تھا،ان کی بیٹی ہنداور پوتی فاختہ بنت عتبہ کے سو اسب نے وہیں وفات پائی۔یہ دونوں مدینہ لوٹیں تو سیدنا عمر نے فاختہ کو پرورش میں لیااور ان کی شادی حضرت سہیل کے ساتھی حضرت حارث بن ہشام کے بیٹے عبدالرحمن سے کرا دی اور کہا: ان دونوں بچ جانے والوں کو بیاہ دو۔

حضرت سہیل بن عمرو نے۱۸ھ میں فلسطین کی بستی عمواس کے گرد و نواح میں پھیلنے والی طاعون کی وبا میں وفات پائی۔ان کے بیٹے حضرت عتبہ بن سہیل اور حضرت ابوجندل بن سہیل بھی ان کے ساتھ اس مہلک مرض کا شکار ہوئے۔مدائنی کی شاذروایت کے مطابق ان کی شہادت جنگ یرموک میں جہاد کرتے ہوئی۔

حضرت سہیل بن عمرو کی بیٹی سہلہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ سے بیاہی ہوئی تھیں جن کا شمار ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ * ‘ میں ہوتا ہے ۔دونوں میاں بیوی پہلی ہجرت حبشہ میں شریک تھے۔ جنگ یمامہ میں حضرت ابوحذیفہ کی شہادت کے بعدحضرت سہلہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے نکاح میں آئیں۔

حضرت سہیل بن عمرو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کی ہے۔ذہبی کہتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ زبیدی نے ان سے روایت کی، جب کہ ابن حجرکا کہنا ہے کہ مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم نے ان کا کلام نقل کیا ہے۔ حضرت سہیل کے اقوال:

’’جاہلیت کور چشمی تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہم سے زائل کر دی۔‘‘

’’جو اپنے بھائی بہنوں کو کھو دے ،پردیسی ہو جاتا ہے اگرچہ اپنے گھر میں مقیم ہو۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے ہماری عقلوں اور ہمارے دلوں کی قلب ماہیت کر دی ہے۔ہم نے ان اعمال کو برا سمجھنا شروع کر دیا ہے، زمانۂ جاہلیت میں جنھیں اچھا سمجھتے تھے۔میں اب بتوں کی پوجا کو یاد کرتا ہوں تو سخت کراہت محسوس ہوتی ہے۔‘‘

’’ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں گمراہی اور غفلت سے نکال کر ہدایت بخشی۔‘‘

’’اپنے نفس سے جہاد کرنا دشمن سے لڑنے پر فوقیت رکھتا ہے۔‘‘

زمانۂ جاہلیت میں مکہ اور یثرب میں جسم فروش عورتوں کی بہتات تھی۔عکرمہ کہتے ہیں کہ ان میں سے نو زیادہ مشہور تھیں جنھوں نے اپنی پہچان کے لیے پرچم بنا رکھے تھے۔انھی میں سے ایک سہیل بن عمرو کی باندی حلالہ(یا جلالہ) تھی۔ ہجرت کے بعد مدینہ کے مفلس مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان سے نکاح کرنے کی اجازت چاہی تو اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا: ’وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ‘، ’’اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک۔‘‘ (سورۂ نور۲۴: ۳) (تفسیر طبری: سورۂ نور، ابوداؤد، رقم ۲۰۵۱۔ نسائی، رقم ۳۲۳۰۔ مسند احمد، رقم ۷۰۹۹)۔

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الجامع المسند الصحیح (بخاری)، جمل من انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم والملوک(طبری)، الاغانی(ابوفرج اصفہانی)،دلائل النبوۃ (بیہقی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، معجم البلدان(یاقوت الحموی)، اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)،سیر اعلام النبلاء(ذہبی)،البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، محمد رسول اللہ (محمد رضا)، تاریخ اسلام (اکبرشاہ خاں)، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (جواد علی)، سہیل بن عمرو (ویکیبیدیا الموسوعۃ الحرۃ)۔

________________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 27, 2017
3298 View