عمر بن عبد العزیز رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

عمر بن عبد العزیز رضی ﷲ عنہ

 عمر بن عبدالعزیز آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم کے جڑواں بھائی عبد شمس کی اولاد میں سے تھے۔ آپ ۶۱ھ (۶۸۱ء) میں مدینہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد عبدالعزیز کافی عرصہ مصر کے گورنر رہے۔ چنانچہ عمر کو اپنا لڑکپن مصرمیں گزارنے کا موقع ملا۔
عمر دبلے پتلے اور گندم گوں تھے۔ آپ کی فطرت سلیمہ بچپن ہی سے نمایاں تھی۔بڑے شوق سے دینی علوم سیکھے۔ والد نے مزید تعلیم کے لیے مصر سے شام بھیجنا چاہا، لیکن عمر نے مشورہ دیا کہ بہتر اور مفید صورت مدینے جانا ہے، اس لیے کہ وہاں کئی صحابہ اور تابعین موجود ہیں۔ والد نے خدام کے جلومیں شہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیج دیا۔ صالح بن کیسان کی ذمہ داری لگائی اور ہدایت کی کہ عمر کی نمازوں کا خاص دھیان رکھنا۔ آپ اپنی عمرکے لڑکوں کے بجائے زیادہ تر بزرگوں کی صحبت میں رہے۔ تمام محدثین اور فقہا سے استفادہ کیا۔ ان میں سے انس بن مالک ، عبد اللہ بن جعفر، سائب بن یزید، سہل بن سعد، سعید بن مسیب ،عروہ بن زبیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمان، یحیٰی بن قاسم اور عامر بن سعد کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
محنت اپنا رنگ لاتی ہے۔ عمر بن عبدالعزیز بھی مجتہد ہو گئے۔ سب علما نے انھیں ثقہ اور فقیہ مانا۔ احمد بن حنبل فرماتے ہیں،عمر کے سوا کسی تابعی کا قول حجت نہیں۔
صالح بن کیسان کہتے ہیں کہ اللہ جس طرح اس لڑکے کے دل میں جاگزیں ہے، شاید ہی کسی کے دل میں ہو۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد کے پیچھے نماز پڑھی اور فرمایا: اس نوجوان کا نماز پڑھانے کا طریقہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ آپ سجدہ اور رکوع طویل کر تے، جبکہ قیام اور قعدہ مختصر رکھتے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے شیخ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے خاص طور پر مانگ کر وہ پیالہ لیاجس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پیتے تھے۔اساتذہ کی اچھی تربیت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ۔ مشہور فقیہ عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بھی آپ کے استاد تھے۔ انھیں معلوم ہوا کہ بنوامیہ کے اکثر افراد کی طرح عمر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ جب وہ ان سے پڑھنے گئے تو انھوں نے غصے سے پوچھا: تمھیں کیسے پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر سے راضی ہونے کے بعد پھر ناراض ہو گیا ہے؟عمر کو بات فوراً سمجھ میں آگئی ۔ کہا: میں اللہ سے اور پھر آپ سے معافی چاہتا ہوں، بخدا آیندہ ہرگز ایسا نہ کروں گا۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا۔
اس نیک فطرت کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز ٹھاٹ باٹ سے رہتے ،عمدہ لباس پہنتے، خوش بو لگا کر رکھتے اور تن کر چلتے ۔آپ ۸۵ھ تک مدینہ میں مقیم رہے ۔جب والد کی وفات ہوئی تو آپ کے چچا عبدالملک بن مروا ن جو خلیفہ تھے، آپ کو دمشق لے گئے اور اپنی بیٹی فاطمہ سے آپ کی شادی کردی۔یہ وہی فاطمہ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا: 

بنت الخلیفۃ والخلیفۃ جدھا
اخت الخلائف والخلیفۃ زوجھا

’’یہ فاطمہ ایک خلیفہ (عبدالملک) کی بیٹی ہے، اس کا دادا مروان خلیفہ تھا، یہ خلیفوں (ولید ،سلیمان،یزید اور ہشام) کی بہن ہے اور اس کا خاوند (عمر بن عبدالعزیز) بھی خلیفہ ہے۔‘‘

