روزہ اور برکات روزہ - امین احسن اصلاحی

روزہ اور برکات روزہ

 

شہوات اور خواہشات نفس کے غلبہ سے انسان کے اندر خدا سے جو غفلت اور اس کے حدود سے جو بے پروائی پیدا ہوتی ہے، اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے کی عبادت مقرر کی ہے۔ اس عبادت کا نشان تمام قدیم مذاہب میں بھی ملتا ہے، بالخصوص تزکیۂ نفس کے جتنے طریقے بھی صحیح یا غلط دنیا میں اب تک اختیار کیے گئے ہیں، ان سب میں اس عبادت کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ مذاہب کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ پچھلے ادیان میں اس عبادت کے آداب و شرائط، اسلام کی نسبت سے زیادہ سخت تھے۔ اسلام دین فطرت ہے، اس وجہ سے اس نے اس کی ان پابندیوں کو نسبتاً نرم کر دیا ہے جو انسان کی عام طاقت کے تحمل سے زیادہ تھیں، جن کو صرف خاص خاص لوگ ہی برداشت کر سکتے تھے۔
یہ عبادت نفس پر شاق ہونے کے اعتبار سے تمام عبادات میں سب سے زیادہ نمایاں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس انسانی کی تربیت و اصلاح میں اس کا عمل بڑا مشکل ہے۔ یہ انسان کے نہایت سرکش اور منہ زور رجحانات پر کمند ڈالتی اور ان کو رام کرتی ہے، اس وجہ سے یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا ہے کہ ان کے مزاج میں سختی اور درشتی ہو۔
نفس انسانی کے جو پہلو سب سے زیادہ زور دار ہیں، ان میں شہوات، خواہشات اور جذبات سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کی فطرت میں اشتعال، ہیجان اور جوش ہے، اس وجہ سے ارادہ کو ان پر قابو پانے کے لیے بڑی ریاضت کرنی پڑتی ہے۔ یہ ریاضت اتنی سخت اور ہمت شکن ہے کہ قدیم مذہب کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تزکیۂ نفس کے بہت سے طالبین سرے سے اس چیز ہی سے مایوس ہو گئے کہ ان کو قابو میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے ان کو قابو میں لانے اور ان کی تربیت کرنے کے بجاے ان کے یک قلم ختم کر دینے کی تدبیریں سوچیں اور اختیار کیں، لیکن اسلام ایک دین فطرت ہے اور یہ چیزیں بھی انسانی فطرت کے لازمی اجزا میں سے ہیں، جن کے بغیر انسان کے شخصی اور نوعی تقاضوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے اس نے ان کو ختم کر دینے کی اجازت نہیں دی ہے، بلکہ ان کو قابو میں کر کے ان کو صحیح راہ پر لگانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کو قابو میں کرنا ان کو ختم کر دینے کے مقابل میں کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک منہ زور گھوڑے کو ختم کر دینا ہو تو اس کے لیے زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہے۔ بندوق کی ایک گولی اس کوٹھنڈا کر دینے کے لیے بالکل کافی ہے، لیکن اگر اس کو رام کر کے سواری کے کام میں لانا ہے تو یہ مقصد ایک ماہر شہ سوار بڑی ریاضتوں، بڑی مشقوں اور بہت سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے بعد ہی حاصل کر سکتا ہے۔
روزے کی عبادت اسلام نے اس لیے مقرر فرمائی ہے کہ ایک طرف نفس انسانی کے یہ سرکش رجحانات ضعیف ہو کر اعتدال پر آئیں اور دوسری طرف انسان کی قوت ارادی ان کو دبانے اور ان کو حدود الٰہی کا پابند بنانے کے لیے طاقت ور ہو جائے۔ اپنے اس دو طرفہ عمل کے سبب سے تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس عبادت کی بڑی اہمیت ہے اور اس کی برکات کی بھی کوئی حدو نہایت نہیں ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ اس کی چند برکات کا ذکر کریں گے۔

