حضرت عبد ﷲ بن جحش رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عبد ﷲ بن جحش رضی ﷲ عنہ

 

حضرت عبداﷲ بن جحش بنوخزیمہ سے تعلق رکھتے تھے۔اسد بن خزیمہ کی نسبت سے ان کا قبیلہ بنواسد کہلاتا ہے۔ ان کے داداکا نام ریاب (یارئاب)بن یعمر تھا۔ ابن سعد نے حضرت عبداﷲ کے قبیلے کو ان کے ساتویں جد کی نسبت سے بنو غنم بن دودان کا نام دیا ہے، دودان اسد بن خزیمہ کے پوتے تھے۔ بنو اسد بن خزیمہ سیدنا عثمان کے قبیلۂ بنوامیہ (بنو عبد شمس یا حرب بن امیہ) کے حلیف تھے۔ابو محمد حضرت عبداللہ کی کنیت تھی۔
حضرت عبداللہ بن جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زادتھے،ان کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب آپ کی پھوپھی تھیں۔ ابولہب کی باندی ثوبیہ نے پہلے حضرت حمزہ پھر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس کے بعد حضرت ابوسلمہ کو دودھ پلایا۔اگر یہ روایت درست ہے کہ حضرت عبداﷲ بن جحش نے بھی ثوبیہ کا دودھ پی رکھا تھاتو لامحالہ ان کا زمانۂ رضاعت موخر ہو گا، کیونکہ وہ آں حضرت صلی اﷲ علیہ سلم کے بعد پیدا ہوئے۔ثوبیہ کے بیٹے مسروح آپ کے دودھ شریک بھائی تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے ثوبیہ اور مسروح کے بارے میں دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ دونوں وفات پا چکے ہیں۔
بعثت نبوی سے پہلے کا زمانہ فترۃ کہلاتا ہے، یعنی وہ دور جب انبیاے گذشتہ سے ملنے والی ہدایت لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو چکی تھی اور نبی آخر الزمان کا ابھی ظہور نہ ہوا تھا۔ اس زمانے میں بھی معدودے چند لوگ تھے جو شرک سے دور اور توحید پر قائم تھے،انھیں روز قیامت اپنے رب سے ملنے کا انتظار تھا۔ ان راست کردار نفوس میں جہاں اصحاب اخدود*، حضرت خالد بن سنان، حضرت قس بن ساعدہ، حضرت زید بن عمرو بن نفیل اور حضرت ورقہ بن نوفل کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں حضرت عبداﷲ بن جحش کا نام بھی لیا گیا ہے۔ حضرت عبداﷲ زید بن عمرو بن نفیل کی طرح دین ابراہیم کی طرف مائل تھے، جبکہ ان کے بھائی عبیداﷲ بن جحش پرنصرانیت کا غلبہ رہا۔ بت پرستی سے نفرت رکھنے اور دین حنیف کی طرف میلان رکھنے کی وجہ سے حضرت عبداﷲ کو السابقون الاولون میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ وہ حضرت ابوبکرکی دعوت پر ایمان لائے ،ابھی آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دار ارقم میں تبلیغی سرگرمیوں کا آغاز نہ کیا تھا۔ اسلام کی طرف سبقت کرنے میں ان کا نمبر اکتیسواں تھا۔عام خیال یہی ہے کہ حضرت عبداللہ کے والد جحش بعثت نبوی سے پہلے انتقال کر چکے تھے، تاہم ایک روایت ہے کہ وہ زندہ تھے اور نعمت ایمان سے سرفراز ہوئے۔جحش کے کل چھ بچے تھے،تاریخ اسلامی میں ہر ایک کا اہم مقام ہوا۔ عبیداﷲ بن جحش اورابواحمد بن جحش حضرت عبداللہ کے ساتھ ہی ایمان لائے۔ ام المومنین حضرت زینب بنت جحش، حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اہلیہ حضرت ام حبیبہ بنت جحش، حضرت مصعب بن عمیر کی زوجہ حضرت حمنہ بنت جحش، حضرت عبداﷲبن جحش کی بہنیں تھیں۔
