اب ذرا کچھ اس سوچ پر - محمد حسن الیاس

اب ذرا کچھ اس سوچ پر

 یہ بات اگرچہ نئی نہیں ہے،دنیا کی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ جب کبھی انسان نے کسی بھی میدان میں پہلے سے قائم شدہ تصورات کو چیلنچ کرنا چاہا تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس کی بات کو آگے بڑھ کر محض اس کی دلیل کی بنیاد پر قبول کر لیا گیا ہو۔

قائم شدہ تصورات محض کسی علمی مقدمے کا نام نہیں ہوتے ،یہ تصورات صدیوں کے سفر سے ایک تہذیب وجود میں لاتے ہیں ،وہ تہذیب کچھ ہیروز بناتی ہے ،وہ ہیروز اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں، انسانوں کی بڑی تعدار اس پہچان سے خود کو جوڑتی ہے، اس سے ایک عصبیت وجود میں آتی ہے ، یہ عصبیت ان ہیروز کو تقدس فراہم کرتی ہے،اس تقدس سے عقیدتیں جنم لیتی ہیں، وقت گزرتا ہے تو افراد کے ساتھ ساتھ ان عقیدتوں کو کرامات اور بشارتوں کی غیبی تائید بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس حقیقت کو ہزار بارہ سو سال تک نسلوں کی تعلیم و تربیت کا حصہ بنایا جائے ، تو اس کا ایک سماجی ظھور ہوتا جو اس عہد کے لٹریچر،ثقافت اور رہن سہن سب میں نمایاں ہوجاتاہے، اس سے ایک رویہ پیدا ہوتا ہے۔یہ رویہ عقل کو ایک خاص ماحول میں جینے کا عادی بناتا ہے۔وہ ماحول "تقلید" کا ماحول ہوتا ہے ۔جہاں انسانی عقل کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی تہذیبی روایت سے ملنے والے تصورات پر قطعی یقین رکھے۔چنانچہ اب علم کا سفر سوچنے سمجھنے ،تجزیاتی مطالعے یا تحقیق و تنقیح کا نہیں بلکہ صرف اس حق کے ابلاغ کا ہوتا ہے،جس کے حق ہونے کے خلاف ہر دلیل آپ سے آپ باطل تصور ہو۔

اس پوری بات کو اس تہذیب کے ایک بڑے عالم نے ایک جملہ میں یوں بیان کیا کہ "اگر سورج کی طرح روشن دلیل بھی تمھارے سامنے آجائے تب بھی اپنی اجماعی روایت سے روگردانی نہ کرنا".

اس طرح کے ماحول میں اگر "جاوید احمد غامدی" صاحب جیسا انسان پیدا ہوجائے جو ان قائم شدہ تصورات کے حصار سے نکل کر سوچے، ان اعتقادات کا اسقام واضح کرے، اس عقیدت کے قصر توڑ ڈالے،حقائق کا میرٹ کی بنیاد پر جائزہ لے،جسے علمی اعتبار سے مضبوط سمجھے قبول کرے، اور جو دلیل کمزور محسوس ہو اسے رد کردے، تحقیق کے اس سارے عمل میں اس کی توجہات کا مرکز یہ ہو کہ دماغ کو خالی کر کے اور خارجی اثرات سے بے نیاز ہو کر اصل بات سمجھنی ہے،اور پھر وہ طویل علمی ریاض سے اسے سمجھے، اس مانے ہوئے مقدمے کی غلطی بھی واضح کردے، پھر یہی نہیں بلکہ خدا کے دین کے اس تصور کو بھی پیش کردے جو اس کی نظر میں درست ہے، اور اہل علم کو دعوت دے کہ آئیے ! تلاش حق کے اس سفر میں طالب علم بن کر شریک ہو جائیں۔اور غیر جانب داری سے ان حقائق کا جائزہ لیں جنھیں ہم سے پہلے انسانوں نے سمجھا تھا!

تو کیا خیال ہے ہماری یہ تہذیبی روایت اس انحراف کو خوش دلی سے قبول کر لے گی۔ تاریخ بتاتی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا، چنانچہ ایسے ہی ہوا۔جب غامدی صاحب نے ان قائم شدہ تصورات کو دلیل و حجت کی بنیاد پر چیلنج کیا تو مخاطبین نے اسے ٹھنڈے پیٹوں قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔

لہذا کسی نے ان کے قول قدیم اور قول جدید کے تضادات سے علمی ناپختگی ثابت کرنی چاہی تو کسی نے ان کی عربی تحریر میں غلطیاں نکال کر لوگوں کو متوحش کرنے کا سوچا! 

کیا یہ سب کچھ ایک ایسے انسان کے لیے غیر متوقع ہے جس نے علم سے تہذیب کے جذبات کو چیلنج کر دیا ہو؟ 

جس ماحول میں عقل، قائم شدہ تصورات کے علاوہ کچھ سننے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے وہاں ایسی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،لیکن اگر عقل و خرد کی بنیاد پر غور کیا جائے تو کیا یہ بات کہی بھی جا سکتی ہے کہ اس کے قول قدیم اور جدید میں فرق ہے!