روزے کی برکات

روح ملکوتی کی آزادی

روزے کی سب سے بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے انسان کی روح ملکوتی کو نفسانی خواہشات کے دباؤ سے بہت بڑی حد تک آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ ہماری روح ملکوتی کا حقیقی میلان ملاء اعلیٰ کی طرف ہے۔ وہ فطری طور پر خدا کے تقرب، ملائکہ سے تشبہ اور سفلیات سے تجرد کی طالب ہے اور مادی زندگی کے تقاضوں میں گرفتار رہنے کے بجاے اعلیٰ عقلی و اخلاقی مقاصد کے لیے پرواز کرنا چاہتی ہے، روح کے ان تقاضوں اور نفس کے ان مطالبات میں، جو خواہشات و شہوات سے پیدا ہوتے ہیں، ایک کھلا ہوا تضاد ہے۔ ان دونوں میں اکثر تصادم رہتا ہے اور اس تصادم میں اکثر جیت خواہشات و شہوات ہی کو ہوتی ہے۔
یہ صورت حال ظاہر ہے کہ روح کے فطر ی میلانات کے بالکل خلاف ہے۔ اگر یہی حالت عرصہ تک باقی رہ جائے اور روح کو اپنی پسند کے میدانوں میں جولانی کا کوئی موقع نہ ملے تو پھر نہ صرف یہ کہ اس کی قوت پرواز ختم ہو جاتی ہے، بلکہ آہستہ آہستہ وہ خود بھی ختم ہو جاتی ہے۔
روزہ اس صورت حال میں وقتاً فوقتاً تبدیلی کرتا رہتا ہے۔ یہ ان چیزوں پر بہت سی پابندیاں عائد کر دیتا ہے جو شہوات و خواہشات کو تقویت پہنچانے والی ہیں۔ اس سے آدمی کا کھانا پینا اور سونا سب کم ہو جاتا ہے۔ دوسری لذتوں اور دل چسپیوں پر بھی بعض پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔ ان چیزوں کا اثر یہ ہوتا ہے کہ نفس کے شہوانی میلانات کی جولانیاں بہت کم ہو جاتی ہیں اور روح ملکوتی کو اپنی پسند کے میدانوں میں جولانی کے لیے موقع مل جاتا ہے۔
روزے کی یہی خصوصیت ہے جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے ساتھ ایک خاص نسبت دی ہے اور روزہ دار کو خاص اپنے ہاتھ سے اس کے روزے کی جزا دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ یوں تو اسلام نے جتنی عبادتیں بھی مقرر فرمائی ہیں، سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں، لیکن روزے میں دنیا اور لذات دنیا کوترک کر کے بندہ خدا سے قرب اور اس کے ملائکہ سے مناسبت اور تشبہ حاصل کرنے کی جو کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں مشقت اٹھاتا ہے، وہ روزے کے سوا کسی دوسری عبادت میں اس قدر نمایاں نہیں ہے۔ فقر، درویشی، زہد، تجرد، ترک دنیا او ر تبتل الی اللہ کی جو شان اس عبادت میں ہے ،وہ اس کا خاص حصہ ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہے کہ رہبانیت جس حد تک اسلام میں جائز رکھی گئی ہے اور جس درجہ تک اللہ تعالیٰ نے تربیت نفس کے لیے اس کو پسند فرمایا ہے، اسلام میں یہی عبادت اس کا مظہر ہے۔ اگر ایک بندہ روزے کی ساری مشقتیں اور پابندیاں فی الحقیقت اسی لیے جھیلتا ہے کہ اس کی روح اس عالم ناسوت کی دلدل سے آزاد ہو کر عالم لاہوت کی طرف پرواز کر سکے اور اسے خدا کا قرب حاصل ہو سکے توبلاشبہ اس کی یہ کوشش اسی چیز کی مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ ا س کو اپنے ساتھ خاص نسبت دے اور اس کی جزا خاص اپنے ہاتھوں سے دے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو جس میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: قال اللّٰہ: کل عمل ابن آدم لہ إلا الصیام فإنّہ لی وأنا أجزِی بہ. والصیام جُنۃ. و إذا کان یوم صوم أحدکم فلا یرفث ولا یصخب فإن سابّہ أحد أوقاتلہ فلیقل: إنّی امرؤ صائم. والذی نفس محمد بیدہ، لخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المِسک. للصائم فرحتان یفرحھما: إذا أفطر فرح وإذا لقی ربّہ فرح بصومہ.(بخاری، رقم ۱۹۰۴)
’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے، مگر روزہ، یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ایک سپر ہے۔ جب کسی کا روزہ ہو تو اسے چاہیے کہ نہ شہوت کی کوئی بات کرے اور نہ شور و شغب کرے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑے جھگڑے تو وہ اس سے کہے کہ بھائی، میں روزے سے ہوں۔ اس خدا کی قسم جس کی مٹھی میں محمد کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک اس کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ روزہ کھولتا ہے اور دوسری اس وقت حاصل ہو گی جب وہ اپنے رب سے ملے گا۔‘‘