۸۷ھ میں جب عبدالملک کے بعد ولید خلیفہ بنا تو اس نے اپنے بہنوئی عمر بن عبدالعزیز کو حجاز (مکہ، مدینہ اور طائف) کا گورنر مقرر کر دیا ۔اپنے پیش رو گورنروں کے بر خلاف، جومستبد انہ حکومت کرتے تھے، آپ نے دس متقی فقہا کی مجلس مشاورت بنائی ۔ اس میں فقہاے سبعہ(سعید بن مسیب ، عروہ بن زبیر ، خارجہ بن زید، عبیداللہ بن عبداللہ، قاسم بن محمد ، ابوبکر بن عبدالرحمان اور سلیمان بن یسار)کے علاوہ ابو بکر بن سلیمان ، سالم بن عبداللہ اور عبداللہ بن عامر شامل تھے۔ آپ نے کہا: میں نے تمھیں ایسے کام کے لیے بلایا ہے ، جس کا تمھیں اجر ملے گا ۔ تم حق کے مددگار بن جاؤ ، میرے کارندوں کی کڑی نگرانی کرو۔ ان میں سے کوئی بے انصافی یا زیادتی کرتا دکھائی دے تو تمھیں اللہ کا واسطہ ہے، مجھے بے خبر نہ رکھنا۔آپ سعید بن مسیب کی بات ہرگز رد نہ کرتے ۔ وہ بھی عمر بن عبدالعزیز کے سوا کسی حاکم کے پاس نہ جاتے تھے۔سلیمان بن یسار عمرسے مل کر آئے۔ ابو نضر نے پوچھا کیا پڑھا کر آئے ہو؟ انھوں نے کہا، عمر ہم سے زیادہ عالم ہیں۔ مجاہد کا کہنا تھا: ہم عمرکو سکھانے جاتے ، مگر الٹا ان سے سیکھ کر آتے ۔ میمو ن فرماتے ہیں: علما عمر کے سامنے شاگردوں کی طرح محسوس ہوتے۔
۹۲ھ میں ولید کے کہنے پر آپ نے مسجد نبوی کو وسیع کیا اورحجرۂ رسول کو مسجد میں شامل کر دیا۔آپ کے دور میں ایک ناخوش گوار واقعہ بھی پیش آیا۔آپ نے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے بیٹے خبیب کو خلیفہ کے کہنے پر کوڑے لگوائے اور سردی میں کھڑا کر دیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔اس حادثے نے آپ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ جو آپ کی تعریف کرتا، اسے کہتے: مجھے خبیب کے قتل کی سزا سے کون بچائے گا۔ کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ گورنر عراق حجاج بن یوسف آپ کو سخت نا پسند کرنے لگا۔ اس لیے کہ حجاج کے مظالم سے تنگ آکر لوگوں نے حرمین میں پناہ لینا شروع کردی تھی ۔ چنانچہ حجاج کے اصرار پر آپ کو ۹۳ھ میں حجاز کی گورنری سے معزول کر دیا گیا، لیکن کوئی انتقامی کارروائی نہ کی گئی۔ آپ مدینے سے نکلے تو آنکھیں آنسووں سے تر تھیں۔ شہر نبوی کارخ کیا اور اپنے غلام مزاحم کوپکار کر کہا: مجھے لگتا ہے میں ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہوں جنھیں مدینہ نکال باہر کرتا ہے۔آپ کا اشارہ اس ارشاد نبوی کی طرف تھا: ’’مدینہ دھونکنی کی مانند ہے، میل کچیل کو نکال باہر کرتا ہے اور خالص شے کو رکھ لیتا ہے‘‘ (بخاری، رقم ۱۸۸۴)۔ مدینے سے آپ سویدا گئے پھر اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس دمشق چلے گئے۔ فرماتے تھے: مدینے کی برکت سے میں اپنے آپ کو علم سے سرشار سمجھتا تھا۔اب یوں لگتا ہے ، گویا سب کچھ بھول چکا ہوں ۔ خلافت ملنے سے پہلے عمر بن عبدالعزیز میں زہد اورخاندانی جاہ ملے جلے نظر آتے ہیں، لیکن جب ان کو خرقۂ خلافت پہنایا گیا ، ان کا کروفر جاتا رہا اور دنیا سے بے نیازی اور خشیت الٰہی اس قدر غالب آگئی کہ ان کی ساری توجہ اسلامی سلطنت کااندرون اور مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی طرف مرکوز ہو گئی۔
عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے واقعے کی تفصیل اس طرح سے ہے کہ ایک جمعے کے دن اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے سبز ریشمی کپڑے پہنے،آئینہ دیکھا اور کہا: واﷲ! میں تو نوجوان بادشاہ ہوں۔پھر وہ جامع مسجد کو نکلا،جمعہ پڑھایا۔لوٹا ہی تھا کہ بخار سے پھنکنے لگا۔رفتہ رفتہ بیماری بڑھی تو اس نے اپنے بیٹے ایوب کووصیت کا خط تحریر کیاجو اس وقت نابالغ بچہ تھا۔رجا بن حیوہ کا بیان ہے ،’’ میں نے کہا: امیر المومنین یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔یہ ان باتوں میں سے ہے جو خلیفہ کو قبر میں بھی یاد دلائی جائیں گی کہ وہ ایک نیک آدمی کو اپنا جانشین مقرر کرے۔‘‘سلیمان نے جواب دیا ، ’’اس خط میں میں نے اﷲ سے استخارہ کیا ہے ،ایک رائے بنائی ہے اور اس کا پختہ ارادہ نہیں کیا۔‘‘ اس نے ایک دو دن انتظار کیا پھر خط پھاڑ دیا اورمجھے بلا کر پوچھا ، ’’ داؤد بن سلیمان کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟‘‘میں نے کہا ’’وہ قسطنطنیہ میں غائب ہے ۔آپ نہیں جانتے ،زندہ ہے یا مردہ؟‘‘ سلیمان نے کہا،’’تمھارے خیال میں کون ہونا چاہیے؟‘‘میں نے کہا ،’’امیر المومنین !ر ائے آپ ہی کی ہوگی ۔میں تو چاہتا ہوں جو قابل ذکر ہیں ان کے بارے میں غور کروں۔‘‘ تب سلیمان نے کہا ،’’عمر بن عبد العزیز کے متعلق تمھارا کیا خیال ہے ؟