عورتوں کا سفر - جاوید احمد غامدی

عورتوں کا سفر

 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے عورتوں کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکا اور فرمایا ہے کہ اِس طرح کا سفر اُن کے لیے جائز نہیں ہے۔ اِس کی مدت بعض روایتوں میں ایک، بعض میں دو اور بعض میں تین شب و روز بیان ہوئی ہے۔* یہ سد ذریعہ کی ہدایت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جس چیز سے روکا گیا ہے ، وہ اصلاً ممنوع نہیں ہے، لیکن ممنوعات میں سے کسی چیز تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اِس کے مخاطبین بھی افراد بحیثیت افراد ہیں۔ اِس میں ریاست سے یہ تقاضا نہیں کیا گیا کہ وہ کسی عورت کو محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں دے گی۔ پھر یہ بات بھی واضح ہے کہ اِس طرح کی ہدایات ہمیشہ حالات سے متعلق ہوتی ہیں۔ اسلام میں عورت کی عفت و عصمت کو جو اہمیت حاصل ہے، اُس کے پیش نظر ضروری تھا کہ زمانۂ رسالت کے حالات میں اُنھیں محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکا جائے۔ اُس زمانے میں سفر پیدل یا اونٹ گھوڑوں پر کیا جاتا تھا۔ جن مقامات تک اب ہم گھنٹوں میں پہنچ جاتے ہیں، اُس وقت وہاں پہنچنے میں ہفتے، بلکہ مہینے لگ جاتے تھے۔ مسافر تنہا یا قافلوں میں سفر کرتے اور بعض اوقات جنگلوں اور بیابانوں سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچتے تھے۔ رات آجاتی تو کھلے آسمان تلے قافلوں میں یا اجنبی شہروں کی سرایوں میں قیام کرنا پڑتا تھا۔ اِس طرح کے حالات میں اگر عورتوں کی حفاظت کے پیش نظر اور اُنھیں کسی تہمت سے بچانے کے لیے پابند کیا گیا کہ وہ محرم کے بغیر سفر نہ کریں تو اِس کی حکمت ہر سلیم الطبع آدمی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔
دورِ حاضر نے اِس کے برخلاف سفر کے ذرائع میں حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مہینوں کا سفر اب گھنٹوں میں ہوتا ہے۔ ریل، جہاز اور بسوں میں حفاظت کے غیر معمولی انتظامات ہیں۔ ہوٹلوں اور سرایوں وغیرہ کا نظم بھی بالکل تبدیل ہو چکا ہے۔ آج سے سو سال پہلے اپنی بہن یا بیٹی کو تنہا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک بھیجنے میں بھی تردد ہوتا تھا، لیکن اب یورپ اور امریکا کے سفر میں بھی اِس طرح کا کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا۔ حج کا سفر بھی آخری درجے میں محفوظ ہو چکا ہے اور عورتیں اپنی شناسا عورتوں کی معیت میں نہایت اطمینان کے ساتھ حجاز مقدس جا سکتی اور حج و عمرہ کے مناسک ادا کر سکتی ہیں۔ حالات کی یہ تبدیلی تقاضا کرتی ہے کہ حکم کو دورِ حاضر کے سفروں سے متعلق نہ سمجھا جائے اور عورتوں کو اجازت دی جائے کہ خطرے کی کوئی جگہ نہ ہو تو اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے وہ تنہا یا عورتوں کی معیت میں جس طرح چاہیں، سفر کریں، تاہم اتنی بات ملحوظ رکھیں کہ اُن کی عزت ہر حال میں محفوظ رہے اور گھروں سے نکلتے وقت اُن سے کوئی غفلت نہ ہو۔ وہ اگر اللہ اور اُس کے رسول کو ماننے والی ہیں تو اِس معاملے میں اُنھیں بے پروا نہیں ہونا چاہیے۔

________

 *بخاری، رقم ۱۰۸۶۔ مسلم ، رقم ۳۲۷۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2009
مصنف : جاوید احمد غامدی