حضرت قدامہ بن مظعون رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت قدامہ بن مظعون رضی ﷲ عنہ

 حضرت قدامہ بن مظعون کے دادا کا نام حبیب بن وہب تھا۔ ان کا تعلق قریش سے تھا، تاہم وہ اپنے پانچویں جد جمح بن عمرو کی نسبت سے جمحی کہلاتے ہیں۔ کعب بن لؤی پر حضرت قدامہ کا شجرۂ نسب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے نسب مبارک سے جا ملتا ہے۔آپ مرہ بن کعب، جب کہ حضرت قدامہ ان کے بھائی ہصیص بن کعب کی اولاد میں سے تھے۔ ہصیص حضرت قدامہ بن مظعون کے ساتویں جد تھے۔ حضرت قدامہ کی والدہ غزیہ بنت حویرث بھی بنو جمح سے تعلق رکھتی تھیں۔ حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت عبدﷲ بن مظعون ان کے سوتیلے بھائی تھے۔ حذافہ بن جمح حضرت قدامہ کے لکڑدادا (دادا کے دادا) ہونے کے ساتھ ان کے لکڑ نانا (نانا کے دادا) بھی تھے۔ حضرت قدامہ کے چچا معمر بن حبیب زمانۂ جاہلیت میں ہونے والی جنگ فجار کے ایک کمانڈر تھے۔ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر حضرت قدامہ کی بھانجی تھیں،حضرت قدامہ کی بہن حضرت زینب بنت مظعون سیدہ حفصہ اور حضرت عبد ﷲ بن عمر کی والد ہ تھیں۔ ابوعمرو حضرت قدامہ کی کنیت تھی۔یہی زیادہ مشہور ہے، تاہم ان کی کنیت ابو عمر بھی بتائی گئی ہے۔

ابن ہشام نے اپنی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ابن اسحاق کے حوالہ سے اوائل بعثت محمدی میں دین اسلام کی طرف لپکنے والے اصحاب رسول کی فہرست دی ہے۔ ان اصحاب کی ترتیب میں جنھیں قرآن مجید نے ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کا نام دیا ہے ،حضرت قدامہ بن مظعون کا نمبرچودھواں ہے۔ حضرت قدامہ کے بھائی حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدﷲ بن مظعون اور بھتیجے حضرت سائب بن عثمان بھی ان کے ساتھ نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں داخل نہ ہوئے تھے۔

حضرت قدامہ بن مظعون کو حبشہ و مدینہ، دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔رجب ۵؍ نبوی (۶۱۵ء) میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے قریش کی ایذا رسانیوں کو دیکھ کر صحابہ کو مشورہ دیا کہ حبشہ (Abyssinia, Ethiopia) کو ہجرت کر جائیں۔ فرمایا: وہاں ایسا بادشاہ (King of Axum) حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون کی قیادت میں پندرہ اہل ایمان حبشہ روانہ ہوئے، پھر حضرت جعفر بن ابوطالب کی سربراہی میں دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا ۔حضرت قدامہ بن مظعون اسی گروپ میں شامل تھے۔یہ پہلی ہجرت حبشہ تھی۔ دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی (ابن جوزی:ایک سو نو)تھی۔

شوال ۵؍ نبوی میں قریش کے اسلام قبول کرنے کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ کشتی پر سوار ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو ان میں سے چندحبشہ لوٹ گئے، تاہم حضرت عثمان بن عفان، حضرت زبیر بن عوام ،حضرت مصعب بن عمیر،حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت عبدﷲ بن مسعود، حضرت قدامہ بن مظعون، ان کے دو بھائی حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدﷲ بن مظعون اوران کے بھتیجے حضرت سائب بن عثمان ان تینتیس (یا اڑتیس) اصحاب میں شامل تھے، جنھوں نے دوسری ہجرت حبشہ میں حصہ نہ لیا اور مکہ ہی مقیم ہو گئے۔

مکہ میں نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی کٹھن ہو گئی تو ﷲ کے حکم سے آپ نے صحابہ کو یثرب(مدینہ) کی طرف ہجرت کرنے کا اذن دے دیا۔ صحابہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں مکہ سے نکلنے لگے۔ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اورحضرت عمرو بن ام مکتوم مدینہ پہنچے، پھرحضرت عمار بن یاسر ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدﷲ بن مسعود اورحضرت بلال نے ہجرت کی (بخاری، رقم ۳۹۲۵)۔ ان کے بعد حضرت ابوسلمہ ،ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ ،حضرت عامر بن ربیعہ،ان کی اہلیہ حضرت ام عبدﷲ ،حضرت قدامہ بن مظعون ،حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبدﷲ بن مظعون،حضرت ابوحذیفہ اور حضرت عبدﷲ بن جحش نے شہر ہجرت کا رخ کیا۔ حضرت عمر بیس افراد کے قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے، پھر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر کی آمد ہوئی۔ حضرت قدامہ بن مظعون، ان کے بھائی حضرت عثمان بن مظعون اورحضرت عبدﷲ بن مظعون جومکہ میں اپنے گھر بار خالی کر کے آئے تھے، مدینہ میں حضرت عبدﷲ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔ حضرت معمر بن حارث نے بھی ان کے ساتھ قیام کیا۔