‘‘میں نے کہا ، ’’ میں بخداانھیں عالم اور اچھے مسلمان کی حیثیت سے جانتا ہوں۔ اس نے کہا،’’تمھارا خیال صحیح ہے ،قسم اﷲ کی !اگر میں نے ان کو خلافت سونپی اور عبدالملک بن مروان کے بیٹوں میں سے کسی کو خلیفہ نہ بنایا تو ضرور فتنہ اٹھ کھڑا ہو گا۔وہ انھیں ہمیشہ اپناحکمران نہ رہنے دیں گے الا یہ کہ عمر کے بعد ان میں سے کسی کا تقرر کر جاؤں ۔ چنانچہ میں ان کے بعدیزید بن عبدالملک کو مقرر کرتا ہوں،یہ تقرر بنو امیہ کومطمئن کردے گا۔‘‘سلیمان نے اپنے ہاتھ سے فرمان تحریر کیا،’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔یہ خط اﷲ کے بندے سلیمان امیر المومنین کی جانب سے عمر بن عبدالعزیز کی طرف ہے۔میں نے اپنے بعد اس کو والی خلافت مقرر کیا ہے اور اس کے بعد یزید بن عبدالملک کو۔ تم سب اس کی سمع و طاعت کرو ،اﷲ سے ڈرو اور اختلاف نہ کرو مبادا دشمنوں کی جانب سے تم پر غلبہ حاصل کرنے کی حرص کی جائے۔‘‘سلیمان نے خط پر شاہی مہر لگائی اور چیف سیکرٹری کعب بن حامز کو حکم بھیجا کہ شاہی خاندان کے افراد کو جمع کیا جائے ۔وہ اکٹھے ہوئے تو اس نے رجا بن حیوہ سے کہا،’’ میرا یہ خط ان کے پاس لے جاؤاور انھیں میرے تقرر کردہ ولی عہد کی بیعت کرنے کا حکم دو۔‘‘سب نے سمع وطاعت کا عہد کیا اور امیر المومنین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔جب وہ آئے تو سلیمان نے خط کی طرف اشارہ کر کے اس میں درج والی خلافت کی سب سے فرداً فرداً بیعت لی۔کچھ دیر کے بعد عمر بن عبدالعزیز رجا کے پاس آئے اور اپنے ا وپرسلیمان بن عبدالملک کی عنایتوں کاذکر کر کے پوچھا: کہیںیہ ذمہ داری مجھ پر تو نہیں ڈال دی گئی؟میں ابھی معذرت کر کے چھوٹ جاتا ہوں۔ رجا نے بتانے سے انکار کر دیا۔ہشام بن عبدالملک نے بھی اسی طرح رجا سے سن گن لینے کی کوشش کی ،یہ الگ بات ہے کہ وہ خودخلیفہ بننے کا خواہش مند تھا۔رجا بن حیوہ فارغ ہوکر سلیمان کے پاس لوٹے تھے کہ اس نے دم توڑ دیا ۔ تاریخ ۲۰ صفر ۹۹ھ (اکتوبر ۷۱۷) تھی۔ رجا بن حیوہ نے خاندان بنو امیہ کے افراد کو دوبارہ مسجد میں جمع کیا اورپھرسے خلیفہ سلیمان کے مقرر کردہ جا نشین کی بیعت لی۔ بیعت ہو چکی تو انھوں نے بتایا کہ خلیفہ کی وفات ہوچکی ہے اور عمر بن عبدالعزیز نامزد خلیفہ ہیں ۔ سلیمان نے اپنے بھائیوں ولید اور ہشام پر عمر بن عبد العزیز کو ترجیح دی تھی، ہشام نے شروع میں اپنے بہنوئی اور چچا زاد بھائی کے منتخب ہونے پر اعتراض کیا، لیکن پھر اس انتخاب کو مان لیا۔
عمر بن عبد العزیز نے سلیمان کا جناز ہ پڑھایا۔ تدفین سے فارغ ہوئے توگھوڑوں اور خچروں کا لاؤ لشکر انھیں لینے پہنچا۔ انھوں نے پوچھا،’’یہ کیا ہے؟‘‘ بتایا گیا:’’یہ خلیفہ کی سواریاں ہیں۔‘‘عمر نے کہا:’’میرا خچر ہی بہترین سواری ہے ‘‘اور اس پر سوارہوگئے ۔جب قافلۂ خدام شاہی محل کی طرف روانہ ہواتوعمرنے کہا:’’وہاں ابو ایوب ( سلیمان کی کنیت) کے اہل خانہ مقیم ہیں،میرا گھر مجھے کافی ہے۔‘‘پھروہ مسجدمیں گئے، منبرپر چڑھے اور کہا : ’’لوگو !اگرتم مجھے پسند نہیں کرتے تو میں تمھارا حاکم نہیں بنتا۔‘‘لوگوں نے کہا: ’’ہم راضی ہیں۔‘‘سلام بن سلیم کہتے ہیں: حمد و ثنا کے بعد انھوں نے کہا:’’اے لوگو!جس نے ہمارا ساتھ دینا ہے ،پانچ باتوں کا دھیان رکھ کر ہمارا ساتھ دے ورنہ ہمارے پاس نہ پھٹکے:۱۔وہ اس شخص کی ضرورت ہم تک پہنچائے گا جو خود نہیں پہنچا سکتا ۔۲۔اپنی پوری قوت سے نیک کاموں میں ہماری مدد کرے گا۔۳۔جس خیر کا ہمیں پتا نہ چل سکا ہو، اس تک ہماری رہنمائی کرے گا۔ ۴۔ ہمارے پاس رعایا کی چغلی نہ کھائے گا۔۵۔جو اس کے مطلب کی بات نہ ہو، اس کے درپے نہ ہو گا۔‘‘
یہ کھرا وعظ سن کرخوشامد ی شاعر اور خطیب تو چھٹ گئے،البتہ عمر بن عبدالعزیز اور فقہا و زاہدین کا ساتھ پختہ ہو گیا۔چونکہ وہ خود کھرے مسلمان تھے اس لیے انھوں نے عمر کو چھوڑنے کی گنجایش نہ پائی، ہاں ان کے فعل کو ان کے قول پر پرکھنا شروع کر دیا۔سری بن یحیےٰ کی روایت ہے کہ عمر نے کہا:اے لوگو!اپنی آخرت درست کر لو، تمھاری دنیا تمھارے لیے سنور جائے گی۔ اپنی پوشیدہ باتوں کو درست کر لو، تمھارے ظاہری معاملات درست ہو جائیں گے۔ عمرو بن مہاجر کی روایت میں خطبے کا یہ حصہ نقل ہوا ہے:’’اے لوگو!قرآن کے بعد کوئی کتاب آئے گی نہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ۔سنو!میں قاضی نہیں، بلکہ نفاذ کرنے والا ہوں ۔ سنو! میں بدعتی نہیں، بلکہ پیروی کرنے والا ہوں ۔ظالم امام سے بھاگنے والاظالم نہیں ۔آگاہ رہوامام ظالم ہی گناہ گار ہوگا۔سن لو! خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہ ہو گی۔‘‘