نبوت کے پانچو یں سا ل قریش کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے اہل ایمان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی کہ وہاں جس بادشاہ کی حکومت ہے، اس کے ہاں ظلم نہیں ہوتا۔حبشہ امن اور سچائی کی سرزمین ہے،(تم وہاں اس وقت تک قیام کرسکتے ہو) جب تک اﷲ تمھارے لیے شدائد سے چھٹکارے کی راہ نہ نکال دے۔ چنانچہ ماہ رجب میں پندرہ یا سولہ مرد عورتوں کا پہلا قافلہ حبشہ روانہ ہوا۔ چند ماہ کے بعد دو کشتیوں پر سوارسڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا جس کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالب نے کی ،اسے ہجرت ثانیہ کہا جاتا ہے، حضرت عبداﷲبن جحش اور عبیداﷲبن جحش ان میں شامل تھے۔ عبیداﷲ کی بیوی ام حبیبہ بنت ابوسفیان ان کے ساتھ تھیں۔اس طرح دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی ہو گئی۔کچھ عرصہ کے بعد مشرکین قریش کے ایمان لانے اوران کی طرف سے مسلمانوں پرہونے والا تشدد بند ہونے کی افواہ حبشہ پہنچی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک تعداد نے مکہ واپسی کا قصد کیا، حضرت عبداﷲ بن جحش ان میں سے ایک تھے۔ اس خبرکے غلط ثابت ہونے پر کچھ مہاجرین حبشہ لوٹ گئے، تاہم حضرت عبداﷲ بن جحش ان تینتیس اصحاب میں سے تھے جو مکہ میں مقیم ہو گئے اور یہیں سے مدینہ کو ہجرت کی۔ قیام حبشہ کے دوران میں حضرت عبداﷲ کے بھائی عبیداﷲ بن جحش مرتد ہو کر عیسائی ہو گئے اور اپنی وفات تک وہیں رہے۔
’’اردو دائرۂ معارف اسلامیہ‘ ‘کے مضمون نگار کا کہنا ہے: ’’عبداﷲ بن جحش’حلف ‘(اتحاد قبائل) کے ایک گروہ کے ممتاز ترین فرد تھے۔اس ’حلف‘ میں ان کی بہن زینب بھی شامل تھیں۔‘‘ کوشش کے با وجود ہمیں اس کا مصداق نہیں مل سکا۔ عربوں کے مشہور معاہدین ’احلاف‘ ،’مطیبین‘اور ’حلف الفضول ‘کے ارکان میں حضرت عبد اﷲ کا نام شامل نہیں۔
انصار کے قبول اسلام کے بعد آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کرنے کا اذن دیا تو حضرت ابوسلمہ نے پہلے مہاجرہونے کا شرف حاصل کیا۔ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداﷲ بن جحش، ان کی اہلیہ اور نابینابھائی ابو احمد عبد دار ہجرت پہنچے اورقبا میں بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم ہوئے۔ حضرت عبداﷲ کے اعزہ عکاشہ بن محصن،ابوسنان بن محصن، سنان بن ابوسفیان، شجاع بن وہب، عقبہ بن وہب، اربدبن حمیر(یا حمیرہ)، منقذ بن نباتہ،سعیدبن رقیش، یزید بن رقیش، محرز بن نضلہ، قیس بن جابر،عمرو بن محصن، مالک بن عمرو،صفوان بن عمرو، ثقف بن عمرو، ربیعہ بن اکثم ،تمام بن عبیدہ،سخبرہ بن عبیدہ اورزبیر بن عبید ہ نے بھی ہجرت کی اور مبشر بن عبدالمنذر ہی کے ہاں ٹھہرے۔بنو غنم کی خواتین میں سے زینب بنت جحش ،حمنہ بنت جحش، ام حبیب بنت جحش، جدامہ بنت جندل،ام قیس بنت محصن،ام حبیب بنت ثمامہ، آمنہ بنت رقیش اور سخبرہ بنت تمیم نے مردوں کا ساتھ دیا۔ پھر مسلمانوں کی اکثریت نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا، آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۲؍ ربیع الاول کو تشریف لائے۔
بنو غنم کے تمام مردو عورت مدینہ ہجرت کر گئے تو ان کے گھروں کو تالے لگ گئے۔ردم کے مقام پرواقع حضرت عبداﷲ بن جحش کا گھربھی مقفل ہو گیا۔بنوغنم کی طرح بنو ابو بکیراور بنومظعون کے گھر بھی مکینوں سے خالی ہو گئے۔
ایک بار عتبہ بن ربیعہ ، عباس بن عبدالمطلب اور ابو جہل بالائی مکہ جاتے ہوئے بنو جحش کے مکان کے پاس سے گزرے۔عتبہ نے اسے دروازہ بند ،بے آباد دیکھ کرسرد آہ بھری اورابودواد ایادی کا یہ شعر پڑھا:

