قراء ت کا اختلاف - جاوید احمد غامدی

قراء ت کا اختلاف

دین و دانش

ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں لکھا ہے کہ قرآن صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبت ہے اور جسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑ کر پوری دنیا میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت بغیر کسی ادنیٰ اختلاف کے تلاوت کر رہی ہے۔ اِس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ برسبیل تنزل اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن صرف وہی ہے اور مسلمانوں کے عوام ہمیشہ سے اُسی کو پڑھتے اور پڑھاتے رہے ہیں تو اُن کے علما کا طرزعمل اِس سے مختلف کیوں ہے؟ یہ آخر کس طرح ہوا کہ تفسیر، حدیث اور فقہ کے ائمہ اِن علوم کی ابتدا ہی سے قرآن کی متعدد قراء توں کو ایک ہی درجے میں رکھ کر اُن میں سے جس کو چاہتے، اپنے ذوق و رجحان کی بنیاد پر ترجیح دیتے رہے ہیں، یہاں تک کہ امام مالک اور امام شافعی جیسے جلیل القدر فقہا اور محدثین بھی یہ کہنے میں کوئی تردد محسوس نہیں کرتے کہ اُن میں سے ایک کے نزدیک نافع اور دوسرے کے نزدیک ابن کثیر کی قراء ت مرجح ہے۔
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ اِن ائمہ سے بہت پہلے مسلمانوں کے علما کی بڑی اکثریت یہ راے قائم کر چکی تھی کہ اخبار آحاد سے ملنے والے علم کی تحصیل عام مسلمانوں کے لیے تو بے شک ضروری نہیں ہے، لیکن اُن کے علما اور خواص کے لیے بہرحال ضروری ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کی نسبت پر مطمئن ہو جانے کے بعد اخذ و استدلال کے لحاظ سے اُس میں اور اُس علم میں کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا جو مسلمانوں میں شائع و ذائع ہے اور عامہ سے عامہ کو منتقل ہو رہا ہے۔ امام شافعی اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

وعلم الخاصۃ سنۃ من خبر الخاصۃ یعرفھا العلماء، ولم یکلفھا غیرھم، وھی موجودۃ فیہم أوفی بعضھم بصدق الخاص المخبر عن رسول اللّّٰہ بھا، وھٰذا اللازم لأھل العلم أن یصیروا إلیہ. (رقم ۱۳۳۰)
’’اور خواص کا علم وہ سنت ہے جو اُنھی کی خبر سے ملتی ہے، جس کو علما جانتے ہیں اور جس کے جاننے کا مکلف عام لوگوں کو نہیں ٹھیرایا گیا۔ یہ سنت تمام علما کے پاس یا اُن میں سے بعض کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی قابل اعتماد خبر دینے والے کی خبر سے موجود ہوتی ہے اور یہ وہ علم ہے جس کی طرف اہل علم کو لاز ماً رجوع کرنا چاہے۔‘‘