قلب ماہیت

عمر بن عبدالعزیز نماز جمعہ کے بعد خلیفہ بنے تھے ،عصر کی نماز تک ان کی ہےئت بدل چکی تھی۔ ا نھوں نے گھر سے ابتدا کی، ان کے اہل خانہ نے لوگوں کے جو حقوق غصب کر رکھے تھے،وہ حق داروں کو واپس دلائے ۔ دوسروں کی جو اراضی ،مال متاع انھیں اپنے پاس نظر آیا، واپس کیاحتیٰ کہ ولید بن عبدالملک کا دیا ہوا انگوٹھی کانگینہ بھی اتار دیا ۔خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے اپنی مملوکہ ا شیا غلام ،لباس ،خوش بووں اور سامان تعیش کا جائزہ لیا اور سب فالتو چیزیں بیچ ڈالیں۔ان سے حاصل ہونے والے ۲۳ ہزار دینار اﷲ کی راہ میں دے دیے ۔پھر بیت المال کاجائزہ لیا، حضرت معاویہ کے زمانے سے ان کے خلیفہ بننے تک کی جتنی غصب شدہ اشیا اس میں موجود تھیں، ان کے مالکوں کو واپس کیں ۔جو اپنا مال غصب ہونے کا دعویٰ کرتا، اس سے قاطع دلیل طلب نہ کرتے،محض یہ امکان دیکھ کر کہ غصب ہوا ہو گا، دعویٰ مان لیتے۔جب وہ محل میں پہنچے تو ان کے لیے وہ قالین بچھایا گیاجس پر سلیمان بیٹھتا تھا انھوں نے اس پر بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ قریش میں سب سے بڑھیا خوش بولگانے والے ،سب سے عمدہ لباس پہننے والے عمر جب خلیفہ ہوئے توسب سے گھٹیا کپڑے پہننے اور سب سے زیادہ روکھا سوکھا کھانے والے بن گئے۔ ان کی چال تک بدل گئی، خلافت سے پہلے ان کی چال ایک متمول رئیس زادے کی چال تھی،خلافت کے بعد اس شخص کی طرح چلتے جس کی آنکھوں کے آگے موت ناچ رہی ہو ۔ حجاج صواف بتاتے ہیں: ’’عمر بن عبدالعزیزنے جب وہ مدینہ(اور حجاز)کے گورنر تھے اپنے کپڑے خریدنے کے لیے مجھے بھیجا۔ میں نے ان کے لیے ۴۰۰ درہم مالیت کا کپڑا لیا۔انھوں نے اس کی قمیض پہنی تو اس کو چھو کر کہا:’’کیا موٹا اور کھردرا کپڑا ہے!‘‘پھر جب وہ خلیفہ بنے تو اپنے لیے کپڑا منگوایا۔ ۱۴ درہم کا کپڑا آیا تو اسے ہاتھ لگا کر کہا:’’سبحان اﷲ!کیا نرم اور باریک کپڑا ہے۔‘‘ یونس بن ابو شبیب کہتے ہیں:’’ میں نے خلیفہ بننے سے پہلے عمر بن عبدالعز یز کو بیت اﷲ کا طواف کرتے دیکھا ،ان کے ازاربند کی گانٹھ ان کے پیٹ میں دھنسی ہوئی تھی۔خلیفہ بننے کے بعددیکھا تو یہ حال تھا کہ بغیر چھوئے ان کی پسلیاں گنی جا سکتی تھیں۔ خلیفہ بننے کے بعد ان کومشورہ دیا گیاکہ ان کے کھانے کی نگرانی کی جائے،نماز پڑھتے وقت ایک پہرے دار کھڑا ہو اور ان کو طاعون سے دور رکھا جائے۔یہ بھی بتایا گیا کہ پہلے خلفاان امور کا دھیان رکھتے تھے۔عمر کا جواب تھا:’’ان احتیاطوں کے باوجود ان کا انجام کیا ہوا؟‘‘
عمر بن عبدالعزیز کا عہد خلافت محض ڈھائی سال رہا ۔انھوں نے اپنے فرائض کمال دیانت کے ساتھ سر انجام دیے۔سادگی اور کفایت شعاری ان کے طرز حکومت کی امتیازی خصوصیت تھی ۔عمرکی توجہ زیادہ تراسلامی سلطنت کے اندرونی معاملات پر رہی۔ان کی اولین ترجیح لائق اور دیانت دار عاملوں کا تقررتھا، چنانچہ انھوں نے خراسان کے عامل یزید بن مہلب کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اس کی جگہ جراح بن عبداﷲ حکمی کا تقررکیا۔عمر بن عبد العزیز وعظ و نصیحت کے ذریعے سے غیر مسلموں کو قبول اسلام کی دعوت دیتے اور ان پر خراج عائد نہ کرتے ۔ان کے مقرر کردہ عامل اسماعیل بن عبد اﷲ کے دور میں تمام بربر وں نے اسلام قبول کر لیا۔ایک دوسرے عامل عمر بن مسلم باہلی کے کہنے پر سندھ کے راجاؤں نے اسلام قبول کیا، لیکن ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں وہ مرتد ہو گئے۔جراح بن عبداﷲ حکمی کے ہاتھ پر چار ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اموی دور حکومت کی ایک بری رسم خلیفۂ چہارم حضرت علی کو برا بھلا کہنے کی تھی ،عمربن عبدالعزیز نے اسے یکسر منسوخ کر دیا۔پہلے عمر خوارج کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن جب انھوں نے لوٹ مار کرنا اورفتنہ وفساد پھیلانا شروع کیا تو ان سے قتال کا حکم دیا۔قید ہونے والے خوا رج سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ۔ان کی وفات کے وقت ان کے کئی قیدی ان کی تحویل میں تھے۔