مدینہ تشریف آوری کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار میں مواخات قائم فرمائی۔اہل مواخات میں حضرت قدامہ کانام مذکور نہیں۔

حضر ت قدامہ بن مظعون ، ان کے دونوں بھائیوں حضرت عثمان ،حضرت عبدﷲ اور ان کے بھتیجے حضرت سائب بن عثمان نے جنگ بدر میں حصہ لیا۔

۳ھ: آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کے اڑھائی سال بعدشعبان کے مہینے میں حضرت حفصہ بنت عمر سے نکاح کیا۔ پھر اسی سال آپ نے انھیں ایک طلاق دی (دوسری روایت: دینے کا ارادہ کیا) توحضرت عمر نے اپنا سرغبار آلود کر لیا اور کہا: اب ﷲ کو عمر اور اس کی بیٹی کی پروا نہ ہو گی۔ حضرت حفصہ نے اپنے بہنوئی حضرت قدامہ بن مظعون اور حضرت عثمان سے شکوہ کیا۔ اگلے ہی دن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سیدہ حفصہ کے پاس آئے اور فرمایا: حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا: ﷲ آپ کو حکم دیتا ہے کہ حفصہ سے رجوع کر لیں، وہ روزہ دار اور تہجد گزار ہیں اور جنت میں بھی آپ کی اہلیہ رہیں گی (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۳۰۶، ۳۰۷) ۔

حضرت قدامہ جنگ احد ،جنگ خندق اور باقی تمام غزوات میں بھی شریک رہے۔

حضر ت عثمان بن مظعون کی ایک بیٹی حضرت خویلہ بنت حکیم کے بطن سے تھی۔وفات کے وقت انھوں نے اس کی شادی اور رخصتی کے بارے میں اپنے بھائی حضرت قدامہ کو وصیت کی ۔حضرت عبدﷲ بن عمر دونوں اصحاب کے بھانجے تھے ،وہ اپنے ماموں حضرت قدامہ کے پا س آئے اورحضرت عثمان کی بیٹی کارشتہ مانگا۔ انھوں نے بچی سے پوچھے بغیراس کی نسبت ان سے طے کر دی۔ ا س اثنا میں حضرت مغیرہ بن شعبہ بچی کی ماں سے ملے اور مال کی رغبت دلائی۔ بچی نے ماں کی صلاح کو ترجیح دی اورحضرت عبدﷲ بن عمر سے بیاہ کرنے سے انکار کر دیا۔معاملہ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم تک پہنچا توآپ نے حضرت قدامہ بن مظعون کو طلب فرمایا۔ انھوں نے کہا: یارسول ﷲ ، یہ میری بھتیجی ہے جس کے بیاہ کی ذمہ داری مجھے وصیت کی گئی تھی۔میں نے اس کا رشتہ اس کے پھوپھی زاد سے طے کیا ہے۔ اس کی بھلائی کرنے اور اس کا کفو ڈھونڈنے میں میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی، لیکن یہ اپنی ماں کی خواہش کے پیچھے چل پڑی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ یتیم ہے ،اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جا سکتا۔چنانچہ آپ نے اس کی نسبت حضرت عبدﷲ سے توڑ کرحضرت مغیرہ سے اس کا بیاہ کر دیا (ابن ماجہ، رقم ۱۸۷۸۔ مسند احمد، رقم ۶۱۳۶)۔