وکل دار وإن طالت سلامتھا
یومًا ستدرکہا النکباء والحوب

’’ہر گھر چاہے کتنی دیر صحیح و سالم رہے ، ایک دن الٹے رخ کی ہوا چلتی ہے اور اس پر ویرانیاں چھاجاتی ہیں ۔‘‘

ابو جہل نے کہا: اس گھر پر کوئی نہ روئے گا۔ پھرعباس سے مخاطب ہوا کہ یہ تمھارے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام ہے، اس نے ہماری جمعیت کومنتشر کر دیا ہے،قو م کا شیرازہ بکھیر دیا ہے اورہم میں جدائیاں ڈال دی ہیں۔ کچھ دیر کے بعدابوسفیان نے اس گھر پر قبضہ کر لیااور عمرو بن علقمہ کے ہاتھ بیچ دیا۔ حضرت عبداﷲ بن جحش کو پتاچلا تو آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے ذکر کیا۔آپ نے فرمایا: حضرت عبداﷲ، کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ اﷲ تمھیں جنت میں اس سے بہتر گھردے دے گا؟کیوں نہیں، ابن جحش نے جواب دیا۔فرمایا: جنت کا یہ گھر تمھیں مل چکا۔مکہ فتح ہوا تو حضرت عبداﷲ کے بھائی ابو احمدنے دوبارہ گھر کی بات چھیڑی۔ آپ نے جواب ٹالا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو بتایا: ابو احمد، رسو ل اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پسند نہیں کرتے کہ جو مال اﷲ کی راہ میں چلا گیا، اس کی واپسی کی کوشش کی جائے۔ابواحمدنے آپ سے مزید بات نہ کی، تاہم ابوسفیان کو مخاطب کر کے یہ شعر کہہ ڈالے: 

أبلغ أباسفیان عن
أمر عواقبہ ندامہ

’’ابو سفیان کو اس معاملے کے بارے میں بتا دو جس کے نتائج شرم ساری ہوں گے۔‘‘ 

دار ابن عمک بعتہا
تقضی بہا عنک الغرامہ

’’یعنی اپنے چچیرے کا گھر جوتو نے بیچ ڈالا، اس کا تاوان بھرے گاتوتیرا چھٹکارا ہو گا ۔‘‘

نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عاصم بن ثابت سے حضرت عبداﷲ بن جحش کی مواخات قائم فرمائی۔
اواخر جمادی الثانی ۲ھ (جنوری۶۲۴ ء) میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کی سرگرمیوں کی خبر لینے کے لیے حضرت عبداﷲ بن جحش کی سربراہی میں نو(واقدی کے خیال میں بارہ) مہاجرین کا ایک سریہ روانہ کیا۔روایات کے مطابق پہلے آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا تقرر کیا تھا ،وہ فرط جذبات سے رونے لگے تو حضرت عبداﷲ کو روانہ فرمایا۔ حضرت عبداﷲ کے علاوہ حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عکاشہ بن محصن (یا حضرت عمار بن یاسر)، حضرت عتبہ بن غزوان، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عامر بن فہیرہ (دوسری روایت: حضرت عامر بن ربیعہ)، حضرت واقد بن عبداﷲ، حضرت خالد بن بکیر اور حضرت سہیل بن بیضا (شاذ روایت: حضرت صفوان بن وہب (بیضا) اس میں شامل تھے ۔یہ چھ اونٹوں پر سوار تھے۔آپ نے حضرت عبداﷲ کو ایک خط بھی دیا اور فرمایا: مدینہ سے مکہ کی جانب دو دن کا سفر(اٹھائیس میل کی مسافت )طے کر لینے کے بعد وادی ملل (یا ابن ضمیرہ کے کنویں پر) پہنچ کر اسے پڑھنا۔ چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق جب انھوں نے خط کھولا تو لکھاپایا: ’’مکہ اور طائف کے بیچ واقع مقام نخلہ کی طرف سفر جاری رکھو،وہاں پہنچ کرقریش کی نگرانی کرو اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔‘‘ حضرت عبد اﷲ نے آپ کے فرمان پرسمع و طاعت کہہ کر اپنے ساتھیوں سے کہا: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی کوزبردستی آگے لے جاؤں۔ جو شہادت کا طلب گار ہے ، میرے ساتھ چلے ۔سب چل پڑے ، کوئی پیچھے نہ رہا۔ دستہ فرع سے آگے بحران کے مقام پرپہنچا تو حضرت عتبہ بن غزوان اور حضرت سعدکا مشترکہ اونٹ کھو گیا۔دو نوں اسے تلاش کرنے لگ گئے،ابن جحش باقی ساتھیوں کولے کر چلتے رہے اور نخلہ پہنچ گئے۔ کشمش، کھالیں اور دوسرا سامان تجارت لے کر چار افراد پر مشتمل قریش کا قافلہ گزرا۔ اہل قافلہ انھیں دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تو حضرت عکاشہ نے سر منڈا لیا، کفار کو مغالطہ ہوا کہ مسلمان عمرہ کے لیے جا رہے ہیں اور مطمئن ہو گئے۔سدّی کا کہنا ہے کہ یہ غزوہ جمادی الثانی کے آخری دن یا حرام مہینے رجب کی پہلی رات (دوسری روایت: رجب کے آخری دن یاحلال مہینے شعبان کی پہلی رات) میں ہوا ۔ مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کیا، اگر قافلے والوں کو چھوڑ دیا تو یہ حرم پہنچ کر مامون ہو جائیں گے اور اگر قتال کیا تو یہ حرام مہینے میں ہوگا۔کچھ تردد کے بعد انھوں نے حملے کا فیصلہ کیا۔مشرک کھانا پکانے میں مصروف تھے، حضرت واقد بن عبداﷲ نے تیر مار کر قافلے کے سردار عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیااور عثمان بن عبداﷲ اور حکم بن کیسان کو قید کر لیا۔ نوفل بن عبداﷲ فرار ہو گیا ۔ہجرت مدینہ کے بعد یہ ساتویں مہم اور پہلا سریہ تھا جس میں کامیابی ملی،عمرو عہد اسلامی کا پہلا قتیل اورعثمان اور حکم پہلے اسیر تھے۔ابن کیسان مقداد کی قید میں تھا ، ابن جحش اسے قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن مقداد نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہونے سے پہلے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ حضرت عبداﷲ بن جحش نے تاریخ اسلامی میں حاصل ہونے والے پہلے مال غنیمت کی اپنے تئیں تقسیم کر کے ۵/۱ حصہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے رکھ لیا، حالاں کہ خمس کا حکم نازل نہ ہوا تھا اور زمانۂ جاہلیت میں سرداران قوم کے لیے مرباع (۴؍۱، ربع غنیمت) مختص کرنے کا رواج رہ چکا تھا۔یہ بات ایک تمیمی شاعرکے اس مصرعہ سے عیاں ہے: 

نحن الرؤوس وفینا یقسم الربع

’’ہم سردار ہیں اور ہم ہی میں مال غنیمت کا چوتھا حصہ بانٹا جاتا ہے۔‘‘

اہل سریہ مدینہ پہنچے تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں ماہ حرام ،رجب میں جنگ کرنے کو نہیں کہا تھا۔آپ نے مال غنیمت اور اسیروں کے معاملے میں توقف کیااور کچھ لینے سے انکار فرما دیا تو صحابہ پشیمان ہو گئے کہ شاید وہ ہلاکت میں پڑگئے ۔مسلمان بھائیوں نے ان کو برابھلا کہا، ادھر قریش نے طعنہ زنی شروع کر دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب نے حرام مہینے کی حرمت پامال کی۔ چہ میگوئیاں بڑھ گئیں توارشاد ربانی نازل ہوا:

یَسْْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.(البقرہ۲: ۲۱۷)
’’آپ سے ماہ حرام میں قتال کرنے کی بابت سوال کرتے ہیں۔کہہ دیجیے،اس مہینے میں جنگ کرنا بہت برا ہے اور ( اس کے ساتھ ساتھ) لوگوں کواللہ کی راہ سے روکنا،اﷲ کو نہ ماننا، مسجد حرام کا راستہ بند کرنا اور حرم کے رہنے وا لوں کو نکال باہر کرنااﷲ کے ہاں اس سے بھی بد تر ہے اور فتنہ وفساد قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔‘‘

اس حکم وحی کے بعد آپ نے مال غنیمت اور قیدیوں کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ جب قریش نے اسیر چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا تو آپ نے فرمایا: ہم اپنے ساتھیوں سعد اور عتبہ کے لوٹنے تک فدیہ نہیں لیں گے، کیونکہ ہمیں ان کی جانوں کا اندیشہ ہے۔ دونوں اصحاب صحیح سلامت واپس آگئے تو آپ نے سولہ سو دینار فدیہ لے کر قریش کے اسیروں عثمان اور حکم کو چھوڑ دیا۔ حکم بن کیسان نے رہائی کے فوراً بعد آپ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔
سرےۂ عبداﷲ بن جحش جنگ بدر کے وقوع کا سبب بنا، کیونکہ اس سے قریش کی معیشت کو سخت دھچکا لگا۔ان کی تمام تر خوش حالی شام سے تجارت پر موقوف تھی، حبشہ اور یمن سے تجارت کا اتنا حجم نہ تھا کہ وہ اس پر انحصار کر لیتے۔نخلہ کی اس مہم کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ قریش پر مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا رعب بیٹھ گیا۔
حضرت عبداﷲ بن جحش کی آل میں سے کسی کی روایت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مال غنیمت کی اسی تقسیم (سپاہیوں کے لیے ۵/۴ اوراﷲ اور رسول کے لیے ۵/۱) کو برقرار رکھا جو حضرت عبداﷲ نے کی تھی:

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.(الانفال۸: ۴۱)
’’ جان لو، تمھیں جو مال غنیمت بھی حاصل ہو،اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول،قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں اور مسافروں کے لیے مختص ہو گا۔ ‘‘

معاملہ نمٹنے کے بعد حضرت عبداﷲ اور ان کے ساتھیوں نے آپ سے دریافت کیا کہ یا رسول اﷲ، آیند ہ کوئی غزوہ ہو تو کیا ہم مجاہدین کے لیے مال غنیمت کی توقع رکھیں؟ مکرر وحی نازل ہوئی:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(البقرہ۲: ۲۱۸)
’’یقیناً جو ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں جہاد کیا ،وہ اﷲ کی رحمت کے امید وار ہیں اور اﷲ بخشنے والا،مہربان ہے۔ ‘‘

حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت ہے کہ بنو کنانہ کی مہم میں ر سول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے دستے کے افراد میں اختلاف راے ہو گیا۔کچھ مدینہ واپس آ گئے ،کچھ نے قریش کے قافلے پر حملہ کیا۔اس پر آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔فرمایا:’’تم میرے پاس سے اکٹھے گئے اورالگ الگ لوٹے ہو۔تم سے پہلی امتوں کو تفرقے ہی نے ہلاک کیا۔میں ایسے شخص کوتمھارا ا میر بناؤں گاجو تم میں سے بہترین نہیں(لیکن)تم سب سے بڑھ کر بھوک ، پیاس برداشت کر سکتا ہے۔‘‘پھر آپ نے نخلہ کی طرف سریہ(سرےۂ عبداﷲ بن جحش) مبعوث کیا اور حضرت عبداﷲ بن جحش کو عہد اسلامی کا پہلا امیر مقرر فرمایا (احمد، رقم ۱۵۳۹)۔ ایک روایت کے مطابق پہلا علم بھی ان کے سریہ کو ملا، اسی سریہ میں انھیں امیر المومنین کا خطاب ملا۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبیدہ بن حارث ثنےۃ المرۃکو جانے والے سریہ میں پہلے امیر مقرر ہوئے، جبکہ مدائنی کے مطابق ساحل سمندر ’سیف البحر‘ پر واقع مقام عیص کی طرف روانہ کیے جانے والے سریہ میں حضرت حمزہ کو پہلاعلم عطا ہوا۔
حضرت عبداﷲ بن جحش نے جنگ بدر میں حصہ لیا۔عمرو بن حضرمی کا انتقام لینا جنگ بدر کی ایک اہم غایت تھی، اس لیے حضرت واقد بن عبداﷲ جنھوں نے عمرو کو قتل کیا اور حضرت عبداﷲ بن جحش جو اس مہم کے امیر تھے، مشرکوں کا ٹارگٹ تھے ۔اﷲ کا کرنا ہے کہ اس غزوہ میں دونوں ان کے ہاتھ نہ آ سکے۔اس وقت کفار کے لشکر میں شامل حکیم بن حزام بیان کرتے ہیں کہ میدان بدر پہنچنے کے بعد میں عتبہ بن ربیعہ کے پاس آیا اور کہا: ابو ولید، کیا تم چاہتے ہو کہ آج کے معرکے کاشرف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھیں مل جائے؟تمھیں اپنے ایک حلیف عمرو بن حضرمی کابدلہ ہی لینا ہے،اس کی دیت لے کر واپس چلو۔ عتبہ نے یہ بات ابو جہل سے کرنے کو کہا۔میں نے اسے یہ سجھاؤ دیا تو وہ عتبہ کے پاس آیا اور غصے سے بولا: خوف سے تمھارے پھیپھڑے پھول گئے ہیں اور دل حلق کو آرہا ہے ؟ عتبہ نے گالی دے کر کہا: جلد پتا چل جائے گا کہ کس کے پھیپھڑے پھولے ہیں۔پھر اس نے سپاہیوں سے خود مانگا ،کوئی خود سر پر پورا نہ آیا تو اس نے چادرہی لپیٹ لی اور جنگ کا آغاز ہو گیا ۔ مشرکین کو شکست فاش ہوئی ،اختتام جنگ پررسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیروں کے بارے میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ کیا تو حضرت عبداللہ بن جحش کی راے بھی لی۔ حضرت ابوبکر نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، یہ آپ کی اپنی قوم کے لوگ اور اعزہ و اقارب ہیں،انھیں زندہ رہنے دیجیے اور ان سے نرمی برتیں،ہو سکتا ہے کہ اﷲ انھیں توبہ کی توفیق دے دے۔‘‘ سیدنا عمر کا کہنا تھا: ’’یا رسول اﷲ، انھی لوگوں نے آپ کو شہر مکہ سے نکالا اور آپ کی تکذیب کی۔ان کی گردنیں اڑا کر جی کو ٹھنڈا کریں۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن رواحہ نے سجھاؤ دیا: ’’یا رسول اﷲ، اس وادی کو دیکھیں جس میں بے شمار بالن ہے ، مشرکوں کو اس ایندھن میں گھسیڑ کر آگ لگا دیں‘‘ ( احمد، رقم ۳۶۳۲)۔ حضرت عبداﷲ بن جحش کا مشورہ بھی یہی تھا، وہ کھڑے ہوگئے اور کہا: یا رسول اﷲ، یہ اﷲ کے دشمن ہیں، آپ کو جھٹلایا،اذیتیں پہنچائیں، انھوں ہی نے آپ کو آپ کے شہر سے نکالا اور آپ سے جنگ پر اتر آئے۔ آپ ایسی وادی میں قیام پذیر ہیں جس میں کثرت سے لکڑی پائی جاتی ہے ۔ان کافروں اور مشرکوں کے لیے بہت سی لکڑیاں جمع کریں، پھر ان پر رکھ کر آگ دہکا دیں۔’’مسند احمد‘‘ کی یہ روایت (رقم ۳۴۶۴)منقطع السند ہے، تاہم ’’مستدرک حاکم‘‘ کی اس سے ملتی جلتی ایک روایت کو حاکم نے صحیح السند قررادیا ہے (رقم ۴۳۰۴)۔