خلیفہ بنتے ہی عمر بن عبد العزیز نے دربان سے کہا:’’قریش کے سرداروں کو میرے پاس لے آؤ۔پھر ان سے کہا: ’’فدک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تھا،آپ اس کی آمدن وہاں خرچ کرتے جہاں آپ کو اﷲ کی طرف سے رہنمائی ہوتی۔پھرابو بکراس کے نگران بنے تو انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ان کے بعد عمر اس کے منتظم ہوئے ،ان کا عمل بھی یہی تھا۔آخر کاریہ مروان کودے دیا گیا،اس نے اپنے بھتیجوں کو ہبہ کر دیا جو اس کے وارث نہ تھے،انھی میں سے ایک میں تھا ۔پھر ولید خلیفہ بنا، اس نے اپنا حصہ مجھے ہبہ کر دیا ، سلیمان خلیفہ بنا تو اس نے بھی اپنا حصہ مجھے دے دیا۔یہ میرا مال نہ تھا کہ میں اس سے نفع اٹھاتا،میں نے اسے اس کی جائز جگہ لوٹا دیا ہے۔‘‘مغیرہ کی روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے خلیفہ بننے کے بعدبنو مروان کو اکٹھاکر کے کہا: ’’فدک آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی جائداد تھا،آپ اسے بنو ہاشم کے بچوں پرخرچ فرماتے ،ان کے کنواروں کی شادیاں کرتے ۔آپ کی بیٹی فاطمہ نے کہا ،یہ مجھے دے دیجیے ،آپ نہ مانے ۔آپ کی زندگی میں اس کی یہی حیثیت رہی حتیٰ کہ آپ کی وفات ہو گئی۔جب ابو بکر خلیفہ بنے تو انھوں نے اس کی آں حضرت والی پوزیشن کو بر قرار رکھاپھر وہ وفات پا گئے۔دوسرے خلیفۂ راشدحضرت عمر خلیفہ نے آں حضور اور ابو بکر کا اسوہ اختیار کیا حتیٰ کہ وہ رب کے ہاں چلے گئے۔پھریہ مروان کو دے دیا گیا اور عمر بن عبدالعزیز کے پاس آ گیا ۔میں سمجھتا ہوں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو کام فاطمہ کے لیے منع کیا تھامیرے لیے کرنا جائز نہیں۔میں تم سب کوگواہ بنا کر فیصلہ کرتا ہوں کہ میں نے فدک اسی حالت میں لوٹا دیا ہے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا۔‘‘یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وارثوں کی حیثیت سے فدک کا نخلستان فاطمہ اور علی کی اولاد کے سپردکرتا ہوں۔
بیت المال میں سے پہلا مال جو عمر بن عبدالعزیزنے تقسیم کیا، وہ خان وادۂ رسول کو بھیجا ۔ان کے ہر مرد ،عورت ، بچے اور بڑے کو برابر حصہ ملا۔انھوں نے حسن بصری اور ابن سیرین کے بند کردہ وظیفے جاری کرنے کوکہا،حسن بصری نے وظیفہ قبول کر لیا جب کہ ابن سیرین نے یہ پیش کش قبول کرنے کے لیے بصرہ والوں کے وظیفے جاری کرنے کی شرط رکھی۔عمر بن عبدالعزیز نے جواب لکھا:’’ بیت المال اس کی استطاعت نہیں رکھتا ۔‘‘خارجہ بن زید کا بھی یہی معاملہ ہوا:انھوں نے کہا:’’میں اکیلے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔‘‘وہ مقروض لوگوں کے قرضے قرآن کی الغارمین کے لیے مقرر کردہ مد میں سے اتارتے۔ انھوں نے لوگوں کو فدیہ دے کر بھی چھڑایا ۔ایک دفعہ ۱۰ رومی دے کر ایک مسلمان کو چھڑایا۔کوئی امانت یا بیوی کا مہر ادا نہ کر سکتا تو بیت المال سے ادا کرتے۔ وہ بسا اوقات ایک ہی مد میں ساری زکوٰۃ خرچ کر ڈالتے۔انھوں نے غیر مسلموں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے عطیات بھی دیے حالانکہ حضرت عمر ان کا حصہ ساقط کر چکے تھے۔ آپ نے حضرت طلحہ کی جائداد بھی واپس کرائی جسے خلیفہ عبدالملک نے ضبط کر لیا تھا۔ عراق کا بیت المال لوگوں کے حقوق نمٹانے میں کھپ گیاچنانچہ عمر نے شام سے مال بھیجا۔بیت المال عطاؤں میں لٹنا بند ہوااور مساکین وغربا کوان کا حق ملنا شروع ہوا تو مانگنے اور لینے والے نہ رہے۔عبدہ بن ابو لبابہ نے سلیمان بن داؤدکو ۱۵۰درہم فقرا میں تقسیم کرنے کے لیے دیے ،وہ ماجشون سے مشورہ کرنے گئے تو انھوں نے کہا: ’’ میرے علم میں نہیں کہ آج ان میں کوئی محتاج رہا ہے۔عمر بن عبدالعزیز نے انھیں مال دار بنا دیا ہے۔‘‘عمر بن اسید کہتے ہیں: ’’عمربن عبدالعزیز کی وفات کے بعد یہ حال تھا کہ کوئی شخص بڑی رقم لے کر ہمارے پاس آتااور کہتا:’’ یہ فقرا میں جس طرح تم مناسب سمجھوبانٹ دو۔‘‘ہم ا سی کوشش میں ہوتے کہ وہ مال کے مستحق لوگوں کو یاد کر کے اپنا مال واپس لے جاتاتب انھیں بھی ڈھونڈ نہ پاتا۔عمر بن عبدالعزیز نے لوگوں کو بے نیاز کر دیا تھا۔‘‘