۲۰ھ: عہد صدیقی میں حضرت علا بن حضرمی بحرین کے عامل تھے۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمر نے انھیں ہٹا کر حضرت قدامہ بن مظعون کو گورنر بنایا (بخاری، رقم ۴۰۱۱)۔ ان کی گورنری کے زمانہ میں قبیلۂ عبدالقیس کے سردارحضرت بشر بن عمرو (یا معلیٰ) جو جا رودکے لقب سے مشہور ہیں، بحرین سے آئے، حضرت عمر کو ملے اور کہا: امیر المومنین، قدامہ نے شراب پی رکھی تھی اور نشے میں تھے۔ میں نے ﷲ کی ایک حد ٹوٹتے دیکھی ہے ،اس لیے آپ تک خبر پہنچانا فرض تھا۔ حضرت عمر نے پوچھا: تمھارے الزام کی گواہی کون دیتا ہے۔ انھوں نے کہا: ابوہریرہ ۔ حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ کو بلایااور پوچھا: تم کیا شہادت دیتے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے قدامہ کو شراب نوشی کرتے تو نہیں دیکھا، تاہم وہ نشے میں تھے اور قے کررہے تھے۔ حضرت عمر نے کہا: تم نے خوب گواہی دی۔ پھر انھوں نے حضرت قدامہ کو خط لکھا کہ بحرین سے آکر مجھے ملو۔وہ آئے توحضرت جارود نے پھر حد قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔حضرت عمر نے کہا: تم فریق ہو یا گواہ ہو؟ حضرت جارود نے کہا: گواہ ہوں۔ حضرت عمر نے کہا: تم نے اپنی گواہی دے دی ہے۔ اگلے روز حضرت جارود نے پھر شرب خمر کی حد نافذ کرنے پر اصرار کیاتو حضرت عمر نے کہا: تم مدعی بن گئے ہو اور تمھارے حق میں ایک شخص کے علاوہ کسی نے گواہی نہیں دی ۔ اپنی زبان بند کرو ،نہیں تو میں برا پیش آؤں گا۔ حضرت جارود نے جواب دیا: عمر ،یہ درست نہیں کہ تمھارے چچازاد نے شراب پی ہے او ر تم مجھے براپیش آنے کی دھمکیاں دے رہے ہو۔ حضرت ابوہریرہ نے کہا: امیر المومنین، آپ کوہماری شہادت میں شک ہے تو قدامہ کی بیوی ہند بنت ولید سے پوچھ لیں۔ حضرت عمر نے حضرت ہند سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنے شوہر کے خلاف گواہی دی۔دوسری روایت کے مطابق حضرت ابوہریرہ کے بجاے علقمہ خصی نے حضرت قدامہ کے خلاف شہادت دی۔دوسری گواہی ملنے کے بعد حضرت عمر نے حد جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن حضرت قدامہ نے کہا: آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ پوچھا: کیوں؟ کہا: ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْا.(المائدہ ۵: ۹۳)

’’جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک اعمال کیے، ان پر کوئی گرفت نہ ہوگی اس باب میں جو وہ کھا پی چکے بشرطیکہ وہ آیندہ حرام چیزوں سے بچیں،ایمان پر ثابت قدم رہیں،نیک اعمال کرتے رہیں، پھر جس جس چیز سے روکا جائے، رکیں، احکام الٰہی کو مانیں، پھرتقویٰ پر قائم رہیں اور ہر حکم پر خوبی سے عمل پیرا ہوں۔‘‘

حضرت عمر نے کہا: تم نے تاویل کرنے میں غلطی کی، جب تم ﷲ کاتقویٰ اختیارکروگے تو اس کی طرف سے حرام کی ہوئی محرمات سے بچو گے۔ اب حضرت عمر نے حاضرین سے پوچھا: تم قدامہ کو کوڑے لگانے کے بارے میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ جواب آیا ، قدامہ جب تک بیمار ہیں ، انھیں کوڑے نہ مارے جائیں۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت عمر نے پھر دریافت کیا تو لوگوں نے کہا: ابھی وہ ضعف محسوس کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا: کوڑا لاؤ ،یہی بہتر ہے کہ وہ کوڑے کھاتے ہوئے ﷲ سے جا ملیں اور میری گردن پر ان کا وبال نہ ہو۔اس واقعے کے بعد حضرت عمر اور حضرت قدامہ حج پر گئے، لیکن باہم ناراض ہی رہے۔ حج سے واپسی پر حضرت عمر نے سقیا کے مقام پر شب بسر کی۔نیند سے بیدار ہوئے تو کہا: قدامہ کو بلاؤ ،خواب میں آنے والے شخص نے مجھے نصیحت کی کہ قدامہ سے صلح کرو ، وہ تمھارا بھائی ہے۔ حضرت عمر نے انھیں منایا اور ان کے لیے استغفار کی (السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۷۵۱۶)۔

ایوب بن ابو تمیمہ سختیانی کا کہنا ہے کہ بدری صحابہ میں سے حضرت قدامہ بن مظعون کے علاوہ کسی پر شرب خمر کی حد جاری نہیں کی گئی۔ ابن اثیر کہتے ہیں: یہ بات درست نہیں ،ایک اور بدری صاحب حضرت نعیمان بن عمرو انصاری پر بھی حد لگائی گئی (بخاری، رقم ۶۷۷۵)۔ بخاری کی مذکورہ روایت کے متن ’أن النبي أتي بنعیمان او ابن نعیمان و ہو سکران‘ (نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس نعیمان یا ان کے بیٹے کو نشہ کی حالت میں لایا گیا) کو دیکھا جائے تو باپ بیٹا، دونوں میں سے کسی ایک کااس واقعہ سے متعلق ہونا محتمل ہے۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ حضرت نعیمان نہیں، بلکہ ان کا بیٹا شراب کارسیا تھااور اس پر چار بار بادہ نوشی کی حد جاری کی گئی۔ابن حجر کا اصرار ہے کہ شراب نوشی کا واقعہ حضرت نعیمان ہی سے متعلق ہے۔وہ دلیل میں ابن مندہ کی روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت نعیمان کا نام صراحت سے مذکورہے۔