۳ ھ میں جنگ احد ہوئی ۔رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم احد پہنچے تو شیخان کے مقام کے پاس پڑاؤ ڈالا۔صبح سویرے حضرت ام سلمہ نے بھنی ہوئی ران آپ کو پیش کی ،اسے کھانے کے بعد آپ نے نبیذ نوش فرمائی۔ایک اور صحابی نے پی تو حضرت عبداﷲ بن جحش نے بھی گھونٹ بھرا ۔ایک شخص نے ابن جحش سے سوال کیا: کیاآپ جانتے ہیں کہ کل کہاں ہوں گے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، میں اﷲ کے حضور پیش ہوں گا۔میں پیاسا رہنے کے بجاے سیر ہو کر اﷲ سے ملاقات کرنا زیادہ پسند کروں گا۔
حضرت عبداﷲ بن جحش نے جنگ احد میں جام شہادت نوش کیا۔اس دن ان کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک شا خ انھیں دی جو ان کے ہاتھ میں آکر تلوار بن گئی،جبکہ دستہ کھجور ہی کا رہا ۔کچھ عرصہ کے بعد یہ تلوارترک باغیوں کے آگے دو سو دینارمیں بکی۔ حضرت ابن جحش نے اس روز شہادت کی دعا مانگی جو قبول ہوئی۔ انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے کہا: چلو ،ہم مل کر دعا مانگتے ہیں۔دونوں ایک طرف کونے میں ہو کر خلوت میں ہو گئے تو حضرت سعد نے یہ دعا مانگی: ’’اے رب، کل ہم دشمن سے جنگ کریں تو میرے مقابل ایسا جنگجو لانا جو بہت غصے والا ہو،میں تیری راہ میں اس سے لڑوں،پھر مجھے اس پر فتح دینا، میں اسے مار ڈالوں اور اس کے سازو سامان پر قبضہ کر لوں۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن جحش نے ان کی دعا پر آمین کہا اور خود اﷲ کے حضور یہ التجا کی: ’’اے اﷲ، میرے مقابلے میں ایسا دشمن لانا جو بہت تند ہواور سخت جنگ کرتا ہو۔میں تیری راہ میں اس سے قتال کروں ، آخر کار وہ مجھ پر قابو پا لے اور میرا ناک، میرے کان کاٹ ڈالے۔روزجزا جب میری تجھ سے ملاقات ہو اور تو پوچھے کہ تمھارے ناک کان کیوں کاٹے گئے؟ میں کہوں کہ یہ تیری اور تیرے رسول کی راہ میں ہوااورتو میری تصدیق کرے۔ دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ اے اللہ،میں تمھیں قسم دیتا ہوں،دشمن مجھے قتل کرے ،میرا پیٹ پھاڑے اور میرا مثلہ کرے۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن جحش کی دعا میری دعا سے بہتر تھی۔ وہ دن گزرا تو میں نے دیکھاکہ ان کے کان اور ناک ایک رسی سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ان کی دعا قبول ہوئی اور ان کا مثلہ کیا گیا۔ حضرت سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کی قسم پوری کی۔ہمیں توقع ہے کہ روز قیامت ان کی قسم کا باقی حصہ بھی پورا ہو گا۔ حضرت زبیربن عوام کہتے ہیں کہ ’المجدع فی اﷲ‘ (اللہ کی راہ میں نکٹا،بوچا ہونے والا) حضرت عبداللہ کا لقب ہو گیا۔ ابوحکم بن اخنس ثقفی نے حضرت عبداللہ سے قتال کیا اور اسی کی ضرب سے وہ شہید ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہ اور حضرت عبد اللہ بن جحش کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عبداﷲ اور ان کے ماموں حضرت حمزہ، دونوں کوایک ہی قبر میں دفن کیاگیا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر بیٹھے رہے، جبکہ سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم قبر میں اترے۔ طبری کہتے ہیں کہ تدفین کی یہ روایت حضرت عبداﷲ کی آل کے علاوہ کسی نے بیان نہیں کی۔ حضرت ابن جحش کی عمر چالیس برس(یا کچھ زیادہ) ہوئی۔ حضرت عبداﷲ بن جحش کا مثلہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اس سریہ کی قیادت کی تھی جس میں مشرکوں کا رئیس ابن رئیس عمرو بن حضرمی مارا گیا تھا۔