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد جب بعض ثقہ لوگوں نے یہ بیان کرنا شروع کیا کہ اُنھوں نے، مثال کے طور پر، فاتحہ (۱) کی آیت ۳ میں کسی صحابی سے لفظ ’مٰلِک‘ کو بادشاہ کے معنی میں ’مَلِک‘ اور بقرہ (۲) کی آیت ۱۰ میں ’یَکْذِبُوْنَ‘ کو ذال کی تشدید کے ساتھ ’یُکَذِّبُوْنَ‘ اور نساء (۴) کی آیت ۱۲ میں ’یُوْصٰی‘ کو مبنی للفاعل بھی سنا ہے تو اہل علم کے حلقوں میں اِس کو اُسی طرح قبول کیا گیا، جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دوسرے اقوال و افعال کے اخبار قبول کیے جا رہے تھے۔ اِس کا سبب بھی بالکل واضح تھا۔ وہ اگر قرآن کے معاملے میں اِن اخبار کو قبول نہ کرتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات اور فیصلوں اور آپ کی تفہیم و تبیین اور اسوۂ حسنہ سے متعلق اخبار کو قبول کرنے کے لیے بھی اُن کے پاس کوئی وجہ باقی نہیں رہ سکتی تھی، الّا یہ کہ کسی نص سے اِس تفریق کا جواز پیش کیا جائے۔
قرآن مجید میں مختلف قراء توں کا چرچا علماے تابعین کی اِسی راے کی بنا پر ہوا۔ پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ علم قراء ت کے جو ماہرین مسلمانوں میں پیدا ہو رہے تھے، اُن میں کچھ ایسے لوگ بھی نمایاں ہونے لگے جنھوں نے صرف اِسی بات پر اکتفا نہیں کی کہ اہل عرب کے لہجے اور اظہار، اخفا، ادغام، امالہ، تفخیم اور اشمام و اتمام وغیرہ میں اُن کے طریقوں کی رعایت سے قرآن پڑھنا سیکھ لیں، بلکہ اِ س سے آگے بڑھ کر قرآن سے متعلق ’علم الخاصۃ‘ کے اُنھی اخبار میں سے، جن کا ذکر اوپر ہوا، بعض کو بعض پر ترجیح دے کر اُنھوں نے اپنی ایک خاص قراء ت بھی مرتب کر ڈالی جو اُسی طرح اُن کے نام سے مشہور ہو گئی، جس طرح امام مالک، امام شافعی اور دوسرے ائمہ کی فقہ اُن کے نام سے مشہور ہے۔ علم قراء ت کے اِن ماہرین کو اِسی بنا پر اصحاب اختیار کہا جاتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا اور یہی ہونا چاہیے تھا کہ علم کے طالب اُن کے اِس اختیار کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اُن سے رجوع کرنے لگے، بالکل اُسی طرح، جس طرح وہ ائمۂ فقہ سے اُن کی فقہ اور ائمۂ حدیث سے حدیث سیکھنے کے لیے رجوع کرتے تھے۔ پھر یہی نہیں، بارہا ایسا بھی ہو ا کہ اُنھوں نے یا اُن کے بعد اُن کے شاگردوں میں سے کسی نے اُس زمانے کے علمی مراکز، مثلاً مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور دمشق وغیرہ میں سے کسی شہر کو اپنا مستقر بنا لیا تو اُس شہر کے علما اور قرا میں اُس کے اختیار کو ایسی مقبولیت حاصل ہو گئی کہ اُس کے متعلق کہا جانے لگا کہ اِس شہر کے لوگ اُس کی قراء ت پر ہیں۔ اِس تعبیر میں لوگوں سے مراد علما اور قرا ہی تھے، اِس کا عامۃ الناس سے ہرگز کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اِس طرح کی چیزوں کو اِس طریقے سے ترک یا اختیار نہیں کرتے۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ یہ صورت حال تبدیل بھی ہوتی رہتی تھی اور اُسی شہر کے اہل علم کچھ عرصے کے بعد کسی دوسرے قاری کی قراء ت کو اختیار کر لیتے تھے اور یہی سبب ہے کہ اِن علمی مراکز سے باہر پوری مسلم دنیا میں نہ کوئی دوسری قراء ت کہیں ملتی ہے اور نہ اِس طرح کے کسی ترک و اختیار کے کوئی آثار کہیں دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ اِس سے مستثنیٰ صرف قیروان ہے، جہاں قاضی عبداللہ بن طالب نے تیسری صدی ہجری کے آخر میں یہ حکم جاری کر دیا کہ لوگوں کو صرف نافع کی قراء ت پڑھائی جائے گی۔* لہٰذا عام مسلمان بھی اِس کے بعد قیروان اور اُس کے زیراثر مغرب کے بعض علاقوں میں اِسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھنے کے لیے مجبور ہو گئے اور آج تک پڑھ رہے ہیں۔ اِس حکم کا باعث غالباً یہ ہوا کہ یہ لوگ فقہ مالکی کے پیرو تھے اور امام مالک کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ وہ قراء ت میں نافع کے اختیار کو ترجیح دیتے تھے۔
یہی معاملہ بعض چھوٹی چھوٹی بستیوں میں علما کے زیراثر بھی ہوا۔ تاہم یہ معدودے چند مقامات تھے اور اِس وقت بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔ اِن کے سوا باقی دنیا میں عام مسلمان کبھی اِن تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوئے اور نہ علما نے اُنھیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ دونوں اپنے اپنے طریقے پر چلتے رہے۔ چنانچہ تفسیر، حدیث، فقہ اور دوسرے علوم میں قرآن کی مختلف قراء توں سے استفادے کی روایت صدیوں تک بغیر کسی انقطاع کے قائم رہی اور آج بھی بڑی حد تک قائم ہے۔ علما اپنے مباحث، تصنیفات، مجالس اور مدارس میں اِس کا اظہار کرتے اور قرا حضرات آج بھی سات، دس، بلکہ اِس سے بھی زیادہ قراء توں پر قرآن کی تلاوت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ عام مسلمانوں میں شائع و ذائع قرآن ایک ہی ہے۔ اُنھوں نے اِسے عامۂ صحابہ سے لیا تھا اور امام شافعی کی تعبیر کے مطابق نسلاً بعد نسلٍ عامہ سے عامہ کو منتقل کر رہے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِسے حفص کی روایت بھی کہا جا تا ہے، مگر اِس سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، اِس لیے کہ ایک چیز محض قراء ت ہے اور ایک اُس میں اہل عرب کے لہجے کی فنی نزاکتوں، مثلاً امالہ، تفخیم، اشباع، اختلاس، صلہ، اشمام، روم اور ترقیق و تغلیظ وغیرہ کی رعایت سے حسن ادا کا اہتمام، جس سے کلام کے مدعا میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اِس قرآن میں یہی دوسری چیز ہے جو حفص کی روایت سے اخذ کی جاتی ہے اور اِسی بنا پر اِسے اُن سے منسوب بھی کیا جاتا ہے۔ اُنھوں نے اِس کی تعلیم اپنے استاد عاصم سے حاصل کی تھی اور عاصم اِس فن میں جلیل القدر تابعی ابوعبدالرحمن السلمی کے شاگرد تھے جو کم و بیش چالیس برس تک کوفہ میں اِس کی یہ فنی نزاکتیں طلبہ کو سکھاتے رہے۔ اُن کے بارے میں سبع قراء ا ت کے اولین مرتب ابوبکر بن مجاہد نے تصریح کر دی ہے کہ وہ اپنا کوئی اختیار نہیں، بلکہ وہی قراء ت پڑھاتے تھے جس پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کرنے کی سعی کی تھی۔ اُس نے لکھا ہے:

