گناہ کے باوجود ایمان ذریعۂ نجات - طالب محسن

گناہ کے باوجود ایمان ذریعۂ نجات

عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: أَتَانِیْ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَبَشَّرَنِیْ أَنَّہُ مَنْ مَّاتَ مِنْ أُمَّتِکَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ.

حضرت ابو ذر( رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے مجھے بشارت دی ہے کہ آپ کی امت میں سے جس کی اس حالت میں وفات ہوئی کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا، وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔

أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَہُ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ نَاءِمٌ عَلَیْہِ ثَوْبٌ أَبْیَضُ ثُمَّ أَتَیْتُہُ فَإِذَا ہُوَ نَاءِمٌ ثُمَّ أَتَیْتُہُ وَقَدِ اسْتَیْقَظَ فَجَلَسْتُ إِلَیْہِ فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ قَالَ: وَإِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ فِی الرَّابِعَۃِ: عَلٰی رَغْمِ أَنْفِ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ: فَخَرَجَ أَبُوْ ذَرٍّ وَہُوَ یَقُوْلُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِیْ ذَرٍّ.

حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ سفید چادر لے کرسوئے ہوئے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا آپ تب بھی سوئے ہوئے تھے۔ میں پھر (تیسری مرتبہ) آیا تو آپ جاگ گئے۔ چنانچہ میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا:کوئی بندہ ایسا نہیں ہے جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا پھر اسی پر اس کی وفات ہوئی مگر یہ کہ وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ میں نے پوچھا:اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا:اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے پھر پوچھا:اگرچہ اس نے زنا کیاہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے پھر فرمایا:اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ تین مرتبہ اس طرح بات ہوئی اور چوتھی مرتبہ آپ نے یہ بھی کہا: ابو ذر کی ناک آلودہ ہونے کے باوجود۔ ابو ذر نکلے تو وہ یہ کہہ رہے تھے:اگرچہ ابوذر کی ناک آلودہ ہو۔

لغوی مباحث

’وَ إِنْ زَنٰی وَإِنْ سَرَقَ‘:یہ جملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جملے کی حیثیت سے بھی نقل ہوا ہے اور حضرت ابوذر کے جملے کے طور پر بھی۔ مراد یہ ہے کہ یہ سوال کے محل پر بھی آیا ہے اور جواب کے محل پر بھی۔ سوال کی صورت میں اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ یہ اظہار تعجب کے معنی میں ہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سادہ طریقے پر سوال ہی ہو۔معنی کچھ بھی ہوں، اس محل میں حرف استفہام کو مقدر مانا جائے گا۔ جواب کی صورت میں یہ جملہ شرط کے معنی میں ہے اور اس کا جواب حذف ہے،یعنی اگر اس نے یہ گناہ کیے ہوں تب بھی۔
بعض شارحین نے یہنکتہ بھی پیدا کیا ہے کہ یہاں نمائندہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ مال کے حوالے سے ایک گناہ، آبرو کے حوالے سے ایک گناہ۔ میرا خیال ہے کہ متکلم کے پیش نظر محض کچھ گناہوں کا ذکر کرنا ہے۔ چنانچہ اس کی زبان پر وہ گناہ بطور مثال آئے ہیں جن کا ارتکاب معاشرے میں بالعموم کیا جاتا ہے اور جن کی قباحت و شناعت مسلمہ ہے۔
’عَلٰی رَغْمِ أَنْفِ أَبِیْ ذَرٍّ‘: یہ جملہ ایک بد دعا کی طرح کے جملے سے لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’أرغم اللّٰہ أنفہ‘ (اللہ اس کی ناک خاک آلود کرے)۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لاڈ کے محل میں استعمال کیا ہے۔ بول چال کی زبان میں اس طرح کے اسالیب کا استعمال خاص التفات کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔

معنی

ایمان اور توحید سے نجات کا مضمون تفصیل سے پچھلی روایت کے تحت بیان ہو چکا ہے۔ اس روایت میں گناہوں کے ارتکاب کے باوجود نجات کی نوید سنائی گئی ہے۔ عذاب و سزا کے حوالے سے قرآن مجید نے مغفرت کے امکان کو کئی پہلوؤں سے بیان کیا ہے۔ جہاں قرآن مجید میں یہ آیت موجود ہے کہ ’مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا یُّجْزَ بِہ‘ ،’’جو کوئی برائی کرے گا، اسے اس کی جزا ملے گی۔‘‘ (النساء ۴:۱۲۳) ،وہاں یہ آیت بھی موجود ہے کہ ’مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا‘ ،’’جس نے کوئی برائی کی یا اپنی جان پر ظلم ڈھایا، پھر اس نے اللہ سے معافی مانگی، وہ اللہ کو بخشنے والا اور شفقت کرنے والا پائے گا۔‘‘ (النساء۴:۱۱۰)۔ اسی طرح سورۂ نساء ہی میں یہ نوید بھی موجود ہے کہ ’اِنَ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ‘،’’اللہ اس کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، لیکن وہ اس کے علاوہ گناہ معاف کر دے گا جس کے لیے چاہے گا۔‘‘ (۴:۴۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بھی اسی رعایت کوبیان کرتی ہے جو قرآن مجید کی ان اور اسی مضمون کی حامل دوسری آیات سے سامنے آتی ہے۔ مزید یہ کہ اس روایت میں قول ایمان پر نوید نہیں،بلکہ حقیقی ایمان پر نوید ہے۔حقیقی ایمان کا لازمی اظہار اعمال صالحہ ہیں۔ حقیقی ایمان کا لازمی اظہار توبہ و انابت ہے۔ جس شخص میں یہ دونوں چیزیں موجود ہوں، وہ مغفرت کا مستحق ہے اور اس روایت میں اسی مغفرت کی خبر دی گئی ہے۔
کچھ شارحین نے اس روایت کو اہل ایمان کے لیے ابدی جہنم کی سزا کی نفی کے معنی میں لیا ہے۔ یہ خدا کی مغفرت حاصل ہونے کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح کچھ شارحین نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے حاصل ہونے والی معافی کے حوالے سے دیکھا ہے۔ یہ مغفرت حاصل ہونے کا ایک اور مظہر ہے۔ اس روایت کی حقیقت وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ یہ رعایت حاصل ہونے کی صورتیں ہیں۔ یہ صورتیں اور بھی ہو سکتی ہیں۔

متون

اس مضمون پر مبنی ایک روایت حضرت ابو دردا ء رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔لیکن امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ہی کی روایت کو لیا ہے۔ حضرت ابو ذر سے اس مضمون کی دو روایتیں منقول ہیں۔ دونوں میں اس مکالمے کا موقع و محل اور دروبست مختلف بیان ہوا ہے۔ ایک میں بتایا گیا ہے کہ یہ گفتگو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے گھر میں ہوئی۔ حضرت ابوذر آئے تو آپ سفید چادر لے کر سوئے ہوئے تھے۔ جب یہ تیسری بار آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے،تب یہ گفتگو ہوئی۔ دوسری میں بتایا گیا ہے کہ یہ گفتگو آبادی سے باہر احد کی طرف کی ایک کھلی جگہ پر ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی سبب سے حضرت ابو ذر سے الگ ہوئے اور آپ کی ملاقات جبریل علیہ السلام سے ہوئی اور انھوں نے آپ کو یہ نوید سنائی۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مکالمے کا احوال حضرت ابو ذر کو سنایا۔ ان روایات میں کچھ اور گفتگو بھی نقل کی گئی ہے۔ایک متن کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ ہونے سے پہلے یہ فرمایا تھا کہ میں اس بات کو پسند نہیں کروں گا کہ احد میرے لیے سونا بن جائے اور اگلی صبح تک میرے پاس ایک دینار بچا ہوا ہو۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ زیادہ والے ہی قلت والے ہیں، اگر وہ خیرات نہ کریں۔ اس روایت کے متن میں نمایاں فرق یہی ہیں، باقی فرق محض لفظی ہیں۔

کتابیات

مسلم، رقم ۹۴؛ بخاری، رقم ۱۱۸۰، ۳۰۵۰، ۵۴۸۹، ۵۹۱۳، ۶۰۷۸، ۷۰۴۹؛ احمد ، رقم، ۱۸۳۱۰، ۲۱۵۰۴؛ مسند البزار، رقم ۳۹۲۰؛ ترمذی، رقم ۲۶۴۴؛الآحاد والمثانی، رقم ۱۳۰۸؛ نسائی، رقم ۱۰۹۵۵۔ ۱۰۹۶۶، ۱۱۵۶۰۔ ابن حبان، رقم ۱۶۹، ۱۷۰، ۱۹۵، ۲۱۳، ۳۳۲۶؛ بیہقی، رقم ۲۰۵۵۷، ۲۰۵۶۰؛ موارد الظمآن، رقم ۹؛ تہذیب الآثار، رقم ۹۳۰۔ ۹۳۸، ۹۴۳، ۹۴۴، ۹۴۷۔۹۵۰، ۹۶۴۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2011
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Mar 21, 2017
2787 View