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جنگ احدسے فارغ ہونے کے بعد مدینہ تشریف لائے تو حضرت حمنہ بنت جحش سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ حضرت حمنہ کو ان کے بھائی حضرت عبداﷲ بن جحش کی شہادت کی خبر ملی تو انھوں نے ’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘ کہا اور دعاے مغفرت کی۔ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا توبھی انھوں نے ’انا ﷲ‘ کہہ کر مغفرت کی دعا مانگی اور جب انھیں اپنے شوہر حضرت مصعب بن عمیر کے شہید ہونے کا پتا چلا تو وہ چلائیں اور آہ و بکا کی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ بھائی اور ماموں کی وفات کی خبرسن کر انھوں نے صبر کا مظاہرہ کیا، لیکن خاوند کی شہادت کا سن کر گریہ کیا تو فرمایا: عورت کے نزدیک اس کے شوہر کا ایک مقام ہوتا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کے بعد ان کے ترکے کی نگہداشت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمائی۔ آپ نے ان کے بیٹے کے لیے خیبر میں مال مویشی لے لیے۔
دور اموی میں حضرت عبداللہ بن جحش کا ایک بیٹا دار مروان آیا اوراپنا حسب نسب بتا کر وظیفہ کی درخواست کی۔ ہشام بن عبدالملک نے اپنے بیٹے کو وظائف کی تقسیم پر بٹھا رکھا تھا۔ اس نے حضرت عبداللہ کے بیٹے کو توکچھ نہ دیا، لیکن اسی وقت کندہ کا ابن ابی تجراۃ آیا اور بتایا کہ وہ ایک سفر میں عمار بن ولید کے ساتھ رہا ہے جو ابن ہشام کا چچا تھا۔اس کے لیے فوراً وظیفہ جاری ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن جحش میانہ قدتھے۔ان کے جسم پر بہت بال تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ جنگ بدرہوئی تو عبداﷲ بن جحش اورابن ام مکتوم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا: ہم نابینا ہیں تو ہمیں رخصت ملے گی؟ (ترمذی، رقم ۳۰۳۲)، یہ راوی کا سہو ہے، کیونکہ نابینا حضرت عبداﷲ نہیں، بلکہ ان کے بھائی ابواحمدعبد بن جحش تھے۔ چنانچہ طبری نے اس روایت کو اسی سند کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا تو اس غلطی کی تصحیح کر دی۔ ابن حجر نے صراحت کی ہے کہ یہ سہو نچلے راوی ابن جریج کا ہے (فتح الباری)۔ گویا اس نے روایت بیان کرتے ہوئے عبد بن جحش کو حضرت عبداﷲ بن جحش بول دیا اور بعد میں یہی نقل ہوتا رہا ۔
حضرت عبداﷲ بن جحش کی شادی سیدہ خدیجہ کی چچا زادفاطمہ بنت ابو حبیش سے ہوئی جن سے محمدتولد ہوئے۔ دوسری شادی بنومناف کی زینب بنت خزیمہ(ام المساکین) سے ہوئی جو ان کی شہادت کے بعد نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور جلد ہی تیس سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت زینب آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے سے پہلے حضرت عبداﷲ بن جحش نہیں، بلکہ عبیدہ بن حارث کے بھائی طفیل بن حارث کی زوجیت میں تھیں۔ علامہ شبلی نعمانی نے ’’سیرت النبی‘‘ میں اس روایت کو اختیار نہیں کیا۔
حضرت عبداﷲ بن جحش سے سعد بن ابی وقاص نے براہ راست اور سعید بن مسیب نے سماع نہ ہوتے ہوئے مرسل حدیث روایت کی۔ ان کی روایات ترمذی اور مسند احمد میں موجود ہیں۔
اہل تاریخ نے حضرت عبداﷲ بن جحش اور ان کے بھائی عبیداﷲ کی سوانح کو خلط ملط کیا ہے۔عام تاریخ نگاروں نے عبیداﷲکے حالات زندگی میں جو بیان کیا ہے، ’’مروج الذہب و معادن الجوہر‘‘ میں مسعودی نے اسے حضرت عبداﷲ کے سوانحی خاکے میں جڑ دیا ہے۔
مطالعۂ مزید: السیرۃ النبوےۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،جامع البیان فی تاویل آی القرآن (طبری)، تاریخ الامم والملوک (طبری)،الاغانی(ابو فرج اصفہانی)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (مقالہ: Montgomery Walt )، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (جواد علی)، Wikipedia۔

_______

*کھائی میں پھینک کر آگ سے جلا دیے جانے والے اہل ایمان:سورۂ بروج۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2013
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Mar 03, 2018
2904 View