ڈپریشن — اسباب اور علاج (۱) - سید منظور الحسن

ڈپریشن — اسباب اور علاج (۱)

 

جناب جاوید احمد غامدی سے ایک گفتگو

[یہ تحریر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے ساتھ ہماری ایک گفتگو سے ماخوذ ہے۔ اس میں انھوں نے ڈپریشن کے اسباب کی نشان دہی کی ہے اور اپنے دینی اور سماجی علم کی روشنی میں اس سے نجات کے رہنما اصول واضح کیے ہیں۔ امید ہے کہ اس کی اشاعت قارئین کے لیے افادیت کا باعث ہو گی۔]

موجودہ زمانے میں ڈپریشن کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہاہے۔ اس کے مریضوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔مرد، عورتیں، بڑے، چھوٹے، سب اس کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگوں میں قناعت کا تصور کم و بیش ختم ہو گیا ہے۔وہ اپنی شخصیت، استعداداور حالات کو نظرانداز کر کے جلد از جلد ترقی کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ ترقی کی خواہش انسانی فطرت ہے، ہر آدمی اس کا طلب گار ہے، لیکن ترقی کو اپنے حالات، اپنی صلاحیت اور اپنی جدوجہد سے ہم آہنگ ہو کر چاہنا اور بات ہے اور ان سے غیر متعلق ہو کر محض ترقی کے خواب دیکھنا بالکل اور چیز ہے۔ اس طرح کے خواب جب پورے نہیں ہوتے تو آدمی پر مایوسی طاری ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے بیماری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
بعض اوقات طبعی عوامل بھی اس مرض کا باعث بن جاتے ہیں۔ عمر کے کسی خاص حصے میں بدن میں پیدا ہونے والی کیمیائی تبدیلیاں یا جسم میں نمکیات یا دوسرے عناصر کا عدم توازن یا کوئی ذہنی صدمہ یا کوئی جسمانی عارضہ دماغ کو متاثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں ذہن نارمل طریقے پر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ مرض کا باعث اگر یہ چیزیں ہیں تو پھر دواؤں کی مدد سے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں ایک اچھے سائکائٹرسٹ کا علاج بالعموم کفایت کر جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک خالص نفسیاتی عوامل سے پیدا ہونے والے مرض کا تعلق ہے تو اس میں فکری اور نفسیاتی اصلاح ناگزیرہے۔ اس معاملے میں بھی اگر مرض حد سے تجاوز کر جائے تو دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن رویوں اور تصورات کی اصلاح کے بغیر اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔
اس مسئلے کے تین بڑے نفسیاتی عوامل ہیں:
پہلی چیز یہ ہے کہ ہم اس بات کو عقیدے کے طور پر تو مانتے ہیں کہ دنیاایک آزمایش گاہ ہے ، مگر شعوری احساس کے ساتھ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ یعنی ہم اس کا زبانی اقرار تو کرتے ہیں کہ اس دنیا میں ہمیں ایک امتحان سے گزرنا ہے ، لیکن اس کو دل و دماغ کا حصہ نہیں بناتے، اس کو زندگی کے ایک اساسی اصول کی حیثیت سے قبول نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر مصیبت، ہر ناکامی اور ہر محرومی پر ہم شاکی اور دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ — یہ کیا بات ہوئی کہ ساری ناکامیاں ہمارے ہی حصے میں آنی ہیں؟کیادکھ ہمیں ہی سہنے ہیں؟گرنا ہے تو ہمیں ہی گرنا ہے؟مصیبتیں جھیلنے کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں؟ تکلیفیں ہمارا ہی مقدر ہیں؟ محرومیوں نے ہمارا ہی گھر دیکھ لیا ہے؟ — ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس بات کو بطور اصول تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ دنیا ایک دارالامتحان ہے۔ یہی چیز ہے جو مایوسی اور ڈپریشن کا اولین باعث بنتی ہے۔ جب ہم اس دنیا کو امتحان کی نہیں، بلکہ نتیجے کی جگہ سمجھتے ہیں، جب ہم اسے جدوجہد کا نہیں، بلکہ جزا کا مقام تصور کرتے ہیں اور جب ہم اسے عارضی نہیں ، بلکہ مستقل ٹھکانا مانتے ہیں تو پھر ہر مشکل، ہر مصیبت اور ہر ناکامی ہمارے لیے ڈپریشن کا باعث بن جاتی ہے۔
چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس بات کو شرح صدر کے ساتھ مانا جائے کہ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ ایک آزمایش گاہ ہے۔ اس میں رنج و راحت، غربت و امارت اور ترقی و تنزل کی جو حالتیں انسان کو پیش آتی ہیں، وہ اسی سبب سے ہیں۔ اس میں کامیابیوں کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی عمر بھر کی جدوجہد بالکل ناکام ہو جائے اور دوسرے کو پہلے ہی قدم پر کامیابی مل جائے۔ ایک آدمی پر غموں کے پہاڑ ٹوٹتے رہیں اور دوسرا ناز و نعمت سے مالا مال رہے۔ اس میں کامیابیاں اور ناکامیاں بنیادی طور پر انسان کی محنت اور صلاحیت سے متعلق نہیں ہیں۔ اسی طرح تکلیفیں اور راحتیں بھی اصلاً انسان کے اوصاف کا نتیجہ نہیں ہیں۔ کامیابی بھی آزمایش ہے اور ناکامی بھی آزمایش ہے۔ یہاں اگر بیماری ملتی ہے تو وہ بھی امتحان ہے، غربت ملتی ہے تو وہ بھی امتحان ہے، پستی ملتی ہے تو وہ بھی امتحان ہے ، گم نامی ملتی ہے تو وہ بھی امتحان ہے، محکومی ملتی ہے تووہ بھی امتحان ہے۔ اسی طرح اللہ اگر صحت دیتا ہے، دولت دیتا ہے، عظمت دیتا ہے، شہرت دیتا ہے، اقتدار دیتا ہے تو اس کا مقصد بھی امتحان اور آزمایش ہے۔ رنج و الم اور ناکامی و نامرادی ہمارے صبر کا امتحان ہے اور راحت و رأفت اور کامیابی و کامرانی ہمارے شکر کاامتحان ہے۔ 
یہ امتحان، یہ آزمایش اللہ کی اسکیم ہے جس میں سے ہمیں بہرحال گزرنا ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے محض ایک نظریے اور ایک عقیدے کے طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے، ایک حقیقت واقعہ کے طور پر ماننا چاہیے۔ اس حقیقت کو ہمارے شعور کا، ہمارے وجود کا حصہ بننا چاہیے۔ ہماری سوچیں بھی اس پر مبنی ہونی چاہییں اور ہمار اعمل بھی۔ یہ تبدیلی اگر ہمارے اندر آ جاتی ہے تو پھر،ان شااللہ، ہم پر نہ مایوسی طاری ہو گی اور نہ ہم ڈپریشن کا شکار ہوں گے ۔
دوسری چیز یہ ہے کہ ہماری مجموعی تربیت صبرو شکر کی نفسیات پر نہیں ہے۔ ہماری مجموعی تربیت یہ ہے کہ جب ہمیں کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے ہم اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور فخر و غرور میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب کوئی مصیبت ، کوئی تکلیف آ تی ہے تواس کا الزام دوسروں پر عائد کردیتے ہیں یا پھر اللہ سے شکایت کرنے لگتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ ہیں کہ جب انسان پر کوئی تنگی آتی ہے تو کہتا ہے: ’ربی اہانن‘ یعنی میرے رب نے میری توہین کی، مجھے ذلیل کر دیا۔ یہ ناشکری ہے۔ سورۂ ہود میں انسان کے اسی رویے کو بیان فرمایا ہے :

’’اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازتے، پھر اُس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے، اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی، اُسے ہم نعمتوں سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری مصیبتیں ختم ہوئیں، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔‘‘ (۱۱: ۹۔ ۱۰) 