اس واقعے کے بعد حضرت عمر نے حضرت قدامہ بن مظعون کو معزول کرکے یہ عہدہ دوبارہ حضرت علا بن حضرمی کو سونپ دیا۔ ابن جوزی کی روایت کے مطابق حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ اور ابن اثیر کے بیان کے مطابق حضرت ابوبکرہ کویمامہ اور بحرین کا عامل بنایا۔

خلیفۂ سوم حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حضرت علی خلیفہ بنے تو حضرت قدامہ بن مظعون نے ان کی بیعت نہ کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدﷲ بن عمر ، حضرت صہیب بن سنان،حضرت حسان بن ثابت،حضرت ابوسعید خدری، حضرت زید بن ثابت،حضرت محمد بن مسلمہ،حضرت سلمہ بن سلام، حضرت عبدﷲ بن سلام،حضرت اسامہ بن زید اور حضرت مغیرہ بن شعبہ بیعت نہ کرنے والوں میں شامل تھے۔

واقدی کی روایت کے مطابق حضرت قدامہ بن مظعون نے ۳۶ ھ میں حضر ت علی کے عہد خلافت میں وفات پائی۔ ان کی عمر ۶۸ برس ہوئی۔ ابن حبان ان کا سن وفات ۵۶ ھ بتاتے ہیں۔

حضرت قدامہ بن مظعون طویل القامت اور گندم گوں تھے۔وہ ان معدودے چند صحابہ میں شامل تھے جو بالوں کو نہیں رنگتے تھے۔ان کی شادی حضرت عمر کی بہن حضرت صفیہ بنت خطاب سے ہوئی جن سے ان کی بیٹی رملہ پیدا ہوئی۔ دوسری زوجہ حضرت ہند بنت ولید سے عمر اور فاطمہ تولد ہوئے۔ تیسری اہلیہ حضرت فاطمہ بنت ابوسفیان سے عائشہ نے جنم لیا۔ ان کی بیٹی حفصہ کی ولادت ان کی ام ولد کے ہاں ہوئی۔

حضرت قدامہ بن مظعون روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے ﷲ ، میں عطیات کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں (معجم الصحابۃ: ابن قانع)۔ متن حدیث میں ’العوائد‘ کالفظ ہے جس کا مفرد ’العائدۃ‘ ہے۔ا س کے دو معنی ہو سکتے ہیں: صاحب حیثیت شخص سے ملنے والے عطیات، بار بار عیادت کے لیے آنے والی عورتیں (تہذیب اللغۃ، ازہری)۔ چونکہ یہ روایت ابن قانع بغدادی کے تفردات میں سے ہے اور معنی متعین کرنے کے لیے ہمیں کہیں سے مدد نہیں ملی، اس لیے ہم نے اپنی سوجھ کے مطابق پہلے معنی کو ترجیح دی ۔ عائشہ بنت قدامہ نے اپنے والد سے حدیث روایت کی ہے (موطا امام مالک، رقم ۶۸۷)۔ عمر بن قدامہ کے پوتے قدامہ بن موسیٰ ثقہ راوی تھے ۔امام بخاری اوراکثر محدثین نے ان سے حدیث روایت کی۔

حضرت قدامہ بن مظعون کے ایک آزادکردہ غلام کی نسل میں جن کا نام ہم بسیار کوشش کے باوجود نہیں جان سکے، عبدالرحمٰن بن سلام اور محمد بن سلام نے تاریخ اسلامی میں مقام حاصل کیا۔عبدالرحمن بن سلام کو علم حدیث میں ایک ثقہ راوی سمجھا جاتا ہے، جب کہ محمدبن سلام صاحب اخبار کہلاتے ہیں، عربی ادب کی کتاب ’’الاغانی‘ ‘میں ان کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ انھوں نے شعراے عرب کو دس طبقوں میں تقسیم کیا اور اس موضوع پر عربی کی پہلی تصنیف ’’طبقات الشعراء‘‘ تحریر کر کے شہرت پائی۔

مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، تاریخ بغداد (خطیب بغدادی)، المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، تاریخ الاسلام (ذہبی)، البدایۃ و النہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

__________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 19, 2017
2885 View