عفت واحتیاط

مسلمانوں کے مال سے اپنا دامن بچانے کے لیے خلافت راشدہ کا احیا کرنے والے عمر کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ بیت المال کے عطر کی خوش بو بھی نہ سونگھتے کہ ان کے نزدیک اس قدر فائدہ اٹھانا بھی حرام تھا۔وہ بدعت سے دور بھاگتے تھے۔ کسی کووہ کام نہ کہتے جس سے نماز کی ادائیگی دشوارہو جائے۔ ایک آدمی عمر بن عبدالعزیز کو گالیاں دے رہاتھا، اسے قید میں ڈال کر آپ سے اس کے قتل کی اجازت طلب کی گئی۔ عمرثانی نے جواب لکھا:’’ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو گالی دینے والے کو قتل نہ کیا جائے، تم اس آدمی کو گالی دیناچاہو تو دے لو اور چھوڑ دو۔‘‘ایک دفعہ یہ ہدایت بھیجی:’’ میرے لیے خصوصی دعا نہ کی جائے، بلکہ اہل ایمان کے لیے دعا مانگی جائے ،اگر میں ان میں سے ہوا تو دعا میں شامل ہو جاؤں گا۔‘‘

معاشی اصلاحات

عمر بن عبد العزیز نے یمن کے سابق حاکم، حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کی جانب سے عشر میں کیے ہوئے اضافے کو منسوخ کر دیا۔انھوں نے گزشتہ خلفا کی طرف سے ایلہ اور قبرص کے عیسائیوں کے خراج میں کیا جانے والا اضافہ بھی واپس لیا۔آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں سے ایک معاہدہ طے فرمایاتھاجس کی رو سے انھیں ان کے اپنے ملک میں امن وامان سے رہنے کی ضمانت دی گئی تھی اوردو ہزار کپڑوں کے جوڑے (حلے) سالانہ خراج مقررہوا تھا۔ان کی طرف سے بعض شرطوں کی خلاف ورزی پر خلیفۂ دوم حضرت عمر نے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا اور ان کو یمن منتقل کر دیا۔وہ دو ہزار حلے سالانہ دیتے رہے ، خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس میں دو سو حلوں کی کمی کر دی، کیونکہ کچھ لوگوں کے ا سلا م قبول کرنے سے اور کچھ کی وفات سے نجرانیوں کی آبادی کم ہو گئی تھی۔ عبد الرحمان بن محمد بن اشعث نے حجاج بن یوسف کے خلاف بغاوت کی تو اس نے خراج کے حلوں کی تعداد پھرسے بڑھا کراٹھارہ سو کر دی ،اس کا خیال تھا کہ یہ باغیوں کی مددکر رہے ہیں۔خلافت عمر بن عبد العزیز کے پاس آئی تو نجرانیوں نے اپنی تباہ حالی کی شکایت ان سے کی ،انھوں نے تخمینہ لگا کرصرف دو سوحلے خراج مقرر کیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے نظام مال گزاری کی اصلاح بھی کی۔ خلیفۂ ثانی عمر بن خطاب کا وضع کردہ یہ نظام نہایت موزوں تھا، لیکن یہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے کی ضروریات پوری نہ کرتا تھا۔ غیر عرب باج گزا ر مسلمان ہوجاتے تو خراج سے مستثنیٰ ٹھہرتے۔بہت سے نو مسلم اپنے دیہات چھوڑ کر شہروں میں بس گئے ،اس طرح کاشت کاری کو نقصان پہنچا ۔حجاج نے اس دشواری کو حل کرنے کے لیے مسلمان مالکان اراضی پر بھی خراج عائد کر دیا تھا اورشہروں کو نقل مکانی روک دی تھی، لیکن ا س سے عام لوگوں میں ناراضی پید ا ہو گئی تھی۔عمر بن عبدالعزیز نے مسلمانوں پر خراج عائد نہ کرنے کے حکم کی خلاف ورزی نہ کی ۔اس کے بر عکس انھوں نے قراردیا کہ ممالک مفتوحہ مسلما نوں کی مشترکہ ملکیت ہیں، ان کے ٹکڑے کیے جائیں نہ ذاتی جائداد کے طور پران کو بیچا جائے ۔۱۰۰ھ (۷۱۸ء)میں انھوں نے مسلمانوں پر خراج عائدہونے والی اراضی خریدنے کی ممانعت کر دی۔ انھوں نے اس قانون کا اطلاق ماضی پر نہ کیا۔ نومسلموں کو انھوں نے شہر وں میں آباد ہونے سے نہ روکا، البتہ انھیں اپنے علاقوں کو آباد رکھنے کی ترغیب دی۔ ان کاآخری خطبہ تھا ،’’اے لوگو!اپنے علاقوں میں رہو۔میں تمھیں تمھارے شہروں میں سب سے زیادہ یاد آؤں گااور یہاں (دارالخلافہ) رہ کر سب سے زیادہ بھولا رہوں گا۔‘ ‘ خراج سے متعلق ان کے وضع کردہ قوانین ان کے بعد باقی نہ رہے کیونکہ خراجی زمین کے ناقابل انتقال ہونے کا اصو ل ہمیشہ برقرار نہ رہ سکتا تھا ۔ انھوں نے جنگ خراسان میں حصہ لینے والوں کو تنخواہ دی اور مال گزاری کی ادائیگی سے مستثنیٰ کر دیا۔عمر بن عبدالعزیز نے جیلوں کی اصلاح کے احکام بھی دیے،مجرموں اور مالی معاملات کے قیدیوں کو الگ الگ رکھنے کا حکم دیا۔
ان کے دور حکومت میں اہم عسکری کارنامے بھی انجام پائے ۔اسلامی فوجیں کوہ البرانس (Pyrenees) عبور کر کے جنوبی فرانس میں داخل ہو گئیں اور بہت مال غنیمت لے کر واپس آئیں ۔
خلیفہ ولید نے دمشق میں موجود یوحنا مصبّغ کے کنیسہ باسلق Basilika) (کومنہدم کر کے اس کی اراضی کو جامع اموی میں شامل کر لیا تھا ۔ عمر کے خلیفہ بننے کے بعد عیسائیوں نے کنیسہ چھننے کی شکایت کی تو عمر نے اس کے بدلے میں دوسر ے کلیسا عیسائیوں کے حوالے کیے جن میں سینٹ ٹامس کا کلیسا بھی شامل تھا۔
عمر بن عبدالعزیز کے اپنے عاملوں کو خطوط کسی کا حق واپس کرنے، کسی سنت کا احیا کرنے ،بدعت کاقلع قمع کرنے،سخاوت یانیکی کی تلقین پر مبنی ہوتے۔انھوں نے عدی بن عدی کو خط لکھا ،’’اسلام کی کچھ سنتیں ،قوانین اور فرائض ہیں ۔جس نے انھیں مکمل کر لیا، اس نے ایمان کی تکمیل کر لی ۔جس نے ان کومکمل نہ کیا، اس نے ایمان کی تکمیل نہ کی ۔اگر میں زندہ رہا،تمھیں وضاحت سے بتاؤں گا تاکہ تم ان پر عمل کرو۔اور اگرمیں مر گیا تو مجھے تمھاری صحبت کی حرص نہیں۔‘‘ایک بار لکھا ، ’’میرا یہ نفس شوقین مزاج ہے ۔اسے دنیا میں کوئی چیز بھی ملی تو اس نے اس سے بہتر کی خواہش کی۔جب وہ کچھ مل گیا جس سے بہتر دنیا میں کچھ نہیں تو نفس نے ا س سے بہتر کی خواہش کی۔‘‘ سعیدبن عامر کا کہنا ہے ،’’اس کا مطلب ہے ،’’جنت خلافت سے بہتر ہے۔‘‘