یہ درست رویہ نہیں ہے۔ درست رویہ یہ ہے کہ ہم ہر مشکل اور ہر مصیبت میں صبر کو اختیار کریں اور عزم اور حوصلے کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں۔واضح رہے کہ صبر کسی عاجزی اور پستی کا نام نہیں ہے جسے لوگ اپنی بے بسی کی وجہ سے مجبوراً اختیار کرتے ہیں۔یہ استقلال، ثابت قدمی اور ہمت و جرأت کا اظہار ہے ۔ جو لوگ زندگی کے مصائب و مشکلات کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرتے ، انھیں اللہ کی آزمایش اور اس کا فیصلہ سمجھ کر قبول کرتے اور اس پر اپنے قلب و ذہن کو راضی اور مطمئن رکھتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جو قرآن کی اصطلاح میں صابر ین ہیں۔ایسے لوگ خوشی اور مسرت کے موقعوں پر غرور اور تکبر میں مبتلا نہیں ہوتے اور غم اور مصیبت کے حالات میں مایوس اور بددل نہیں ہوتے۔ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ: ’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْْہِ رٰجِعُوْنَ‘، ’’لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۱۵۶)۔
صبر کے ساتھ شکر لازم و ملزوم ہے۔ چنانچہ جہاں مصیبت آنے پر صبر کرنا ہے، وہاں نعمت ملنے پر شکر بجا لانا ہے۔ ہم اپنے گردوپیش میں دیکھیں تو ہر طرف شکر کے مواقع بھرے پڑے ہیں۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو شکر کا موضوع بننا چاہیے۔ کسی چھوٹی نعمت کا وزن درحقیقت کتنا زیادہ ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ نعمت ہم سے چھن جاتی ہے۔ لہٰذا پینے کو ٹھنڈا پانی مل گیا ہے، اس پر شکر کیجیے۔ غسل خانے میں گرم پانی میسر ہے، اس پر الحمد للہ کہیے۔ صاف ہواکتنی بڑی نعمت ہے، بعض علاقوں میں یہ میسر نہیں ہے، یہ بستر کتنی بڑی نعمت ہے، بہت سے لوگ ہیں جنھیں فٹ پاتھ پر سونا پڑتا ہے۔ یہ سب نعمتیں شکر کا تقاضا کرتی ہیں۔اگر ہم غور کریں تو جو چیزیں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ہمیں ملتی ہیں، ان کا شکر ادا کرنے لیے وہ چوبیس گھنٹے بھی کم ہیں۔ 
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دعائیں ہمیں سکھائی ہیں، وہ اسی اظہار تشکر کے لیے ہیں۔ایک دعا کے الفاظ یہ ہیں: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا، وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ‘، ’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہم کو موت کے بعد پھر زندگی عطا فرمائی اور ایک دن لوٹنا بھی اُسی کی طرف ہے‘‘ (بخاری، رقم ۶۳۱۲۔ مسلم، رقم ۶۸۸۷)۔ اللہ کی کسی نشانی کو دیکھ کر سبحان اللہ کہنا، کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا، نعمت ملنے پر الحمدللہ کے کلمات ادا کرنا،یہ سب شکرگزار ی کے اظہار کے لیے ہے۔ ایک مرتبہ مولانا اصلاحی نے پوچھا کہ دنیا کی سب سے بڑی دعا کون سی ہے؟ ہم میں سے کوئی جواب نہ دے سکا۔ کہنے لگے کہ سورۂ فاتحہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں جو سب سے بڑی نعمت ملی ہے، وہ اللہ کی ہدایت ہے اور سورۂ فاتحہ اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا اظہار ہے۔
ایک بات سمجھ لیجیے کہ ایسانہیں ہوتا کہ لوگوں کو تکلیفیں نہیں آتیں۔ ان سے تو کوئی انسان محفوظ نہیں ہے۔ فرق یہ ہے کہ جو آدمی صبر اور شکر کی نفسیات میں جیتا ہے، وہ تکلیفوں کے بجاے نعمتوں کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ ایسے کسی آدمی سے آپ ملیں تو یوں لگے گا کہ اس کونہ کوئی تکلیف ہے ، نہ کوئی بیماری ہے ،نہ کوئی رنج ہے، نہ کوئی پریشانی ہے۔ لیکن اگر وہ بیان کرنا شروع کر دے تو معلوم ہو گا کہ تکلیفوں کی ایک دنیا ہے جس میں وہ جی رہا ہے ۔اصل میں ہوا یہ ہے کہ اس نے اس دنیا کو دارالامتحان سمجھا ہے اور صبر اور شکر کے رویے کو اپنا شعار بنایا ہے۔