أول من أقرأ بالکوفۃ القراء ۃ التی جمع عثمان رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ الناس علیھا أبو عبد الرحمٰن السلمی.(السبعۃ فی القراء ات، ابوبکر بن مجاہد ۱/ ۶۷)
’’سب سے پہلے جس نے کوفہ میں اُس قراء ت کی تعلیم دی جس پر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا تھا ، وہ ابو عبدالرحمن السلمی ہی تھے۔‘‘

یہ وہی بزرگ ہیں جنھوں نے مختلف قراء توں کا شیوع دیکھ کر لوگوں کی تنبیہ کے لیے فرمایا تھا:

کانت قراء ۃ أبی بکر و عمر و عثمان و زید بن ثابت والمھاجرین والأنصار واحدۃ، کانوا یقرؤن القراء ۃ العامۃ، وھی القراء ۃ التی قرأھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علٰی جبریل مرتین فی العام الذی قبض فیہ، وکان زید قد شھد العرضۃ الأخیرۃ، وکان یقرئ الناس بھا حتی مات.(البرہان، الزرکشی ۱/ ۳۳۱)
’’ابوبکر و عمر، عثمان، زید بن ثابت اور تمام مہاجرین و انصار کی قراء ت ایک ہی تھی۔ وہ قراء ت عامہ کے مطابق قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ وہی قراء ت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے سال جبریل امین کو دو مرتبہ قرآن سنایا۔ عرضۂ اخیرہ کی اِس قراء ت میں زید بن ثابت بھی موجود تھے۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اِسی کے مطابق قرآن پڑھاتے رہے۔‘‘