مزید روایات میں اسی سلسلہ کی کچھ اور باتیں ہیں جن سے حدیث کی اصل حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے ہم ان کو بھی یہاں نقل کیے دیتے ہیں:

یترک طعامہ و شرابہ و شھوتہ من أجلی الصیام لی وأنا أجزی بہ. والحسنۃ بعشر أمثالھا.(بخاری، رقم ۱۷۹۵)
’’(اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) بندہ اپنا کھانا اور پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ نیکیوں کا بدلہ دس گنا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کلّ عمل ابن آدم یُضاعف الحسنۃ عشر أمثالھا إلٰی سبع مأۃ ضعف، قال اللّٰہ عزّوجلّ: إلاّ الصوم فإنہ لی وأنا أجزی بہ یدع شھوتہ وطعامہ من أجلی، للصائم فرحتان: فرحۃ عند فطرہ و فرحۃ عند لقاء ربّہ. ولَخلوفُ فیہ أطیب عند اللّٰہ من ریح المِسکِ.(مسلم، رقم ۱۱۵۱)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ابن آدم کا ہر عمل بڑھایا جائے گا، یعنی نیکیاں دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک بڑھائی جائیں گی، مگر روزے کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا میرے لیے قربان کرتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اس کو افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے، دوسری خوشی اس کو اپنے رب کی ملاقات کے وقت حاصل ہو گی۔ اور اس کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘

ان دونوں روایتوں کو ملا کر غور کرنے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عبادت کو اپنی طرف خاص نسبت کیوں دی ہے اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ خاص اپنے ہاتھ سے اس کا بدلہ دینے کا مطلب کیا ہے۔
اس کو اپنے لیے خاص قرار دینے کی وجہ تو یہ ہے کہ بندہ محض اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنی ان خواہشوں اور اپنے نفس کے ان مطالبات کو ترک کرتا ہے جن کا اس کے نفس پر سب سے زیادہ غلبہ ہوتا ہے اور جن کے اندر اس کی تمام مادی خوشیاں اور تمام مادی لذتیں سمٹی ہوئی ہیں۔ ان لذتوں سے محض اللہ کی رضا کے لیے منہ موڑ لینا اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ اس نے اسے محبوبیت کا ایک خاص درجہ دیا اور فرمایا کہ بندہ روزہ خاص میرے لیے رکھتا ہے اور میری خوشی کے لیے اپنا کھانا پینا اور اپنی لذتوں کو چھوڑتا ہے۔
خاص اپنے ہاتھ سے بدلہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں کے بدلہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بندھے ہوئے قاعدے ہیں۔ حالات و خصوصیات کے لحاظ سے ہر نیکی کا دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک بدلہ ملے گا۔ مثلاً فرض کیجیے ایک نیکی ساز گار حالات کے اندر کی گئی ہے اور دوسری نیکی مشکل حالات کے اندر کی گئی ہے یا ایک نیکی پوری احتیاط اور پوری نگہداشت کے ساتھ کی گئی ہے اور دوسری نسبتاً کم اہتمام اور کم نگہداشت کے ساتھ کی گئی ہے۔ اس طرح کے فرق و اختلاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر شخص کی نیکی کا جو اجر ہونا چاہیے، وہ مذکورہ بالا اصول کے مطابق خدا کے رجسٹر میں درج ہو گا اور ہر حق دار اس اجر کو حاصل کر لے گا، لیکن روزے کی جو عبادت ہے، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے اس فارمولے کے تحت نہیں رکھا ہے، بلکہ اس کا فیصلہ کسی اور فارمولے کے مطابق ہو گا جس کا علم صرف اسی کو ہے۔ جب جزا دینے کا وقت آئے گا، تب وہی اس کو کھولے گا اور خاص اپنے ہاتھ سے ہر روزہ رکھنے والے کو صلہ دے گا۔ جس عبادت کی جزا کے لیے یہ کچھ اہتمام ہو گا، کون اندازہ کر سکتا ہے کہ آسمان و زمین سب کا مالک اس کی کیا جزا دے گا۔