ایک شخص کے سوال نے مجھے بالکل رلا دیا۔ کہنے لگا کہ میں بیس سال سے مفلوج ہوں، اٹھ کر باتھ روم نہیں جاسکتا ،کیا میری نمازیں قبول ہو جائیں گی؟ یعنی اس کا اصل مسئلہ معذوری نہیں تھا۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اسے اپنے مالک کی جو شکر گزاری کرنی ہے، اس میں کوئی کمی تو نہیں ہو رہی؟ مجھ سے امریکا میں کسی نے پوچھا کہ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہے کہ آپ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑ گیا ہے؟ میں نے کہا کہ بھئی کس بات کی شکایت؟ میری قوم نے، میرے ملک نے میری صلاحیتوں کی ہمیشہ پذیرائی کی ہے، مجھے اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مجھے ہجرت کرنا پڑی ہے، لیکن ہجرت کے بعد تولوگ سڑکوں پر پڑے ہوتے ہیں اور انھیں بے شمار مسائل سے گزرناپڑتا ہے۔ مجھ پر اللہ کا بڑا کرم ہے کہ میں اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا ہوں۔ میں اگر ایسے سوچوں گا تو پھر بڑے سے بڑا واقعہ بھی مجھ پر ڈپریشن نہیں طاری کر پائے گا۔
تیسری چیز یہ ہے کہ ہماری نفسیات اس طرح ڈھل گئی ہے کہ ہم صرف لینا جانتے ہیں۔ دینا جانتے ہی نہیں ہیں۔ہم اپنی زندگی کی ابتدا ہی یہاں سے کرتے ہیں کہ ہمیں والدین سے لینا ہے۔ شادی کرتے ہیں تو تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بیوی کو ہمارا خیال رکھنا چاہیے، بچوں کو سنبھالنا چاہیے ، ہمارے والدین کی خدمت کرنی چاہیے۔ پھر جب زندگی آگے بڑھتی ہے اور بچے کچھ بڑے ہو جاتے ہیں تو ہم ان سے یہ توقع قائم کر لیتے ہیں کہ اب انھیں ہماری ناتمام تمناؤں کو پورا کرنا ہے، ہماری ساری خفتہ خواہشیں اب انھی سے متعلق ہیں، انھوں نے ہماری خدمت کرنی ہے،ہمارے بڑھاپے کا سہارا بننا ہے۔ رشتہ داروں سے بھی یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ انھیں ہر موقع پر ہماری مدد اور حمایت کرنی چاہیے۔ دوست کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو مشکل میں ہمارے کام آتا ہے ۔ گویا ہماری نفسیات، ہمارے خیالات، ہمارے اقدامات،ہمارے رویے اس ایک محور کے گرد گھومتے ہیں کہ دوسرے نے مجھے کیا دیا ہے اور میرے ساتھ کیا کیا ہے؟ — اس پر قائم نہیں ہوتے کہ میں نے اسے کیا دیاہے اور اس کے ساتھ کیاکیا ہے؟ اس نے میرا خیال نہیں کیا، اس نے میری مدد نہیں کی، اسے میرا احساس کرنا چاہیے تھا، میری بات کو ماننا چاہیے تھا، میری ضرورت کو پوراکرناچاہیے تھا، میرا مسئلہ حل کرنا چاہیے تھا،یہ اس پر میرا حق تھا جسے ادا کرنا اس کی ذمہ داری تھی — تقاضوں اور مطالبوں کی یہ تکرار شب وروز ہماری زبان پر جاری رہتی ہے۔
یہ تقاضے اور یہ مطالبے شک و شبہے اور شکوہ و شکایت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص بھی مسلسل ہماری توقعات پوری نہیں کر سکتا۔ رفتہ رفتہ اسے ہاتھ کھینچنا پڑتا ہے۔ بالآخروہ دن آ جاتا ہے جب اس کی گنجایش ختم ہو جاتی ہے اور اسے اپنی معذرت پیش کرنا پڑتی ہے۔ یہیں سے گلے اور شکوے کے احساسات جنم لیتے ہیں۔ یہ احساسات کبھی یاس اور ناامیدی پیدا کرتے ہیں اور کبھی غم و غصے اور نفرت اور انتقام کے جذبات کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
اصل میں لینا ہماری زندگی میں کہیں داخل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ ہر انسان کو شعوری زندگی کے پہلے قدم پر یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ میں دینے کے لیے پیدا ہوا ہوں۔ میرے لیے یہ دنیا لینے کی جگہ نہیں، دینے کی جگہ ہے ۔مجھے والدین کو بھی دینا ہے،بیوی کو بھی دینا ہے،بچوں کو بھی دینا ہے، دوستوں کو بھی دینا ہے، معاشرے کو بھی دینا ہے۔ چنانچہ والدین کا مسئلہ یہ ہونا چاہیے کہ یہ میرے بچے ہیں، انھیں پیدا کرنے کا فیصلہ میں نے کیا ہے، انھوں نے مجھے کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ اب مجھے انھیں پالنا ہے، ان کی پرورش کرنی ہے، ان کو اچھا ماحول فراہم کرنا ہے،ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے۔ مجھے یہ سب کچھ کسی صلے کی توقع کے بغیر کرناہے، کیونکہ یہ سب کچھ میرے فرائض میں شامل ہے۔ بچے جب بڑے ہو جائیں تو انھیں بھی والدین کے لیے اسی دینے کی نفسیات کو اختیار کرنا چاہیے۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ یہ ہستیاں ان کے وجود میں آنے اور پروررش پانے کا ذریعہ بنی ہیں۔ باپ نے تربیت اور نگہداشت کا اہتمام کیا ہے اور ماں نے ولادت اور رضاعت کی مشقت برداشت کی ہے۔بڑھاپے کی ناتوانی میں ہمیں انھیں و ہی کچھ دینا ہے جو انھوں نے ہمیں بچپن کی ناتوانی میں دیا تھا۔ شوہر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ خاتون میری خواہش پر دوسرے گھر سے آئی ہے، اس نے میرے گھر کو آباد کیا ہے،مجھے اس کا خیال رکھنا ہے، مجھے اس کو تربیت دینی ہے، مجھے اس کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔اسی طرح بیوی کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اس شخص نے مجھ پر بھروسا کیا ہے، اپنا گھر بار میرے حوالے کیا ہے، میری ضرورتیں پوری کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، اب میرا بھی یہ فرض ہے کہ میں اس کی رفاقت کا حق ادا کروں، اس کے گھر کو سنبھالوں، اس کی پریشانیوں میں اسے حوصلہ دوں، اس کے والدین کو اپنے والدین جیسا مقام دوں اور ان کے ساتھ خدمت و بردباری کا وہی رویہ اختیار کروں جیسے میں نے اپنے حقیقی والدین کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے۔ دینے کی یہی نفسیات استاد کو اختیار کرنی چاہیے، یہی شاگرد کو اختیار کرنی چاہیے، یہی اعزہ و اقارب اور دوست احباب کو آپس میں اختیار کرنی چاہیے ۔
یعنی آپ کو موت تک بس ایک ہی بات سوچنی چاہیے اور وہ یہ کہ یہ انسان جو آپ کے ساتھ وابستہ ہوا ہے، آپ نے اس کے لیے اب تک کیا کیا ہے اور آیندہ کیا کرنا ہے؟ یہ تو سوال ہی نہیں ہے کہ اس نے آپ کے لیے کیا کیا ہے؟چنانچہ مطالبہ آپ کے وجود سے نکل جانا چاہیے، تقاضا آپ کی ذات کا حصہ ہی نہیں رہنا چاہیے، توقعات سے آپ کو مجرد ہو جانا چاہیے۔اقبال نے اسی کو ادا کیا ہے کہ — اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل — یعنی ایک بہترین انسان امیدوں اور سہاروں کی دنیا میں نہیں جیتا، بلکہ مقاصد کی دنیا میں جیتا ہے۔ 
اس زمانے میں پوری دنیا کی نفسیات اس بات پر قائم ہو گئی ہے کہ میرے حقوق کیا ہیں ۔ افراد بھی اسی نفسیات کے اسیر ہیں اور اقوام بھی۔ ہر جگہ اپنے حقوق کا تحفظ اصل مسئلہ ہے۔ اس کے برعکس، آپ دیکھیے کہ قرآن مجید نے حقوق کا لفظ ہی ا ختیار نہیں کیا۔ وہ فرائض کو بیان کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں حقوق انسانی کا کوئی منشور نہیں ہے۔فرائض کی فہرست ہے جنھیں ادا کرنا ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ والدین کے بھی فرائض ہیں، اولاد کے بھی فرائض ہیں، شوہر کے بھی فرائض ہیں، بیوی کے بھی فرائض ہیں، عالم کے بھی فرائض ہیں، حکمران کے بھی فرائض ہیں، شہری کے بھی فرائض ہیں۔ سب فرائض ہی فرائض ہیں۔ اصل میں جب ہم اپنے فرائض ادا کرتے ہیں تو دوسروں کو ان کے حقوق ملتے ہیں اور جب دوسرے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں تو ہمیں ہمارے حقوق ملتے ہیں۔گویا ایک ہی نتیجے تک پہنچنے کے لیے دو اپروچزہیں۔ ایک حقوق کی اپروچ ہے اور دوسری فرائض کی اپروچ ہے۔ایک لینے کی اپروچ ہے اور دوسری دینے کی اپروچ ہے۔ اسلام حقوق کی نہیں، بلکہ فرائض کی اپروچ کو اختیار کرتاہے اور لینے کی نہیں، بلکہ دینے کی ترغیب دیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب آپ کو آپ کا کوئی حق نہیں ملتا تو آپ مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہوتے، بلکہ اللہ کی رضا پر راضی اور مطمئن رہ کر زندگی کا سفر جاری رکھتے ہیں۔
[باقی]

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2018
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Oct 12, 2018
2659 View