کیا اس دنیا میں کبھی ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کسی ماں نے یکایک ایک جوان رعنا کو جنم دیا ہو۔ وہ دنیا میں آتے ہی اپنے علم و ہنر کے بل پر کسب معاش میں مصروف ہوگیا ہو،تحقیقی مقالات لکھنے لگا ہو، ایجادات کرنی شروع کردی ہوں۔ایسا ممکن نہیں ،اگر نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی سماج میں ایک انسان آنکھ کھولے ،اس میں موجود علما،دانشوروں سے علم سیکھنے کا آغاز کرے اور وہ اپنے ماحول میں موجود افکار سے متاثر نہ ہو،اس کا حصہ نہ بنے ،تو کیا وہ اپنی تعلیمی زندگی کے آغاز میں ہی اپنی عقل کو پابند کردے کہ وہ اس دنیا کو چھوڑ کر کسی جزیرے میں جا بسے گا ،وہاں اکیلے زندگی گزار کر غور و فکر کی صلاحیت پیدا کرے گا ،اور جب اس کی فکر پک کر تیار ہوجائے گی تو واپس آکر زمانے میں پیش کردے گا۔

یہ انسان اور اس کی فکری نشو نما کے عمل سے بے خبری ہے۔کسی صاحب علم کی تحقیق کے جواب میں اگر آپ کی مہم یہ ہو کہ پہلے یہ بھی ہماری بات کا قائل تھا،یہ اس کا قول قدیم ہے ،اور یہ جدید ہے، جو باہم مخلتف ہیں، لہذا یہ اس کی علمی نا پختگی کا ثبوت ہے تو اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ جو آپ اس کے قول قدیم تلاش کر کر لاتے ہیں اور اسے خود سے ہم آہنگ ثابت کرتے ہیں ،تو اس پر آپ کو کس بات کی خوشی ہے ؟اس کا یہ سفر تو آپ کے قائم شدہ تصورات اور آپ کی تاریخ سے انحراف کا سفر ہے ،یہ تو اس کے اپنے علم اور تحقیق کی بنیاد پر ہے۔لھذا یہ کیوں نہیں کرتے کہ آگے بڑھیے، اور اس آدمی کو اپنی بات کا قائل کر لیں جو کل تک آپ کے افکار کو صحیح مان کر کھڑا تھا ،اسے بیان کرتا تھا اس کا دفاع کرتا ہے،لیکن یہ تہذیب ایسا ہرگز نہیں کرتی، اس لیے کہ ایسا کرنے سے پہلے اس امکان کو ماننا ضروری ہے کہ ہماری بات دلیل کی بنیاد پر ہے، اگر دلیل سامنے والے کی مضبوط ہو تو اسے بھی قبول کرنا پڑے گا۔

اسی لیے یہ تہذیب اسے مذاق کا عنوان بناتی ہے، شخصی استخفاف کا موضوع سمجھتی ہے۔کسی کی علمی نا پختگی اور جدت پسندی ظاہر کرنے کے لیے پروپیگنڈے کا ہدف بناتی ہے۔

یہی معاملہ کسی صاحب علم کی زبان میں خامیاں اور غلطیاں تلاش کرنے کا ہے۔کیا دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص کسی زبان کو سمجھنے کے عمل کا آغاز کرے اور دوسرے ہی دن غالب اور فردوسی بن جائے، ہر انسان گھونٹ گھونٹ زبان سیکھتا ہے، لکھتا ہے، غلطیاں بھی ظاہر ہوتی ہیں، محاورے بھی اجنبی آجاتے ہیں، ترکیبیں بھی غریب در آتی ہیں، پھر وہ زبان جو مادری زبان نہ ہو اور کوئی اسے اپنے ابلاغ کا ذریعہ بنانا چاہے تو اس میں اس کا اپنا اسلوب اور انداز نمایاں ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، ایسے میں کوئی اٹھے اور کہے میٹرک میں فلاں مضمون لکھا تھا اس میں یہ غریب تعبیر استعمال کی، فلاں خط لکھاتھا اس میں بڑا منفرد انداز تھا، لہذا اس شخص کی کسی دینی اور مذہبی رائے کا اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے، تو اس پر عرض ہے کہ کسی دینی رائے کا اعتبار بالکل نہ کیجیے لیکن وہ دینی آرا نوجوانی کے مضامین یا خطوط میں زیر بحث نہیں بلکہ ربع صدی کی تحقیقات پر مشتمل علمی کتابوں میں موجود ہیں۔آئیے ان پر بات کیجیے۔سامنے والے نے پیغمبری کا دعوی نہیں کیا، ممکن ہے کوئی حقیقی علمی غلطی ہو، کسی استدلال میں سقم ہو ، لیکن یہ تہذیب اسے ایسے کبھی پیش نہیں کرے گی، اس لیے کہ علمی آرا کے دلائل کا جائزہ ان مسلمہ علمی بنیادوں پر لیا جاتا ہے، جہاں ایک جگہ ٹھہر کر دلیل سے بات کرنی ہوتی ہے، جسے دو اور دو چار کی طرح ثابت کرنا ہوتا ہے۔،جہاں یہ امکان ماننا ہوتا ہے کہ دلیل اپنی روایت کے خلاف بھی ہو سکتی ہے،لہذا یہ خوف آمادہ کرتا ہے کہ کیوں نہ پروپیگنڈا کر کے اس انسان ہی کو بے وقعت ثابت کر دیا جائے جس نے ہماری روایت کو چیلنج کردیا ہے۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ مرحلہ اسی وقت پیش آتا ہے جب کوئی فکر اپنی محکم بنیادوں پر کھڑی ہو چکی ہو، علم کی دنیا میں اس کی حقیقی پزیرائی ہو اور تہذیبی روایت کے قصر میں بند لوگ ان تصورات کے تسلط اور گھٹن سے آزادی محسوس کرنے لگیں۔

جو لوگ اس آلاو کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں، انھیں خبر نہیں ،ان کی پھونکیں اس آگ کو تہذیب کے اس جنگل تک پہنچا رہی ہیں، جہاں اسے پہنچنے میں ابھی شاید کچھ وقت لگنا تھا۔

بشکریہ محمد حسن الیاس
مصنف : محمد حسن الیاس
Uploaded on : Jan 16, 2019
1399 View