تقویٰ

عمر بن عبدالعزیز پر خوف خدا اور تقویٰ غالب تھا ، انھیں ہر د م اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا احساس رہتا تھا۔ان کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک نے کہا ،’’ عمر سے بڑھ کر اپنے رب سے ترساں شخص میں نے نہیں دیکھا،عشا کی نماز پڑھنے کے بعد مسجدمیں لیٹے رہتے ، دعائیں مانگتے اور آہ وزاری کرتے حتیٰ کہ نیند کا غلبہ ہو جاتا ،بیدار ہوتے توپکارتے اور گریہ کرتے حتیٰ کہ پھر سو جاتے،اسی طرح صبح ہو جاتی۔ ‘‘ایک بار مسور کھانے سے ان کے پیٹ میں درد ہواتو کہا،’’ میر ا پیٹ گناہوں میں ملوث ہو گیا ہے۔‘‘ خلیفہ بننے سے اپنی وفات تک انھوں نے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایااور بیت المال سے ایک پائی بھی نہیں لی۔ان کے پاس ایک ہی چادر تھی جسے جمعے کے دن دھوتے او ر کچھ زعفران لگالیتے۔ خلافت کے بعد ان کے کپڑوں عمامہ ،قمیص،قبا،موزوں اورچادر سب کی کل مالیت ۱۲ درہم لگائی گئی۔ جب عوام کے کام کی خاطر رات جاگتے تو بیت المال کاچراغ جلاتے اورجب رات کو اپنا ذاتی کام کرتے تو ذاتی چراغ جلاتے۔ ایک رات کام کرتے ان کا چراغ ٹمٹانے لگا تو اسے درست کرنے اٹھے ۔کہا گیا ،’’اے امیرالمومنین !ہم یہ کام کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘ان کا جواب تھا، ’’جب میں یہ کام کرنے اٹھا تھا توبھی عمر تھا اور اب بیٹھا ہوں تو بھی عمرہوں۔‘‘ان کا غلام کہنے لگا ،’’میرے اور آپ کے علاوہ تمام لوگ خیریت سے ہیں۔‘‘تو اسے آزاد کر دیا۔ عمر کی اہلیہ کے پاس ایک قیمتی پتھر تھا۔عمر نے پوچھا ،’’یہ تمھارے پاس کہاں سے آیا ہے ؟انھوں نے کہا، ’’ یہ مجھے امیر المومنین عبد الملک بن مروان نے دیا ہے۔‘‘آپ نے کہا،’’ اسے بیت المال واپس کر دو یامجھے اپنے آپ سے الگ ہونے کی اجازت دے دوکیونکہ میں ،تم اور یہ پتھر ایک گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔‘‘اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملک نے جواب دیا ،’’میں آپ کو ان جیسے کئی جواہرات پر ترجیح دیتی ہوں اگر میرے پاس ہوں۔‘‘جب عمرکی وفات کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ بنا تو اس نے یہ پتھر اپنی بہن کو واپس دینے کی پیش کش کی، لیکن انھوں نے لینے سے انکار کر دیا۔دمشق کی مسجد میں کھڑے ہوکر انھوں نے بلند آواز سے کہا، ’’اﷲ کی معصیت کرنے میں ہماری بات نہ مانی جائے ۔‘‘ایک بار وعظ میں فرمایا ،’’اﷲ کا تقویٰ ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے، لیکن اس کا کوئی بدل نہیں۔‘‘خلافت ملنے کے بعد ان کا زہدنکھرگیا تھا ،ہر دم لوگوں کو آخرت کی یاد دلاتے۔میمون بن مہران نے عمر سے کہا، ’’رات کا پہلا حصہ آپ لوگوں کی ضروریات میں لگے رہتے ہیں ،درمیاں رات میں اپنے ہم نشینوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور آخری رات میں اﷲ بہتر جانتا ہے کہ کس کام میں مشغول رہتے ہیں ۔‘‘ان کی مراد تہجد کی مصرو فیت تھی۔ آپ کہا کرتے تھے،’’اﷲ کا تقویٰ محض دن کے روزے اور رات کی تہجد نہیں، بلکہ اﷲ کا تقویٰ اﷲ کی حرام کردہ چیزوں کو چھوڑنا اور فرض ٹھہرائی چیزوں کو ادا کرنا ہے۔ ان کے بعد جسے خیر کی توفیق ملی ،یہ خیر کا خیر سے مل جانا ہے ۔ ‘‘علی بن بذیمہ کہتے ہیں، ’’میں نے عمر بن عبدالعزیز کو مدینے میں دیکھا ،وہ بہترین لباس پہنے اورعمدہ خوش بو لگائے ہوئے تھے،سب سے زیادہ کڑی چال رکھتے تھے پھر میں نے (ان کے دور خلافت میں) انھیں دیکھا کہ راہبوں کی طرح عاجزانہ چال چل رہے تھے۔ایک آدمی نے سعید بن مسیب سے پوچھا ،’’ابو محمد!مہدی کون ہے؟‘‘انھوں نے کہا، ’’کیا تو مروان کے گھر گیا ہے؟‘‘اس نے کہا ،’’نہیں۔‘‘ سعید نے کہا،’’تب تو مروان کے گھر جا،مہدی دیکھ لے گا۔‘‘ تبھی عمر بن عبدالعزیز نے عام لوگوں کو اپنے پاس بلایا ۔وہ آدمی بھی گیا ،اس نے دیکھا ،خلیفہ بیٹھا ہے اور لوگ اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ واپس سعید بن مسیب کے پاس آیااور کہا ،’’اے ابو محمد!میں مروان کے گھر گیا ہوں۔ میں نے کسی کو یہ کہتے نہیں سنا ،’’یہ مہدی ہے۔ ‘‘انھوں نے پوچھا ،’’کیا تو نے پیشانی کے گھاؤ والے عمر بن عبدالعزیز کو تخت پر بیٹھے دیکھا ہے؟‘‘اس نے کہا،’’ہاں۔‘‘سعید نے کہا،’’وہی تو مہدی ہیں۔‘‘ محمد بن علی کہتے ہیں ،’’نبی ہم(بنو ہاشم) میں سے تھے اور مہدی(عمر بن عبد العزیز) بنو عبد شمس میں سے ہے۔‘‘
عمر سے استفادہ کرنے والے
عمر بن عبدالعزیز سے حدیث روایت کرنے والوں میں یہ اصحاب شامل ہیں: ابراہیم بن ابو عبلہ،ابراہیم بن یزید،اسماعیل بن ابو حکیم،ایوب سختیانی،تمام بن نجیح،توبہ عنبری، ثروان (ان کے آزاد کردہ غلام)،حکم بن عمر رعینی،حمیدطویل،رحا بن حیوہ،رزیق بن حیان،روح بن جناح،زبان بن عبدالعزیز(ان کے بھائی)،زیاد بن حبیب،سلیمان بن داؤد، ابو واقد لیثی،صخر بن عبداﷲ،عبداﷲ بن عمربن عبد العزیز،عبدالعزیز بن عمربن عبدالعزیز (ان کے دو بیٹے)،عبد اﷲ بن علا،عبد اﷲ بن محمد،عبد الملک بن طفیل،عثمان بن داؤد خولانی،عمر بن عبدالملک،عمرو بن عامر بجلی،عمروبن مہاجر،عمیر بن ہانی،عنبسہ بن سعید،عیسیٰ بن ابو عطا،غیلان بن انس،لیث بن ابو رقیہ،مالک بن زیاد، محمدبن زبیر،محمدبن ابو سوید ثقفی،محمد بن قیس،محمد بن مسلم زہری،محمد بن منکدر،مروان بن جناح ،مسلمہ بن عبداﷲ، مسلمہ بن عبدالملک بن مروان(عمر کے چچا زاد)،نضر بن عربی،نعیم بن عبداﷲ،نوفل بن فرات، ہلال ابو طعمہ، ولید بن ہشام معیطی،یحییٰ بن سعید ،یزید بن عبدالرحمان،یعقوب بن عتبہ،ابو بکر بن محمد،ابو سلمہ بن عبد الرحمان(جو ان کے استادبھی ہیں) اورابو صلت۔
ابن سعد نے عمر بن عبدالعزیزکو تابعین مدینہ کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے۔

خصائل ذاتی

عمر بن عبدالعزیز کا رنگ گندمی تھا ،چہرہ دبلا اور خوب صورت تھا ،جسم کم زور تھااور آنکھیں گہری تھیں،وقت سے پہلے بوڑھا ہونے کی وجہ سے بال کھچڑی ہو چکے تھے۔ مونچھیں بہت چھوٹی نہ کرتے۔خوش بو لگا لیتے تھے۔ پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے۔داؤد بن ابو ہند کہتے ہیں،’’عمر بن عبدالعزیز مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ایک آدمی نے کہا،فاسق حکمران مروان بن حکم نے اپنا یہ بیٹا ہمارے پاس بھیج دیا ہے ،سنتوں اور وراثت کا علم سیکھ رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ مرنے سے پہلے خلیفہ ضرور بنے گااور عمر بن خطاب کی سیرت پر ڈھل جائے گا۔بخدا ان کی وفات سے پہلے ہم نے یہ سب باتیں پوری ہوتی دیکھ لیں۔ ‘‘انھیں علما کا معلم کہا جاتا ہے۔محمد بن علی کہتے ہیں،’’ہر قوم کا ایک عزت مند سردارہوتا ہے، بنو امیہ کے سردار عمر بن عبدالعزیز ہیں۔‘‘ان کے خاص معتمد ین میں میمون بن مہران، رجا بن حیوہ اور ریاح بن عبیدہ کندی تھے۔ان کے بعد عمرو بن قیس ،عون بن عبداﷲ بن عتبہ اور محمد بن زبیر حنظلی کے نام آتے ہیں۔ ہر وقت مصحف کا مطالعہ جاری رکھتے۔