سد ابواب فتنہ

اس کی دوسری برکت یہ ہے کہ آدمی کے اندر فتنہ کے جو بڑے بڑے دروازے ہیں، روزہ ان کو بہت بڑی حد تک بند کر دیتا ہے۔ آدمی کے اندر فتنے کے بڑے دروازے، جیسا کہ ایک سے زیادہ حدیثوں میں تصریح ہے، بطن اور فرج ہیں، انھی کے سبب سے آدمی نہ جانے خود کتنی ہلاکتوں میں مبتلا ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی نہیں معلوم کتنی ہلاکتوں میں مبتلا کرتا ہے۔ یہی راستے ہیں جن سے شیطان انسان پر سب سے زیادہ حملہ آور ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان ان کی حفاظت کر سکے تو سمجھیے کہ اس نے اپنے آپ کو دوزخ کے عذاب سے بچا لیا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے جنت کی ضمانت دی ہے جو شخص ان دونوں چیزوں کی حفاظت کی ضمانت دے سکے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو:

’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان چیزوں کے بارے میں مجھے ضمانت دے سکے جو اس کے دونوں کلّوں اور دونوں ٹانگوں کے درمیان میں ہیں، میں اس کے لیے جنت کا ضامن بنتا ہوں۔‘‘ (بخاری، رقم ۶۱۰۹)

روزہ ان کی حفاظت کا بہتر سے بہتر انتظام کرتا ہے۔ انسان کے لیے روزے میں صرف کھانا پینا ہی حرام نہیں ہو جاتا، بلکہ لڑنا جھگڑنا، جھوٹ بولنا، غیبت کرنا اور غیر ضروری باتوں میں حصہ لینا بھی روزے کے مقصد کے بالکل خلاف ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روزے میں صرف شہوانی تقاضوں کا پورا کرنا ہی حرام نہیں ہو جاتا، بلکہ وہ تمام چیزیں بھی روزے کے منشا کے خلاف ہیں جو اس کے شہوانی میلانات کو شہ دینے والی ہوں۔ روزہ خود بھی ان میلانات کو ضعیف کرتا ہے اور روزہ دار کو بھی ہدایت ہے کہ وہ حتی الامکان اپنے آپ کو ان تمام مواقع سے دور رکھے جہاں سے اس کے ان رجحانات کو غذا بہم پہنچ جانے کا امکان ہو۔
فتنہ کے دروازوں کے بند ہو جانے سے اس کے لیے ان کاموں کا کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے جو خدا کی رضا کے کام ہیں اور جن سے جنت حاصل ہوتی ہے اور ان کاموں کی راہیں بند ہو جاتی ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف کام ہیں اور جن کے سبب سے آدمی دوزخ میں پڑے گا۔ شیطان اس کے آگے بالکل بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ساری چوکڑی بھول جاتی ہے۔ وہ ڈھونڈتا ہے، لیکن اس کو روزہ دار پر حملہ کرنے کے لیے کوئی راہ نہیں ملتی۔ یہی حقیقت ہے جو ایک حدیث شریف میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دخل شھر رمضان فُتِّحَتْ أبواب السماء و غُلِّقت أبواب جھنم و سُلْسلت الشیاطین.(بخاری، رقم ۱۸۰۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان کا مہینا آتا ہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔‘‘

