نکاح سے پہلے دی جانے والی طلاق کا حکم - عمار خان ناصر

نکاح سے پہلے دی جانے والی طلاق کا حکم

 سوال: اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے یا کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو کیا ایسی صورت میں نکاح کے بعد طلاق واقع ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب: حنفی فقہا کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر نکاح سے پہلے آدمی طلاق دے دے تو وہ نکاح کے بعد واقع ہو جائے گی۔ اس کے مقابلے میں جمہور صحابہ، جمہور تابعین، جمہور محدثین اور فقہا کی رائے یہ ہے کہ ایسی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔ احناف کا استدلال اس ضمن میں بعض صحابہ کے فتووں سے ہے، جبکہ جمہور کے موقف کے حق میں صاف اور صریح احادیث موجود ہیں جو حسب ذیل ہیں:

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : لا طلاق فی ما لا یملک ولا عتاق فی ما لا یملک (مستدرک حاکم، ۰۲۸۲) ”آدمی جس عور ت کا مالک نہ ہو، اس کو دی گئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں اور جس غلام کا مالک نہ ہو، اس کو آزاد کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔“

دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’من طلق ما لا یملک فلا طلاق لہ‘ (مستدرک ۲۲۸۷) یعنی جس شخص نے اس عورت کو طلاق دی جو اس کی ملکیت میں ہی نہیں تو اس کی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔

جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لا طلاق لمن لم یملک ولا عتاق لمن لم یملک (مستدرک حاکم، ۹۱۸۲) ”جو شخص عورت کا مالک نہ ہو، اس کی کوئی طلاق نہیں اور جو شخص غلام کا مالک نہ ہو، اس کے آزاد کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔“

معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: لا طلاق الا بعد نکاح (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۵۶۴۱) ”طلاق، نکاح کے بعد ہی ہو سکتی ہے۔“

سیدنا علی سے ایک شخص نے پوچھا کہ میں نے یہ کہا ہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے۔ سیدنا علی نے کہا، اس سے شادی کر لو۔ طلاق نہیں ہوگی۔ (بیہقی، ۰۶۶۴۱)

عبد اللہ بن عباس کو بتایا گیا کہ عبد اللہ بن مسعود کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو طلاق ہو جائے گی۔ ابن عباس نے کہا کہ ابن مسعود ایسا نہیں کہہ سکتے، اور اگر انھوں نے کہا ہے کہ ایک عالم سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’اذا نکحتم المومنات ثم طلقتموہن‘ یعنی جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انھیں طلاق دو۔ یہ نہیں کہا کہ پہلے طلاق دے دو اور پھرنکاح کرو۔ (مستدرک، ۱۲۸۲)

تابعین کے دور میں ایک شخص نے غصے میں یہ کہہ دیا کہ اگر میں اپنی چچا زاد بہن سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔ اس کے بعد اس نے باری باری اس کے بارے میں اکابر فقہاے تابعین سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابوبکر بن عبد الرحمن، عبید اللہ بن عبد اللہ اور عمر بن عبد العزیز سے دریافت کیا۔ ان سب نے کہا کہ طلاق نہیں ہوگی۔ (بیہقی، ۶۶۶۴۱) امام محمد نے نقل کیا ہے کہ تابعین کے دور میں اسی طرح کے ایک واقعہ میں حجاز یعنی مکہ اور مدینہ کے علما سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایسی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ (کتاب الآثار، ۸۰۵) خود امام ابوحنیفہ کے استاد حماد اور ان کے استاد ابراہیم نخعی کی رائے یہ تھی کہ اگر اس شخص نے کسی خاص عورت کا نام لیا ہو یا کسی خاص قبیلے کا ذکر کیا ہو تو پھر طلاق ہو جائے گی، لیکن اگر اس نے مطلقاً ہر عورت کے بارے میں یہ کہا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، ۱۷۴۱۱)