یہی قراء ت اِس وقت ہمارے مصاحف میں ثبت ہے۔ تاریخ کے اوراق سے کوئی ادنیٰ شہادت بھی پیش نہیں کی جا سکتی کہ تمام مسلمانوں کو ایک قرآن پر اکٹھا کرنے کے لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور حجاج بن یوسف کی مساعی کے بعد اِس کو کسی عالم نے اپنے اثرو ر سوخ یا کسی حاکم یا قاضی نے ریاست کی طاقت سے کبھی مسلمانوں کے اندر رائج کرنے کی کوشش کی ہو، جس طرح کہ مغرب میں نافع کی قراء ت کے معاملے میں کی گئی۔ عرضۂ اخیرہ کے بعد اِسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد آپ کے جانشینوں نے رائج کیا اور یہ اُسی طرح رائج ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے قرا جب اپنے مختارات ترتیب دے رہے تھے اور اُن کے محدثین جب ’علم الخاصۃ‘ کے اخبار جمع کر رہے تھے اور اُن کے فقہا اور مفسرین جب اُن کی مدد سے قرآن کی مشکلات حل کر رہے تھے، اُس وقت بھی وہ پوری دنیا میں اِسی کی تلاوت کر رہے تھے۔ پہلی صدی ہجری کے آخر میں وہ ہندوستان میں داخل ہوئے تو اِسی کی تلاوت کرتے ہوئے داخل ہوئے اور آٹھویں صدی کے اواخر میں جب جاوا، سماٹرا، ملایا اور مشرق بعید کے دوسرے جزائر کے ساحلوں پر اترے تو اُس وقت بھی اُن کے ہاتھوں میں یہی قرآن تھا اور خدا نے چاہا تو قیامت تک یہی رہے گا۔
یہاں کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے علم نے اگر اِن سب حقائق کے باوجود ’علم الخاصۃ‘ کے اخبار کو اِس باب میں قبول کیے رکھا ہے تو مدرسۂ فراہی کے اہل علم کا رویہ اِس سے مختلف کیوں ہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ ثقات کے اخبار کو رد کرنا کسی صاحب علم کے لیے آسان نہیں ہے، اِس کے لیے نص چاہیے تھی۔ چنانچہ اِس مسئلے سے متعلق سورۂ قیامہ کی آیتوں کا صحیح مفہوم اگر ابتدا ہی میں واضح ہو جاتا تو مسلمانوں کے علما اور فقہا اور مفسرین بھی غالباً وہی کرتے جو مدرسۂ فراہی کے اہل علم کر رہے ہیں۔ امام حمید الدین فراہی نے اِن آیتوں کا صحیح مفہوم واضح کر دیا ہے، لہٰذا وہ نص میسر ہو گئی ہے جس کے اعتماد پر اب کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی قراء ت سے متعلق تمام اخبار اگر صحیح بھی ہوں تو قرآن کے ابدی مخاطبین کے لیے عرضۂ اخیرہ کی قراء ت سے منسوخ کر دیے گئے ہیں، اِس لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتے۔** قرآن کا حکم ہے کہ جمع و ترتیب کے بعد اُس کی جو قراء ت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جائے گی، مسلمان قیامت تک اُسی کی پیروی کریں گے اور کوئی مسلمان قرآن کے اِس حکم سے انحراف کی جسارت نہیں کر سکتا۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَلَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ.(القیٰمہ۷۵: ۱۶۔۱۸)
’’تم اِس (قرآن) کو جلد پالینے کے لیے اپنی زبان کو اِس پر نہ چلاؤ۔ (یہ اِسی طرح اترے گا۔ تم مطمئن رہو)، اِس کا جمع کرنا اور سنانا، سب ہماری ذمہ داری ہے۔ اِس لیے جب (اُس وقت) ہم اِس کو پڑھیں تو اِس کی اُس قراء ت کی پیروی کرو۔‘‘

[۲۰۱۴ء]
_______

* ترتیب المدارک، قاضی عیاض بن موسیٰ ۱/ ۴۸۳۔
** بخاری کی روایت اگر صحیح ہے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابی بن کعب کی بہت سی قراء توں کو اِسی استدلال سے رد کر دیا تھا، جنھیں وہ یہ کہہ کر پیش کر رہے تھے کہ ’لا أدع شیءًا سمعتہ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘، ’’میں قرآن کی کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے‘‘ (رقم ۴۴۸۱)۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2015
مصنف : جاوید احمد غامدی