قوت ارادی کی تربیت

روزے کی تیسری برکت یہ ہے کہ یہ آدمی کی قوت ارادی کی بہترین طریقہ پر تربیت کرتا ہے۔ شریعت کے حدود کی پابندی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کی قوت ارادی نہایت مضبوط ہو۔ بغیر مضبوط قوت ارادی کے یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص شہوات و جذبات اور خواہشات کے غیر معتدل ہیجانات کو دبا سکے اور جو شخص ان کے مفرط ہیجان کو دبا نہیں سکتا، اس کے لیے یہ محال ہے کہ وہ شریعت کے حدود کو قائم رکھ سکے ۔ایک ضعیف اورلچلچے ارادہ کا آدمی ہر قدم پر ٹھوکر کھا سکتا ہے۔ جب بھی کوئی چیز اس کے غصہ کو اشتعال دلانے والی سامنے آ جائے گی، وہ بڑی آسانی سے اس سے مغلوب ہو جائے گا؛ جب بھی کوئی طمع پیدا کرنے والی چیز اس کو اشارہ کر دے گی، وہ اس کے پیچھے لگ جائے گا اور جہاں بھی کوئی چیز اس کو اکسانے والی نظر آ جائے گی، وہیں وہ پھسل کے گر پڑے گا۔ اس طرح کی ضعیف قوت ارادی کا انسان دنیا میں عزم و ہمت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا کام بھی نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ وہ شریعت کے حدود و قیود کی پابندی کر سکے۔ بالخصوص شریعت کا وہ حصہ جو انسان کو برائیوں سے روکتا ہے، مضبوط صبر کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس صبر کی مشق روزے سے حاصل ہوتی ہے اور پھر اسی صبر سے وہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو روزے کا اصل مقصود ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۳)
’’اے ایمان والو، تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔‘‘

تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو، یعنی تاکہ صبر اور برداشت کی تربیت سے تمھاری قوت ارادی مضبوط ہو اور تمام ترغیبات و تحریکات اور تمام مشکلات و موانع کا مقابلہ کر کے تم شریعت کے حدود پر قائم رہ سکو۔
یہی قوت مومن کے ہاتھ میں وہ ہتھیار ہے جس سے وہ شیطان کے ہروار کو روک سکتا ہے جو وہ خواہشات و جذبات اور شہوات کی راہ سے اس پر کرتا ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر اس حدیث میں، جو اوپر گزر چکی ہے، روزے کو ایک ڈھال کہا گیا ہے اور روزہ دار کو یہ ڈھال استعمال کرنے کی تعلیم یوں دی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے گالم گلوچ یا لڑائی جھگڑا شروع کر دے تو اس سے کہے کہ میں روزے سے ہوں۔

جذبۂ ایثار کی پرورش

روزے سے انسان کے اندر جذبۂ ایثار کی بھی پرورش ہوتی ہے اور یہ جذبہ انسان کے ان اعلیٰ جذبات میں سے ایک ہے جن سے ہزاروں نیکیوں کے لیے اس کے اندر حرکت پیدا ہوتی ہے۔ انسا ن جب روزے میں بھوکا پیاسا رہتا ہے اور اپنی دوسری خواہشوں کو بھی دبانے پر مجبور ہوتا ہے تو اس طرح اسے غریبوں، فاقہ کشوں، محتاجوں اور مظلوموں کے دکھ درد اور ان کے شب وروز کاا ندازہ کرنے کا بذات خود موقع ملتا ہے ۔وہ بھوک اور پیاس کا مزہ چکھ کر بھوکوں اور پیاسوں سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ ان کی ضرورتوں اور تکلیفوں کو سمجھنے لگتا ہے اور پھر قدرتی طور پر اس کے اندر یہ جذبہ بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر ان کے لیے کچھ کر سکتا ہے تو کرے۔ روزے کا یہ اثر ہر شخص پر اس کی استعداد و صلاحیت کے اعتبار سے پڑتا ہے، کسی پر کم پڑتا ہے، کسی پر زیادہ۔ لیکن جس شخص کے روزے میں روزے کی خصوصیات موجود ہیں، ان پر روزے کا یہ اثرپڑتا ضرور ہے۔ جن کا جذبۂ ایثار کمزور ہوتا ہے، روزہ کچھ نہ کچھ ان کو بھی متحرک کر دیتا ہے اور جن کے اندر یہ جذبہ قوی ہوتا ہے، ان کے لیے تو روزوں کا مہینا اس جذبہ کے ابھرنے کے لیے گویا موسم بہار ہوتا ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تردستیاں اور فیض بخشیاں یوں تو ہمیشہ ہی جاری رہتی تھیں، لیکن رمضان کا مہینا تو گویا آپ کے جود و کرم کا موسم بہار ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أجود الناس بالخیر و کان أجود ما یکون فی رمضان.(بخاری، رقم ۶)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو عام حالات میں بھی سب سے زیادہ فیاض تھے، لیکن رمضان میں تو گویا آپ سراپا جود و کرم ہی بن جاتے۔‘‘