امام ترمذی نے لکھا ہے کہ صحابہ میں سے اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور یہ فتویٰ حضرت علی، ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ تابعین میں سے سعید بن مسیب، حسن بصری،سعید بن جبیر، علی بن الحسین، قاضی شریح اور جابر بن زید وغیرہ سے مروی ہے۔ (ترمذی، ۱۸۱۱) یہی فتویٰ حضرت عائشہ کا بھی ہے۔ (بیہقی، ۵۶۶۴۱)

اصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ کے سامنے وہ احادیث نہیں تھیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی طلاق کو لغو قرار دیا ہے، چنانچہ امام محمد نے اپنی کتابوں میں بعض صحابہ یعنی سیدنا عمر اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ کے فتووں ہی سے استدلال کیا ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ ان صحابہ کے سامنے بھی آپ کا یہ ارشاد نہیں تھا۔ امام محمد کا طریقہ یہ ہے کہ اگر احناف کی رائے کے خلاف کوئی حدیث منقول ہو تو وہ اس کی بھی باقاعدہ تشریح کرتے ہیں، لیکن اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے موطا، کتاب الآثار اور الحجة علیٰ اہل المدینہ میں کسی جگہ بھی ان احادیث کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بعد کے حنفی فقہا کے سامنے جب یہ احادیث آئیں تو انھوں نے ان کی تاویل سے کام لیا اور کہا کہ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح کی طرف نسبت کیے بغیر یہ کہے کہ فلاں عورت کو طلاق ہے تو ایسی طلاق نہیں ہوگی، لیکن اگر وہ یہ کہے کہ جب میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو طلاق ہو جائے گی۔ لیکن یہ تاویل خود احناف کے اصولوں کے خلاف ہے، کیونکہ ایک تو کسی شخص کا کسی اجنبی عورت کو خواہ مخواہ طلاق دے دینا کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں جس کی وضاحت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت محسوس فرماتے۔ ایسی صورت میں اس کے کلام کا لغو ہونا بالکل واضح ہے۔ یہ سوال پیدا ہی تب ہوتا ہے جب وہ نکاح کے ساتھ مشروط کر کے کسی عورت کو طلاق دے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صورت کا حکم بیان فرمایا ہے، وہ یہی صورت ہے نہ کہ پہلی صورت۔

دوسرے یہ کہ بعض روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بیان ہی اس موقع پر کیا جب کسی شخص نے کہا کہ اگر میںفلاں عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے کہا کہ میں جس دن فلاں عورت سے نکاح کروں، اسے طلاق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس نے اس عورت کو طلاق دی ہے جس کا وہ مالک ہی نہیں (دارقطنی، ۴/۶۱) یعنی اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ، میری والدہ نے مجھے اپنی ایک رشتہ دار خاتون سے نکاح کرنے کے لیے کہا تو میں نے کہا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں تو اسے تین طلاقیں۔ آپ نے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے تم اس کے مالک تھے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، اس سے نکاح کر سکتے ہو۔ (دارقطنی، ۴/۹۱) ان روایات کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن ضعیف حدیث سے اگر کسی صحیح حدیث کی تشریح میں مدد لی جائے تو وہ قابل قبول ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ کا اصول بھی یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو صحابہ کے فتووں اور قیاس پر ترجیح دیتے ہیں۔

تیسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو نقل کرنے والے دو صحابیوں سیدنا علی اور عبد اللہ بن عباس نے بھی ان کا مطلب یہی سمجھا ہے اور اسی بنیاد پر یہ فتویٰ دیا ہے کہ ایسی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں۔ جو صحابی کسی حدیث کا راوی ہو، اس کے فہم کا فقہا کے ہاں خاص اعتبار ہوتا ہے، جبکہ یہاں حدیث کا یہ مفہوم سمجھنے والے سیدنا علی اور عبد اللہ بن عباس جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی ہیں۔ 

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 2 نومبر 2016
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Dec 01, 2016
2782 View