کچھ علمی آرا

جب نماز قصر نہ کرتے تو جمعہ ضرور پڑھاتے۔ابو محلی کی تلوار پر لگی چاندی اتروا کرلوہا لگوایا۔مسلمان ہونے والے ذمی سے جزیہ لینے کی سخت مخالفت کرتے۔ جومسلمان دشمنوں کے علاقے میں چوری کر کے آتا، اسے بھی ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتے۔ انھوں نے حربی زمین میں کیے جانے والے جرائم میں شرا ب پینے اور قذف کی حدیں بھی جاری کیں۔ اخلاقی مجرموں کو بیڑیاں پہنانے کو کہتے۔رفع یدین کرتے ،سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھتے،خطبۂ جمعہ بلند آواز سے پڑھتے۔ خود عالم اور مجتہد تھے ،اکثر لوگوں کو مسائل سمجھاتے۔عمر بن عبدالعزیز ایام حج میں مکہ کے گھروں کو کرایے پر اٹھانے سے منع کرتے تھے۔آپ نے ایک ذمی کے حق میں شفعے کا فیصلہ کیا۔
پانچویں خلیفۂ راشد نے قاضی کے منصب کا اہل ہونے کے لیے پانچ شرطیں تجویز کیں:۱۔ وہ ذہین اور سمجھ دار ہو۔۲۔ بردبار ہو۔۳۔پاک دامن ہو۔۴۔ دباؤ برداشت کر سکتا ہو۔۵۔عالم ہو سوالات کا سامنا کر سکتا ہو۔
دوسری روایت میں ۱۔اور ۴۔ کی جگہ یہ دو شرطیں ہیں؛اہل رائے سے مشورہ کرتا ہو،لوگوں کی ملامت سے بے نیاز ہو۔عمر بن عبدالعزیز حدوداﷲ کے علاوہ ۳۰ دروں سے زیادہ سزا دینے سے منع کرتے ۔

وفات

عمر بن عبدالعزیز نے ۲۹ مہینے(دو سال پانچ ماہ پندرہ دن)حکومت کی ، حضرت ابو بکر صدیق کا دور خلافت بھی اتنے عرصے کو محیط ہے۔ ۲۰ دن بیمار رہ کر۲۰ رجب ۱۰۱ھ (فروری ۷۲۰) میں ۳۹سال۵ ماہ کی عمر میں فوت ہوئے اور حلب کے قریب دیر سمعان میں دفن ہوئے۔ان کی بیوی سے پوچھا گیا ،’’ آپ کے خیال میں عمر بن عبدالعزیز کا مرض الموت کیسے شروع ہوا؟ انھوں نے کہا ،’’ میرے خیال میں خوف(آخرت)اس کی ابتدا تھی۔ان کے طبیب سے ان کے پیشاب کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا،’’ان کے پیشاب کو کچھ نہیں ہوا،یہ تو محض لوگوں کے معاملات کا فکر ہے۔‘‘ایک مصنف نے لکھا ہے، انھیں خشیت الٰہی نے مار ڈالا۔اپنی قبر کی جگہ وفات سے دس دن پہلے انھوں نے خود ۱۰ دینار میں خریدی ۔ انھوں نے اپنے جا نشین یزید بن عبدالملک کو خط لکھا،’’السلا م علیکم! میں اپنی وجہ ہی سے اپنے آپ کو اس حالت میں پاتاہوں۔ خلافت لامحالہ تمھیں ہی ملے گی۔امت محمدی کے بارے میں اﷲ سے ڈرنا۔مبادا دنیا میں وہ لوگ چھوڑ جاؤجو تمھیں اچھا نہ سمجھیں اور تمھاری مجبوریاں نہ سمجھیں۔‘‘ عمر بن عبدالعزیز کی وصیت تھی:’’انھیں پانچ سوتی کپڑوں کا کفن پہنایا جائے۔‘‘اپنے اہل خانہ کو بھی وہ یہی کفن پہنایا کرتے تھے۔ انھوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کچھ بال اور ناخن منگوائے اور ان کو بھی کفن میں رکھنے کی وصیت کی۔کفن کو خوش بو لگانے سے منع کیا۔مرنے سے پہلے یہ آیت تلاوت کی:’تلک الدار الآخرۃ نجعلہا للذین لا یریدون علوا فی الارض ولا فساداً والعاقبۃ للمتقین‘(قصص۲۸:۸۳) ’’یہ آخرت والا گھر ہم ان لوگوں کو دیں گے جو زمین میں سرکشی کرنا چاہتے ہیں نہ فساداور اچھا انجام متقیوں ہی کا ہو گا۔‘‘یہ دعا بھی مانگی ،’’ اے اﷲ !ان گھر والوں سے میری موت مخفی رکھنا، چاہے دن کی کوئی گھڑ ی ہی ہو۔‘‘رجا بن حیوہ کو غسل دینے ،کفن پہنانے اورقبر میں اترنے کی تلقین کی۔قبر کو گہراکرنے سے منع کیا۔وفات کے وقت عمر بن عبدالعزیز نے کہا،’’اگر مجھے خلیفہ بنانے کا ذرا بھی اختیار ہوتا تو قاسم بن محمد بن ابوبکر کے علاوہ کسی کو نہ بناتا۔اس ضمن میں انھوں نے اسماعیل بن عمرو بن سعیدبن عاص کا نام بھی لیا۔
عمر بن عبد العزیزکی وفات کے بعد فقہاتعزیت کرنے کے لیے ان کی بیوہ کے پاس آئے اور ان کی گھریلو زندگی کے بارے میں پوچھا ۔انھوں نے بتایا،’’عمر کثرت سے نفلی نمازیں پڑھتے نہ روزے رکھتے، لیکن بخدا میں نے ان سے زیادہ خوف خدارکھنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔بستر پر لیٹے لیٹے انھیں رب کا کوئی حکم یاد آجاتا تواس طرح پھڑپھڑاتے جیسے پانی میں گرنے والا پرندہ پھڑپھڑاتا ہے۔ پھر ان کی گھگی بندھ جاتی اوربلند آواز سے رونا شروع کر دیتے ۔کاش ہمارے اور اس خلافت کے بیچ بعد المشرقین ہوتا۔ بخدا جب سے ہم اس میں مبتلا ہوئے، خوشی نہ دیکھی۔
ہیثم بن عدی نے سن وفات ۱۰۲ھ بتایا ۔ان کے چچا زاد یزید بن عبدالملک ان کے جا نشین ہوئے۔ بنو عباس کے اقتدار میں آنے کے بعد اموی خلفا کی قبروں کی بے حرمتی کی گئی تو ان کی قبر کو ہاتھ بھی نہ لگایا گیا۔ عباسی دور کے مورخین دوسرے اموی حکمرانوں کے بر عکس ان کی مذمت نہیں کرتے ۔
کچھ اہل تاریخ کا خیال ہے کہ عمر بن عبدالعزیزایک خیالی نصب العین پر چلتے رہے ۔جو تخریبی قوتیں بنو امیہ کے زوال کا باعث بنیں ان کی دینی حمیت اور انصاف پسندی کی وجہ سے وقتی طورپر رک گئیں۔ان کی وفات کے بعد یہ پھر سے سر گرم ہو گئیں ۔
مصادر مضمون:طبقات ابن سعد،تہذیب الکمال (مِزِی)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(دانش گاہ پنجاب)۔

-----------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت دسمبر 2005
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Aug 25, 2016
5465 View