قرآن مجید سے مناسبت

قرآن مجید کو روزے کی عبادت کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے۔ اس مناسبت کے سبب سے روزہ دار پر قرآن مجید کی خاص برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ روزے کی حالت میں بہت سے دنیاوی مشاغل کا بوجھ روزہ دار کے اوپر سے اترا ہوا ہوتا ہے اور نفس کے میلانات و رجحانات میں، جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، روزے کے سبب سے بڑی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ خاموشی، خلوت، غیر ضروری مصروفیتوں سے علیحدگی اور ترک و انقطاع کی ایک مخصوص زندگی ،جو روزہ دار کو حاصل ہوتی ہے، قرآن کی تلاوت اور اس کے تدبر کے لیے کچھ خاص موزونیت رکھتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت اتاری جب آپ غار حرا میں معتکف تھے۔ نیز قرآن مجید کے نزول کے لیے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مبارک مہینے کو منتخب فرمایا اور اس نعمت کی شکر گزاری کے لیے اس پورے مہینے میں روزے رکھنا امت پر فرض قرار دیا۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ رمضان میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر شب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراء ت قرآن مجید کا مذاکرہ کرنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے اور جتنا قرآن مجید نازل ہو چکا ہوا ہوتا تھا، اس کا مذاکرہ فرماتے تھے۔ رمضان کی راتوں میں تراویح میں قرآن کے سننے اور سنانے کی جو اہمیت ہے، وہ ہر شخص کو معلو م ہے۔ یہ ساری باتیں شہادت دیتی ہیں کہ قرآن مجید کو روزوں سے اور روزوں کو قرآن مجید سے گہری مناسبت ہے۔

تبتل الی اللہ

روزے کی اصل غایت دل، دماغ، جسم اور روح سب کا اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا ہے۔ اسی چیز کو قرآن مجید میں تبتل الی اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ مقام آدمی کو روزے سے حاصل ہوتا ہے اور اسی کو حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ اعتکاف کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اعتکاف اگر چہ ہر شخص کے لیے رمضان کے روزوں کی طرح ضروری چیز نہیں ہے بلکہ یہ اختیاری عبادت ہے لیکن تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اگر رمضان کے آخری عشرہ میں، جبکہ روح میں تجرد و انقطاع اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی ایک خاص کیفیت و حالت پیدا ہو جاتی ہے، آدمی اعتکاف میں بیٹھ جائے تو اس سے روزے کا جو اصل مقصود ہے، وہ کمال درجہ حاصل ہوتا ہے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں جو اہتمام فرماتے تھے، اس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس طرح فرماتی ہیں:

کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل العشر أحیا اللیل و أیقظ أھلہ و جدّ و شدّ المئزر.(مسلم، رقم ۱۱۷۴)
’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم شب بیداری فرماتے، اپنے اہل و عیال کو بھی شب بیداری کے لیے اٹھاتے اور کمر کس کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑے ہو تے۔‘‘

(تزکیۂ نفس ۲۳۹۔۲۴۷)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2015
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : May 12, 2017
3324 View